• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا اسلام غربت کو پسند کرتا ہے یا پھر نہ پسند - ایک تحقیقی جائزہ!

126muhammad

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 26، 2022
پیغامات
49
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
16
عن سعد قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الله يحب العبد التقي الغني الخفي . رواه مسلم .
حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یقینا اللہ تعالیٰ اس بندے کو بہت پسند کرتا ہے جو متقی و غنی اور گوشہ نشین ہو۔
اللہ کے رسول نے غربت سے پناہ مانگی ہے اور شریعت میں اسی چیز سے پناہ مانگی گئی ہے جو بہت زیادہ بھیانک ہے۔

تمہید کتاب عربی


حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

6368.

حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الكَسَلِ وَالهَرَمِ، وَالمَأْثَمِ وَالمَغْرَمِ، وَمِنْ فِتْنَةِ القَبْرِ، وَعَذَابِ القَبْرِ، وَمِنْ فِتْنَةِ النَّارِ وَعَذَابِ النَّارِ، وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الغِنَى، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الفَقْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ المَسِيحِ الدَّجَّالِ، اللَّهُمَّ اغْسِلْ عَنِّي خَطَايَايَ بِمَاءِ الثَّلْجِ وَالبَرَدِ، وَنَقِّ قَلْبِي مِنَ الخَطَايَا كَمَا نَقَّيْتَ الثَّوْبَ الأَبْيَضَ مِنَ الدَّنَسِ، وَبَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ المَشْرِقِ وَالمَغْرِبِ»

صحیح بخاری: کتاب: دعاؤں کے بیان میں
تمہید کتاب
(باب: گناہ اور قرض سے اللہ کی پناہ مانگنا)

مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)

6368.

سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی ﷺ دعا کیا کرتے تھے: اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں کاہلی بڑھاپے ہر گناہ اور قرضے کے بوجھ سے قبر کے فتنے اور قبر کے عذاب سے، نیز دوزخ کے فتنے اور دوزخ کے عذاب سے اور فتنہ ثروت کے شر سے۔ اور فتنہ مفلسی کے شر اور فتنہ دجال کے شرسے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ اے اللہ! اولے اور برف کے پانی سے میرے گناہوں کے اثرات دھو دے۔ اور گناہوں سے میرا دل صاف کر دے جس طرح تو سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کر دیتا ہے۔ میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اتنی دوری ڈال دے جتنی دوری تو نے مشرق ومغرب کے درمیان کر دی ہے۔



صحیح بخاری: کتاب: دعاؤں کے بیان میں
تمہید کتاب
(باب: ناکارہ عمر ، دنیا کی آزمائش اور دوزخ کی آزمائش سے اللہ کی پناہ مانگنا)

مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)

6375.


حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت۔ ۔

ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ دعا کیا کرتے تھے: ’’اے اللہ! میں کاہلی، بڑھاپے، قرض اور گناہ سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اے اللہ! میں دوزخ کے عذاب، دوزخ کی آزمائش، قبر کی آزمائش اور عذاب قبر، نیز فتنۂ ثروت کے شر، فتنۂ فقر کے شر اور مسیح دجال کی بری آزمائش سے تیری پناه مانگتا ہوں۔ اے اللہ میرے گناہوں کو برف اور اولے کے پانی سے دھو دے۔ میرے دل کو گناہوں سے اس طرح پاک کر دے جس طرح سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کر دیا جاتا ہے۔ میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اتنا فاصلہ کر دے جتنا مشرق و مغرب میں ہے۔‘‘

اللہ کے رسول کا فقر و فاقے اور غربت سے پناہ مانگنا

صحیح مسلم: کتاب: ذکر الٰہی،دعا،توبہ اور استغفار
تمہید کتاب
(باب: دعائیں اور اللہ کی پناہ میں آنا)

مترجم: ١. پروفیسر محمد یحییٰ سلطان محمود جلالپوری (دار السلام)

2705.02.


ابن نمیر نے کہا: ہمیں ہشام نے اپنے والد (عروہ) سے اور انہوں نے حضرت عائشہ‬ رضی اللہ تعالی عنہ س‬ے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ (اللہ تعالیٰ سے) یہ دعائیں مانگا کرتے تھے: ’’اے اللہ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں آگ کے فتنے سے اور آگ کے عذاب سے اور غنا کی آزمائش کے شر سے اور فقر کی آزمائش کے شر سے اور میں تیری پناہ میں آتا ہوں جھوٹے مسیح کے فتنے کی برائی سے۔ اے اللہ! میری خطائیں برف اور اولوں (کے پانی) سے دھودے، اور میرے دل کو خطاؤں سے اس طرح صاف ستھرا کر دے جس طرح تو سفید کپڑے کو میل سے صاف کرتا ہے اور میرے اور میری خطاؤں کے درمیان اتنا فاصلہ ڈال دے جتنا فاصلہ تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان ڈالا ہے۔ اے اللہ! میں سستی، عاجز کر دینے والے بڑھاپے، گناہ اور قرج (کے غلبے) سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔

رسول اللّٰہ کا رزق کی قلت اور محتاجی سے پناہ مانگنا

سنن ابو داؤد: کتاب: وتر کے فروعی احکام و مسائل (باب: تعوذات کا بیان)

تمہید کتاب


حکم : صحیح (الألباني)

مترجم: ١. فضیلۃ الشیخ ابو عمار عمر فاروق سعیدی (دار السلام)

1544.


سیدنا ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْفَقْرِ وَالْقِلَّةِ وَالذِّلَّةِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ أَنْ أَظْلِمَ أَوْ أُظْلَمَ» ”اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں محتاجی سے، قلت سے اور ذلت سے، اور تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ میں ظلم کا ارتکاب کروں یا مجھ پر ظلم کیا جائے۔“

نعمت کے چھن جانے اور افت سے بچنے کے لیے اللہ کی پناہ

سنن ابو داؤد: کتاب: وتر کے فروعی احکام و مسائل (باب: تعوذات کا بیان)

حکم : صحیح (الألباني)

مترجم: ١. فضیلۃ الشیخ ابو عمار عمر فاروق سعیدی (دار السلام)

1545.


