• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا اہل حدیث ہونا ممکن ہے ؟ ایک اعتراض کا جواب ۔

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964

قسط اول
رسول اللہ ﷺ کی سیرت و کردار کا نام سنّت ہے اور اِسی کے بیان کا نام حدیث، گویا دونوں معنیً ایک ہیں۔ البتہ اعتباری فرق ہے۔ لیکن بعض نادان دوستوں نے اس نام کے اختلاف کو اتنی اہمیت دی ہے کہ اس پر مستقل فرقے بنا دیئے ہیں حالانکہ یہ لوگ اگر فرقہ بندی جسے قرآن، شرک﴿وَلا تَكونوا مِنَ المُشرِ‌كينَ ٣١ مِنَ الَّذينَ فَرَّ‌قوا دينَهُم...٣٢﴾... سورة الروم"
اور دین سے بیگانگی ﴿إِنَّ الَّذينَ فَرَّ‌قوا دينَهُم وَكانوا شِيَعًا لَستَ مِنهُم فى شَىءٍ...١٥٩﴾... سورة الانعام"
قرار دیتا ہے۔
لوگ تفرقہ بازی کے چکروں سے اجتناب کرتے ہوئے اعتقاداً و عملاً سنّت و حدیث کو اپناتے تو صحیح مسلمانی کا نمونہ پیش کرتے۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ اہل سنت اور اہل حدیث نام کی ان تحریکوں کا تاریخی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ فکری اور اجتہادی سلامتی کی غرض سے ہی اُٹھی تھیں اور دونوں کا مطمح نظر یہ تھا کہ اعتقادی اور فقہی طور پر اُمّت انتشار کا باعث نہ ہو، افسوس کہ آج یہی نام تفریقِ اُمّت کا سبب ہیں۔
زیر نظر چند اعتراضات اور ان کے جوابات پر مشتمل ہے۔ ادارہ کے نام، تحریری جوابات لکھنے والے ہمارے محترم لکھتے ہیں کہ یہ سوالات کافی عرصہ سے میرے پاس آئے ہوئے تھے، لیکن عدیم الفرضی، پھر سائل کی کئی لغویات کی وجہ سے بھی، جوابات نظر انداز کرتا رہا۔ واقعی سوالات مفروضوں پر مبنی ہیں، لیکن ایسی غلط فہمیوں کا ازالہ اس لحاظ سے بعض دفعہ مفید بھی رہتا ہے کہ متعصب لوگوں کی طرف سے ایسی غلط فہمیاں عام پھیلائی جاتی ہیں اور ان سے کچھ مخلص اور پڑھے لکھے لوگ بھی متاثر ہو جاتے ہیں۔ اس طرح نفرت کے جذبات بڑھ کر مزید انتشارِ امت کا سبب بنتے ہیں۔ (ادارہ)
اعتراض

1. کسی کا اہل حدیث ہونا یا عامل بالحدیث ہونا ایسا ہی ناممکن ہے جیسے دو نقیضیں یا دو ضدیں جمع ہونا ناممکن ہے۔
حدیث کے لغوی معنی ہیں بات، گفتگو یا کلام۔ قرآنِ پاک میں ربِّ زوالجلال فرماتے ہیں:
''قرآن کے بعد کون سی بات پر ایمان لائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے اچھا کلام نازل فرمایا۔ بعض لوگ وہ ہیں جو کھیل کی باتیں و ناول قصے خریدتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کی راہ سے بہکا دیں۔''
اس تیسری آیت میں ناول قصے کہانیوں کو حدیث فرمایا گیا ہے۔ اصطلاحِ شریعت میں حدیث اس کلام کا نام ہے جس میں حضور سید عالم ﷺ کے اقوال یا (۲) اعمال، اسی طرح صحابہؓ کرام کے اقوال و اعمال (۳) بیان کیے جاویں۔
عامل بالحدیث فرقہ سے سوال ہے کہ تم کون سی حدیث پر عامل ہو؟ لغوی پر یا اصطلاحی (۴)پر ؟ اگر لغوی حدیث پر عامل ہو تو چاہئے کہ ناول گو، قصہ خواں اہل حدیث ہو کہ وہ ''حدیث'' یعنی باتیں کرتا ہے۔ ہر سچی جھوٹی بات پر عمل کرتا ہے اور اگر اصطلاحی حدیث پر عامل ہو تو پھر سوال یہ ہو گا کہ ہر حدث پر عامل ہو یا بعض پر (۵)؟ اول تو غلط (۶) ہے کیونکہ حضور (۷) کے کسی نہ کسی فرمان پر ہر شخص ہی عامل ہے۔ حضور فرماتے ہیں سچ نجات دیتا ہے، 'جھوٹ ہلاک کرتا ہے۔ ہر مشرک و کافر اس کا قائل ہے' وہ سب ہی اہل (۸) حدیث ہو گئے۔ تم حنفی (۹)، شافعی، مالکی اور حنبلی مسلمانوں کو اہل حدیث کیوں نہیں مانتے۔ یہ تو ہزار ہا حدیثوں پر عمل کرتے ہیں اور اگر اہل حدیث کے معنی (۱۰) ہیں، حضور کی ساری حدیثوں پر عمل کرنے والے تو یہ ناممکن ہے۔ کیونکہ بعض حدیثیں منسوخ (۱۱) ہیں اور بعض ناسخ۔ بعض حدیثوں میں حجور ﷺ کے وہ خصوصی (۱۲) اعمال شریف بیان ہوئے ہیں جو حضور ﷺ کے لئے مباح یا فرض تھے، ہمارے لئے حرام ہیں۔ جیسے منبر (۱۳) پر نماز پڑھنا، اونٹ پر طواف فرمانا، حضرت حسین سید الشہداء رضی اللہ عنہ کے لئے سجدہ دراز فرمانا، حضرت امام بنت ابی العاص کو کندھے پر لے کر نماز پڑھنا، نو بیویاں نکاح میں رکھنا، بغیر مہر نکاح ہونا، ازواج میں عدل و مہر واجب نہ ہونا۔
بلکہ حدیث سے ثابت ہے کہ حضور ﷺ کلمہ یوں پڑھتے تھے:
لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہُ (۱۴) اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہ (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں)
غیر مقلد اسی حدیث پر عمل کر کے اس طرح (۱۵) کلمہ کا ورد کریں۔
غرضیکہ حدیث میں حضور ﷺ کے ایسے اقوال و اعمال بھی ذکر ہیں جو حضور ﷺ کے لئےکمال ہیں اور ہمارے لئے کفر (۱۶)۔
اسی طرح حضور ﷺ کے وہ افعالِ کریمہ جو نسیان (۱۷) یا اجتہادی خطا سے سرزد ہوئے، حدیث (۱۸) میں مذکور ہیں۔ غیر مقلدوں کو چاہئے کہ وہ ان پر بھی عمل کریں۔ ہر حدیث پر جو عامل ہوئے۔
بہرحال کوئی شخص ہر حدیث پر عمل نہیں کر سکتا (۱۹)۔ جو اس معنے میں اپنے کو اہل حدیث یا عامل بالحدیث کہے وہ جھوٹا ہے۔ جب نام میں ہی جھوٹ ہے تو اللہ کے فضل سے کام بھی سارے کھوٹے ہی ہوں گے۔
اسی لئے حضور ﷺ نے فرمایا، ''لازم پکڑو میری اور خلفاء راشدین کی سنت (۲۰) کو۔'' یہ نہ فرمایا کہ میری حدیث (۲۱) کو لازم پکڑو۔ کیونکہ ہر حدیث لائقِ عمل نہیں، ہر سنت (۲۲) لائقِ عمل ہے۔
حضور کے وہ اعمالِ طیبہ جو منسوخ بھی نہ ہوئے ہوں، حضور سے خاص بھی نہ ہوں، خطاءً، نسیاناً بھی سرزد نہ ہوں بلکہ امت کے لئے لائقِ عمل ہوں، انہیں سنت (۲۳) کہا جاتا ہے۔ لہٰذا ہمارا نام اہل سنت (۲۴) بالکل حق اور درست ہے کہ ہم بفضلہ تعالیٰ حضور ﷺ کی ہر سنت پر عامل ہیں۔ اہل حدیث نام بالکل غلط ہے کیونکہ ہر حدیث پر عمل ناممکن ہے۔
اب حدیثوں کی یہ چھانٹ کہ کون سی حدیث منسوخ (۲۵) ہے، کون سی محکم۔ کونسی حدیث حضور کے خصائص میں سے ہے اور کون سی سب کی اتباع کے لئے، کون سا فعل اقتداء کے لئے ہے اور کون سا نہیں، کس فرمان کا کیا منشا ہے، کس حدیث سے صراحتہً کیا مسئلہ ثابت ہے اور کس سے اشارۃً، کون سا دلالۃً، کون اقتضاءً۔ یہ سب کچھ امام مجتہد ہی بتا سکتا ہے، ہم جیسے عوام وہاں تک نہیں پہنچ سکتے۔ جیسے قرآن پر عمل کرانا حدیث کا کام ہے ایسے ہی حدیث پر عمل کرانا امام مجتہد کا کام ہے۔ یوں سمجھو کہ حدیث شریف رب تک پہنچنے کا راستہ ہے۔ اور امام مجتہد اس راستہ کا توڑ۔ جیسے بغیر روشنی راہ طے نہیں ہوتی، بغیر امام مجتہد حضور ﷺ کی سنتوں پر عمل ناممکن ہے۔ اسی لئے علماء فرماتے ہیں:
''بغیر مجتہد قرآن و حدیث گمراہی کا باعث ہیں۔''
رب تعالیٰ قرآنِ کریم کے متعلق فرماتا ہے:
''(اللہ تعالیٰ) قرآن کے ذریعے بہت کو گمراہ کرتا ہے اور بہت کو ہدایت دیتا ہے۔''
چکڑالویؔ اس لئے گمراہ ہیں کہ وہ قرآن شریف کو بغیر (۲۶) حدیث کے نور کے سمجھنا چاہتے ہیں۔ براہِ راست رب تک پہنچتے ہیں۔ غیر مقلدؔ اس لئے راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں کہ یہ حدیث کو بغیر علم کی روشنی اور بغیر امام (۲۷) مجتہد کے نُور کے سمجھنا چاہتے ہیں۔ مقلدین اہل (۲۸) سنت کا بیڑا پار ہے (ان شاء اللہ) کہ ان کے پاس کتاب اللہ بھی ہے، سنتِ رسول اللہ بھی اور سراجِ امت امامِ مجتہد کا نُور بھی۔
خلاصہ یہ کہ اہل حدیث بننا ناممکن اور جھوٹ، اور اہل سنت بننا حق اور درست ہے۔ اہل سنت وہی ہو سکے گا جو کسی امام کا مقلّد ہو گا۔ قیامت کے دن رب تعالیٰ اپنے بندوں کو اماموں (۲۹) کے ساتھ پکارے گا۔ (قرآن حکیم)
خیال رہے کہ قرآن و سنت کا سمندر ہم مقلّد بھی عبور کرتے ہیں اور غیر مقلد وہابی بھی۔ لیکن ہم تقلید (۳۰) کے جہاز کے ذریعہ سے جس کے ناخدا حضرت امام اعظم ابو حنیفہ (۳۱) رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ان کی ذمہ داری (۳۲) پر سفر کر رہے (۳۳) ہیں، لہٰذا ہمارا بیڑا پار ہے اور غیر مقلدّ وہابیوں کا انجام غرقابی ہے کیونکہ وہ خود اپنی ذمہ داری پر (۳۴) اس سمندر میں چھلانگ لگا رہے ہیں۔
الجواب:

عامل بالحدیث ہونا ممکن بلکہ ضروری ہے
1. یہ آپ کی غلط فہمی ہے ورنہ اہل حدیث اور عامل بالحدیث ہونا عین ممکن ہے کیونکہ نبی ﷺ کی اتباع اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دی ہے اور اللہ تعالیٰ تکلیف مالا یطاق کو یعنی غیر ممکن کو فرض قرار نہیں دیتے اور نبی ﷺ جن کی شان ﴿عَزيزٌ عَلَيهِ ما عَنِتُّم حَر‌يصٌ عَلَيكُم بِالمُؤمِنينَ رَ‌ءوفٌ رَ‌حيمٌ ١٢٨﴾... سورة التوبة" ہے، امت کے لئے غیر ممکن بلکہ حتی الامکان مشکل بھی پسند نہیں فرماتے۔ پھر حدیث جو آپ ﷺ کے اقوال، اعمال، احوال اور تقریرات کا نام ہے، پر عمل کرنا اور اہل حدیث ہونا ناممکن کس طرح ہوا؟ یہ تو بزعم آپ کے اللہ نے نقیضین اور ضدّین کو جمع کر دیا، حالانکہ یہ ذی عقل سے محال ہے۔ نیز جب یہ مسلمہ بات ہے کہ دین کے چار ادلّہ ہیں یعنی قرآن، حدیث، اجماع اور صحیح قیاس، اور چاروں کی اتباع امت کے لئے فرض ہے، تو پھر عمل بالحدیث غیر ممکن کس طرح ہوا، جب کہ اس کی اتباع فرض ہے؟
نیز یہ مسلمہ امر ہے کہ حدیث قرآن کی تفسیر ہے، جب قرآن پر عمل ممکن اور فرض ہے تو تفسیر (حدیث) پر کیوں ممکن اور فرض نہیں؟
نیز وحی کی دو قسمیں ہیں ''متلوّ'' یعنی قرآن اور ''غیر متلو'' یعنی حدیث اور دین کے معاملہ میں اللہ نے اپنے نبی کا ذمہ لیا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے نہیں بولتے بلکہ جو بولتے ہیں وہ وحی ہوتی ہے:﴿وَما يَنطِقُ عَنِ الهَوىٰ ٣ إِن هُوَ إِلّا وَحىٌ يوحىٰ ٤﴾... سورة النجم" تو ایک وحی (قرآن) کی اتباع فرض ہو اور دوسری وحی (حدیث) کی اتباع ناممکن ہو، عقل کے خلاف ہے۔ لہٰذا اہلحدیث ہونا اور عامل بالحدیث ہونا عین ممکن ہے، چنانچہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور سلف صالحین پورے عامل بالحدیث تھے اور یہ بات تاریخ دانوں پر مخفی نہیں۔ ہاں آپ کو معلوم نہ ہو تو یہ آپ کے علم کا قصور ہے۔
نیز اس دعوےٰ میں کہ آپ ﷺ کی ساری حدیثوں پر عمل کرنا ناممکن ہے، آپ منفرد ہیں آپ سے پہلے کسی شخص نے یہ دعویٰ نہیں کیا اور ناممکن ہونے کے جو وجوہ آپ نے بیان کئے ہیں اس میں بھی آپ منفرد ہیں، کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ ''چونکہ بعض حدیثیں منسوخ ہیں اور بعض خاصے وغیرہ ہیں لہٰذا ساری حدیثوں پر عمل کرنا ناممکن ہے۔''
2. حدیث کی تین قسمیں ہیں: قولی، فعلی اور تقریری، آپ نے صرف قولی اور فعلی کا ذکر کیا ہے لیکن تقریری چھوڑ گئے ہیں جو آپ کی کم علمی پر دالّ ہے۔
3. صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے اقوال و اعمال موقوف حدیث کہلاتے ہیں، ان پر عمل اس وقت جائز ہے جب کہ صحیح مرجوع حدیث کے خلاف نہ ہوں، مخالفت کی صورت میں ان پر عمل کرنا جائز نہیں کیونکہ انسانوں میں سے دین کے معاملہ میں صرف نبی ﷺ ہی معصوم ہیں باقی سب سے غلطی ممکن ہے چنانچہ ''المجتھد یخطی ویصیب'' سب کا مسلمہ ہے کہ مجتہد غلطی بھی کرتا ہے اور گاہے صحیح بھی کہتا ہے۔ مثلاً عبد اللہ بن مسعودؓ بوقت رکوع تطبیق کرتے تھے یعنی گھٹنوں میں ہاتھ رکھتے تھے اور معوذ تین کو قرآن کی سورتیں نہیں مانتے تھے بلکہ آنحضرت ﷺ کی دعائیں خیال کرتے تھے۔ چونکہ یہ دونوں باتیں ان کی، صحیح مرفوع حدیث کے خلاف ہیں، لہٰذا ان کا ماننا جائز نہیں۔
4. ہم اہلحدیث اصطلاحی حدیث پر عامل ہیں، لہٰذا ناول گو اور قصہ خواں اہلِ حدیث نہیں کہلا سکتے کیونکہ وہ لغوی حدیث پر عامل ہیں۔
5. ہم اہل حدیث کل احادیث مرفوعہ صحیحہ قابلِ عمل پر عامل ہیں، لہٰذا ہم اہلحدیث ہیں۔
6. جب سب حدیثوں پر عمل ممکن ہے بلکہ فرض جیسا کہ میں ثابت کر چکا ہوں، تو پھر غلط کس طرح ہوا۔
7. یہاں دلیل اور مدلول میں مطابقت نہیں، یعنی اول تو غلط ہے یعنی ''ہر حدیث پر عامل ہونا غلط ہے۔'' مدلول ہے اور ''کیونکہ حضور ﷺ کے کسی نہ کسی فرمان پر ہر شخص ہی عامل ہے۔'' دلیل ہے۔ ان میں مطابقت کس طرح ہوئی؟ یعنی دعویٰ یہ کہ ہر حدیث پر کوئی عامل نہیں ہو سکتا اور دلیل یہ ہے کہ آپ ﷺ کے کسی نہ کسی فرمان پر ہر شخص عامل ہے۔ کیا آپ ﷺ کے کسی نہ کسی فرمان پر ہر شخص کا عامل ہونا ہر حدیث پر عمل کرنے سے مانع ہے۔ فتفکر و تدبر
8. وہ سب اہل حدیث نہیں ہو سکتے جب تک کہ وہ حقیقتاً آپ ﷺ کی اتباع کے قائل نہ ہوں، کیونکہ وہ نبی کی اتباع اس حیثیت سے نہیں کرتے کہ آپ ﷺ نبی ہیں اور نبی کی اتباع فرض ہے، بلکہ جس فرمان میں ان کو اپنا کوئی فائدہ نظر آتا ہے اس پر عمل کر لیتے ہیں، اس لئے وہ اہل حدیث نہیں ہو سکتے۔
