• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ امام ابوحنیفہؒ کی قبر پر گئے تھے؟

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
کیا امام شافعی رحمہ اللہ امام ابوحنیفہؒ کی قبر پر گئے تھے؟


تحریر : حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
سوال : ایک روایت میں آیا ہے کہ امام شافعی رحمہ الله نے فرمایا :
إني لأتبرك بأبي حنيفة و أجي إليٰ قبره فى كل يوم . يعني زائرا . فإذا عرضت لي حاجة صليت ركعتين و جئت إليٰ قبره و سألت الله تعالىٰ الحاجة عنده فما تبعد عني حتيٰ تقضي
میں ابوحنیفہ کے ساتھ برکت حاصل کرتا اور روزانہ ان کی قبر پر زیارت کے لئے آتا۔ جب مجھے کوئی ضرورت ہوتی تو دو رکعتیں پڑھتا اور ان کی قبر پر جاتا اور وہاں اللہ سے اپنی ضرورت کا سوال کرتا تو جلد ہی میری ضرورت پوری ہو جاتی۔ [بحواله تاريخ بغداد] کیا یہ روایت صحیح ہے ؟ (ایک سائل)
الجواب : روایت تاریخ بغداد (123/1) و اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ للصیمری (ص 89) میں مكرم بن أحمد قال : نبأنا عمر بن إسحاق بن إبراهيم قال : نبأنا على بن ميمون قال : سمعت الشافعي… . کی سند سے مذکور ہے۔
اس روایت میں ”عمر بن اسحاق بن ابراہیم“ نامی راوی کے حالات کسی کتاب میں نہیں ملے۔
شیخ البانی رحمہ الله فرماتے ہیں : غير معروف… . ”یہ غیر معروف راوی ہے …۔“ [ السلسلة الضعيفه 31/1 ح 22 ]
یعنی یہ راوی مجہول ہے لہٰذا یہ روایت مردود ہے۔
اس موضوع و مردود روایت کو محمد بن یوسف الصالحی الشافعی [عقود الجمان عربي ص 363 و مترجم اردو ص 440] ابن حجر ہیثمی/مبتدع [الخيراب الحسان فى مناقب النعمان عربي ص 94 و مترجم ص 255 سرتاجِ محدثين] وغیرہما نے اپنی اپنی کتابوں میں بطورِ استدلال و بطور ِ حجت نقل کیا ہے مگر عمر بن اسحاق بن ابراہیم کی توثیق سے خاموشی ہی میں اپنی عافیت سمجھی۔ اسی ایک مثال سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ تحقیق و انصاف سے دور بھاگنے والے حضرات نے کتبِ مناقب وغیرہ میں کیا کیا گل کھلا رکھے ہیں۔ یہ حضرات دن رات سیاہ کو سفید اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں حالانکہ تحقیقی میدان میں ان کے سارے دھوکے اور سازشیں ظاہر ہو جاتی ہیں پھر باطل پرست لوگوں کو منہ چھپانے کے لئے کوئی جگہ نہیں ملتی۔ مردود روایات کی ترویج کرنے والے ایک اور روایت پیش کرتے ہیں کہ شہاب الدین الابشیطی (810؁ھ وفات 883؁ھ) نامی شخص نے (بغیر کسی سند کے ) نقل کیا ہے :
امام شافعی رحمہ الله نے صبح کی نماز امام ابوحنیفہ رحمہ الله کی قبر کے پاس ادا کی تو اس میں دعائے قنوت نہیں پڑھی۔ جب ان سے عرض کیا گیا تو فرمایا : اس قبر والے کے ادب کی وجہ سے دعائے قنوت نہیں پڑھی۔ [عقود الجمان ص 363، الخيرات الحسان ص 94 تذكرة النعمان ص 441، 440 سرتاج محدثين ص 255 ]
یہ سارا قصہ بے سند، باطل اور موضوع ہے۔ اسی طرح محی الدین القرشی کا طبقات میں بعض (مجہول) تاریخوں سے عدمِ جہر بالبسملہ کا ذکر کرنا بھی بے سند ہونے کی وجہ سے موضوع اور باطل ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ الله نے امام شافعی رحمہ الله کے امام ابوحنیفہ رحمہ الله کی قبر پر جانے والے قصے کا موضوع اور بےاصل ہونا حدیثی اور عقلی دلائل سے ثابت کیا ہے۔ دیکھئے : ”اقتضاء الصراط المستقیم “ [ص 344، 343 دوسرا نسخه ص 386، 385]
جو شخص ایسا کوئی قصہ ثابت سمجھتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے پیش کردہ قصے کی صحیح متصل سند پیش کرے۔ مجرّد کسی کتاب کا حوالہ کافی نہیں ہوتا۔
تنبیہ بلیغ : امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ الله سے امام ابوحنیفہ رحمہ الله کی تعریف و ثنا قطعاً ثابت نہیں ہے بلکہ اس کے سراسر برعکس امام شافعی رحمہ الله سے امام ابوحنیفہ رحمہ الله پر جرح باسند صحیح ثابت ہے دیکھئے : آداب الشافعی و مناقبہ لابن ابی حاتم [ص 171، 172 و سنده صحيح، 202، 201 و سنده صحيح] تاریخ بغداد [437/13 و سنده صحيح، 177، 178/2 و سنده صحيح]
لہٰذا اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ امام شافعی رحمہ الله کبھی امام ابوحنیفہ رحمہ الله کی قبر کی زیارت کے لئے گئے ہوں۔
وما علينا إلا البلاغ
(10ربیع الثانی 1427؁ھ)
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
شیخ البانی رحمہ الله فرماتے ہیں : غير معروف… . ”یہ غیر معروف راوی ہے …۔“ [ السلسلة الضعيفه 31/1 ح 22 ]
