• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا اللہ کے قانو ن کے بغیر فیصلہ کرنے سے انسان کافر ہوجاتاہے؟

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
وہ لوگ جو قانون الہی کے بغیر فیصلہ کرتےہیں ان کے حوالے سے قرآن تین طرح سے حکم لگاتاہے پہلا کفر دوسراظلم او رتیسرا فسق کاہے علما کے اکثریت یہ رائے رکھتی ہے کہ ہر وہ شخص جو قانون الہی کے علاوہ فیصلہ کرتا ہے مطلقاکافر نہیں ہوجاتا اس میں دیکھا جائے گا کہ اگر وہ اللہ کے قانون کو اعتقادی طور پر غلط سمجھ کر ترک کررہاہے تو وہ کافر ہے او راگر اعتقادا نہیں بلکہ عملا کوتاہی کررہاہے تو وہ فسق وظلم کے درجے میں آتاہے۔البتہ خوارج کا اس باب میں موقف یہ ہےکہ تحکیم بغیر ماانزللہ کی تکفیر مطلقا کی جائے گی۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
وہ لوگ جو قانون الہی کے بغیر فیصلہ کرتےہیں ان کے حوالے سے قرآن تین طرح سے حکم لگاتاہے پہلا کفر دوسراظلم او رتیسرا فسق کاہے علما کے اکثریت یہ رائے رکھتی ہے کہ ہر وہ شخص جو قانون الہی کے علاوہ فیصلہ کرتا ہے مطلقاکافر نہیں ہوجاتا اس میں دیکھا جائے گا کہ اگر وہ اللہ کے قانون کو اعتقادی طور پر غلط سمجھ کر ترک کررہاہے تو وہ کافر ہے او راگر اعتقادا نہیں بلکہ عملا کوتاہی کررہاہے تو وہ فسق وظلم کے درجے میں آتاہے۔البتہ خوارج کا اس باب میں موقف یہ ہےکہ تحکیم بغیر ماانزللہ کی تکفیر مطلقا کی جائے گی۔
شریعت میں"کفر اصغر"اور" کفر اکبر"کی تقسیم:
اصل بات یہ ہے کہ شریعت میں بعض اعمال ایسے ہیں کہ جن کو کفر سے تعبیر کیا گیا ہے مگر اس کے کرنے والے کو بہرحال مسلمان تسلیم کیا گیا اور ایسے کفر کو "کفر اصغر"کہا جاتا ہے ۔اسی طرح بعض اعمال ایسے ہیں جن کو نہ صرف صریح کفر سے تعبیر کیا گیا بلکہ ان کے کرنے والے کو کافر و مرتد قرار دیا گیا اور ایسی قسم کے کفر کو "کفر اکبر "کہا جاتاہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ الحکم بغیر ماانزل اللہ یعنی اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق حکومت نہ کرنا آیا کفر اصغر میں شمار ہوگا یا کفر اکبر میں۔
اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے نہ کرنے والا صریح کافر ہے:
حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین اور دیگر سلف صالحین نے اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والے کومطلقاً کافر قرار دیا ہے ۔

صحیح روایات سے ثابت ہے کہ عبد اللہ بن طاؤس رحمہمااللہ روایت کرتے ہیں کہ:
کسی نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے{وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُُمُ الْکٰفِرُوْنَ}"جو اللہ کے نازل کردہ کلام کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہی لوگ توکافر ہیں۔" کے بارے میں سوال کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :ھی کفر "یہی کفرہے"۔دوسرے جگہ الفاظ ہیں ھی بہ کفر"یہی تو اللہ کے حکم کا کفر ہے" ایک اور جگہ ان کے الفاظ ہیں کفی بہ کفر"یہی عمل اس کے کفر کے لئے کافی ہے "۔