نیز اہل حدیث وہ ہے جو آپ کی تمام احادیث کا قائل ہو جیسا کہ میں اوپر بیان کر آیا ہوں۔ ہم اہل حدیث آپ ﷺ کی تمام حدیثوں کے قائل ہیں اگرچہ ہمارے عمل میں بھی قصور ہے لیکن ہم آپ ﷺ کی سب حدیثوں کے قائل ہیں اور سب کو واجب العمل جانتے ہیں۔ عمل میں قاصر ہونا اور عمل میں کوتاہی دوسری چیز ہے۔ فافہم
9. مقلدین اہل حدیث اس لئے نہیں کہ وہ حدیث کو تقلید کے آئینہ میں دیکھتے ہیں۔ اگر حدیث رائے امام کے مطابق ہو تو مانتے ہیں ورنہ نہیں۔ ان کا اصل مطاع و متبوع رائے امام ہے نہ کہ حدیث۔ اگر کسی وجہ سے ان کے امام کو حدیث نہیں پہنچی یا کسی وجہ سے ان کے امام نے حدیث پر عمل نہیں کیا تو وہ صحیح مرفوع قابلِ عمل حدیث کو چھوڑ دیں گے یا اس کی غلط سلط تاویل کر کے امام کے قول پر عمل کریں گے، اس لئے وہ اہل حدیث کہلانے کے مستحق نہیں۔ بایں ہمہ اگر وہ اہل حدیث کہلائیں تو ہمیں کوئی بخل بھی نہیں بلکہ ہمیں بڑی خوشی ہو گی مگر وہ خود ہی اہل حدیث کہلانے کو برا سمجھتے ہیں اور مقلد کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اور آپ کا بھی یہی حال ہے۔ جیسا کہ تحریرِ ہذا سے ظاہر ہے۔
ہاں ائمہ اربعہ بلکہ کل سلف متقدمین اہل حدیث تھے، نہ وہ کسی کے مقلد تھے نہ تقلید شخصی ان کا مذہب تھا۔ وہ قرآن و حدیث پر عمل واجب جانتے تھے لہٰذا وہ سب اہل حدیث تھے۔
10. ہاں اہلحدیث کے یہی معنی ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی کل احادیثِ صحیحہ مرفوعہ قابلِ عمل پر عمل کرنے والے، ورنہ اہل حدیث نہیں کہلا سکتے اور کل احادیث پر عمل کرنا ناممکن نہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔
11. اس طرح تو بزعم آ پ کے قرآن پر بھی عمل ناممکن ہو گا کیونکہ قرآن میں بھی ناسخ منسوخ موجود ہیں، پھر تو کوئی شخص بھی جنتی نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ سارے قرآن پر کسی نے عمل نہ کیا، پھر نجات کہاں؟
یہ آپ اپنی کم علمی اور ۔۔۔۔۔ کی بنا پر اعتراض کر رہے ہیں ورنہ اللہ کے علم میں ہر ایک حکم پر عمل کے لئے ایک وقت معین ہوتا ہے منسوخ پر قبل از نسخ عمل ہوتا ہے اور ناسخ پر بعد از نسخ۔ اس طرح سب پر عمل ہو گیا، کوئی بھی غیر عمل نہ رہا۔
12. جب آپ ان کو آپ ﷺ کا خاصہ مانتے ہیں تو دوسرے کو اس پر عمل کرنا جائز نہیں ہو گا کیونکہ خاصہ کی تعریف ہے: ''ما لا یوجد فی غیرہ'' نیز دوسرا ان کا مکلف ہی نہیں ہو گا کیونکہ وہ آپ ﷺ کا خاصہ ہے۔
پھر یہ بات بھی ہے کہ آپ ﷺ کے خاصے صرف حدیث میں ہی مذکور نہیں بلکہ بہت سے خاصے قرآن مجید میں بھی مذکور ہیں، مثلاً بیک وقت چار سے زائد ازواج مطہرات نکاح میں رکھنا، اور ان میں عدل و فرض نہ ہونا وغیرہ جیسا کہ سورہ احزاب میں مذکور ہے تو پھر بقول آپ کے سارے قرآن پر بھی عمل ناممکن ہو گیا۔ آپ نے سوچا تک نہیں، خواہ مخواہ اعتراض کرنے بیٹھ گئے۔
13. اس میں بھی آپ غلطی کھا رہے ہیں، منبر پر آپ نے ساری نماز ادا نہیں فرمائی چنانچہ مشکوٰۃ ص ۹۹ میں بحوالہ بخاری موجود ہے:
حاصل ترجمہ یہ ہے کہ جب منبر بنایا گیا تو آپ اس پر کھڑے ہوئے اور قبلہ کی طرف منہ کیا، لوگ آپ ﷺ کے پیچھے کھڑے ہوئے۔ پھر آپ ﷺ نے تکبیر تحریمہ کہی اور قرأت پڑھی اور رکوع کیا۔ لوگوں نے بھی آپ ﷺ کے پیچھے رکوع کیا۔ جب رکوع سے سر اُٹھایا تو پچھلے پاؤں لوٹے اور زمین پر سجدہ کیا اسی طرح دوسری رکعت میں بھی کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ نے ساری نماز منبر پر نہیں پڑھی، بلکہ رکوع کے بعد باقی نماز زمین پر پڑھی۔ پھر فرمایا یہ میں نے اس لئے کیا کہ تم میری اقتداء کرو اور نماز کا طریقہ سمجھ جاؤ۔
چنانچہ یہ تعلیم کے لئے اب بھی جائز ہے اور امام نوویؒ نے اس کے جواز کا باب منعقد کیا ہے، فرماتے ہیں:
باب جواز الخطوۃ والخطوتین فی الصلوٰۃ وانه لا کراھة فی ذلک اذا کان لحاجة وجواز صلوٰۃ الامام علی موضع ارفع من المامومین للحاجة کتعلیمھم الصلوٰۃ او غیر ذلک
یعنی یہ باب دو چیزوں کے بیان میں ہے، ایک تو نماز میں قدم دو قدم چلنا بلا کراہت جائز ہے جبکہ ضرورت کے لئے ہو، دوسرا امام کا مقتدیوں سے بلند جگہ پر کھڑا ہونا جائز ہے جبکہ تعلیمِ نماز وغیرہ کے لئے ہو۔
اور شرح میں لکھتے ہیں:
وفیه جواز صلوٰۃ الامام علي مضع الٰي من موضع المومنين ولٰكنه يكره ارتفاع الامام علي المامومين وارتفاع الماموم علي الامام بغير حاجة فان كان لحاجة بان اراد تعليمھم افعال الصلوٰة لم يكره بل يستحب لھذا الحديث (نووی جلد ۱ ص ۲۰۶)
یعنی امام کا تعلیم کے ارادہ سے بلند کھڑا ہونا جائز ہے بلکہ مستحب ہے جیسا اس حدیث سے ثابت ہے۔
اونٹ وغیرہ پر طواف بوقت ضرورت اب بھی جائز ہے اس کی ممانعت کہیں نہیں آئی، چنانچہ مشکوٰۃ کے حاشیہ میں ہے:
«واما انطواف راکبا لغیرہ جائز ایضا والافضل المشی» (لمعات مشکوٰۃ ص ۲۲۷)
یعنی آپ ﷺ کے علاوہ دوسرے شخص کے لئے بھی سوار ہو کر طواف کرنا جائز ہے۔ لیکن پیدل طواف کرنا افضل ہے۔
امام نوویؒ نے بھی لکھا ہے: باب جواز انطواف علی بعیر وغیرہ الخ
اس میں حضرت کے سواری پر طواف کرنے کے علاوہ حضرت امّ سلمہ کے سواری پر طواف کرنے کی حدیث بھی ذکر کی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
«عن ام سلمة انھا قالت شکوت الی رسول اللہ ﷺ انی اشتکی فقال طوفی من وراء الناس وانت راکبة الحدیث»
حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت ﷺ سے عرض کیا کہ میں بیمار ہوں تو آپ ﷺ نے فرمایا، ''سوار ہو کر طواف کر لے لیکن لوگوں کے پیچھے ہو کر'' (مسلم۔ ج ۱ ص ۴۱۳)
امام بخاریؒ نے بھی صحیح بخاری میں لکھا ہے: باب المریض یطوف راکبا اور دوسرا باب ادخل البعیر فی المسجد للعلة ان ہر دو ابواب میں یہ دونوں واقعے آنحضرت ﷺ نیز حضرت ام سلمہؓ کے سوار ہو کر طواف کرنے کے بیان کئے ہیں۔
بچے کی خاطر یا کسی اور سبب سے سجدہ یا نماز دراز کرنا یا ہلکی کرنا اب بھی جائز ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ:
''جب میں بچوں کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو نماز ہلکی کر دیتا ہوں کہ ان کی مائیں پریشان نہ ہوں۔'' چنانچہ مشکوٰۃ ص ۱۰۱ میں باب ما علی الماموم میں صاف حدیثیں موجود ہیں۔
اسی طرح جب کفار مکہ نے آپ ﷺ کی پشتِ مبارک پر اونٹ کی اوجھڑی ڈال دی تھی تو آپ ﷺ نے سجدہ دراز کیا۔ (مشکوٰۃ ص ۵۳۳)
