ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 575
- ری ایکشن اسکور
- 184
- پوائنٹ
- 77
کیا امیر یزید بعد کی بد اعمالیوں کے سبب جیش مغفور کی بشارت سے خارج ہے؟
تحریر : کفایت اللہ سنابلی
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ جیش مغفور کی ”بشارتِ مغفرت“ میں شامل ہونے کے لئے ضروری ہے کہ مغفرت کی شرط بھی پائی جائے یعنی آدمی مغفرت کے قابل ہو لیکن اگر کسی نے اس لشکر میں شرکت کی اور بعد میں مغفرت کے منافی امور انجام دئے تو وہ اس بشارت سے محروم ہوجائے گا اور یزید نے بعد میں بہت سارے جرائم کا ارتکاب کرکے اپنے آپ کو اس بشارت سے محروم کر لیا ہے۔
جوابا عرض ہے کہ:
اس غلط فہمی کی بنیاد بھی وہی ہے جسے ہم ماقبل میں واضح کرچکے ہیں کہ جیش مغفور کی بشارت کو ”عمل پر ثواب کی بشارت“ کی قسم میں مانا جارہا ہے جس میں افراد یا جماعت کا تعین نہیں ہوتا ہے بلکہ صرف عمل کے ثواب کا بیان ہوتا ہے جبکہ ہم ماقبل میں واضح کرچکے ہیں کہ یہ دوسری قسم کی بشارت ہے جس میں ”افراد وجماعت کے لئے بشارت ہوتی ہے“ اور ان کی تعیین کرکے انہیں جنتی اور مغفرت یافتہ قرار دیا جاتا ہے ۔
اور اس قسم کی بشارت میں خاص افراد یا جماعت کی مغفرت کی ”خبر“ ہوتی ہے جو مغفرت کی قطعیت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ یہ بشارت اللہ کی طرف سے خبر ہے اور اللہ تعالیٰ کو ان افراد و جماعت کے ماضی ومستقبل کا پورا حال معلوم ہے اللہ تعالیٰ نے ان کے سابقہ اور مستقبل کے اعمال پر مطلع ہونے کی وجہ سے بشارت دی ہے۔
اگر بشارت یافتہ جماعت میں سے کوئی فرد بعد میں کسی غلطی یا گناہ کا ارتکاب کرے تو یقینا اللہ اس سے بھی آگاہ تھا اور اللہ نے پیشگی اس کی بھی مغفرت کردی ہے۔
چنانچہ حاطب رضی اللہ عنہ جو اہل بدر میں شمولیت کے سبب اہل بدر کے لئے اجتماعی مغفرت کی بشارت میں شامل ہیں ان سے جنگ بدر کے بعد ایک غلطی سرزد ہوجاتی ہے جس پر عمر فاروق رضی اللہ عنہ ان کو منافق سمجھ کر ان کی گردن مارنے کی اجازت طلب کرتے ہیں اس پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
”إنه قد شهد بدرا، وما يدريك لعل الله أن يكون قد اطلع على أهل بدر فقال: اعملوا ما شئتم فقد غفرت لكم“
”انہوں نے بدر میں شرکت کی ہے اور تمہیں کیا پتہ کہ اللہ تعالی اہل بدر کے معاملات پر آگاہ ہوا اور اس کے بعد کہا: تم کیسا بھی عمل کرو میں نے تمہاری مغفرت کردی ہے“ [صحيح البخاري 4/ 60 رقم 3007]
.
ابو الغادیۃ رضی اللہ عنہ اہل بیعت رضوان میں شامل ہونے کے سبب ”جنت ومغفرت کی اجتماعی بشارت“ میں شامل ہیں ان کے بارے میں مروی ہے کہ بعد میں انہوں نے عمار رضی اللہ عنہ کے قتل کا ارتکاب کیا ۔
اس کے باوجود بھی ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا:
”فنحن نشهد لعمار بالجنة، ولقاتله إن كان من أهل بيعة الرضوان بالجنة“
”ہم عمار کے لئے جنت کی گواہی دیتے ہیں اور عمار کا قاتل اگر اہل بیعت رضوان میں سے ہیں تو اسکے لئے بھی جنت کی گواہی دیتے ہیں۔“
[منهاج السنة النبوية 6/ 205]
معلوم ہوا کہ اگر ایک بار کسی شخصیت کو مغفرت کی بشارت مل گئی تو بعد میں اس کے گناہ کو دلیل بناکر اسے سابقہ ملی بشارت سے خارج نہیں کرسکتے ہیں ۔
.
