• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا الله تعالى صرف نصف شعبان کو آسمان دنیا پر آتے ہیں یا ہر رات جب رات کا تہائی حصّہ رہ جاتا ہے ؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
10440846_577677672348149_1222151588972322756_n.png

امام اعظم محمد رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:

"ہمارا پروردگار بلند برکت والا ہے ہر رات کو اس وقت آسمان دنیا پر آتا ہے جب رات کا آخری تہائی حصہ رہ جاتا ہے ۔ وہ کہتا ہے کوئی مجھ سے دعا کرنے والا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں ، کوئی مجھ سے مانگنے والا ہے کہ میں اسے دوں کوئی مجھ سے بخشش طلب کرنے والا ہے کہ میں اس کو بخش دوں ۔"

(صحیح بخاری، كتاب التهجد ، بباب الدعاء والصلاة من آخِرِ الليل:1145 )
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
كيا نصف شعبان كى رات اللہ تعالى آسمان دنيا پر نزول فرماتا ہے ؟

كيا اللہ سبحانہ وتعالى نصف شعبان كى رات آسمان دنيا پر نازل ہو كر كافر اور كينہ اور بغض ركھنے والے كے علاوہ باقى سب كو بخش ديتا ہے ؟


الحمد للہ:

يہ ايك حديث ميں ہے، ليكن اس حديث كى صحت ميں اہل علم نے كلام كى ہے، اور نصف شعبان كى فضيلت ميں كوئى بھى حديث صحيح نہيں ملتى.

اور موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اللہ تعالى نصف شعبان كى رات جھانك كر مشرك اور كينہ و بغض والے كے علاوہ باقى سب كو بخش ديتا ہے "

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1390 ).

مشاحن: اس شخص كو كہتے ہيں جو اپنے سے دشمنى ركھے.

" الزوائد" ميں ہے: عبد اللہ بن لھيعۃ كے ضعف اور وليد بن مسلم كى تدليس كى بنا پر يہ حديث ضعيف ہے.

اور اس حديث ميں اضطراب بھى جسے دار قطنى رحمہ اللہ نے " العلل ( 6 / 50 - 51 ) ميں بيان كيا ہے، اور اس كے متعلق كہا ہے: يہ حديث ثابت نہيں.

اور معاذ بن جبل، عائشہ اور ابو ھريرہ اور ابو ثعلبہ خشنى وغيرہ رضى اللہ تعالى عنہم سے بھى حديث بيان كى گئى ہے، ليكن يہ طرق بھى ضعف سے خالى نہيں، بلكہ بعض تو شديد ضعف والے ہيں.

ابن رجب حنبلى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" نصف شعبان كى رات كے فضائل ميں متعدد احاديث ہيں، جن ميں اختلاف كيا گيا ہے، اكثر علماء نےتو انہيں ضعيف قرار ديا ہے، اور بعض احاديث كو ابن حبان نے صحيح قرار ديا ہے"

ديكھيں: لطائف المعارف ( 261 ).

اور پھر اللہ تعالى كا نزول نصف شعبان كى رات كے ساتھ خاص نہيں بلكہ بخارى اور مسلم كى حديث ميں ثابت ہے كہ اللہ تعالى ہر رات كے آخرى حصہ ميں آسمان دنيا پر نزول فرماتا ہے، اور نصف شعبان كى رات اس عموم ميں داخل ہے.

اسى ليے جب عبد اللہ بن مبارك رحمہ اللہ تعالى سے نصف شعبان كى رات ميں اللہ تعالى كے نزول كے متعلق دريافت كيا گيا تو انہوں نے سائل كو كہا:

اے ضعيف صرف نصف شعبان كى رات! ؟ بلكہ اللہ تعالى كو ہر رات نزول فرماتا ہے "

اسے ابو عثمان الصابونى نے " اعتقاد اھل السنۃ ( 92 ) ميں روايت كيا ہے.

اور عقيلى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

نصف شعبان ميں اللہ تعالى كے نزول كے متعلق احاديث ميں لين ہے، اور ہر رات ميں اللہ تعالى كے نزول والى احاديث صحيح اور ثابت ہيں، اور ان شاء اللہ نصف شعبان كى رات بھى اس ميں داخل ہے.

ديكھيں: الضعفاء ( 3 / 29 ).

مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 8907 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں

واللہ اعلم .

الاسلام سوال وجواب

http://islamqa.info/ur/49678
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
عبادت كے ليے نصف شعبان كى رات مخصوص كرنا

ميں نے ايك كتاب ميں پڑھا كہ نصف شعبان كا روزہ ركھنا بدعت ہے، اور ايك دوسرى كتاب ميں لكھا تھا كہ نصف شعبان كا روزہ ركھنا مستحب ہے... برائے مہربانى يہ بتائيں كہ اس كے متعلق قطعى حكم كيا ہے ؟


الحمد للہ:

نصف شعبان كى فضيلت ميں كوئى بھى صحيح اور مرفوع حديث ثابت نہيں، حتى كہ فضائل ميں بھى ثابت نہيں، بلكہ اس كے متعلق كچھ تابعين سے بعض مقطوع آثار وارد ہيں، اور ان احاديث ميں موضوع يا ضعيف احاديث شامل ہيں جو اكثر جہالت والے علاقوں ميں پھيلى ہوئى ہيں.

ان ميں مشہور يہ ہے كہ اس رات عمريں لكھى جاتى ہيں اور آئندہ برس كے اعمال مقرر كيے جاتے ہيں.... الخ.

اس بنا پر اس رات كو عبادت كے ليے بيدار ہونا جائز نہيں اور نہ ہى پندرہ شعبان كا روزہ ركھنا جائز ہے، اور اس رات كو عبادت كے ليے مخصوص كرنا بھى جائز نہيں ہے، اكثر جاہل لوگوں كا اس رات عبادت كرنا معتبر شمار نہيں ہو گا "

واللہ تعالى اعلم

الشيخ ابن جبرين حفظہ اللہ

اگر كوئى شخص عام راتوں كى طرح اس رات بھى قيام كرنا چاہے ـ اس ميں كوئى اضافى اور زائد كام نہ ہو اور نہ ہى اس كى تخصيص كى گئى ہو ـ تو جس طرح وہ عام راتوں ميں عبادت كرتا تھا اس ميں بھى جائز ہے.

اور اسى طرح پندرہ شعبان كو روزے كے ليے مخصوص كرنا صحيح نہيں، ليكن اگر وہ اس بنا پر روزہ ركھ رہا ہے كہ يہ ايام بيض يعنى ہر ماہ كى تيرہ چودہ اور پندرہ تاريخ كو روزہ ركھنا مشروع ہے، يا پھر وہ جمعرات يا سوموار كا روزہ ركھتا تھا اور پندرہ شعبان اس كے موافق ہوئى تو اس اعتبار سے روزہ ركھنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اس ميں اس كا اعتقاد نہيں ہونا چاہيے كہ اس سے اسے اجروثواب زيادہ حاصل ہو گا.

واللہ اعلم .

الشيخ محمد صالح المنجد

http://islamqa.info/ur/8907
 
Top