علاوہ ازیں جب آپ ﷺ نے حسنؓ و حسینؓ کو گرتے پڑتے دیکھا تو خطبہ جمعہ چھوڑ کر منبر سے نیچے جا کر ان کو اُٹھا لائے اور فرمایا خدائے تعالیٰ نے ٹھیک فرمایا ہے کہ مال اور اولاد تمہارے لئے فتنہ ہیں:
جب میں نے ان دونوں بچوں کو گرتے پڑتے دیکھا تو صبر نہیں کر سکا حتیٰ کہ خطبہ چھوڑ کر ان کو اُٹھا لایا۔ (ترمذی، ابو داؤد، نسائی، مشکوٰۃ ص ۵۷۱)
غرض بچوں کی خاطر بہت کچھ جائز ہے۔ جب بچے کو اُٹھا کر نماز پڑھنا جائز ہے تاکہ بچہ پریشان نہ ہو، جیسا کہ آگے آرہا ہے، تو بچے کی خاطر سجدہ یا نماز دراز کرنا یا ہلکی کرنا کیوں کر منع ہو سکتا ہے؟
کندھے پر بچے کو اُٹھا کر نماز پڑھنا بوقت ضرورت اب بھی جائز ہے۔ چنانچہ امام نوویؒ نے صحیح مسلم میں ایک مستقل باب اس کے لئے منعقد کیا ہے فرماتے ہیں:
باب جواز حمل الصبیان فی الصلوٰۃ اور شرح میں فرماتے ہیں:
ففیه دلیل لصحة صلوٰة من حمل ادميا او حيوانا طائرا من طير وشاة وغيرھما
یعنی یہ باب اس بارہ میں ہے کہ بچے کو اُٹھا کر نماز پڑھنا جائز ہے اور شرح میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں دلیل ہے اس پر کہ جو شخص آدمی یا پاک حیوان اور جانور بکری وغیرہ اُٹھا کر نماز پڑھئے۔ اس کی نماز صحیح ہے اور مانعین کا سخت ردّ کیا ہے۔
آپ نووی جلد ۱ ص ۲۰۵ ملاحظہ فرمائیں، تسلی ہو جائے گی۔ ان شاء اللہ۔ اسی طرح بخاری میں ہے: باب اذا حمل جارية صغیرۃ علی عنقه فی الصلوٰۃ یعنی اس باب میں یہ بیان ہے کہ چھوٹے بچے کو اپنی گردن پر بٹھا کر نماز پڑھنا جائز ہے۔ آپ پتہ نہیں کس دنیا میں بستے ہیں کہ کچھ بھی خبر نہیں۔ جب آپ کے علم کا یہ حال ہے کہ جائز ناجائز کا علم نہیں تو اہلحدیث پر خوا مخواہ اعتراض کرنے بیٹھ گئے۔ پہلے علم تو پڑھ لیں پھر اعتراض بھی کر لیجئے گا۔
14. لا الٰه الا اللہ کی قرآن و حدیث میں مختلف صورتیں آئی ہیں، مثلاً لا اله الّا اللہ، لا الٰه الّا انت، لا الٰه الا ھو، لا الٰه الّا انا۔ انسان ہر طرح پڑھ سکتا ہے صرف آخری صورت یعنی لا اله الا انا نہیں پڑھ سکتا۔ کیونکہ انسان معبود نہیں ہے نہ اس کی عبادت جائز ہے۔ عبادت صرف خدائے واحد کا ہی حق ہے۔ لہٰذا خدا ہی لا الٰه الا انا کہہ سکتا ہے۔ انسان بلکہ ساری مخلوق نہیں کہہ سکتی۔
اسی طرح جز و دوم محمد رسول اللہ کی بھی کئی صورتیں آئی ہیں مثلاً محمد رسول الله، انك لرسول الله، انك لرسوله، ھو رسول الله اور اني رسول الله امت کے لئے پہلی سب صورتیں جائز ہیں، صرف آخری صورت انی رسول اللہ جائز نہیں۔ کیونکہ یہ رسول کا خاصہ ہے۔ آپ ﷺ رسول ہیں ہم رسول نہیں لہٰذا ہم انی رسول اللہ نہیں کہہ سکتے جس طرح آپ ہم سے کہتے ہیں کہ ہم انی رسول اللہ کا ورد کریں۔ اسی طرح ہم آپ سے عرض کرتے ہیں کہ آپ لا اله الّا انا کا ورد کریں کیونکہ وہ بھی قرآن مجید میں آیا ہے۔ جب آپ لا الٰه الّا انا کا ورد نہیں کرتے اور نہیں کر سکتے کیونکہ آپ معبود نہیں ہیں۔ معبود صرف خدا کی ذات ہے لہٰذا لا الٰه الّا انا وہی کہہ سکتا ہے۔ کیونکہ عبادت اسی کا حق ہے۔ اسی طرح ہم انی رسول اللہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ رسول کا خاصہ ہے اور ہم رسول نہیں ہیں۔ الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا۔
شرم و حیا ندامت اگر کہیں بکتی
تو ہم بھی لیتے اپنے مہربان کے لئے
15. ورد کے لئے آپ ﷺ نے لا اله الّا الله انّي رسول الله یا لا الٰه الّا الله محمّد رسول الله نہیں بتایا بلکہ وردکے لئے صرف لا اله الّا الله بتایا ہے جیسا کہ ارشاد ہے:
عن جابر قال قال رسول اللہ ﷺ افضل الذکر لا الٰه الا الله وافضل الدعاء الحمد لله رواه الترمذي وابن ماجة (مشكوٰة ص ۲۰۱)
یعنی جابرؓ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: سب ذکروں سے افضل لا الٰہ الا اللہ ہے اور سب دعاؤں سے افضل الحمد للہ ہے۔
دوسری حدیث میں ہے:
عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ ﷺ لان اقول سبحان الله والحمد لله ولا الٰه الا الله والله اكبر احب الي مما طلعت عليه الشمس، رواه مسلم (مشكوٰة ص ۲۰۰)
یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں سبحان اللہ والحمد للہ ولا اله الا اللہ واللہ اکبر کہوں تو مجھے ساری دنیا سے زیادہ محبوب ہے۔
تیسری حدیث میں ہے:
قال رسول اللہ ﷺ افضل الکلام اربع
اور ایک روایت میں ہے:
احب الکلام الی اللہ اربع سبحان اللہ والحمد للہ ولا اله الا اللہ واللہ اکبر۔ رواہ مسلم (مشکوٰۃ ص ۲۰۰)
یعنی آپ ﷺ نے فرمایا سب کاموں سے افضل میرے لئے سبحان اللہ والحمد للہ ولا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر کہنا ہے اور دوسری روایت میں ہے: سب کلاموں سے اللہ کو زیادہ محبوب چار کلمے ہیں۔ سبحان اللہ والحمد للہ ولا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر۔ اس کو مسلم نے روایت کیا۔ اسی طرح جب موسیٰؑ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کہ کہ یا اللہ مجھے کوئی ورد بتایا جائے جو میں کیا کروں:
فقال یموسیٰ قل لا الٰه الا الله فقال يا رب كل عبادك يقول ھٰذا انما اريد شيئا تخصني به الحديث وفي اخره لمالت بھن لا الٰه الا الله رواه في شرح السنة (مشكوٰة ص ۲۰۱)
تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے موسیٰ! لا الٰہ الا اللہ پڑھا کر، موسیٰؑ نے عرض کیا یا اللہ یہ تو سب لوگ پڑھتے ہیں۔ میں تو کوئی خاص وظیفہ چاہتا ہوں، تو اللہ نے فرمایا اے موسیٰ! اگر ساتوں آسمان اور ان کی آبادی، میری ذات کے علاوہ، اور ساتوں زمینیں ترازو میں ایک طرف رکھ دیئے جائیں اور لا الٰہ الّا اللہ دوسری طرف رکھ دیا جائے تو ان سب پر لا الٰہ الّا اللہ غالب آجائے۔
غرض ان سب حدیثوں میں اور ان کے علاوہ ورد کی سب حدیثوں میں آنحضرت ﷺ نے ورد کے لئے صرف لا الٰہ الا اللہ ارشاد فرمایا ہے۔ میری نظر سے کوئی ایسی حدیث نہیں گزری جس میں ورد کے لئے لا الٰہ الّا اللہ کے ساتھ ''محمد رسول اللہ'' یا ''انی رسول اللہ'' بھی آیا ہو اور صوفی لوگ بھی صرف نفی اثبات کا ہی ورد کراتے ہیں۔