سیدنا ابن عمر ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی دعاؤں میں سے یہ دعا تھی «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِكَ وَتَحْوِيلِ عَافِيَتِكَ وَفُجَاءَةِ نَقْمَتِكَ وَجَمِيعِ سُخْطِكَ» ”اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ تیری کوئی نعمت چھن جائے یا تیری دی ہوئی تندرستی و راحت پلٹ جائے یا کوئی ناگہانی عذاب آ جائے۔ اور تیرے تمام غصے اور ناراضیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔“


سنن ابو داؤد: کتاب: وتر کے فروعی احکام و مسائل (باب: تعوذات کا بیان)

تمہید کتاب


حکم : صحیح (الألباني)

مترجم: ١. فضیلۃ الشیخ ابو عمار عمر فاروق سعیدی (دار السلام)

1547.


سیدنا ابوہریرہ ؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْجُوعِ فَإِنَّهُ بِئْسَ الضَّجِيعُ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ الْخِيَانَةِ فَإِنَّهَا بِئْسَتِ الْبِطَانَةُ» ”اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں بھوک سے، بیشک یہ بہت بری ہم خواب ہے۔ اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں خیانت سے، بیشک پوشیدہ خصلتوں میں سے یہ بہت بری خصلت ہے۔“

رسول اللہ کا بھوک سے پناہ مانگنا اور اسے بری ساتھی قرار دینا

سنن ابن ماجہ: کتاب: کھانوں سے متعلق احکام ومسائل
تمہید کتاب
(باب: بھوک سے (اللہ کی) پناہ مانگنا)

حکم : حسن (الألباني)

مترجم: ١. فضیلۃ الشیخ مولانا محمد عطاء اللہ ساجد (دار السلام)

3354.


حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہﷺفرمایا کرتے تھے: ’’اے اللہ!میں بھوک سے تیری پناہ چاہتا ہوں، وہ بستر کی بری ساتھی ہے۔ اور خیانت سے تیری پناہ میں آتا ہوں، وہ بری ہم راز ہے۔

رسول اللہ کا قلت ذلت محتاجی ظلم اور مظلوم سے پناہ مانگنے کا حکم دینا

سنن ابن ماجہ: کتاب: دعا سے متعلق احکام ومسائل
تمہید کتاب
(باب: رسول اللہﷺ نےجن چیزوں سے پناہ مانگی ہے)

حکم : صحیح (الألباني)


مترجم: ١. فضیلۃ الشیخ مولانا محمد عطاء اللہ ساجد (دار السلام)

3842.


حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’فقر، قلت، ذلت، ظلم کرنے اور مظلوم ہونے سے اللہ کی پناہ مانگو۔‘‘


https://mohaddis.com/SearchByTopic/1/9187



غنا (مال و دولت) کی اہمیت


دولت مال اور بادشاہت ایک نعمت
ہے


اللہ نے وعدہ فرمایا ہے

" تم میں سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ(بادشاہت, سلطنت ) بنائے گا جس طرح اُن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے، اُن کے لیے اُن کے اُس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے اُن کے حق میں پسند کیا ہے، اور اُن کی (موجودہ) حالت خوف کو امن سے بدل دے گا، بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں"

(القران, سورہ نور)


مومن کے لیے رزقا کریم کا وعدہ


لیجزی الذین امنوا ۔۔۔۔۔۔ من رجز الیم (34: 4 – 5) ” اور یہ قیامت اس لیے آئے گی کہ اللہ جزاء دے ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔ ان کیلئے مغفرت ہے اور رزق کریم ہے۔ اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو نیچا دکھانے کے لیے زور لگایا ہے ان کے لئے بدترین قسم کا دردناک عذاب ہے “۔




عن ابن مسعود قال سمعت النبي ﷺ يقول ‏ ‏ لا حسد الا في اثنتين رجل آتاه الله مالا فسلطه على هلكته في الحق ورجل آتاه الله حكمة فهو يقضي بها ويعلمها (صحیح البخاری، كتاب الزكاة)

ترجمہ: ابن مسعودؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ حسد (رشک) کرنا صرف دو ہی آدمیوں کے ساتھ جائز ہو سکتا ہے۔ ایک تو اس شخص کے ساتھ جسے اللہ نے مال دیا اور اسے حق اور مناسب جگہوں میں خرچ کرنے کی توفیق دی دوسرے اس شخص کے ساتھ جسے اللہ تعالی نے حکمت دی اور وہ اپنی حکمت کے مطابق حق فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے۔



اني قد بلغ بي من الوجع وانا ذو مال ولا يرثني الا ابنة افاتصدق بثلثي مالي قال لا فقلت بالشطر فقال لا ثم قال الثلث والثلث كبير او كثير انك ان تذر ورثتك اغنياء خير من ان تذرهم عالة يتكففون الناس وانك لن تنفق نفقة تبتغي بها وجه الله الا اجرت بها حتى ما تجعل في في امراتك (صحیح البخاری، کتاب المرضی)

ترجمہ: میرا مرض شدت اختیار کر چکا ہے میرے پاس مال و اسباب بہت ہے اور میری صرف ایک لڑکی ہے جو وارث ہوگی تو کیا میں اپنے دو تہائی مال کو خیرات کر دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے کہا آدھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک تہائی کر دو اور یہ بھی بڑی خیرات ہے یا بہت خیرات ہے اگر تو اپنے وارثوں کو اپنے پیچھے مالدار چھوڑ جائے تو یہ اس سے بہتر ہو گا کہ محتاجی میں انہیں اس طرح چھوڑ کر جائے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ یہ یاد رکھو کہ جو خرچ بھی تم اللہ کی رضا کی نیت سے کرو گے تو اس پر بھی تمہیں ثواب ملے گا۔ حتی کہ اس لقمہ پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھو

مال اللہ کی عطا ہے اور انسان پر اس کی رحمت کا اظہار ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا گیا

ووجدك عائلا فاغنى() (الضحى: 8)۔

ترجمہ: اور تمہیں نادار پایا تو غنی کردیا

اسلام کی نظر میں مال کا اصل مالک اللہ تعالی ہے۔ انسان کے پاس جو مال ہے وہ اصلًا اللہ تعالی کا ہے انسان کو اللہ نے اس پر نگران مقرر کیا ہے۔ فرمان باری تعالی ہے:

آمنوا بالله ورسوله وانفقوا مما جعلكم مستخلفين فيه فالذين آمنوا منكم وانفقوا لهم اجر كبير (الحديد: 7)

ترجمہ: اللہ پر اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لے آؤ اور اس مال میں سے خرچ کرو جس میں اللہ نے تمہیں (دوسروں کا) جانشین بنایا ہے پس تم میں سے جو ایمان لائیں اور خیرات کریں انہیں بہت بڑا ثواب ملے گا



وابتغ فيما آتاك الله الدار الآخرة ولا تنس نصيبك من الدنيا واحسن كما احسن الله اليك ولا تبغ الفساد في الارض ان الله لا يحب المفسدين (القصص: 77)

ترجمہ: اور جو (مال) تم کو اللہ نے عطا فرمایا ہے اس سے آخرت کی بھلائی طلب کیجئے اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھلائیے اور جیسی اللہ نے تم سے بھلائی کی ہے (ویسی) تم بھی (لوگوں سے) بھلائی کرو


رسول اللہ ﷺ کے بہت سے ارشادات سے مسلمان کی زندگی میں مال کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ مثلًا آپ ﷺ کا ارشاد عالی ہے:

عن حكيم بن حزام عن النبي ﷺ قال ‏ اليد العليا خير من اليد السفلى وابدا بمن تعول وخير الصدقة عن ظهر غنى ومن يستعفف يعفه الله ومن يستغن يغنه الله (صحیح البخاری، كتاب الزكوة)

ترجمہ: حکیم بن حزامؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے اور پہلے انہیں دو جو تمہارے بال بچے اور عزیز ہیں اور بہترین صدقہ وہ ہے جسے دے کر آدمی مالدار رہے اور جو کوئی سوال سے بچنا چاہے گا اسے اللہ تعالی بھی محفوظ رکھتا ہے اور جو دوسروں (کے مال) سے بےنیاز رہتا ہے، اسے اللہ تعالی بےنیاز ہی بنا دیتا ہے

اور اس حدیث شریف پر غور فرمائیں جس میں رسول اللہ ﷺ نے انسان کی فضیلت کا ایک معیار اس کا اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنا واضح فرمایا ہے۔

عن ابن مسعود قال سمعت النبي ﷺ يقول ‏ ‏ لا حسد الا في اثنتين رجل آتاه الله مالا فسلطه على هلكته في الحق ورجل آتاه الله حكمة فهو يقضي بها ويعلمها (صحیح البخاری، كتاب الزكاة)

ترجمہ: ابن مسعودؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ حسد (رشک) کرنا صرف دو ہی آدمیوں کے ساتھ جائز ہو سکتا ہے۔ ایک تو اس شخص کے ساتھ جسے اللہ نے مال دیا اور اسے حق اور مناسب جگہوں میں خرچ کرنے کی توفیق دی دوسرے اس شخص کے ساتھ جسے اللہ تعالی نے حکمت دی اور وہ اپنی حکمت کے مطابق حق فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے۔

ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت سعدؓ بن ابی وقاصؓ، شدید بیمار تھے اور آپ ﷺ ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ حضرت سعدؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا:

اني قد بلغ بي من الوجع وانا ذو مال ولا يرثني الا ابنة افاتصدق بثلثي مالي قال لا فقلت بالشطر فقال لا ثم قال الثلث والثلث كبير او كثير انك ان تذر ورثتك اغنياء خير من ان تذرهم عالة يتكففون الناس وانك لن تنفق نفقة تبتغي بها وجه الله الا اجرت بها حتى ما تجعل في في امراتك (صحیح البخاری، کتاب المرضی)

ترجمہ: میرا مرض شدت اختیار کر چکا ہے میرے پاس مال و اسباب بہت ہے اور میری صرف ایک لڑکی ہے جو وارث ہوگی تو کیا میں اپنے دو تہائی مال کو خیرات کر دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے کہا آدھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک تہائی کر دو اور یہ بھی بڑی خیرات ہے یا بہت خیرات ہے اگر تو اپنے وارثوں کو اپنے پیچھے مالدار چھوڑ جائے تو یہ اس سے بہتر ہو گا کہ محتاجی میں انہیں اس طرح چھوڑ کر جائے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ یہ یاد رکھو کہ جو خرچ بھی تم اللہ کی رضا کی نیت سے کرو گے تو اس پر بھی تمہیں ثواب ملے گا۔ حتی کہ اس لقمہ پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھو

قرآن پاک میں مال کو اللہ تعالی نے خیر سے تعبیر فرمایا ہے:

كتب عليكم اذا حضر احدكم الموت ان ترك خيرا الوصية للوالدين والاقربين بالمعروف حقا على المتقين (البقرة: 180)

ترجمہ: جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آپہنچے اور وہ کچھ مال چھوڑ رہا ہو تو تم پر فرض کردیا گیا ہے والدین اور رشتہ داروں کے حق میں انصاف کے ساتھ وصیت کرنا اللہ تعالیٰ کا تقویٰ رکھنے والوں پر یہ حق ہے

مال اللہ کی عطا ہے اور انسان پر اس کی رحمت کا اظہار ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا گیا:

ووجدك عائلا فاغنى() (الضحى: 8)

ترجمہ: اور تمہیں نادار پایا تو غنی کردیا

اسلام کی نظر میں مال کا اصل مالک اللہ تعالی ہے۔ انسان کے پاس جو مال ہے وہ اصلًا اللہ تعالی کا ہے انسان کو اللہ نے اس پر نگران مقرر کیا ہے۔ فرمان باری تعالی ہے:

آمنوا بالله ورسوله وانفقوا مما جعلكم مستخلفين فيه فالذين آمنوا منكم وانفقوا لهم اجر كبير (الحديد: 7)

ترجمہ: اللہ پر اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لے آؤ اور اس مال میں سے خرچ کرو جس میں اللہ نے تمہیں (دوسروں کا) جانشین بنایا ہے پس تم میں سے جو ایمان لائیں اور خیرات کریں انہیں بہت بڑا ثواب ملے گا

ایک اور آیت میں آتا ہے:

وآتوهم من مال الله الذي آتاكم (النور: 33)

ترجمہ: اللہ نے جو مال تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے انہیں بھی دو

یہاں اللہ تعالی نے بندوں کے ہاتھوں میں جو مال ہے اس کو اپنا مال بتایا ہے۔ یعنی انسان کو جو مال دیا جاتا ہے وہ امانت ہے اور اس کو صحیح انداز میں خرچ کرنے کا حکم ہے۔ مال سے تو آخرت کمانے کا حکم ہے۔ اس دنیا میں رہتے ہوئے یہاں کی ذمہ داریاں پوری کرنا خود دین کا تقاضا ہے لیکن ان دونوں تقاضوں کو بہترین طریقے سے پورا کرنا یہی مومن کی شان ہے۔ فرمان باری تعالی ہے:

وابتغ فيما آتاك الله الدار الآخرة ولا تنس نصيبك من الدنيا واحسن كما احسن الله اليك ولا تبغ الفساد في الارض ان الله لا يحب المفسدين (القصص: 77)

ترجمہ: اور جو (مال) تم کو اللہ نے عطا فرمایا ہے اس سے آخرت کی بھلائی طلب کیجئے اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھلائیے اور جیسی اللہ نے تم سے بھلائی کی ہے (ویسی) تم بھی (لوگوں سے) بھلائی کرو

فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِنْ رِزْقِهِ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ

الملك – 15

دنیا کے [معاشی]راستوں میں دوڑ دھوپ کرو، اور اللہ کے رزق میں سے کھاؤ، اسی کی طرف واپس جانا ہے۔


وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَى

الضحیٰ – 8

آپ مالی طور پر کمزور تھے، تو اللہ تعالی نے غنی بنا دیا۔

نبی ﷺ دعا بھی کیا کرتے تھے:

اَللَّهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ الْهُدَى وَالتُّقَى وَالعَفَافَ وَالغِنَى

یعنی: یا اللہ! میں تجھ سے ہدایت، تقوی، عفت، اور تونگری کا سوال کرتا ہوں۔ مسلم

اور نبی ﷺ نے اپنے صحابی اور خادم انس رضی اللہ عنہ کے لئے مالی فراوانی کی دعا فرمائی: (یا اللہ! انس کو مال و اولاد کثرت سے عنایت فرما، اور اس کے لئے بابرکت بنا) بخاری و مسلم

اللہ کے بندوں!

فراخ رزق نیک عمل کا پھل ہے، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا: (جو شخص اپنی عمر اور رزق زیادہ کروانا چاہتا ہے وہ صلہ رحمی کرے)بخاری و مسلم

ایسے ہی نبی ﷺ نے فرمایا: (اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے، اوپر والا خرچ کرنے والا ہاتھ ہے، اور نیچے والا سوالی ہاتھ ہے) بخاری و مسلم

اللہ کے بندوں!

دستکاری، ہنر مندی، یا زراعت ،شرف و عزت کا مقام ہے، جیسے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: (کسی نے بھی اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر کھانا کبھی نہیں کھایا)بخاری

فرمان باری تعالی ہے:

واعدوا لهم ما استطعتم من قوة ومن رباط الخيل ترهبون به عدو الله وعدوكم (الانفال: 60)

ترجمہ: اور تیار رکھو ان کے (مقابلے کے) لیے اپنی استطاعت کی حد تک طاقت اور بندھے ہوئے گھوڑے (تاکہ) تم اس سے اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو ڈرا سکو


ان الذين تعبدون من دون الله لا يملكون لكم رزقا فابتغوا عند الله الرزق (العنکبوت: 17)

ترجمہ: یقینا اﷲ تعالیٰ کے سوا جن کی تم عبادت کرتے ہو وہ تمہیں رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے سو اﷲ تعالیٰ کے پاس سے رزق تلاش کرو

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

فاذا قضیت الصلوۃ فانتشروا فی الارض وابتغوا من فضل اللہ (الجمعۃ: 10)

ترجمہ: پس جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ تعالی کے فضل (یعنی رزق) کو تلاش کرو





فقر و فاقے کے متعلق احادیث


افلاس اور خستہ حالی کی فضیلت


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بہت سے لوگ ایسے ہیں جو بظاہر تو پرا گندہ بال اور غبار آلود (یعنی نہایت خستہ حال اور پریشان صورت) نظر آتے ہیں جن کو (ہاتھ یا زبان کے ذریعہ) دروازوں سے دھکیلا جاتا ہے لیکن وہ (خدا کے نزدیک اتنا اونچا درجہ رکھتے ہیں کہ) اگر وہ اللہ کے بھروسہ پر قسم کھا لیں تو اللہ ان کی قسم کو یقیناً پورا کرے۔ (مسلم)





ملت کے خیر خواہ و پشت پناہ، غریب و ناتواں مسلمان ہیں

حضرت مصعب بن سعد تابعی رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ (میرے والد) حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اپنے بارہ میں یہ گمان کیا کہ وہ اس شخص سے افضل ہیں جو ان سے کمتر ہے (یعنی ضعیف و ناتواں شخص یا فقیر و مفلس، چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (ان کا یہ گمان ختم کرنے اور دوسروں کو آگاہ کرنے کے لئے) فرمایا۔ تمہیں (دشمنان دین کے مقابلہ پر) مدد و سہارا اور رزق کن لوگوں کی برکت سے ملتا ہے انہی کی برکت سے جو ضعیف و ناتواں اور غریب و نادار ہیں (بخاری)




