• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا بڑی بات تھی ہوتے جو مسلماں بھی ایک

شمولیت
جنوری 22، 2012
پیغامات
1,129
ری ایکشن اسکور
1,053
پوائنٹ
234
کیا بڑی بات تھی ہوتے جو مسلماں بھی ایک
بعثت نبوی سے قبل عرب کی حالت بڑی ناگفتہ بہ تھی ، پورا سماج و معاشرہ ظلمت وتاریکی میں بھٹک رہا تھا ظلم و عدوان انتہا کو پہنچ چکی تھی ، شرور وفتن اور جنگ جدل عام تھی ، سر عام مالوں کا ہڑپ کرلینا عزت و آبرو پر حملہ کرنا ، ناپ و تول میں کمی کرنا ایک معمولی بات سمجھی جاتی تھی ، عورتوں کی کوئی اہمیت نہیں تھی ، شرم وعار کی وجہ سے لڑکیوں کو زندہ در گور کردیا جاتا تھا ، خانہ کعبہ میں تین سو ساٹھ بتوں کی عبادت ہورہی تھی ، شرک غالب تھا تو حید کا کوئی نام لیوا نہ تھا ایک بھائی دوسرے بھائی کی جان کا دشمن تھا ، اخوت و بھائی چارگی بالکل معدوم تھی ، افتراق و انتشار ان کا شیوہ تھا ۔ پھر سے ایک مربی اور معلم کی ضرورت تھی ، رحمت الہی جوش میں آئی اور محمد ﷺ کو ایک آخری نبی و پیغمبر کی حیثیت سے دین ہدایت اور دین حق دے کر دنیا کے اندر مبعوث فرمایا ۔ نبی ﷺ نے لوگوں کو توحید کی دعوت دی اور انھیں بندوں کی عبادت سے نکال کر اللہ کی عبادت کی جانب لائے ۔ ادیان و مذاہب کی ظلم و زیادتی سے نکال کر اسلام کے عدل کی طرف، دنیا کی تنگی سے نکال کر آخرت کی وسعت کی طرف لائے ۔ ظلم و زیادتی اور غلط اعمال سے منع کیا ۔ عورتوں کو عزت و مقام عطاء کیا اور ان کے بارے میں تاکید کرتے ہوئے فرمایا : ’’ استوصوا بالنساء خیرا‘‘
حسب و نسب کالے گورے اور امیر وغریب، ادنی و اعلیٰ کے درمیان فرق و امتیاز کو ختم کرکے خدا کے دامن توحید سے وابستہ کیا ۔ ارشاد ربانی ہے :(یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَأُنْثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوبًا وَقَبَاءِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللَّہِ أَتْقَاکُمْ إِنَّ اللَّہَ عَلِیمٌ خَبِیرٌ)(حجرات :۱۳) اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک (ہی) مردو عورت سے پیدا کیا اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو کنبے اور قبیلے بنادیئے ہیں اللہ کے نزدیک تم سب میں سے زیادہ باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے ۔
اور نبی کریم ﷺ نے حجۃ الوادع کے موقع پر اسی حقیقت کو آشکار کرتے ہوئے فرمایا: ’’ کسی عربی کو کسی عجمی پر کسی عجمی کو کسی عربی پر کسی اسود کو احمر پر اور کسی احمر کو اسودپرکوئی فضیلت نہیں تم سب آدم کی اولاد ہو آدم مٹی سے تھے تم میں عزت والا وہ ہے جو اللہ سے زیادہ ڈرتا ہو۔‘‘
رسول اکرم ﷺ کی اسی صحبت اور تربیت کا ہی نتیجہ تھا کہ صحابہ کرام انسانیت عظمیٰ کے سب سے اعلیٰ معیارپر فائز ہوگئے ۔ ان کے درمیان قوم و برادری رنگ و نسل او شعوب و قبائل کے تمام تفاخرمٹ گئے ۔
سچ فرمایا شاعر نے :
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
بتان تنگ وبو کو توڑ کو ملت میں گم ہوجا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی​
