ابو داؤد
مشہور رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 771
- ری ایکشن اسکور
- 217
- پوائنٹ
- 111
کیا امام ماوردی (المتوفی 450) رحمہ اللہ نے بھینس کی قربانی پر اجماع نقل کیا ہے؟
از قلم : کفایت اللہ سنابلی
بعض حضرات نے ابوالحسن الماوردی رحمہ اللہ (المتوفی 450) کی کتاب سے ان کی یہ عبارت نقل کی ہے:
«كإجماعهم على أن الجواميس في الزكاة كالبقر»
”جیسے ان کا اس بات پر اجماع ہے کہ بھینس زکاۃ میں گائے کی طرح ہے“ [الحاوي الكبير 16/ 108 ]
صرف اتنا پڑھنے والے کے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ جیسے زکاۃ کے معاملے میں بھینس کے گائے کی طرح ہونے پر اجماع ہے ایسے ہی ان کی قربانی پر بھی اجماع ہے۔
لیکن جب امام ماوردی رحمہ اللہ کی پوری بات پڑھیں گے تو حقیقت کچھ اور ہی نظر آئے گی آئیے ہم ان کی مکمل عبارت دیکھتے ہیں۔
امام ماوردی رحمہ اللہ یہاں اجماع پر بحث کررہے اور پہلی فصل میں اجماع کی بنیاد جن دلائل پر ہوتی ہے ان کا تذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«فأما الفصل الأول فيما ينعقد عنه الإجماع: فهو ينعقد عن دليل أوجب اتفاقهم عليه لأن ما لا موجب له يتعذر الاتفاق عليه. والدليل الداعي إليه قد يكون من سبعة أوجه»
”پہلی فصل میں ان دلائل کا ذکر ہوگا جن پر اجماع کی بنیاد ہوتی ہے، تو اجماع کا انعقاد ایسی دلیل پر ہوتا ہے جو اہل علم کے اتفاق کو واجب کرتی ہے کیونکہ کسی دلیلِ موجب کے بغیر اہل علم کا اتفاق مممکن ہی نہیں، اور ایسی دلیل سات طرح کی ہوسکتی ہے۔“ [الحاوي الكبير (16/ 108)]
اس کے بعد امام ماوردی چھ دلائل ذکر کرتے ہیں پھر آگے ساتویں دلیل ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«والسابع: أن ينعقد عن استدلال وقياس، كإجماعهم على أن الجواميس في الزكاة كالبقر.»
”انعقاد اجماع کی ساتویں دلیل : یہ کہ اجماع کی بنیاد ”استدلال اور قیاس“ ہو جیسے اہل علم کا اس بات پر اجماع کی زکاۃ میں بھینس گائے کی طرح ہے“ [الحاوي الكبير (16/ 108)]
قارئین کرام !
امام ماوردی رحمہ اللہ کی عبارت مکمل سیاق وسباق کے ساتھ آپ کے سامنے ہے ، یہاں وہ بھینس کی قربانی کا دور دور تک کوئی ذکر نہیں کررہے ہیں بلکہ اجماع کی ایک بنیاد ”استدلال اور قیاس“ کا تذکرہ کررہے ہیں پھر اس کو مثال سے واضح کرنے کے لئے زکاۃ میں بھینس کو گائے کی طرح ماننے پر اجماع نقل کیا ہے۔
واضح رہے کہ امام ماوردی رحمہ اللہ کا اس اجماع کو ”استدلال اور قیاس“ پر مبنی قرار دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ بھینس کی قربانی تو دور کی بات وہ بھینس کی زکاۃ کو بھی منصوص نہیں مانتے تھے۔ بلکہ اسے مبنی بر قیاس واستدلال والے اجماع کے قبیل سے مانتے تھے۔ اور یہ بات بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ قربانی جیسی عبادات میں قیاس کی نہ گنجائش ہے نہ ضرورت ہے۔
امام روياني رحمہ اللہ (المتوفی502) نے بھی عین یہ بات ذکر کی ہے چنانچہ انہوں نے بھی اجماع بنیادیں اور ان کے اقسام بتاتے ہوئے ساتویں نمبر پر لکھتے ہیں:
«والسابع: أن ينعقد عن استدلال وقياس، كإجماعهم على أن الجواميس في الزكاة كالبقر.» [بحر المذهب للروياني (11/ 128)]
یہ حرف بحرف وہی الفاظ ہیں جو امام ماوردی نے لکھے ہیں لہٰذا اس کے تعلق سے اوپر جو کچھ بھی ہم کہہ چکے ہیں وہ یہاں بھی منطبق ہوتے ہیں۔
الغرض یہ کہ:
امام ماوردی یا امام رویانی دونوں میں سے کسی نے بھی بھینس کی قربانی پر اجماع کا دعوی نہیں کیا ہے۔