پس جب کسی حدیث سے انی رسول اللہ یا محمد رسول اللہ ورد کے لئے ثابت ہی نہیں تو پھر آپ خواہ مخواہ اہل حدیث پر طعن کرتے ہیں کہ انی رسول اللہ کا ورد کیوں نہیں کرتے۔ یہ بھی آپ کی سراسر غلطی ہے۔ ہاں اگر آپ کسی صحیح مرفوع حدیث سے ثابت کر دیں کہ آپ ﷺ نے انی رسول اللہ یا محمد رسول اللہ کا ورد کرنے کا ارشاد فرمایا ہے تو ہم اہل حدیث فوراً مشکور ہوں گے اور اسی کا ورد کرنا شروع کر دیں گے۔ کیونکہ اہل حدیث کا مطلب ہی یہ ہے کہ حدیث پر ''عمل کرنے والے'' ورنہ وہ اہل حدیث کہلانے کے حقدار ہی نہیں رہیں گے۔
تنبیہ:
محدثین رحمہم اللہ اجمعین نے پورا کلمہ ''لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ'' کی احادیث کتاب الایمان میں ذکر کی ہیں جیسا کہ کتب حدیث مشکوٰۃ وغیرہ میں ہے اور ورد کے ابواب میں ذکر نہیں کیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب کوئی غیر مسلم مسلمان ہونا چاہئے تو اس کو پورا کلمہ ''لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ'' پڑھے بغیر چارہ نہیں کیونکہ توحید کے ساتھ رسالت کا اقرار بھی فرض ہے ورنہ مسلمان نہیں ہو سکے گا۔ ہاں ورد کے لئے آپ نے ''محمد رسول اللہ'' نہیں فرمایا، ویسے کوئی اپنی مرضی سے لا الٰہ الا اللہ کے ساتھ محمد رسول اللہ بھی پڑھ لے تو اس کی مرضی، ہم منع نہیں کرتے۔
16. آپ نے آپ ﷺ کے ایسے اعمال و اقوال کی کوئی ایک بھی مثال ایسی پیش نہیں کی جو آپ ﷺ کے لئے کمال ہو اور ہمارے لئے کفر۔ یہ آپ نے زبانی جمع خرچ ہی کیا ہے۔ آپ کوئی مثال پیش کرتے تو اس پر غور کیا جاتا۔ ممکن ہے مثال میں آپ روزہ وصال کو پیش کریں، تو جواب یہ ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے روزہ وال سے ہمیں خود منع کر دیا ہے تو معلوم ہوا کہ وہ آپ ﷺ کا خاصہ ہے۔ خاصہ آپ ﷺ کے ساتھ ہی خاص رہے گا ہمیں اس کی اجازت نہیں ہو سکتی، چنانچہ حدیث میں ہے عن ابی ھریرۃ قال نھی رسول اللہ ﷺ عن الوصال فقال رجل انک تواصل یا رسول اللہ قال وایکم مثلی ای ابیت یطعمنی ربی ویسقینی متفق علیه (مشکوٰۃ ص ۱۷۵)
یعنی ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے وصال کے روزہ سے منع فرمایا، ایک شخص نے کہا آپ ﷺ تو وصال فرماتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا تم مجھ جیسے نہیں ہو، یعنی تمہارا اور میرا مقام ایک نہیں، مجھے تو میرا رب رات کو کھلاتا پلاتا ہے

۔ (باقی آئندہ)

ماہنامہ محدث
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
قسط دوم
زیر نظر آرٹیکل میں جواباً تلخ نوائی تو کسی حد تک گوارا ہو سکتی ہے لیکن جوابات میں بعض جگہ عاملین بالحدیث کے متعلق بھی اجتہاد کے حریف 'فرقہ' ہونے کا احساس ہوتا ہے جو پیش کردہ حدیث 'وھی الجماعة (ما انا علیه واصحابی) کی صحیح تعبیر نہیں ہے۔ (ادارہ)
17. جب یہ ثابت ہو گیا کہ فلاں فعل یا قول نسیاناً یا اجتہادی غلطی سے سرزد ہوا ہے تو ہم اس کے مکلّف ہی نہیں اور ہمارے لئے وہ جائز ہی نہیں، بلکہ آپ ﷺ کا ارشاد ہےکہ اتباع کے بجائے مجھے غلطی یاد دلاؤ تاکہ میں وہ غلطی درست کر لوں۔ چنانچہ مشکوٰۃ میں ہے:
«عن عبد اللہ بن مسعود ان رسول الله ﷺ صلي الظھر خمسا فقيل له ازيد في الصلوٰة فقال وما ذاك قالوا صليت خمسا فسجد مسجدتين بد ما سلم وفي رواية قال انما انا بشر مثلكم انسي كما تنسون فذكروني» (الحديث)
یعنی عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے ظہر کی نماز پانچ رکعت پڑھا دی۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ کیا نماز میں زیادتی ہو گئی ہے؟ آپ ﷺ نے پوچھا، کیا بات ہے؟ لوگوں نے عرض کیا، آپ ﷺ نے پانچ رکعت نماز پڑھائی ہے۔ اس پر آپ ﷺ نے سہو کے دو سجدے کیے اور ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا تم جیسا بشر ہوں اور تمہاری طرح ہی بھول جاتا ہوں۔ جب بھول جاؤں، مجھے یاد دلایا کرو۔ اس کو بخاری، مسلم نے روایت کیا۔ (مشکوٰۃ ص 92)
اس حدیث میں آپ ﷺ نے اپنی غلطی کی اتباع کا حکم نہیں دیا بلکہ اس کی اصلاح کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ صحابہؓ نے جب یاد دلایا تو آپ ﷺ نے اپنی نماز کی اصلاح کر لی اور یہ ایک ہی دفعہ کا واقعہ نہیں ہے بلکہ کئی دفعہ ایسا ہوا، چنانچہ ایک دفعہ آپ ﷺ نے ظہر کی دو رکعت نماز پڑھائی، ذو الیدین کے یاد دلانے اور دیگر صحابہؓ کے تصدیق کرنے کے بعد باقی نماز پوری کی اور سجدہ سہو کیا۔ اس کو بخاری مسلم نے روایت کیا۔ اسی طرح آپ ﷺ نے ایک دفعہ عصر کی تین رکعت پڑھائیں اور گھر چلے گئے۔ ذو الیدین آپ ﷺ کے پاس گیا اور کہا تو آپ ﷺ غصہ سے چادر کھینچتے ہوئے آئے اور فرمایا کیا یہ سچ کہتا ہے؟ صحابہؓ نے کہا ہاں، تب آپ ﷺ نے ایک رکعت پڑھائی اور بعد از سلام سجدہ سہو کیا اس کو مسلم نے روایت کیا۔ (مشکوٰۃ ص 93)
ان واقعات سے ثابت ہواکہ آپ ﷺ کے وہ افعال جو آپ ﷺ سے نسیان یا اجتہادی خطا سے سر زد ہوئے ان کی اتباع کا ہمیں حکم نہیں۔ آپ خوا مخواہ ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ ہم ان پر ہی عمل کریں۔ یہ آپ کی کم عملی اور کم فہمی پر دال ہے۔ اس طرح ہر حدیث پر عمل ہو گیا کیوں کہ آپ ﷺ نے اپنی غلطی کی اصلاح کا حکم دیا ہے نہ کہ غلطی کی اتباع کرنے کا۔ آپ ہمیں حدیث سمجھنے کی تلقین کرتے ہیں اور خود حدیث میں کمزور ہیں۔
18. آپ صرف حدیث کا نام لیتے ہیں حالانکہ قرآن میں بعض اجتہادی غلطیاں اور نسیان مذکور ہیں چنانچہ اسارٰے بدر سے فدیہ لے کر چھوڑ دینا اور شہد اور لونڈی ماریہ قبطیہ کو اپنے اوپر حرام ٹھہرانا، جیسا کہ ارشاد ہے:
«لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللهُ لَكَ تَبْتَغِيْ مَرْضَاةَ اَزْوَاجِكَ»
یعنی اللہ تعالیٰ نے جو آپ کے لئے حلال کیا ہے اس کو اپنی ازواج مطہرات کو خوش کرنے کے لئے کیوں حرام کرتے ہیں؟
تو آپ کو چاہئے کہ ان میں بھی آپ ﷺ کی اتباع کریں اور شہد وغیرہ اپنے پر حرام ٹھہرائیں، جب آپ خود اس پر عامل نہیں تو ہم پر کیا اعتراض کرتے ہیں۔
