کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
کیا بگڑی بات بنے گی؟
مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی پالیسی پر اختلافات کے نتیجے میں واشنگٹن اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات گذشتہ چند ماہ میں بہت تیزی سے خراب ہو چکے ہیں۔ بی بی سی کے واشگنٹن کے نامہ نگار کِم گھٹاس کے مطابق بات اتنی بگڑ چکی ہے کہ شاید صدر براک اوباما کے سعودی عرب کے دورے سے بھی دونوں ملکوں کے درمیان خلیج کم نہ ہو پائے۔امریکہ کے سرکاری افسران بھی صدر اوباما کے دورے سے قبل صحافیوں کو اس سے زیادہ کچھ نہیں بتا پا رہے کہ صدر کا یہ دورہ بہت اہم ہے، تاہم صدر اوباما کے قومی سلامتی کے نائب مشیر بین رھوڈز اتنا ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات موجود ہیں۔
امریکی افسران میں سے ایک تو صدر کے دورے سے وابسطہ توقعات پر اپنے شکوک کا اظہار کر چکے ہیں۔ منگل کو وہائٹ ہاؤس کا کہنا تھا کہ اسے ’بہت مایوسی‘ ہوئی ہے کہ سعودی حکام نے واشنگٹن میں مقیم اسرائیلی اخبار ’یروشلم پوسٹ‘ کے امریکی نامہ نگار کو ویزا دینے سے انکار کر دیا ہے۔ قومی سلامتی کی مشیر سوزن رائیس اور دوسرے امریکی افسران کے اصرار کے باوجود سعودی عرب نے ویزے کے معاملے میں کوئی لچک نہیں دکھائی۔
امریکی افسران نے صدر اوباما کے دورے سے قبل اس بات کا بھی کوئی اشارہ نہیں دیا ہے کہ صدر اوباما سعودی عرب جا کر ایسا کیا کہیں گے یا کریں گے جس سے امریکہ کے اس دیرینہ اتحادی کے تحفظات دور ہو سکیں۔
آخری مرتبہ صدر اوباما مئی 2009 میں اس وقت ریاض گئے تھے جب انھوں نے سعودی عرب کے دورے کے فوراّ بعد قاہرہ میں اپنا مشہور خطاب کیا تھا جس میں انھوں نے مسلمانوں اور عرب دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کے ایک نئے باب کی نوید سنائی تھی۔ اس وقت صدر اوباما نئے نئے صدر بنے تھے اور وہ بہت مقبول تھے۔ شاہ عبداللہ بھی امریکی انتخابات میں براک اوباما کی کامیابی پر خوش تھے۔
لیکن اس کے باوجود بھی مسٹر اوباما کا وہ دورہ زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہوا تھا۔ انھوں نے ریاض میں کوئی زیادہ گپ شپ نہیں لگائی تھی بلکہ وہ شاہ عبداللہ کے لیے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تعلقات کی بحالی میں مدد دینے کے علاوہ کئی دوسرے کاموں کی فہرست اپنے ساتھ لائے تھے۔ لیکن صدر اوباما کو ریاض سے خالی ہاتھ لوٹنا پڑا تھا۔
اس دورے کے بعد سے اب تک خطے میں بہت سی تبدیلیاں آ چکی ہیں، ایسی تبدیلیاں جن سے سعودی عرب زیادہ خوش نہیں ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ مسٹر اوباما کے لیے یہ دورہ مشکل ہوگا۔
