• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا اعمال صالحہ گناہ کبیرہ کا کفارہ بن سکتے ہیں؟

شمولیت
مارچ 04، 2025
پیغامات
6
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
5
محترم قارئین کرام!
کیا اعمال صالحہ گناہ کبیرہ کا کفارہ بن سکتے ہیں یا توبہ ضروری ہے؟
اس مسئلے میں علماء کے دو موقف ہیں:
پہلا موقف؛

گناہ کبیرہ کیلیے ضروری ہے کہ اس کے لیے توبہ کی جائے، یہ جمہور کا قول ہے۔
اور بعض نے اجماع بھی نقل کیا ہے۔
ابن بطال نے کہا: 'جہاں تک کبائر کا تعلق ہے تو اس پر اہلِ سنت کا اجماع ہے کہ اس کے لیے توبہ ضروری ہے، اور توبہ میں ندامت، ترکِ گناہ، اور دوبارہ ان گناہوں کی طرف نہ لوٹنے کا عزم ہونا چاہیے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ، وَالْجُمْعَةُ إِلَى الْجُمْعَةِ، وَرَمَضَانُ إِلَى رَمَضَانَ، مُكَفِّرَاتٌ مَا بَيْنَهُنَّ إِذَا اجْتَنَبَ الْكَبَائِرَ۔
[اخرجہ المسلم: ۵۵۲]
ترجمہ: کہ جب انسان کبیرہ گناہوں سے اجتناب کر رہا ہو تو پانچ نمازیں، ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک درمیان کے عرصے میں ہونے والے صغیرہ گناہوں کو مٹانے کا سبب ہیں۔
حافظ ابن رجبؒ کہتے ہیں: کہ یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ کبائر کو یہ فرائض (نماز، روزہ، زکوٰۃ وغیرہ) معاف نہیں کرتیں، بلکہ ان کے لیےتوبہ کرنا ضروری ہے۔"

ایک دوسری حدیث جو حضرت عثمان سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ:
مَا مِنَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ تَحْضُرُهُ صَلَاةٌ مَكْتُوبَةٌ فَيُحْسِنُ وُضُوءَهَا وَخُشُوعَهَا وَرُكُوعَهَا، إِلَّا كَانَتْ كَفَّارَةً لِمَا قَبْلَهَا مِنَ الذُّنُوبِ مَا لَمْ يُؤْتِ كَبِيرَةً وَذَلِكَ الدَّهْرَ كُلَّهُ. {اخرجه مسلم (ح٢٢٨)}
ترجمہ: کوئی مسلمان نہیں جس کی فرض نماز کا وقت ہو جائے، پھر وہ اس کے لیے اچھی طرح وضو کرے، اچھی طرح خشوع سے اسے ادا کرے اور احسن انداز سے رکوع کرے، مگر وہ نماز اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ ہو گی جب تک وہ کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہیں کرتا اور یہ بات ہمیشہ کے لیے کی۔
امام نووی کہتے ہیں: کہ قاضی عیاض نے اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ چھوٹے گناہ معاف ہو جاتے ہیں بشرطیکہ بڑے گناہ نہ کیے ہوں، اہلِ سنت کا عقیدہ یہی ہے کہ بڑے گناہ صرف توبہ سے یا اللہ کی رحمت سے ہی معاف ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو توبہ کرنے کا حکم دیا ہے اور جو شخص توبہ نہیں کرتا وہ ظالم ہے۔ امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ توبہ فرض ہے اور فرض عبادات نیت اور قصد کے بغیر ادا نہیں کی جا سکتیں۔
اگر بڑے گناہ وضو، نماز اور دیگر ارکان اسلام کے ادا کرنے سے معاف ہو جاتے تو ہمیں توبہ کی ضرورت نہ ہوتی، لیکن یہ بات اجماع سے ثابت ہےکہ کبیرہ گناہ کے لیے توبہ شرط ہے۔
اگر فرض عبادات کے ذریعےگناہ کبیرہ معاف ہو جاتے تو کسی کے لیے بھی ایسا کوئی گناہ نہیں رہتا جو اُسے آگ میں ڈال سکے، بشرطیکہ وہ فرض عبادات ادا کرتا ہو، اور یہ قول مرجئہ کے قول سے ملتا ہے، جو کہ باطل ہے۔
ابن عبد البر نے کہا کہ پانچ وقت کی نماز چھوٹے گناہوں کو معاف کر دیتی ہے، بشرطیکہ آدمی بڑے گناہوں سے بچتا ہو، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان "إِن تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ." کا یہی معنی ومفہوم ہے۔
ترجمہ: کہ اگر تم بڑے گناہوں سے بچتے رہو گے جس سے تم کو منع کیا جاتا ہے تو ہم تمہارے چھوٹے گناہ دور کردیں گے۔
گناہ صغیرہ نماز، روزہ، حج، فرض عبادات اور نیک کاموں کے ذریعے معاف ہو جاتے ہیں، لیکن اگر آپ نے بڑے گناہوں سے اجتناب نہیں کیا یا ان سے توبہ نہیں کی، تو آپ چھوٹے گناہوں کے معاف ہونے سے فائدہ نہیں اٹھا پائیں گے، جب تک کہ آپ مہلک گناہوں میں نہ پڑ جائیں۔ واللہ أعلم
ابن العربی نے فرمایا: گناہ جو معاف ہونے کا حکم دیے گئے ہیں وہ چھوٹے گناہ ہیں، نہ کہ بڑے گناہ۔"
اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ، وَالْجُمْعَةُ إِلَى الْجُمْعَةِ، كَفَّارَاتٌ لِمَا بَيْنَهُنَّ مَااجْتَنَبَ الْكَبَائِرَ۔
[عارضۃ الاحوذی(۱/۱۰)]