اور ’’انما المومنون اخوۃ ‘‘ اور (ہُوَ الَّذِی أَیَّدَکَ بِنَصْرِہِ وَبِالْمُؤْمِنِینَ 0 وَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِہِمْ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا مَا أَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوبِہِمْ وَلَکِنَّ اللَّہَ أَلَّفَ بَیْنَہُمْ إِنَّہُ عَزِیزٌ حَکِیمٌ )(انفال:۶۲،۶۳) اور (وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّہِ جَمِیعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْکُرُوا نِعْمَتَ اللَّہِ عَلَیْکُمْ إِذْ کُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہِ إِخْوَانًا وَکُنْتُمْ عَلَی شَفَا حُفْرَۃٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَکُمْ مِنْہَا کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللَّہُ لَکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُونَ )(آل عمران :۱۰۳) کا درس دے کر افتراق و انتشار کو ختم کیا باھمی اخوت و بھائی چارگی پیدا کردیا ۔ صدیوں کی باہمی عدوات کو مٹا کر الفت و محبت پیدا کردیا ۔
اوررسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو جسد واحد قرار دے کر اتفاق و اتحاد کو نقطہ عروج پر پہنچادیا ، اور رسول اللہ ﷺ کی اسی تعلیم کا نتیجہ تھا کہ ۲۳ سال کی مختصر مدت میں دنیا کی کایا پلٹ ہوگئی اسلام کا بول بالا ہوا اور اھل عرب جن کی دنیا کی نگاہوں میں کوئی اہمیت نہیں تھی وہی دنیا کے نگہبان اور رھبر و رہنما ہوگئے ۔
جب تک ان کے اندر باہمی اتحاد و اتفاق تھا اور سب ایک قالب اور ایک جان ہوکر زندگی گذارتے رہے ۔ اسلامی تعلیمات کے خوگر اور منہیات سے دور تھے تو فتح و کامرانی ان کے قدم چومتی رہی ۔ کائنات کی وسعتیں ان کے سامنے سمٹ گئیں وہ بنیان مرصوص کی طرح باطل کے سامنے سینہ سپر ہوگئے ۔ ان کے گھوڑوں کے ٹاپوں کی صدائے بازگشت چین کے کوہساروں ، افریقہ کے تپتے ہوئے صحراوں پورپ کے مرغزاروں ، آبشاروں اور جنوب ایشیاء کے ساحلوں سے سنی گئی ۔
دشت تو دشت ہے دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دئیے گھوڑے ہم نے​
لیکن افسوس ! آج ایک بار پھر مسلمانوں کی شیرازہ بندی ختم ہوچکی ہے ، انتشار و خلفشار کی آندھیاں پورے شباب پر ہیں رنگ و نسل ، قوم و وطن اور زبان و بیان کی تفریق نے ان کو اپنی لپٹ میں لے لیا ہے ، جس کی بنیاد پر عالمی طور پر ذلت و رسوائی ان کا مقدر بن چکی ہے ساری قومیں ان پر چڑھ دوڑنے کے لئے تیار ہیں اور ان کو اپنا لقمہ بنانے کے لئے منہ کھولئے ہوئے ہیں ۔ انہیں حقیرو ذلیل تصور کیا جارہا ہے ان کے شعائر اسلامی پر پابندی عائد کی جارہی ہے مساجد و مدارس کو دھشت گردی کے اڈے قرار دئیے جارہے ہیں ۔ وہ پوری دنیا میں جبر و تشدد کے پنجہ استبداد میں جکڑ گئے ۔ کشمیر ، فلسطین ، بوسنیا، شام، برما اور دیگر ممالک میں ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں ۔
آخر کیا وجہ ہے کہ امت مسلمہ اختلاف و انتشار کا شکار ہے ان کے درمیان الفت و محبت ختم ہوچکی ہے ہر کوئی دو انچ کی دیوار کھڑی کر کے اپنے مسلک و مذھب کی ترویج و اشاعت میں لگا ہوا ہے ، اپنے کو صحیح اور دوسروں غلط قرار دیے رہا ہے ، جبکہ سب کا اللہ ایک ، رسول ایک قرآن ایک ، اور کعبہ و قبلہ ایک ہے ۔
سچ کہا ہے شاعر نے :