غریب و نادار مسلمانوں کو جنت کی بشارت

حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرمانے لگے کہ میں (معراج کی رات، یا خواب میں، یا حالت کشف میں) جنت کے دروازے پر کھڑا ہوا تھا (میں نے دیکھا کہ جو لوگ جنت میں داخل ہوئے ہیں ان میں زیادہ تعداد غریبوں کی ہے، اور مالداروں کو قیامت کے میدان میں روک رکھا گیا ہے۔ البتہ اصحاب نار یعنی کافروں کو دوزخ میں لے جانے کا حکم دے دیا گیا ہے اور جب میں دوزخ کے دروازے پر کھڑا ہوا تو دیکھا کہ جو لوگ دوزخ میں ڈالے گئے ہیں ان میں زیادہ تعداد عورتوں کی ہے۔ (بخاری و مسلم)




حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ میں نے جنت میں جھانک کر دیکھا تو اس میں اکثر تعداد غریبوں اور نادار لوگوں کی نظر آئی اور دوزخ میں جھانک کر دیکھا تو اس میں اکثریت عورتوں کی نظر آئی (بخاری و مسلم)

فقرا کی فضیلت

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا فقرا، مہاجرین قیامت کے دن جنت میں اغنیا (مال داروں) سے چالیس سال پہلے داخل ہوں گے (مسلم)


حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے سے ایک شخص گزرا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (اس کو دیکھ کر) اپنے پاس بیٹھے ہوئے ایک شخص سے پوچھا کہ یہ جو شخص گزرا ہے اس بارے میں تمہارا کیا خیال ہے، یعنی یہ کوئی اچھا شخص ہے یا برا؟ اس شخص نے جواب دیا کہ یہ شخص نہایت معزز اور شریف ترین لوگوں میں ہے، بخدا، اس شخص کی حیثیت یہ ہے کہ اگر کسی عورت سے نکاح کا پیغام بھیجے تو اس عورت سے اس کا نکاح ہو جائے، اور اگر (کسی حاکم و سردار سے کسی شخص کے بارے میں کوئی سفارش کرے تو اس کی سفارش مان لی جائے، راوی حضرت سہل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (یہ جواب سن کر) خاموش رہے، اتنے میں ایک دوسرا شخص سامنے سے گزرا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو دیکھ کر اپنے پاس بیٹھے ہوئے اسی شخص سے پوچھا کہ اچھا اس شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ اس نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ! یہ شخص نادار، قلاش مسلمانوں میں سے ہے، اس کی حیثیت تو یہ ہے کہ اگر نکاح کا پیغام دے تو اس سے کوئی نکاح نہ کرے، اگر کسی کی سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول نہ ہو اور اگر کوئی بات کہے تو اس کی وہ بات سننے پر کوئی تیار نہ ہو (یعنی یہ شخص اپنے فقر و افلاس کی وجہ سے اتنی قدر و منزلت بھی نہیں رکھتا کہ کوئی شخص اس کی بات سننے پر آمادہ ہو جائے اور اس کی طرف التفات و توجہ کرے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ سنا تو فرمایا۔ (نادان) یہ شخص (کہ جس کو تم نے حقارت کی نظر سے دیکھا ہے اور ایک بے حیثیت انسان سمجھا ہے) اس شخص جیسے لوگوں سے ہری زمین سے بھی کہیں بہتر ہے (جس کی تم نے تعریف کی ہے) (بخاری و مسلم)



اہل بیت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فقر کی مثال

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اہل بیت (یعنی ازواج مطہرات اور متعلقین) نے دو روز مسلسل جو کی روٹی سے پیٹ بھرا ہو (چہ جائیکہ گیہوں کی روٹی سے) یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس دنیا سے تشریف لے گئے (بخاری و مسلم)

اتباع نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک مثال

حضرت سعید مقبری تابعی رحمۃ اللہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک دن) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے (جو ایک جگہ کھانے کے دسترخوان پر جمع تھے) اور ان کے سامنے بھنی ہوئی بھری بکری رکھی تھی۔ انہوں نے (کھانے کے لئے) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو بھی بلایا، لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور (اپنے نہ کھانے کے عذر میں) فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس دنیا سے تشریف لے گئے اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو کی روٹی سے بھی اپنا پیٹ نہیں بھرا لہٰذا یہ کیسے گوارا ہو سکتا ہے کہ میں بھنی بکری جیسی لذیذ غذا سے اپنا پیٹ بھروں جب کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پیٹ بھر جو کی روٹی بھی میسر نہ ہوتی تھی۔ (بخاری)

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی معاشی زندگی پر قرض کا سایہ

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں جو کی روٹی اور ایسی چربی لے کر آئے جو زیادہ دن رکھی رہنے کی وجہ سے بدبو دار ہو گئی تھی۔ نیز حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (ایک مرتبہ) اپنی زرہ مدینہ میں ایک یہودی کے پاس گروی رکھ کر اس سے اپنے اہل بیت کے لئے کچھ جو لئے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے نے یہ بھی بیان کیا کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اہل بیت کی ایسی کوئی شام نہیں ہوتی تھی جس میں ان کے پاس ایک صاع گیہوں یا کوئی اور غلہ رہتا ہو جب کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نو بیویاں تھیں۔ (بخاری)