دوسرا موقف؛
"اعمال صالحہ کبیرہ گناہوں کو مٹا دیتی ہیں،اور یہ اہل حدیث کے ایک گروہ کا قول ہے۔
اور ابن منذر، ابن حزم، ابن تیمیہ، ابن قیم رحمہم اللہ کا بھی یہی کہنا ہے
اور امام البانی نے اس کو پسند کیا ہے۔
ان کی دلیلیں درج ذیل ہیں:
1.اکثر و بیشتر احادیث میں صراحت کے ساتھ آیا ہے کہ مغفرت کبائر کے ساتھ بھی ہوتی ہے۔ عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَانِي آتٍ مِنْ رَبِّي فَأَخْبَرَنِي أَوْ قَالَ بَشَّرَنِي أَنَّهُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِي لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ قُلْتُ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قَالَ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ۔ [ اخرجہ البخاری: ح۱۲۳۷]
ترجمہ: حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خواب میں میرے پاس میرے رب کا ایک آنے والا (فرشتہ) آیا، اس نے مجھے خبر دی، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ اس نے مجھے خوش خبری دی کہ میری امت میں سے جو کوئی اس حال میں مرے کہ اللہ تعالی کے ساتھ اس نے کوئی شریک نہ ٹھہرایا ہو تو وہ جنت میں جائے گا۔ اس پر میں نے پوچھا اگرچہ اس نے زنا کیا ہو، اگر چہ اس نے چوری کی ہو؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اگر چہ زنا کیا ہو اور چوری کی ہو۔
وقوله صلى الله عليه وسلم: مَنْ قَالَ أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ الْعَظِيمَ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيَّ الْقَيُّومَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ غُفِرَ لَهُ وَإِنْ كَانَ فَرَّ مِنْ الزَّحْفِ۔
[اخرجہ الترمذی: (ح۳۵۷۷)]

ترجمہ: جو شخص کہے: 'أَسْتَغْفِرُ اللَّہَ الْعَظِیمَ الَّذِی لاَ إِلَہَ إِلاَّ ہُوَ الْحَیَّ الْقَیُّومَ وَأَتُوبُ إِلَیْہِ' تو اس کی مغفرت کردی جائے گی اگرچہ وہ لشکر (فوج) سے بھاگ ہی کیوں نہ آیا ہو۔
2.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر والوں سے کہا: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ۔ [اخرجہ البخاری: (ح۳۰۰۷)]
ترجمہ: تم جو چاہو کرو میں تمھیں معاف کرچکا ہوں۔
اب یہاں یہ کہنا کہ اس حدیث کا تعلق صرف چھوٹے گناہوں سے ہے یا یہ توبہ کے ساتھ مغفرت کی ہے، تو ان میں اور دوسروں میں کوئی فرق نہیں ہے جیسے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ حدیث کا مطلب کفر ہے، کیونکہ کفر کی مغفرت صرف توبہ کے ذریعے ہی ممکن ہے، ویسے ہی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ حدیث صرف چھوٹے گناہوں کے بارے میں ہے جو کبیرہ گناہوں سے بچنے کی وجہ سے معاف ہو جاتے ہیں۔ [مجموع الفتاوی:۷/۴۹۰ ]
اس کا مقصد یہ ہے کہ حدیث کو کسی خاص نوعیت پر محدود نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اس کا مفہوم وسیع ہے۔
3.صغیرہ گناہوں سے کفارہ کے لیے کبائر سے اجتناب ضروری ہے، اور یہ عمل فرض عبادات جیسے پانچ وقت کی نماز، جمعہ، اور رمضان کے روزے سے حاصل ہوتا ہے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: إِن تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ. [النساء: ۳۱]
ترجمہ: اگر تم کبائر سے اجتناب کرو گے جو تمھیں ان سے روکا گیا ہے تو ہم تمہارے گناہوں کو معاف کر دیں گے۔
تو فرض عبادات کے ساتھ کبائر کو چھوڑ دینے سے صغائر گناہوں کی تکفیر ہوتی ہے۔ تاہم، اضافی عبادات جیسے نفل نمازوں کے لیے کچھ اور انعامات ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرمایا: فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ۔ [الزلزلۃ: ۸،۷]
ترجمہ: کہ جس نے ذرہ برابر بھی نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔
لیکن پہلا موقف ہی راجح ہے جس پر نصوص دلالت کرتی ہے کہ کبیرہ گناہ کے لیے توبہ ضروری ہے۔جیسا کہ نص حدیث میں ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا؛
ما اجتنبت الكبائر
کہ جب تک کبیرہ گناہوں سے بچا جائے
یعنی یہ شرط ہے۔
اور جیسا کہ بعض علماء نے اسی پر اجماع نقل کیا ہے۔
اور جو کچھ بعض طاعات کے کرنے سے گناہوں کی معافی کے بارے میں آیا ہے، وہ عام طور پر کبیرہ گناہوں کی معافی کو مستثنیٰ کرتا ہے۔
والله اعلم بالصواب

محمد سعود پوکھریاوی
متعلم: جامعہ نجران ، سعودی عرب
 
Top