19. بہرحال ہر حدیث پر عمل ہو سکتا ہے کیونکہ نبی ﷺ کی اتباع فرض ہے اور اسی سے خدا کی محبوبیت حاصل ہوتی ہے اور اسی میں دونوں جہان کی کامرانی ہے اور آپ ﷺ کی اتباع کا پورا علم حدیث کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ لہٰذا اس کی اتباع ممکن بلکہ فرض ہے۔ نیز حدیث دین کا ایک جزو ہے، یعنی شرع کے چار دلائل ہیں۔ قرآن مجید، حدیث شریف، اجماع امت اور صحیح قیاس، جیسا کہ پہلے بیان کر چکا ہوں اور ہر دلیل کی اتباع فرض ہے تو حدیث کی اتباع فرض ہے۔ جب حدیث کی اتباع فرض ہوئی تو ہر حدیث پر عمل کرنا عین ممکن ہوا کیونکہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے اور رؤف و رحیم ہے۔ اپنے کمزور بندوں پر تکلیف ما لا یطاق فرض نہیں کرتے۔
جیسا کہ ارشاد ہے:
﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفسًا إِلّا وُسعَها﴾ پھر خواہ مخواہ آپ ممکن کو ناممکن اور ضدین سمجھ رہے ہیں۔ یہ آپ کی کوتاہ علمی ہے۔ بر ایں عقل و دانش بباید گریست۔
جب ہر حدیث پر عمل ممکن ہے جیسا کہ صحابہؓ اور سلف صالحین نے کر کے دیکھا یا ہم اہل حدیث کرتے ہیں تو جو شخص اس معنی سے اپنے آپ کو اہل حدیث کہے، وہ بالکل سچا ہے اور یہ نام بھی بالکل درست ہے اور اس کے سارے کام بھی اللہ کے فضل سے درست اور مقبول ہیں کیونکہ وہ نبی ﷺ کے اعمال ہیں اور نبی ﷺ کے سارے اعمال مقبول اور کھرے ہیں اور جو صحیح حدیث کو چھوڑ کر یعنی نبی ﷺ کی اتباع سے اعراض کر کے کسی اُمتی امام معین کی رائے قیاس پر عمل کرے وہ گھاٹے اور دھوکے میں ہے۔ قیامت کو حسرت سے اپنے دونوں ہاتھ کاٹ کاٹ کر کھایا کرے گا اور اس کا کوئی علا نہ ہو سکے گا۔ چنانچہ قرآن مجید میں صاف ارشاد ہے:
﴿وَيَومَ يَعَضُّ الظّالِمُ عَلىٰ يَدَيهِ يَقولُ يـٰلَيتَنِى اتَّخَذتُ مَعَ الرَّ‌سولِ سَبيلًا ٢٧ يـٰوَيلَتىٰ لَيتَنى لَم أَتَّخِذ فُلانًا خَليلًا ٢٨ لَقَد أَضَلَّنى عَنِ الذِّكرِ‌ بَعدَ إِذ جاءَنى ۗ وَكانَ الشَّيطـٰنُ لِلإِنسـٰنِ خَذولًا ٢٩ وَقالَ الرَّ‌سولُ يـٰرَ‌بِّ إِنَّ قَومِى اتَّخَذوا هـٰذَا القُر‌ءانَ مَهجورً‌ا ٣٠﴾... سورة الفرقان
20. سنت کا معنیٰ 'طریقہ' بھی ہے اور 'حدیث' بھی۔ چنانچہ ابھی ذکر ہو گا۔ اگر آپ کی پیش کردہ حدیث میں سنت سے مراد 'طریقہ' لیں تو بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ طریقہ سے مراد آپ ﷺ کا حال اور عمل ہے اور آپ ﷺ کا حال اور عمل حدیث ہی کی ایک قسم ہے۔ یعنی فعلی حدیث، تو آپ ﷺ نے اس حدیث میں حدیث کے لازم پکڑنے کا ہی حکم دیا ہے۔ فافہم
اور اگر سنت سے مراد 'حدیث' لیا جائے تو بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ سنت کا معنیٰ حدیث بھی ثابت ہے، چنانچہ حدیث میں ہے:
«ترکت فیکم امرین لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب اللہ وسنة رسوله رواہ فی الموطا» (مشکوٰۃ ص ۳۱)
یعنی آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم ان دونوں کو مضبوط پکڑے رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے۔ ایک کتاب اللہ دوسری حدیثِ رسول اللہ۔
اس حدیث میں اور اس کے علاوہ اور بے شمار احادیث میں سنت سے مراد حدیث آیا ہے۔ اور نہایہ ابن الاثیر میں ہے:
قد تكرر في الحديث ذكر السنة وما تصرف منھا والاصل؛ فيھا الطريقة والسيره واذا اطلقت في الشرع فانما يراد بھا ما امر الله به النبي ﷺ ونھي عنه وندب اليه قولا مما لم ينطق بد الكتاب العزيز ولھذا يقال في ادلّة الشروع الكتاب والسنة القراٰن والحديث (جلد ۲، ص ۱۸۶)
یعنی لفظِ سنت کا ذکر احادیث میں بہت ہے اور لغوی معنیٰ اس کا طریقہ اور سیرت ہے لیکن جب شریعت میں سنت بولا جائے تو اس سے مراد آپ ﷺ کی حدیث ہوتی ہے۔ یعنی جو کتاب اللہ میں نہیں آیا۔ صرف آپ ﷺ نے اپنی زبان فیض ترجمان سے ارشاد فرمایا ہے۔ کسی چیز کا امر کیا ہے یا کسی چیز سے منع فرمایا ہے اسی واسطے ادلہ شرع میں کہا جاتا ہے کتاب و سنت، یعنی قرآن و حدیث۔
محدثین بھی 'سنت' بول کر 'حدیث' مراد لیتے ہیں جیسا کہ مشکوٰۃ وغیرہ میں ہے:
باب الاعتصام بالکتاب والسنة (مشکوٰۃ ص ۲۷)
اس پر مشکوٰۃ میں حاشیہ لکھا ہے:
«قوله السنة المراد بالسنة ھھنا اقواله عليه الصلوٰة والسلام وافعاله واحواله المعبر ھھنا بالشريعة والطريقة والحقيقة» (مرقاة۔ مشكوٰة ص ۲۷)
یعنی یہاں سنت سے مراد آپ ﷺ کے اقوال و احوال اور افعال ہیں جن کو دوسرے الفاظ میں شریعت، طریقت اور حقیقت کہتے ہیں۔
فقہاء حنفیہ بھی 'سنت' بول کر 'حدیث' مراد لیتے ہیں جیسا کہ نور الانوار میں ہے:
اعلم ان اصول الشرع ثلٰثة الكتاب والسنة واجماع الامة
یعنی اصل دلائل شرع کے تین ہیں۔ کتاب اللہ، حدیث اور اجماعِ امت۔
پس آپ کی مذکورہ بالا پیش کردہ حدیث میں سنت سے مراد حدیث ہو سکتی ہے تو آپ کی پیش کردہ حدیث ہی سے حدیث کا لازم پکڑنا ثابت ہو گیا، وھو عین المراد اور یہی مقصود ہے۔
21. آپ کی کم علمی کی حد ہو گئی۔ اگر آپ نے صرف مشکوٰۃ ہی پڑھی ہوتی تو یہ غلطی نہ کرتے کہ آپ ﷺ نے حدیث لازم پکڑنے کا حکم نہیں فرمایا۔ گوشِ ہوش سے سنو:
«عن ابی رافع قال قال رسول اللہ ﷺ لا الفین احدکم ستکئا علي اريكته ياتيه الامر من امري ھما امرت به او نھيت عنه فيقول لا ادري ما وجدنا في كتاب الله اتبعناه رواه احمد وابو داود والترمذي وابن ماجة والبيهقي في دلائل النبوة» (مشكوٰة ص ۲۹)
یعنی آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں کسی کو ایسا نہ پاؤں کہ وہ تخت پر مزے سے بیٹھے اور اس کو میرا کوئی امر یا نہی پہنچے اور وہ کہے میں کچھ نہیں جانتا۔ ہم تو جو کتاب اللہ میں پائیں گے اس کی اتباع کریں گے۔
«قوله لا ادري الخ اي لا اعلم غير القراٰن والمعني لا يجوز الاعراض عن حديثه ﷺ لان المعرض عنه معرض عن القراٰن»
یعنی میں غیر قرآن کو نہیں جانتا۔ اس حدیث کا معنیٰ یہ ہے کہ حدیثِ رسول ﷺ سے منہ پھیرنا قطعاً جائز نہیں کیونکہ حدیث سے منہ پھیرنا قرآن سے منہ پھیرنا ہے۔ کیوں صاحب!! اس حدیث میں حدیث لازم پکڑنے کا امر ہے یا نہیں؟ اور ملاحظہ فرمائیے:
«عن المقدام بن معد يكوب قال قال رسول الله ﷺ الا اني اوتيت القراٰن ومثله معه الا يوشك رجل شبعان علي اريكته يقول عليكم بھذا القراٰن فما وجدتم فيه من حلال فاحلوه وما وجدتم فيه من حرام فحرموه وان ما حرم رسول الله كما حرم الله الا لا يحل لكم الحمار الاھلي ولا كل ذي ناب من السباح الحديث رواه ابو داؤد والدارمي وابن ماجة »(مشكوٰة ص ۲۹)