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھجور کے پات کی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بدن مبارک اور چٹائی کے درمیان کوئی بچھونا وغیرہ نہیں تھا جس کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پہلوئے مبارک پر چٹائی نے بدھیاں ڈال دی تھیں، نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سر مبارک کے نیچے جو تکیہ رک رکھا تھا وہ چمڑے کا تھا اور اس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی، میں نے (سرکار دو عالم کو اس حالت میں دیکھ کر) عرض کیا کہ یا رسول اللہ!( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اللہ تعالیٰ سے دعا کیوں نہیں فرماتے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی امت کو مالی وسعت و فراخی عطا فرمائے ؟ فارس اور روم کے لوگوں کو کس قدر وسعت و فراخی عطا کی گئی ہے حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی نہیں کرتے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ ابن خطاب! یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ کیا تم ابھی تک اسی جگہ ہو (جہاں سے تم شروع میں چلے تھے اور اتنے عرصہ کے بعد بھی تمہارے انداز فکر اور سوچنے سمجھنے کا معیار اتنا آگے نہیں بڑھا جو تم حقیقت تک پہنچ سکو؟ یاد رکھو یہ اہل فارس و روم (اور تمام کفار) وہ لوگ ہیں جن کو تمام نعمتیں اور خوبیاں بس ان کی دنیاوی زندگی ہی میں دے دی گئی ہیں (جب کہ ہمیشہ کی زندگی یعنی آخرت میں ان کو فقر و افلاس، ذلت و خواری اور خسران و نقصان کے سوا کچھ نہیں ملے گا) اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ کیا تم اس پر راضی و مطمئن نہیں ہو کہ ان (اہل فارس و روم اور دیگر کفار) کو دنیا ملے (جو فنا ہو جانے والی ہے) اور ہمیں آخرت ملے (جو اپنی تمام تر نعمتوں کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ (بخاری و مسلم)


اصحاب صفہ کی ناداری

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اصحاب صفہ میں سے ستر افراد کو دیکھا جن میں سے کوئی شخص ایسا نہیں تھا کہ اس کے پاس کوئی چادر ہو (جس کو وہ دوسرے کپڑے کے اوپر اوڑھ لے یا کاندھوں پر ڈال لے، گویا ان کو صرف ایک کپڑے کے علاوہ اور کوئی کپڑا میسر نہیں تھا اور وہ کپڑا (بھی) یا تو تہبند تھا یا کملی تھی، جس کو وہ اپنی گردنوں میں باندھ لیتے تھے (اور اس کے ذریعہ اپنے جسم و ستر کو ڈھانکتے تھے) ان تہبند اور کملیوں میں سے بعض ایسے تھے جو صرف آدھی پنڈلیوں تک آتے تھے اور بعض ایسے تھے جو دونوں ٹخنوں تک پہنچ جاتے تھے، چنانچہ جب کوئی شخص سجدہ میں جاتا (یا گھٹنے اٹھا کر بیٹھتا) تو وہ اس خوف سے کہ کہیں اس کا ستر نہ کھل جائے اپنے اس تہبند یا کملی کو ہاتھ سے پکڑے رہتا تھا۔ (بخاری)

فقر پر صبر کرنے کی فضیلت

حضرت ابو عبدالرحمن (راوی) نے یہ بھی بیان کیا کہ ایک دن حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس تین آدمی آئے، اس وقت میں بھی ان کی خدمت میں حاضر تھا، ان تینوں نے کہا کہ اے ابو محمد! بخدا ہم کسی چیز کی استطاعت نہیں رکھتے، نہ تو خرچ کرنے کی (کہ حج کو جا سکتیں) نہ کسی جانور کی کہ جہاد میں شریک ہو سکیں اور نہ کسی دوسرے سامان کی کہ جس کو فروخت کرے اپنے ضروری مصارف پورا کر سکیں۔ حضرت عبداللہ نے ان کی بات سن کر فرمایا کہ تم کیا چاہتے ہو؟ اگر تمہاری یہ خواہش ہے کہ میں تمہارے ساتھ معاونت کروں اور تمہیں اپنے پاس سے کچھ دوں تو تم لوگ پھر کسی وقت آنا میں تمہیں وہ چیز دوں گا جس کا خدا تمہارے لئے انتظام کر دے گا کیونکہ تمہیں دینے کے لئے اس وقت میرے پاس کچھ نہیں ہے اور اگر تم چاہو تو میں تمہاری حالت بادشاہ (امیر معاویہ رضی اللہ عنہ) سے بیان کر دوں تمہیں اپنی عطا سے فارغ البال کر دیں گے۔ اور سب سے بہتر بات یہ ہے کہ اگر تم اہل کمال کا رتبہ حاصل کرنا چاہو تو صبر کرو یعنی اپنی اسی حالت فقر و افلاس پر استقامت اختیار کرو، کیونکہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ فقرا مہاجرین قیامت کے دن جنت میں دولتمندوں سے چالیس سال پہلے جائیں گے۔ ان تینوں نے یہ حدیث سنی تو کہا کہ بے شک ہم صبر و استقامت ہی کی راہ اختیار کرنے کا عہد کرتے ہیں، اب ہم آپ سے کچھ نہیں مانگتے یا یہ کہ اب آئندہ ہم کسی سے کچھ نہیں مانگیں گے۔ (مسلم)


اپنی اقتصادی حالت کا موازنہ اس شخص سے کرو جو تم سے بھی کمتر درجہ کا ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں جو شخص کسی ایسے آدمی کو دیکھے جو اس سے زیادہ مالدار اور اس سے زیادہ اچھی شکل و صورت کا ہو (اور اس کو دیکھ کر اپنی حالت پر رنج و حسرت ہو، خدا کا شکر ادا کرنے میں سستی و کوتاہی واقع ہوتی ہو اور اس آدمی کے تئیں رشک و حسد کے جذبات پیدا ہوتے ہوں) تو اس کو چاہئے کہ وہ اس آدمی پر نظر ڈال لے جو اس سے کمتر درجہ کا ہے (تاکہ اس کو دیکھ کر اپنی حالت پر خدا کا شکر ادا کرے اور نعمت عطا کر نے والے پروردگار سے خوش ہو۔ (بخاری)



جنت میں فقرا کا داخلہ اغنیا سے پہلے ہو گا

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ فقرا جنت میں اغنیا سے پانچ سو سال پہلے داخل ہوں گے جو آدھے دن کے برابر ہے۔ (رواہ البخاری)