یعنی یہ راوی مجہول ہے لہٰذا یہ روایت مردود ہے۔
اس پر دلیل کہ مجہول راوی کی روایت رد کردی جائے گی۔
کیا ہر وہ روایت مردود ہوگی جس میں کوئی مجہول راوی ہو؟
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
اس پر دلیل کہ مجہول راوی کی روایت رد کردی جائے گی۔
کیا ہر وہ روایت مردود ہوگی جس میں کوئی مجہول راوی ہو؟
فالمجهول لا يقوم به الحجة
نصب الراية ج ۱ ص ۴۱۵، ج ۲ ص ۱۱۱
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@عدیل سلفی بھائی! عین ممکن ہے کہ آپ پر الزام وارد کیا جائے کہ آپ نے زیعلی حنفی کی تقلید کی ہے!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
قال سلمة بن ورد : إني رأيت أنس بن مالك يسلم على النبي صلى الله عليه وسلم ثم يسند ظهره إلى جدار القبر ثم يدعو ، وهذا مما لا نزاع فيه بين العلماء وإنما نزاعهم في وقت السلام عليه قال أبو حنيفة رحمه الله : يستقبل القبلة عند السلام أيضاً ولا يستقبل القبر وقال غيره : يستقبل القبر عند السلام خاصة ولم يقل أحد من الأئمة الأربعة أنه يستقبل القبر عند الدعاء ، إلا حكاية مكذوبة عن مالك ؛ ومذهبه بخلافها ، وكذلك الحكاية المنقولة عن الشافعي رحمه الله كان يقصد الدعاء عند قبر أبي حنيفة رحمه الله ـ فإنها من الكذب الظاهر بل قالوا : إنه يستقبل القبلة وقت الدعاء ولا يستقبل القبر حتى يكون الدعاء عند القبر ، فإن الدعاء عبادة كما ثبت في الترمذي مرفوعاً " الدعاء هو العبادة " فالسلف من الصحابة والتابعين جردوا العبادة لله تعالى ، ولم يفعلوا عند القبر منها شيئاً إلا ما أذن فيه النبي صلى الله عليه وسلم من السلام على أصحابها والاستغفار لهم والترحم عليهم .والحاصل : أن الميت قد انقطع عمله وهو محتاج إلى من يدعو له ويشفع لأجله ولهذا شرع في الصلاة عليه من الدعاء له وجوباً واستحباباً ما لم يشرع مثله في الدعاء للحي،
سلمان بن ورد نے کہا: میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام پھیجتے دیکھا، پھر دیکھ اکہ انہوں نے اپنی کمر قبر کی جانب دیوار کی طرف پھیر لی اور پھر دعا کی۔ اور اس مسئلہ میں علماء کے مابین کوئی اختلاف نہیں، اختلاف صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجنے کے وقت میں ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کہا: سلام کے وقت بھی اپنا رخ قبلہ کی جانب کیا جائے، اور قبر کی جانب رخ نہ کیا جائے، جبکہ دوسرے کہتے ہیں: کہ خاص خاص سلام کے وقت اپنا رخ قبر کی جانب کیا جائے، اور ان چاروں ائمہ میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ دعا کے وقت اپنا رخ قبر کی جانب کیا جائے، سوائے امام مالک رحمہ اللہ سے منسوب ایک جھوٹی کہانی کے، اور امام مالک کا مذہب اس جھوٹی کہانی کے خلاف ہے۔ اور اسی طرح امام شافعی سے منقول ایک کہانی کا معاملہ ہے، کہ وہ دعا کے لئے ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی قبر کا قصد کیا کرتے۔ یہ بالکل ظاہر و سفید جھوٹ ہے، بلکہ وہ کہتے ہیں کہ دعا کہ وقت اپنا رخ قبلہ کی طرف کیا جائے، اور قبر کی طرف رخ نہ کیا جائے، حتی کہ دعا قبر پر کی جائے، تب بھی، کیونکہ دعا عبادت ہے ، جیسا کہ ترمذی میں مرفوعاً ثابت ہے: " دعا عبادت ہے"۔ اسلاف میں صحابہ و تابعین عبادت کو اللہ کے لئے مجرد رکھا ہے، اور انہوں نے قبر پر کوئی ایسا کام نہیں کیا، سوائے اس کے کہ جس کی اجازت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی، جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہ پر سلام کرنا، ان کے لئے استغفار کرنا اور رحم کی دعا کرنا ہے۔
اور خلاصہ کلام یہ ہے کہ میت کے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں اور وہ اپنے لئے دعا کرنے والے کا محتاج ہے،

مجلد 01 صفحه 171 ۔ 172
الكتاب: زيارة القبور للإمام البركوي (من رسائل البركوي)
المؤلف: محيي الدين محمد البركوي الحنفي (المتوفي: 980 هـ)
الناشر: دار الكتب العلمية بيروت – لبنان




 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
اور اسی طرح امام شافعی سے منقول ایک کہانی کا معاملہ ہے، کہ وہ دعا کے لئے ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی قبر کا قصد کیا کرتے۔ یہ بالکل ظاہر و سفید جھوٹ ہے
اس پر ثبوت؟؟؟
یا کہ سلمة بن ورد کا فرما دینا ہی ثبوت ہے؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اتنی بھی سمجھ نہیں کہ یہ ''فرمانا'' کس کا ہے!
 
Last edited:
Top