یاد رہے جیش مغفور میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے مغفرت کی خبر ہے اس لئے استثنائی دلیل بھی ایسی ہی ہونی چاہئے جس میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے عدم مغفرت کی خبر ہو کیونکہ خبر دینے والا ہی استثناء کا حق رکھتا ہے ۔
لہٰذا جو لوگ تاریخی کتب سے امتیوں کی باتیں وہ بھی عدم مغفرت کی نہیں بلکہ گناہوں کی فہرست اور وہ بھی جھوٹی اور من گھڑت پیش کرکے یہ کہتے ہیں ان کی بنیاد پر یزید اس بشارت سے خارج ہے وہ بہت بڑی حماقت اور جہالت میں ہیں ۔
کیونکہ:
① اولاً:- یہ امتیوں کی باتیں ہیں اور امتی کی بات سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات میں استثناء نہیں ہوسکتا۔
② ثانیاً:- یہ باتیں بھی عدم مغفرت کی خبر نہیں بلکہ محض چند برے اعمال کی فہرست ہوتی ہے اور ان دونوں میں کوئی مناسبت ہی نہیں ہےکہاں مغفرت کی خبر اور کہاں گناہوں کی فہرست بھلا ان دونوں میں کیا مناسبت ہے۔
③ ثالثاً:- یہ باتیں سچے انسانوں کی بھی نہیں ہیں بلکہ دشمنان اسلام کی من گھڑت اور خود ساختہ ہیں۔
لہٰذا اس طرح کی باتیں پیش کرکے یہ دعویٰ کرنا کہ یزید جیش مغفور کی بشارت سے مستثنیٰ ہے ہماری نظر میں نری جہالت اور بہت بڑی حماقت ہے ۔
اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص اصحاب بدر میں سے کسی بدری صحابی سے متعلق تاریخ سے جھوٹی باتیں اکٹھا کرکے یہ کہنے لگ جائے کہ یہ بدری صحابی اصحاب بدر سے متعلق مغفرت کی بشارت سے مستثنیٰ ہیں۔
یاد رہے کہ بعض بدری صحابہ سے متعلق تاریخ میں جھوٹی باتیں درج ہیں جن کے سہارے روافض ان کی توہین کرتے ہیں اور ان کے جنتی ہونے کا انکار کرتے ہیں۔
یہاں پر ہم یہی کہیں گے کہ یہ ساری باتیں جھوٹی اور من گھڑت ہیں اور جو کچھ بھی ہیں انسانوں کی بیان کردہ باتیں ہیں جن کی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دی گئی خبر کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔نیز اگر ان باتوں میں کچھ باتیں ثابت بھی ہوجائیں تو بھی ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مغفرت کی خبر نہیں جھٹلا سکتے کیونکہ اللہ نے جب اہل بدر کی مغفرت کی خبر دی ہے تو ظاہر ہے کہ اللہ نے یہ خبر ان کے ماضی اور مستقبل کے تمام اعمال جاننے کے بعد ہی دی ہے لہٰذا ان باتوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے کیونکہ یہ باتیں اللہ کو پہلے سے ہی معلوم تھیں پھر بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے ذریعہ ان کی مغفرت کی خبر دے دی ہے حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ اوپر نقل کیا جاچکا ہے ۔
اسی اصول کی روشنی میں جیش مغفور میں شرکت کرنے والے ہر فرد کے بارے میں بھی ہم یہی کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی زبانی ان کے ماضی اور مستقبل کے تمام کارناموں پر مطلع ہوکر مغفرت کی خبر دی ہے اس لئے اگر یزید کی سیرت میں کچھ معاصی کی باتیں مل بھی جائیں تو بھی ہم یہی کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کو پہلے ہی سے اس کا علم تھا اس کے باوجود بھی اللہ نے اس گروہ کے لئے مغفرت کی بشارت دی ہے لہٰذا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو یہ حق نہیں پہونچتا کہ وہ یزید کو اس عمومی مغفرت سے باہر نکالنے کی جرأت کرے وہ بھی جھوٹی اور من گھڑت باتوں کا سہارا لے کر ۔