ابتدائے اسلام میں صحابہ کا فقر و افلاس

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے فقر و افلاس کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ کھجوروں سے، کبھی پیٹ نہیں بھرا، یہاں تک کہ ہم نے خیبر کو فتح کر لیا جہاں کھجوریں بہت ہوتی تھیں تب ہمیں پیٹ بھر کھانے کو کھجوریں ملیں۔ (بخاری)


غنا و افلاس کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ



اب شریعت میں ان دونوں طرف دلائل موجود ہیں غربت کے حق میں بھی ہیں اور غربت کے خلاف بھی ہیں تو اس صورت میں عام بندہ مومن کیا کرے یعنی وہ غربت کی روش اختیار کرے یا وہ غنی و مالدار بن کے زندگی گزارے



  • اس بارے میں علما کے اختلافی اقوال ہیں کہ صبر و رضا اختیار کرنے والا غریب و مفلس سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے یا شکر گزار غنی و خوشحال شخص؟ چنانچہ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ شکر گزار غنی زیادہ فضیلت رکھتا ہے کیونکہ اس کے ہاتھ سے اکثر وہ چیزیں عمل میں آتی ہیں جو صدقہ و خیرات اور مالی انفاق و ایثار یعنی زکوٰۃ قربانی اور نیک کاموں میں خرچ کی صورت میں اللہ تعالیٰ کا زیادہ سے زیادہ قرب و نزدیکی حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں نیز حدیث میں بھی اغنیا کی تعریف میں یوں آیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آیت(ذالک فضل اللہ یؤتیہ من یشا) یعنی یہ مال و دولت اللہ تعالی کا فضل ہے، جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور کچھ حضرات یہ فرماتے ہیں کہ صبر کرنے والا غریب و مفلس زیادہ فضیلت رکھتا ہے ۔ تاہم یہ بات ملحوظ رہے کہ اس اختلافی اقوال کا تعلق دراصل مطلق فقر اور غنا کی حقیقت و ماہیت سے ہے اور اس کا اعتبار بھی وجوہ کے مختلف ہونے پر ہے۔ بعض دفعہ انسان کے پاس زیادہ دولت انے کی وجہ سے وہ قارون اور فرعون بن جاتا ہے اور قطع رحمی کرتا ہے اور زمین میں فساد مچاتا ہے ویسے شخص کے لیے غنا ٹھیک نہیں،ایسے ہی کچھ لوگوں کے لیے غربت بہت ساری اخلاقی ،مذہبی اور سماجی گراوٹوں کا باعث ہو تو یہاں فقر کا رد ضروری ہوگا

  • چنانچہ ایک شخص کے حق میں کبھی تو غنا یعنی دولتمندی، خیر و بھلائی کا باعث بن سکتی ہے اور کبھی اس کا فقیر و مفلس ہونا ہی اس کے حق میں بہتر ہو سکتا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندہ پر مہربان ہوتا ہے تو اس کو وہی چیز دیتا ہے جو اس کے حق میں صلاح و فلاح کا ذریعہ ہوتی ہے۔ خواہ فقر ہو یا غنا، اور خواہ صحت ہو یا بیماری! یہی حکم کہ اختلاف وجوہ کی بنا پر ایک ہی چیز کبھی افضل ہو سکتی ہے اور کبھی مفضول ان تمام صفات کا ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔

  • بنیادی طور پر سلام غربت سے نفرت کرتا ہے اسی لئے زکوۃ کا نظام ہے تاکہ غربت کا خاتمہ ہو سکے اور دولت کی گردش سے تمام مسلمان مستفید ہو سکیں

  • رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن عشرہ مبشرہ کو جنت کی بشارت دی ان میں سے چھ صحابی غنی ہیں

  • غربت کو ام الخبائث بھی کہا جاتا ہے دنیا میں ادھے سے زیادہ جرائم کی ماں غربت ہے اس کی وجہ سے چوری زنا اور نہ جانے کتنے گھٹیا قسم کے جرائم سرزد ہوتے ہیں اسی لیے رسول اللہ نے غربت سے پناہ مانگی ہے

  • ایک دفعہ صحابہ کرام نے کہا کہ امیر لوگ نیکیوں میں سبقت لے گئے کیونکہ ہم نماز پڑھتے ہیں وہ بھی پڑھتے ہیں ہم روزے رکھتے ہیں وہ بھی رکھتے ہیں لیکن وہ خیرات و صدقات میں ہم سے بڑھ گئے تو آپ نے فرمایا کہ تم 33 دفعہ الحمدللہ 33 دفعہ سبحان اللہ اور 34 دفعہ اللہ اکبر پڑھو اس عمل کے ثواب تک کوئی اور نہیں پہنچ سکے گا تو جب یہ بات امیر صحابہ کرام کو پتہ چلی تو انہوں نے بھی یہ عمل کرنا شروع کر دیا اب غریب صاحبہ دوبارہ رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ یہ عمل تو امیر صحابہ بھی کرنا شروع کر دیا ہے تو رسول اللہ نے کہا کہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے مرضی دے معلوم ہوا کہ مومن اگر غنی بھی ہے تو اس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا

  • تو جو غربت کے متعلق اروات نقل ہیں کہ فقرا جنت میں پہلے جائیں گے یا بعض اوقات اپ نے غربت کی روش اختیار کی ہے تو وہ ان لوگوں کے لیے ہے جو مہاجر تھے یا کسی مجبوری کی وجہ سے غریب تھے وہ ایسے لوگوں کے لیے نہیں ہے جو جان بوجھ کر غریب ہے محنت نہیں کرتے بلکہ اللہ کے رسول نے فرمایا ہے" لاہبانیت فی الاسلام" یعنی رہبانیت نہیں ہے ہمیں رسول اللہ کے دور میں ایک شخص کی مثال ملتی ہے جو سارا دن مسجد میں نماز پڑھتا تھا اپ نے فرمایا جاؤ جا کے روزی روٹی بھی کماؤ ایسے اللہ کے قریب نہیں اؤ گے.
غربت، بیماری اور خوف آزمائش ہے
  • جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ
  • اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے، دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے، مال و جان اور پھلوں کی کمی سے اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے۔
  • لہذا جو کوئی بھی ان ازمائشوں سے گزرتا ہے تو اسے انعام کے طور پر جنت کی بشارت بھی دی گئی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ بیماری و تکلیف مومن کے گناہوں کا کفارہ ہوتا ہےاسی طرح حدیث ہے کہ فقرا جلد جنت میں جائیں گے لیکن اسلام بیماری اور فقر کو پسند نہیں کرتا بلکہ اس کے خاتمے کی بات کرتا ہے۔جان بوجھ کر فقر اور بیماری میں مبتلا رہنا جائز نہیں بلکہ اگر اللہ کی طرف سے یہ ازمائش بن کے ائے تو اس پر صبر کرنا چاہیے