یعنی مقدامؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے قرآن اور اس کے ساتھ اس کی مثل بھی دیا گیا ہے یعنی مجھے صرف قرآن ہی نہیں بلکہ قرآن کے ساتھ حدیث بھی خدا کی طرف سے ملی ہے جس کی اطاعت قرآن کی طرح فرض ہے۔ ممکن ہے کوئی شکم سیر آدمی اپنے تخت پر بیٹھا کہے کہ اس قرآن کو لازم پکڑو جو اس میں حلال پاؤ حلال جانو اور جو حرام پاؤ حرام جانو۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ کا حرام کردہ اسی طرح حرام ہے۔ جیسے اللہ نے خرام کیا خبردار گدھا اہلی اور ہر درندہ جو راشکی سے شکار مارتا ہے حرام ہے۔
اس قسم کی بیسیوں حدیثیں ہیں جن میں حدیث لازم پکڑنے کا امر موجود ہے مگر کہاں تک نقل کروں مضمون طویل ہو جائے گا۔ عاقل کو اشارہ ہی کافی ہے۔
22. بزعم آپ کے ہر سنت بھی لائق نہیں مثلاً پہلے آپ کی یہ سنت تھی کہ نماز میں سلام کا جواب دیتے تھے، بعد میں سلام کا جواب دینا چھوڑ دیا۔ اسی طرح پہلے آپ ﷺ رکوع میں تطبیق کرتے تھے پھر اسے چھوڑ کر زانوؤں پر ہاتھ رکھنے لگے۔
اگر ہر سنت لائق عمل ہے تو آپ نماز میں سلام کا جواب دیں اور رکوع میں تطبیق کریں۔ معلوم ہوا کہ اہل سنت بھی ساری سنتوں پر عمل نہیں کر سکتے۔
23. یہ آپ کی غلطی ہے، ہر سنت سنت ہے خواہ سنتِ منسوخہ ہو یاناسخہ، سنت منسوخہ پر بعد از فسخ عمل جائز نہیں۔ ناسخہ پر عمل کرنا لازم ہے۔
24. آپ کا نام اہل سنت بالکل غلط ہے جس طرح بزعم آپ کے اہل حدیث ہر حدیث پر عمل نہیں کر سکتے کیونکہ کوئی حدیث منسوخ ہے، کوئی خاصہ وغیرہ ہے تو اسی طرح آپ بھی ہر سنت پر عمل نہیں کر سکتے کیونکہ کوئی سنت منسوخہ ہے، کوئی خاصہ وغیرہ ہے تو آپ کا اہل سنت نام کس طرح صحیح ہوا جب کہ ساری سنتوں پر آپ کا عمل نہیں۔
اور اہل حدیث نام بالکل صحیح ہے کیونکہ وہ ہر حدیثِ اصطلاحی پر عمل کرتے ہیں اور آپ ﷺ کی ہر حدیث قولی، فعلی، تقریری کو واجب العمل جانتے اور مانتے ہیں۔ برخلاف اس کے آپ سنت یعنی صرف فعلی حدیث کو مانتے ہیں اور قولی تقریری حدیث کے منکر ہیں، جیسا کہ آپ کی اس تحریر سے ظاہر ہے تو آپ مطیعِ رسول ہوئے یا نافرمان۔ اللہ تعالیٰ نے تو نبی ﷺ کے ہر قول، فعل اور تقریر کی اطاعت فرض کی ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:
﴿مَن يُطِعِ الرَّ‌سولَ فَقَد أَطاعَ اللَّهَ﴾ ﴿قُل إِن كُنتُم تُحِبّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعونى﴾ ﴿وَما ءاتىٰكُمُ الرَّ‌سولُ فَخُذوهُ وَما نَهىٰكُم عَنهُ فَانتَهوا﴾
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کی مطلقاً اتباع فرض کی ہے۔ آپ ﷺ کے قول و فعل تقریر ہر چیز کی اتباع فرض قرار دی ہے۔ مگر آپ ہیں کہ ''سنت'' یعنی آپ کے صرف فعل کی اطاعت کرتے ہیں۔ باقی سب کے تارک ہیں۔ یہ اطاعتِ رسول ہے یا نافرمانی رسول؟ زبانی محبتِ رسول کے بلند بانگ دعوے اور حال یہ؟ ......... اللہ عزوجل کابہت بڑا شکر ہے کہ اس نے اپنے فضل و کرم سے ہم اہلحدیث کو نبی ﷺ کی پوری اتباع نصیب کی اور نبی کی ہر ادا اور ہر ارشاد، امر اور نہی اور تقریر پر عمل نصیب فرمایا وما ھو علی اللہ بعزيز. الحمد لله الذي ھدٰنا لھذا وما كنا لنھتدي لو لا ان ھدٰنا الله.
25. یہ سب باتیں جو آپ نے اس عبارت میں بیان کی ہیں، امام صاحب نے کہاں اور کسی کتاب میں لکھی ہیں؟ کیا امام صاحب کی دنیا میں کوئی تصنیف ہے بھی، ایک فقہ اکبر کے متعلق مشہور ہے کہ آپ کی تصنیف ہے، نہ معلوم وہ بھی آپ کی تصنیف ہے یا کسی شاگرد کی؟
﴿وَيُحِبّونَ أَن يُحمَدوا بِما لَم يَفعَلوا﴾ کچھ نہ کرنے پر ہی خوشامد اور مدح کے طالب ہیں۔
امام صاحبؒ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے حدیث میں کمزور ہونے کے باعث رائے و قیاس کا دروازہ کھولا۔ اس سے کچھ فائدہ بھی ہوا لیکن فائدہ سے نقصان زیادہ ہوا کہ امت کا ایک جمِ غفیر اتباع رسول سے منہ موڑ کر ان کا مقلد بن گیا۔ اگرچہ امام صاحب رحمہ اللہ اس میں دیگر ائمہ کی طرح بے قصور ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی تقلید سے منع کر دیا تھا لیکن بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے سوال کرے جیسے عیسیٰؑ سے کرے گا ﴿ءَأَنتَ قُلتَ لِلنّاسِ اتَّخِذونى وَأُمِّىَ إِلـٰهَينِ مِن دونِ اللَّهِ﴾ اے عیسٰے! کیا تو نے کہا تھا مجھے اور میری ماں کو خدا بنا لو۔ اس سوال سے عیسٰے کے ہر بنِ مُو سے خوف کے مارے خون نکل پڑے گا۔
جملہ ائمہ و محدثین مالک، شافعی، احمد بن حنبل وغیرہم رحمہم اللہ اجمعین نے بے شمار کتب تصنیف کر کے امت پر بے حد و حساب احسان کیا ہے۔ ان کا آپ نام تک نہیں لیتے اور جن کی ایک تصنیف بھی نہیں' صرف ان کے مداح ہیں۔ کیا یہ انصاف ہے؟﴿وَإِذا حَكَمتُم بَينَ النّاسِ أَن تَحكُموا بِالعَدلِ﴾
26. مقلدین حضرات سے بریلویوں نے تو بزرگوں کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھ کر ان کو پکارنا اور ان سے امداد طلب کرنا شروع کر دیا اور دیو بندیوں نے سب ائمہ کو چھوڑ دیا اور صرف امام ابو حنیفہؒ کی تقلید پر قانع ہو گئے اور ان کے احترام میں اس قدر غلو کیا کہ ان کو حرام و حلال کا مالک سمجھ بیٹھے، جس کو وہ حلال کہیں حلال اور جس کو حرام کہیں حرام جانا۔ لیکن اہلحدیث نے سب ائمہ و علماء مجتہدین کو بیک نظر دیکھا اور ان کا پورا احترام کیا اوران کی ہر صحیح بات کو جو قرآن و حدیث کے خلاف نہ ہو، مانا۔ ان میں سے نہ کسی کی محبت میں غلو کیا نہ کسی کو چھوڑا سب کو آسمان کے ستارے اور ہدایت کے چراغ سمجھا:
فتلک آباءی فجئنی بمثلھم یعنی یہ سارے ہمارے بزرگ ہیں ان جیسے کوئی لا کر دکھائے۔
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہم اہلحدیث کو راہِ اعتدال نصیب فرمائی اور دعا ہے:
آں امامانِ کر دند اجتہاد رحمت حق بر روانِ جملہ باد
یہاں آپ کو لفظ 'حدیث' کے بجائے لفظ 'سنت' لکھنا چاہئے تھا کیونکہ آپ تو سنت کو مانتے ہیں نہ کہ حدیث کو۔
27. امام صاحب تقریباً ایک صدی بعد پیدا ہوئے ہیں اور کچھ عرصہ 40-50 سال تعلیم و تعلم میں صرف ہوئے ہوں گے تب کہیں امامت کے مقام پر پہنچے ہوں گے۔ سو اس ڈیڑھ صدی کے مسلمانوں نے بغیر امام مجتہد کے نور کے حدیث سمجھی تھی یا نہیں اور وہ ناجی ہوئے یا ان کا انجام غرقابی ہے؟
فتفکر ولا تکن من المعتدین......!
