دوسرا فرق
اہل الحدیث کے نزدیک جب تک کوئی مسئلہ پیش نہ آیا ہے تو اس کے بارے اجتہاد کرنا جائز نہیں ہے یعنی تفریع مسائل یا مفروضات میں کسی رائے کا اظہار کرنا درست نہیں کیونکہ اجتہاد ضرورت کے تحت مباح ہے لہذا جب تک ضرورت اور اضطرارکی حالت نہ ہو گی تو اجتہاد بھی نہ ہوگا جبکہ اہل الرائے کے نزدیک مستقبل کے پیش آمدہ مسائل بلکہ مفروضہ مسائل میں بھی اجتہاد جائز اور مستحسن امر ہے۔ اسی طرح اہل الرائے تفریع مسائل کے بھی قائل ہیں یعنی ایک سوال سے سوال در سوال نکالتے ہوئے اس کا جواب دیتے چلے جانا۔
یہی وجہ ہے کہ اہل الحدیث تو تفریع مسائل یا مفروضات کا جواب دینا بالکل بھی پسند نہیں فرماتے تھے جبکہ اہل الرائے نے فرضی مسائل میں تفریع کے ذریعے
'فقہ تقدیری' کے نام سے ایک علمی ذخیرہ اور ورثہ چھوڑا ہے۔ اہل الرائے نے جن مفروضہ مسائل میں اجتہاد کیا ہے وہ بعض اوقات تو ممکنات میں سے ہوتے ہیں اور بعض اوقات ناممکنات میں سے
مثلا اگر مرد کے دودھ اتر آئے اور وہ کسی بچے کو پلا دے تو اس سے رضاعت ثابت ہوتی ہے یا نہیں؟وغیرہ ذلک۔ (الفتاوی الھندیة، کتاب الرضاع ؛ فتح القدیرشرح الھدایة، کتاب الرضاع ؛ الجوھرة النیرة،کتاب الرضاع )
امام مالک رحمہ اللہ کے شاگرد اسد بن الفرات رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب تحصیل علم کے لیے امام مالک رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو امام رحمہ اللہ کے دیگر شاگرد مثلا ً ابن القاسم اور ابن وہب رحمہما اللہ انہیں اس پر اکساتے تھے کہ وہ امام مالک رحمہ اللہ سے سوال در سوال کریں۔ چونکہ امام مالک رحمہ اللہ کا رعب و دبدبہ اس قدر تھا کہ پرانے شاگردوں کو ایسا کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ امام دار الہجرة رحمہ اللہ اس بات کو ناپسند جانتے ہیں لہذا انہوں نے ایک نیا شاگرد ہونے کی وجہ سے اسد بن فرات رحمہ اللہ کے ذریعے امام دار الہجرة سے سوالات کروائے۔ اسد بن الفرات رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
'' وکان ابن القاسم وغیرہ یحملنی أن أسأل مالکا، فاذا أجابنی قالوا لی قل لہ فان کان کذا وکذا، فضاق علی یوما وقال ھذا سلسلة بنت سلسلة، ان کان کذا کان کذا، ان أردت فعلیک بالعراق.'' (ترتیب المدارک وتقریب المسالک ، باب من أھل أفریقیة أسد بن الفرات بن سنان)
''ابن القاسم رحمہ اللہ وغیرہ مجھے اس بات پر اکساتے تھے کہ میں امام صاحب سے سوالات کروں۔ پس جب امام مالک رحمہ اللہ مجھے میرے کسی سوال کا جواب دے دیتے تو یہ صاحبان مجھے کہتے کہ امام صاحب سے سوال کرو کہ اگر ایسا ایسا ہو تو پھر کیا حکم ہے۔ پس امام مالک رحمہ اللہ ایک دن میرے اس قسم کے سوال در سوال سے تنگ آ گئے اور کہا کہ اگر ایسا ہو یا ایسا ہو تو یہ تو سلسلہ در سلسلہ ہے۔ اگر تجھے اس طرح کے سوالات کے جوابات چاہئیں تو اہل عراق کے پاس چلا جا۔''
ڈاکٹر مصطفی السباعی رحمہ اللہ ، امام مالک رحمہ اللہ کا ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
'' فقد سأل مالکا رحمہ اللہ بعض تلامیذہ یوما عن حکم مسألة فأجابہ، فقال تلمیذہ ؛ أرأیت لو کان کذا؟ فغضب مالک وقال : ھل أنت من الأرأیتیین؟ ھل أنت قادم من العراق؟.'' (السنة ومکانتھا فی التشریع السلامی : ص ٤٤٠، المکتب الاسلامی، ٢٠٠٠ء)
'' امام مالک رحمہ اللہ سے ان کے بعض شاگردوں نے ایک دن کسی مسئلہ کے بارے سوال کیا تو امام صاحب نے اس کا جواب دیا۔ اس پر ان کے ایک شاگرد نے کہا کہ اگر ایسا ہو تو پھر آپ کی کیا رائے ہے؟۔ اس پر امام مالک رحمہ اللہ غصہ ہو گئے اور فرمانے لگے کیا تو 'أرأیتیین' یعنی 'أرأیت' کہنے والوں میں سے ہے؟ کیا تو عراق سے آیا ہے؟۔''
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے مروی ہے:
'' وکان الامام أحمد کثیرا اذا سئل عن شیء من المسائل المحدثة المتولدات التی لا تقع یقول دعونا من ھذہ المسائل المحدثة.'' (جامع العلوم الحکم : ص٩٤، دار المعرفہ، بیروت)
'' امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے جب سوال در سوال سے پیدا کردہ مسائل کے بارے اکثر وبیشترسوال کیا جاتا جو ابھی واقع نہ ہوئے ہوتے تھے تو امام صاحب اس کے جواب میں فرماتے تھے کہ ہمیں ایسے پیدا کردہ مسائل سے دور ہی رکھو۔''
شیخ ابو زہرہ مصری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
'' چناچہ یہ اہل اثر نہ تفریع مسائل کرتے تھے (اور) نہ ان مسائل کے لیے استخراج احکام، جو درحقیقت واقع نہ ہوئے ہوں۔ اس کے برعکس اہل الرائے کا اصول یہ تھا کہ وہ کثرت سے رائے کی بنیاد پر فتوی دینے کے عادی تھے، جب تک زیر غور مسئلہ پر حدیث صحیح ان کے علم میں نہ آ جائے۔ یہ صرف مسائل واقعہ کے سلسلہ میں استخراج احکام کی دراست پر اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ ان مسائل پر جو واقعہ نہ ہوئے ہوں، ایک مفروضہ کی حیثیت سے غور کر کے اپنی رائے سے احکام وضع کر لیتے تھے۔'' (آثار امام شافعی : ص١٤١، مترجم سید رئیس احمد جعفری، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور)
شیخ مناع القطان اور شیخ عمر سلیمان الأشقرنے بھی اس فرق کو اپنی کتاب میں بیان کیا ہے۔
(تاریخ التشریع السلامی، شیخ مناع القطان،ص ٢٩١،مکتبہ وہبة، ٢٠٠١ء) (تاریخ الفقہ السلامی، الدکتور عمر سلیمان الأشقر،ص٨٢، مکتبة الفلاح، الکویت، ١٩٨٢ء)