اس روایت کو عبد الرزاق رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں بھی اور اامام ابن جریر طبری رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں اور وکیع نے اخبار القضاۃ میں اس کو ذکر کیا ہے۔چناچہ سند صحیح سے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہی قول ثابت ہے کہ انہوں نے الحکم بغیر ما انزل اللّٰہ کو "کفر مطلق " کہا ہے ۔(دیکھئے "رسالۃ فی الطواغیت" ابو عبد الرحمن الاثریؔ اور"امتاع النظر "ابو محمد عاصم المقدسی ؔ)
اس بات کی تائیدسیدنا ابن مسعودرضی اللہ عنہ کے قول سے بھی ہوتی ہے :
"عن مسروق قال کنت جالسا عند عبد اللّٰہ فقال لہ رجل ماالسحت؟قال الرشا،فقال فی الحکم؟قال ذاک الکفر،ثم قرأ:{وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ }۔"
(مسند ابی یعلیٰ،ج:۱۱ص:۲۹رقم:۵۱۴۳۔مجمع الزوائد،ج:۴ص:۱۹۹۔المعجم الکبیر الطبرانی،ج:۸ص:۱۵۳رقم:۹۰۰۰۔شعب الایمان للبیہقی، ج:۱۱ص:۴۸۲رقم:۵۲۶۲۔السنن الکبریٰ للبیھقی، ج:۱۰ص:۱۳۹الابانة الکبریٰ لابن بطة،ج:۳ص:۱۲۵)
" مسروق سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں میں بیٹھا ہوا تھا حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس تو ایک شخص نے اِن سے پوچھا السحت"سے کیا مراد ہے؟فرمایا : "رشوت"۔پوچھنے والے نے کہا کہ اس کے ساتھ تحکیم کرنا کیسا ہے؟ فرمایا :"فیصلہ کرناہی تو کفر ہے"پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ’’جو کوئی اللہ کے نازل کردہ کلام کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو وہی لوگ تو کافر ہیں"۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ :
"عن علیؓ انہ سئل عن السحت؟فقال الرشاء فقیل لہ فی الحکم قال ذاک الکفر"۔ (کنز العمال،ج:۲ص:۴۰۲)
"حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے سوال کیا گیا کہ السحت "سے کیا مراد ہے ؟ انہوں نے کہاکہ رشوت۔اس نے کہا کہ اس کے ساتھ حکم کرنا کیسا ہے ؟فرمایا "یہ کفر ہے"۔
عظیم محد ث امام ابو یعقوب بن اسحاق حنظلی رحمہ اللہ جو"ابن راہویہؒ "کے نام سے مشہور ہیں اور امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے ہم پلہ امام ہیں ،وہ فرماتے ہیں:
"اس بات پر مسلمانوں کا اجماع ہے کہ جس نے اللہ کو یا رسول اللہ کو گالی دی یا"مَا اَنْزَلَ اللّٰہ"اللہ کے نازل کردہ دین میں سے کسی حکم کورد کردیا یا کسی نبی کو قتل کیا ہو گا اگرچہ وہ "مَا اَنْزَلَ اللّٰہ "(اللہ کی شریعت)کااقرار بھی کر رہا ہوپھر بھی وہ کافر ہے۔" (الصارم المسلول بحوالہ اکفار الملحدین،ص۳۳۲)
سلف وصالحین اور فقہاء کرام کے معروف دس (۱۰)"نواقض اسلام"یعنی وہ عقائد وافعال جن کا مرتکب دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے ،اس میں چوتھا یہ ہے کہ :
"جو شخص یہ سمجھے کہ کوئی ہدایت یا قانون نبی کریمﷺ کی ہدایت اور شریعت و قانون سے جامع تر یا مکمل تر ہے یا یہ کہ کسی اور کا حکم و قانون آپ ﷺ کے حکم و قانون سے بہتر ہے مثلاً وہ شخص جو طاغوتوں کے حکم و قانون کو نبی کریم ﷺ کے فیصلے اور آپ ﷺ کے قانون پر ترجیح دے ،تو ایسا شخص کافرہے"۔