 
Last edited:

126muhammad

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 26، 2022
پیغامات
49
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
16
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,031
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
یہ تحریر کس کی ہے؟ مضمون کے اصل مصنف کا ذکر کرنا ضروری ہے۔
 

126muhammad

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 26، 2022
پیغامات
49
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
16
یہ تحریر کس کی ہے
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ تحریر میری خود کی ہے البتہ اس کا مواد انٹرنیٹ، مختلف ارٹیکل، میگزین و کتب سے لیا گیا تاہم اگر اپ کو اس مضمون میں کوئی خامی یا بات قران و سنت کے خلاف نظر اتی ہے تو برائے کرم اس کی نشاندہی کریں،

دوسری بات یہ کہ اگر اپ محدث فورم کی ٹیکنیکل ٹیم کا حصہ ہیں تو مضمون کہ ایڈٹ کی ایکسپائری ٹائم کو 15 منٹ سے بڑھا کر 12 یا 13 گھنٹے کر دیا جائے تاکہ مضمون نگار تسلی سے نظر ثانی کر کے اپنی املا کی غلطیوں کو ٹھیک کر سکے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,031
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ تحریر میری خود کی ہے البتہ اس کا مواد انٹرنیٹ، مختلف ارٹیکل، میگزین و کتب سے لیا گیا تاہم اگر اپ کو اس مضمون میں کوئی خامی یا بات قران و سنت کے خلاف نظر اتی ہے تو برائے کرم اس کی نشاندہی کریں،
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مجھے پوری تحریر بغور پڑھنے کا موقع تو نہیں ملا لیکن جتنی تحریر پڑھی ہے عمدہ کوشش ہے۔
دوسری بات یہ کہ اگر اپ محدث فورم کی ٹیکنیکل ٹیم کا حصہ ہیں تو مضمون کہ ایڈٹ کی ایکسپائری ٹائم کو 15 منٹ سے بڑھا کر 12 یا 13 گھنٹے کر دیا جائے تاکہ مضمون نگار تسلی سے نظر ثانی کر کے اپنی املا کی غلطیوں کو ٹھیک کر سکے۔
میں کسی ٹیکنکل ٹیم کی حصہ نہیں ہوں لیکن اتنا جانتا ہوں کہ صاحب تحریر کے لئے ترمیم کا آپشن ہمیشہ موجود رہتا ہے۔شاید آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ اپنی تحریر میں تبدیلی کریں لیکن اسکا ذکر پوسٹ میں لکھا ہوا نہ آئے۔
 

126muhammad

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 26، 2022
پیغامات
49
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
16
اب شریعت میں ان دونوں طرف دلائل موجود ہیں غربت کے حق میں بھی ہیں اور غربت کے خلاف بھی ہیں تو اس صورت میں عام بندہ مومن کیا کرے یعنی وہ غربت کی روش اختیار کرے یا وہ غنی و مالدار بن کے زندگی گزارے
شیطان بہت سے علماء کرام کو وسو سے میں ڈال کر انہیں فقر میں مبتلا کر رہا ہے ایسے ہی صوفیا فقر کو اللہ کے قرب کا ذریعہ سمجھتے ہیں جبکہ فقر کوئی نعمت نہیں بلکہ ایک ازمائش ہے حقیقت میں فقر ایسے ہی ازمائش ہے جس طرح بیماری ہے،
ا
اب صحیح حدیث ہے اللہ تعالی کہتا ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ الهَادِ، عَنْ عَمْرٍو، مَوْلَى المُطَّلِبِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّ اللَّهَ قَالَ: إِذَا ابْتَلَيْتُ عَبْدِي بِحَبِيبَتَيْهِ فَصَبَرَ، عَوَّضْتُهُ مِنْهُمَا الجَنَّةَ يُرِيدُ: عَيْنَيْهِ، تَابَعَهُ أَشْعَثُ بْنُ جَابِرٍ، وَأَبُو ظِلاَلٍ هِلاَلٌ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تینسی نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے یزید بن عبداللہ بن ہاد نے بیان کیا ، ان سے مطلب بن عبداللہ بن جذب کے غلام عمرو نے اور ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ جب میں اپنے کسی بندہ کو اس کے دو محبوب اعضاء ( آنکھوں ) کے بارے میں آزماتا ہوں ( یعنی نابینا کردیتا ہوں ) اور وہ اس پر صبر کرتا ہے تو اس کے بدلے میں اسے جنت دیتا ہوں ۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر: 5653)

کلی طور پر اسلام غربت کے خلاف ہے تو جو جزوی طور پر اسلام میں فقر کی تعریف کی گئی ہے اس کا معنی مفہوم ، سیاق و سباق کچھ اور ہے یعنی مہاجر اور بے بس لوگ جو مجبوری کے تحت غریب تھے جبکہ یہ صوفیا اور نام نہاد عالم اس کی غلط تعبیر کر کے لوگوں کو گمراہ کر کے ازمائش میں ڈال رہے ہیں۔
باقی بہتر اللہ تعالی ہی جانتا ہے


لہذا اسی موضوع پہ علامہ جوزی کی کتاب صید الخطر کا ایک مضمون اپ کی نظر کرنا چاہتا ہوں



IMG-20240617-WA0003.jpg
 
Last edited:
Top