ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 577
- ری ایکشن اسکور
- 185
- پوائنٹ
- 77
کیا اللہ عز وجل کے لیے لفظ خدا استعمال کرنا منع ہے؟
بسم الله الرحمن الرحيم
قرآن و حدیث میں کہیں بھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لیے لفظ "خدا " مستعمل نہیں ہوا ہے ، بلکہ یہ ایک مبہم سا نکرہ لفظ ہے جو ہر باطل معبود کے لیے بولا جاتا ہے، جیسے ہندی میں بھگوان اور انگریزی میں گاڈ بولا جاتا ہے، پس اللہ پاک ہے ان تمام لفظوں سے جن کے ساتھ وہ شرک کرتے ہیں۔
اللہ عزوجل کے تمام اسماء و صفات توقیفی ہیں پس وہ ہی ہم کہیں گے جو قرآن و حدیث میں ثابت ہو ، اور جواز کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ یہ فارسی میں اللہ کے لیے کہا جاتا ہے ، کیا اردو، پشتو، وغیرہ میں ایک لفظ ایجاد کر کے ہم اسے اللہ کے لیے مقرر کر دیں گے؟
اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ لفظِ خدا اصل میں خود وجود میں آنے سے ماخوذ ہے تو یہ بھی صریح کفریہ توجیہ ہے، کیونکہ حق سبحانه و تعالی کبھی عدم تھا ہی نہیں کہ وہ وجود میں آتا، بلکہ وہ پاک ذات تو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی، اس سہ جہتی عالم میں جس کا ادراک ممکن نہیں۔
اور یہ بھی ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ : بعض لوگ کہتے ہیں کہ " خدا " لفظ اللہ کا فارسی میں ترجمہ ہے یہ بھی غلط ہے کیونکہ اعلام کا ترجمہ نہیں کیا جاتا ہے ، بلکہ علم ہر زبان میں علم ہی ہوتا ہے ، مثلا : کسی کا نام عبداللہ ہے تو یہ ہر زبان میں عبداللہ ہوگا ، ایسا نہیں ہے کہ اردو میں عبد اللہ کو عبداللہ کے بجائے اللہ کا بندہ کہا جائے۔
پس اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنے اسماء الحسنی ہی سے اسے پکارنے کی تلقین کی ہے، اور اس کے ناموں میں کجروی کرنے والوں کو عذاب کی وعید سنائی ہے، چنانچہ ارشاد ہے:
وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا ۖ وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ ۚ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (180)
اور اللہ ہی کے لیے اچھے اچھے نام ہیں، سو تم انہی کے ساتھ اسے پکارو، اور جو لوگ اس کے ناموں میں الحاد کرتے ہیں تو انہیں عنقریب ان کے کرتوتوں کا بدلہ دیا جائے گا۔
ناموں میں الحاد کے بارے میں امام بغوی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں فرمایا ہے کہ اس سے مراد اللہ تعالی کو ان ناموں سے پکارنا ہے جو کتاب و سنت میں وارد ہی نہیں ہوئے:
لإلحاد في أسماء الله: تسميته بما لم يسم به، ولم ينطق به كتاب الله ولا سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، وجملته: أن أسماء الله تعالى على التوقيف، فإنه يسمى جواداً ولا يسمى سخياً، وإن كان في معنى الجواد، ويسمى رحيماً، ولا يسمى رفيقاً، ويسمى عالماً، ولا يسمى عاقلاً (تفسیر بغوی)
والله أعلم بالصواب و علمه أتم، والسلام۔