مفتی اعظم سعودی عرب شیخ عبداللہ بن بازرحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"یہ عقیدہ رکھنا کہ معاملات اور حدود میں اﷲتعالیٰ کی شریعت کے حکم کے بغیر بھی فیصلہ کرنا جائز ہے خواہ اس کے حکم کو حکم شریعت سے افضل نہ بھی سمجھے تو بھی وہ کافر ہے ‘کیونکہ اس طرح اس نے ان امور کو حلال ٹھہرالیا جن کے بارے میں اجماع ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں حرام قرار دیا ہے اورہر وہ شخص جو ان امو ر کو حلال قرار دے جن کو اﷲتعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے مثلاً زنا‘شراب سود اور(دوسرے معاملات میں)اﷲتعالیٰ کی شریعت کے بغیر کسی اور قانون کے مطابق فیصلہ کرنا تو اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ وہ یقینی کافر ہے"۔ (مقالات وفتاویٰ صفحہ ۹۸ تا ۱۰۷ یا ۱۱۶ ‘۱۱۸‘۱۱۹)
مشہور سلفی عالم دین شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
"ولا شک أن من لم یحکم بشيء مماأنزل اللّٰہ تعالٰی لا یکون الاغیر مصدق ولانزاع فی کفرہ۔أقول:فتدبر فی ہذالتفسیرأن الذی لایحکم بجمیع ماأنزل اللّٰہ کافر باجماع المسلمین" (فتاویٰ الدین الخالص:المجلد۶)
"میں کہتا ہوں کہ:آیت مبارکہ وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ}کی اس تفسیر پر غورکرنے کی ضرورت ہے کہ جو شخص ہر چھوٹے بڑے معاملے میں اللہ کے نازل کردہ احکامات کے مطابق فیصلہ نہ کرے،اس کے کافر ہونے پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے" ۔

مشہور سعودی عا لم دین شیخ محمدالصالح العثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جس نے اللہ کی شریعت کو حقیر و معمولی سمجھ کر اس کے مطابق حکومت نہیں چلائی یا یہ عقیدہ رکھا کہ دوسرے نظریات و قوانین اسلام کی بنسبت زیادہ مفید اور موجودہ دور کے موافق ہیں، تو ایسا شخص کافر ہے، دین اسلام سے خارج ہے"۔ (المجموع العیثمین ص ۱/۶۱)
علامہ احمد محمد شاکر رحمہ اللہ "عمدۃ التفسیر"کی تعلیق میں فرماتے ہیں :
"ہمارے زمانے کے "گمراہ "لوگ جو عالم کہلاتے ہیں ،ان کیلئے یہ آثار کھلونا بنے ہوئے ہیں ۔وہ ان آثار سے "وضعی قوانین"کے جواز کی دلیل لیتے ہیں جو آجکل اسلامی ممالک میں وضع کئے جارہے ہیں"۔
اوپر ذکر کردہ قول "کہ جو تم جوکفر مراد لے رہے ہو،وہ کفر نہیں ہے"۔
اوپر ذکر کردہ قول "کہ جو تم جوکفر مراد لے رہے ہو،وہ کفر نہیں ہے"،دراصل "خوارج"کے اس باطل استدلال اور غلط فہمی کا رد ہے، جس میں انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے اپنے باہمی تنازعات واختلافات کے فیصلے کے لئے دو جلیل القدر صحابہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو فیصلہ کرنے والا مقرر کرنے کی بناء پران حضراتِ صحابہ کے بارے میں یہ کہا تھا کہ یہ حکمتم الرجال "یعنی تم نے انسانوں کو فیصلے کرنے کا اختیار دیدیا ہے"۔حالانکہ ہر شخص اچھی طرح جانتا ہے کہ خوارج کی یہ رائے غلط تھی ،اس لئے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اختلاف بالفرض اگرچہ ایک دوسرے پر ظلم کا سبب بھی بنا ہو مگر کفر نہیں تھا کہ انہیں ملت سے خارج کردیتا۔چناچہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے قول میں "تذھبون الیہ" کا جملہ دراصل خوارج اور ان کے متبعین سے خطاب ہے ۔لہٰذاحضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ قول ان آیات کی تفسیر نہیں بلکہ خوارج کی غلطی کی نشاندہی اور اصلاح کے لئے ہے۔