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کیا بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک​
دراصل اس کی بنیادی وجہ کتاب وسنت کو چھوڑ کر غیر ضروری چیزوں کو اختیار کرنا ہے ، امت مسلمہ جب تک ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رہی ان کے درمیان اتحاد و اتفاق باقی رہا اور ہر میدان میں ان کو سربلندی حاصل رہی ۔ لیکن جیسے ہی ان پر عمل کرنا ترک کردیا تو ذلت وپستی میں جاگری اور اختلاف و انتشار ان کا مقدر ہوگئی نبی ﷺ نے فرمایاتھا :’’ انی تارک فیکم ان تمسکتم بہ لن تضلوا بعدی کتاب اللہ و سنتی ‘‘(موطاء ۲/۸۹۹، حاکم ۱/۹۳)
اور ایک دوسری جگہ فرمایاتھا:’’إِنَّ اللہَ یَرْفَعُ بِہَذَا الْکِتَابِ أَقْوَامًا، وَیَضَعُ بِہِ آخَرِینَ‘‘(صحیح مسلم : ۲۶۹)
اور اللہ تعالی نے امت مسلمہ کو درس دیاتھا (وَأَنَّ ہَذَا صِرَاطِی مُسْتَقِیمًا فَاتَّبِعُوہُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیلِہِ ذَلِکُمْ وَصَّاکُمْ بِہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ )(سورہ انعام : ۱۵۳)اور فرمایا :وَلَا تَکُونُوا کَالَّذِینَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَ ہُمُ الْبَیِّنَاتُ وَأُولَءِکَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ)(آل عمران :۱۰۵)
اور نبی کریم ﷺ نے فرمایاتھا:’’أُوصِیکُمْ بِتَقْوَی اللَّہِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ، وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِیًّا، فَإِنَّہُ مَنْ یَعِشْ مِنْکُمْ بَعْدِی فَسَیَرَی اخْتِلَافًا کَثِیرًا، فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِی وَسُنَّۃِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِین الْمَہْدِیِّینََ ، تَمَسَّکُوا بِہَا وَعَضُّوا عَلَیْہَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ، فَإِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ، وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ‘‘(سنن ابی داود : ۴۶۰۷)
’’میں تمہیں سمع و طاعت کا حکم دیتا ہوں اگر چہ تم پر ایک حبشی غلام امیر بنایا دیا جائے میری وفات کے بعد جو زندہ رہے گا وہ بہت اختلاف دیکھے گا پس تم میری اور میرے بعد ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا ، اسے دانت کے داڑھوں سے مضبوط پکڑ لینا دین میں نئی چیز نکالنے سے بچتے رہنا کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے ۔‘‘
آج بھی ہماری تمام پریشانیوں کا علاج ہمارے باہمی اتحاد واتفاق میں ہے ، اگر آج بھی اسلام کے دونوں سرچشموں قرآن پاک اور سنت رسول اللہ پر عمل کرلیں تو عظمت رفتہ واپس آسکتی ہے ، ہماری شوکت و ہیبت سے یورپ و امریکہ کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہوسکتا ہے ۔
آج بھی ہو جو براھیم سا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا​
اللہ تعالی ہمارے درمیان اتحاد و اتفاق پیدا کرے اور کتاب و سنت کا شیدائی بنائے ۔ اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں زندگی گذارنے کی توفیق عطا کرے ۔
عبدالجبار انعام اللہ سلفی
مدیر ماہانہ صوت الاسلام
جامعہ رحمانیہ کاندیولی ،ممبئی​
 
Top