امام صاحب حدیث کیا سمجھائیں گے؟ جب کہ ان کے علمِ حدیث کا یہ حال ہے کہ صحاح ستہ میں ان سے کوئی ایک حدیث بھی مروی نہیں نہ ان کی کوئی حدیث کی کتاب ہے۔
28. اپنے منہ میاں مٹھو بننا اور اپنی تعریف خود کرنا اور بغیر ثبوت و دلیل دعوے پر دعوے کیے جانا انسانیت نہیں ہے۔
29. اماموں سے مراد انبیاء علیہم السلام ہیں، چنانچہ تفسیر جلالین ص ۲۳۴ میں ہے:
یوم ندعو کل اناس بامامھم بنبيھم فيقال يا امة فلان او بكتاب احمالھم فيقال يا صاحب الخير يا صاحب الشر
یعنی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے انبیاء کے نام سے پکاریں گے یعنی فرمائیں گے، اسے فلاں نبی کی امت یا امام سے مراد اعمال نامے ہیں کیونکہ امام کے معنی کتاب بھی آتے ہیں۔
جیسا کہ سورہ یٰسین میں ہے:
﴿وَكُلَّ شَىءٍ أَحصَينـٰهُ فى إِمامٍ مُبينٍ ﴿١٢﴾... سورة يس" سو آپ کا یہ فرمانا کہ اہل سنت وہی ہو سکے گا جو کسی امام کا مقلد ہو گا غلط ہو گیا بلکہ اہل سنت وہ ہو گا جو آپ کی کل حدیثوں پر عمل کرے گا جیسے ہم اہل حدیث کا عقیدہ ہے۔ اسی طرح جامع البیان میں ہے، لہٰذا آپ کا اس آیت سے امام ابو حنیفہؒ مراد لینا غلط ثابت ہوا، آپ یونہی پھولے پھرتے ہیں اور صحیح مطلب کا پتہ ہی نہیں۔ نہ حدیث دیکھتے ہیں نہ تفسیر، زبانی زبانی ہی سب کچھ بنا رکھا ہے۔
30. ہم اہلِ حدیث محمدی ﷺ جہاز پر سوار ہیں اور ہمارے ناخدا سید الکونین امام الانبیاء ختم الرسل ہیں، جن سے بہتر کوئی ناخدا ممکن ہی نہیں۔ مقلدین، جہازِ محمدی چھوڑ کر تقلید کی کمزور کشتی پر سوار ہو گئے ہیں۔ جس کا نا خدا ایک امتی ہے جو خطا اور غلطی سے معصوم نہیں:
المجتھد یخطی ویصیب مجتہد سے غلط اور صحیح دونوں کا امکان ہے۔ آپ ہی کا مسلمہ ہے۔
چنانچہ امام صاحبؒ کا اپنی زندگی میں بہت سے مسائل سے رجوع کرنا ثابت ہے۔ یہ دلیل ہے اس کی کہ امام صاحبؒ سے خطائیں ہوئی ہیں اور امام صاحب نے خود ثابت کر دیا کہ میرے پہلے مسائل غلط ہیں اور نئے صحیح ہیں۔ یہ اچھی ذمہ داری ہے؟
سو مقلدین کا انجام غرقابی ہونا ممکن ہے نہ کہ اہلحدیث کا۔ کیونکہ ان کے نا خدا امام ابو حنیفہؒ مجتہد ہیں جو غلطی بھی کر سکتے ہیں۔ لہٰذا ان کی کشتی ڈوبی کہ اب ڈوبی۔ نیز امام ابو حنیفہؒ کی تخصیص کس آیت یا حدیث میں آئی ہے؟
34. غلط کہتے ہو، اہلحدیث تو سید الکونین فداہ ابی وامی ﷺ کی ذمہ داری پر سفر کر رہے ہیں۔ لہٰذا ان کو کئی خطرہ لاحق نہیں ہو سکتا۔ جس کشتی کا نا خدا محمد (ﷺ) ہو اس کا پار لگنا ناگزیر ہے۔ یہ ہمارا اٹل عقیدہ ہے اور اگر آپ آنحضرت ﷺ کے علاوہ کسی نا خدا کی تلاش میں ہیں تو یہ آپ کی عقل کا فتور ہے۔
تنبیہ:
اب میں آخر میں ایک دو حدیثیں ایسی ذکر کرتا ہوں جن سے آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اہلحدیث رسول اللہ ﷺ کے زمانہ سے موجود ہیں اور قیامت تک رہیں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے:
«باب قول النبی ﷺ لا تزال طائفة من امتی ظاھرین علی الحق یقاتلون وھم اھل العلم»
یعنی آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ غالب رہے گا اور حق پر لڑتا رہے گا۔
امام بخاریؒ نے فرمایا کہ 'اس گروہ سے مراد اہلِ علم ہیں۔'
اور امام بخاریؒ کے استاذ امام علی بن مدینی نے فرمایا، 'اس سے مراد اہل حدیث کا گروہ ہے۔'
میں کہتا ہوں، 'امام بخاریؒ کی اہل علم سے مراد بھی اہل حدیث ہی ہے کیونکہ اصل حدیث ہی ہے۔'
اور مشکوٰۃ میں بحوالہ ترمذی مذکور ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
''بنی اسرائیل بہتر ۷۲ فرقے ہو گئے تھے۔ میری امت تہتر ۷۳ فرقے ہو جائے گی۔ سارے فرقے جہنم میں جائیں گے صرف ایک فرقہ جنتی ہو گا۔ صحابہ نے عرض کیا وہ ایک فرقہ کون سا ہو گا؟آپ ﷺ نے فرمایا جو میرے عقیدہ اور عمل پر ہو گا۔'' (مشکوٰۃ ص ۳۰)
امام احمدؒ نے فرمایا، ''وہ اہل حدیث ہیں ان کے علاوہ کوئی اور فرقہ مراد نہیں۔''
صحیح بخاری اور ترمذی وغیرہ کی اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نبی ﷺ نے جس فرقہ کے حق پر ہونے اور تا قیامت باقی رہنے کی اطلاع دی ہے وہ فرقہ اہل حدیث ہے۔ وھی الجماعة اور وہ جماعت ہے۔ نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ اہل حدیث نام صحیح ہے جیسا کہ امام علی بن مدینیؒ اور امام احمدؒ کے فرمان سے ظاہر ہے۔
اہل حدیث نام صحابہ کے زمانہ سے مروّج ہے
چنانچہ المیزان الکبریٰ للشعرانی جلد ۱ ص ۴۶ میں ہے:


تعرف الصحابة في عھدھم باسمين الاول باھل الحديث والثاني باصحاب السنن كما كان يذكر عمر بن الخطاب اصحاب النبي ﷺ فكان يقول سياتي قوم يجادلونكم بشبھات القراٰن فخذوھم بالسنن فان اصحاب السنن اعلم بكتاب الله عزوجل

یعنی صحابہؓ اپنے زمانہ میں دو ناموں سے مشہور تھے۔ پہلاؔ اہل حدیث دوسرا اصحابِ سنن، جیسا کہ حضرت عمرؓ صحابہ کو وصیت فرمایا کرتے تھے کہ ایک قوم آئے گی اور متشابہات قرآن میں تم سے جھگڑے گی، تم اس کو احادیث سے جواب دینا کیونکہ اہل حدیث کتاب اللہ کے سب سے بڑے عالم ہیں۔
صحابہؓ کے دونوں ناموں اہل حدیث اور اصحاب سنن کا ایک ہی مطلب و معنی ہے کیونکہ سنن کا معنی بھی حدیث ہی ہے جیسا کہ حدیث کی بعض کتابوں کا نام سنن ہی ہے جیسا کہ سنن ابی داؤد، سنن نسائی سنن ابن ماجہ وغیرہ۔
پس ثابت ہوا کہ صحابہؓ بھی اہل حدیث تھے اور اہل حدیث کہلایا کرتے تھے۔ امید ہے کہ اب آپ اس نام کو غلط نہ کہیں گے اور اہل حدیث کو اہل سنت سے خارج نہ کریں گے کیونکہ اہل سنت اور اہل حدیث کا ایک ہی معنی ہے یعنی حدیث پر عمل کرنے والے۔
امام ابو حنیفہؒ نے اہل سنّت کی جو تعریف کی ہے، اس میں بھی اہل حدیث شامل ہیں۔ چنانچہ کتاب حقیقہ الفقہ ص ۲۳۴ مؤلفہ حافظ محمد یوسف صاحب جے پوری میں ہے:
'باب اہل سنّت کی تعریف میں۔ افضل جاننا حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ کو، محبت رکھنا حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ سے۔ موزوں پر مسح کرنا۔' (ابو حنیفہ) (در مختار جلد ۱ ص ۱۲۹)
سارے اہل حدیث کا یہی عقیدہ ہے، جو امام صاحب نے بتایا ہے لہٰذا ہم اہل حدیث اہل سنّت ہیں۔ نیز پیرانِ پیر حضرت عبد القادر غنیۃ الطالبین میں فرماتے ہیں:
واما الفرقة الناجية فھی اھل الحدیث یعنی فرقہ ناجیہ اہلحدیث ہیں۔ (البشریٰ ص ۲۸)
دراصل یوں معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا اصل نام مسلمین تھا ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ (القرآن) پھر جب اسلام میں گمراہ فرقے خوارج شیعہ وغیرہ پیدا ہوئے تو مسلمانوں نے ان سے امتیاز کے لئے اہل سنت والجماعت بڑھایا۔ جب اہل سنّت والجماعت میں تقلید شخصی کا الزام ہوا تو جماعتِ حقّہ نے مقلّدین سے امتیاز کے لئے اہل حدیث' جو صحابہؓ کا نام ہے، پسند کیا اور اس کو شہرت دی۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم
ماہنامہ محدث
 
Top