اسی طرح "کفر دون کفر "اور اس قسم کے دوسرے اقوال کا اطلاق دراصل اس مخصوص حالت پر ہوتا ہے کہ جس میں فیصلہ کرنے والا اللہ کے نازل کردہ کلام کو برحق مانے اور اس سے روگردانی کو مؤجب کفر سمجھے مگر کسی جزوی یا انفرادی مسئلے میں نفسانی خواہش سے مغلوب ہوکرشریعت سے ہٹ کر بیٹھے ۔چناچہ ایسے شخص پر "کفر" کا فتویٰ لاگو نہیں ہوگا۔اس مسئلے کو بھی کسی "غیر معتبراور گمنام علماء"نے بیان نہیں کیا بلکہ اس مسئلے کو بیان کرنے والے بھی وہ علماء ہیں جن کے علم وفضل کی دنیا معترف ہے۔
سعودی عرب کے سابق مفتی عام اور وہاں کے کبار علماء شیخ مفتی محمد بن ابراہیم آل شیخ رحمہ اللہ اس مسئلے پر فرماتے ہیں:
"ناممکن ہے کہ شریعت کے ماسوا قانون چلانے والے کو اللہ"کافر"کہے اور وہ کافر نہ ہو۔لازماً وہ کافر ہے ، چاہے وہ کفر عملی کی بناء پر کافر ہو ،چاہے کفر اعتقادی کی بناء پر۔بس جو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا قول اس آیت کی تفسیر میں بروایت طاؤس وغیرہ وارد ہوا ہے ،اس سے ثابت ہو تا ہے کہ حاکم بغیر ماانزل اللہ کفر کا مرتکب تو ہوتا ہے چاہے وہ اعتقادی کفر ہو جو ملت سے خارج کردیتا ہے اور چاہے وہ عملی کفر ہو جوملت سے خارج نہیں کرتا ۔جہاں تک پہلی قسم یعنی کفر اعتقادی کا تعلق ہے تو اس کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں"۔
پھرشیخ مفتی محمدبن ابراہیم رحمہ اللہ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے خلاف فیصلے کرنے والوں کی چھ اعتقادی قسموں کو بیان کرتے ہیں جوکہ دین اسلام سے ایک شخص کو خارج کردیتی ہیں ۔اس کے بعد فرماتے ہیں:
"رہی کفر کی وہ قسم جس کا ایک حاکم بغیر ماانزل اللہ مرتکب ہوسکتاہے تو وہ قسم ہے جو انسان کو ملت سے خارج نہیں کرتی ۔پیچھے یہ بات گزر چکی ہے کہ {وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُُمُ الْکٰفِرُوْنَ}کی عبد اللہ بن عباس نے جو تفسیر کی ہے اس میں کفرکی یہی قسم آتی ہے جیساکہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ "کفر دون کفر"یعنی یہ کفر ہے مگر بڑے کفر سے کمتر قسم کا کفر ہے۔اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ قول لیس الکفر الذی تذھبون الیہ"یہ وہ کفر نہیں جو تم مراد لیتے ہو "……تووہ یہی ہے کہ قاضی اپنی کسی خواہش نفس کی بناء پر کسی ایک مقدمے میں اللہ کی شریعت سے ہٹ کر فیصلہ کردے جبکہ ا س کا اعتقاد بدستور یہی رہے کہ حق تو اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے اور یہ تسلیم بھی کرے کہ اس نے غلط کیا ہے اور حق سے پہلو تہی کربیٹھا ہے۔چناچہ اس فعل کی بنیادپر وہ جس کفر کا مرتکب ہوتاہے اس سے ملت سے خارج نہیں ہوتا ،پھر بھی اس کا یہ گناہ ایک عظیم ترین معصیت ہے اور زناء ،شراب نوشی ،چوری اور جھوٹی قسمیں اٹھانے جیسے کبائر سے زیادہ بڑاگناہ ہے"۔
شیخ عمر اشقر حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
"کسی قاضی یا حکمرانِ وقت کا کوئی ایسا وقتی فیصلہ جو اس نے اپنی خواہش یا ضرورت سے مغلوب ہو کر کیا ہو جبکہ بقیہ تمام فیصلوں میں وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺکے احکامات کا پابند ہو، اس سے آدمی اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔" (بحوالہ العقیدۃ فی اﷲ ص۲۹،۲۸)
اسی طرح مشہور سلفی عالم دین شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
"خوب جان لو!شریعت الٰہی سے ہٹ کر فیصلہ کرنے والوں کی دو اقسام ہیں :
پہلی قسم :
وہ شخص جو اسلام کا اقرار کرتا ہو اور اس کا ایمان ہو کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ نازل کیا ہے وہ حق و سچ ہے اور اسے ہر دوسری شریعت پر ہر اعتبار سے فضیلت حاصل ہے۔لیکن پھر بھی یہ شخص اپنی خواہشات کی اتباع کرتے ہوئے یا عصبیت کے جذبے سے مغلوب ہوکر کسی"جزوی و انفرادی"مسئلے میں شریعت سے ہٹ کر فیصلے کربیٹھے اور اس پر (فخر کے بجائے )شرمندگی بھی محسوس کرے اور یہ اعتقادبھی رکھے کہ میرا یہ فعل قطعی غلط ہے۔ایسے شخص کو دین سے نکلے ہوئے خارجیوں کے سواکوئی کافر نہیں کہتا اور مفسرین نے بھی آیت{وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُُمُ الْکٰفِرُوْنَ}کے ذیل میں اگر شریعت سے ہٹ کر فیصلہ کرنے کو کافر کہنے سے احتراز کیا ہے تووہ اسی قسم کے لوگوں کا تذکرہ کررہے ہوتے تھے۔

دوسری قسم :

وہ شخص جسے مکمل قدرت و اختیار حاصل ہو ، اللہ نے اسے حکومت و اقتدار بخشا ہو اور اگر وہ چاہے تو ایک دن کے اندر اندر تمام حکومتی عہدیداروں کو معزول کردے ……پھر اس کے باوجود وہ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے نہ کرے ،نہ اس بارے میں سوچے ،نہ اس کے لئے سعی کرے اور اُلٹا انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق لوگوں پر حکومت کرے ،اگرچہ وہ بالکلیہ شریعت سے متصادم ہوں یا ان کی اکثریت خلافِ شرع ہو ۔نیز یہ شخص شریعت کے کسی حکم کو تب ہی باقی رکھے جب کہ وہ اس کی خواہشات سے نہ ٹکرائے، مثلاًلوگوں سے زکوٰۃ ،عشر اور خراج وغیرہ وصول کرنے کا حکم باقی رکھے (کیونکہ اس کے نتیجے میں حکومت کو بہت سے اموال حاصل ہوتے ہیں )۔اسی طرح وہ ایسے شرعی احکام باقی رکھنے پر بھی راضی ہو جس کی گنجائش وہ اپنے "کفری انسانی قانون"میں پائے ،لیکن وہ ان شرعی احکام کو یہ سمجھ کر باقی نہ رکھ رہا ہو کہ یہ اللہ کا حکم ہیں (کیونکہ اگر ایساہوتا تو وہ مکمل احکام نافذ کرتا)،بلکہ محض اس لئے باقی رکھ رہا ہو کہ یہ احکامات اس کے (مذموم)مقاصد میں کوئی خاص رکاوٹ نہیں ڈالتے ۔کچھ شک نہیں کہ ایسا کرنے والا شخص کافر ومرتد ہے اور اسلام سے خارج ہے۔ان کے بارے میں نبی کریمﷺکا یہ فرمان صادق آتاہے کہ :((حتی تروا منھم کفراً بواحاً))یعنی ’’بلا شبہ یہ شخص کفربواح کا مرتکب کافر ہے اور اس کو توبہ کی دعوت دینے کے بعد قتل کرڈالنا واجب ہے "۔ (فتاویٰ الدین الخالص ،المجلد ۲،ص:۱۶۳)
 
Top