سعودی عرب نے ابھی تک صدر اوباما کو اس بات پر معاف نہیں کیا ہے کہ انھوں نے سنہ 2011 میں مصر کے سابق صدر حسنی مبارک کو پیٹھ دکھا دی تھی۔ انقلاب کے بعد بھی سعودی عرب نے مصر میں امریکہ کی پالیسی کی مخالفت جاری رکھی اور گذشتہ موسم گرما میں فوج کے ہاتھوں اسلام پسند صدر محمد مرسی کے تختہ الٹنے کی حمایت کی۔ اس کے علاوہ، جب امریکہ نے اگست میں اخوان المسلمین کے خلاف سخت پرتشدد کارروائی کرنے کے جرم میں مصری فوج کو دی جانے والی امداد کا ایک بڑا حصہ روک لیا تو سعودی عرب نے مصری فوج کو یقین دہانی کرا دی کہ امریکی امداد میں جو کمی ہو رہی ہے ریاض وہ کمی پوری کر دے گا۔
امریکہ آہستہ آہستہ مصر کے ساتھ معمول کے تعلقات بحال کر رہا تھا، لیکن اس ہفتے امریکہ کے دفتر خارجہ کے اس بیان کے بعد کہ مرسی کے 500 حامیوں کو سزائے موت سنایا جانا ’بنیادی انصاف کی کھلم کھلا خلاف ورزی‘ ہے، صدر اوباما اور شا عبداللہ کے درمیان مصر کے موضوع پر متوقع بات چیت میں ایک نیا بل آیا گیا۔
اب تو سعودی عرب خود بھی اخوان المسمین کو دہشتگرد تنظیم قرار دے چکا ہے۔
سعودی عرب کے ساتھ دھوکہ ہوا
مصر کے علاوہ، گذشتہ برسوں میں شام کے معاملے پر بھی واشنگٹن اور ریاض کے درمیان شدید اختلافات سامنے آئے ہیں۔
ستمبر میں یہ اختلافات اس وقت کھل کر لوگوں کے سامنے آگئے جب دمشق میں کیمیائی حملے میں سیکڑوں لوگوں کی ہلاکت کے بعد بھی صدر اوباما نے فیصلہ کیا وہ صدر بشارالاسد کی فوجوں کے خلاف فوجی کارروائی نہیں کریں گے۔اس پر امریکہ اور سعودی عرب میں اچھی خاصی تو تو میں میں ہوئی تھی۔
سعودی ولی عہد نے الزام لگایا ہے کہ دنیا نے شامی باغیوں کے ساتھ دھوکہ کیا ہے
سعودی اس پر بہت خفا تھے اور انھوں نے صدر اوباما کو ایک کمزور صدر گردانتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔
گذشتہ ماہ جنیوا میں بشارالاسد اور شامی باغیوں کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات کے واضح ناکام ہو جانے کے باوجود ابھی تک امریکہ کا بظاہر یہی اصرار ہے کہ شام کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ لیکن اس کے جواب میں سعودی یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب تک آپ باغیوں کو اسلحہ دے کر شام میں زمین پر طاقت کا توازن تبدیل نہیں کرتے اس وقت تک مسئلے کا کوئی سیاسی حل بھی نہیں نکل سکتا۔
ابھی تک صدر اوباما شام میں باغیوں کو فوجی تربیت اور غیر مہلک ہتھیاروں کے علاوہ کسی قسم کی دوسری مدد فراہم کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ اس کے برعکس سعودی عرب باغیوں کو کھلم کھلا اسلحہ فراہم کر رہا ہے اور چاہتا ہے کہ امریکہ اور ریاض شام کے معاملے میں آپس میں مذید تعاون کریں۔
مسٹر اوباما کے دورے کے دوران شاہ عبداللہ ان پر دباؤ ڈالیں گے کہ شام کے معاملے میں امریکہ کوئی فیصلہ کن اقدامات اٹھائے۔
اب جبکہ شام کے معاملے میں امریکہ کو روس سے کسی تعاون کی کوئی امید باقی نہیں رہی، ہو سکتا ہے کہ صدر اوباما شام میں صدر پوتن کو ذرا پیچھے دھکیلنے پر مائل ہو جائیں۔
لیکن سعودی عرب اور امریکہ کے باہمی تعلقات میں سب سے بڑی دراڑ اس وقت آئی جب گذشتہ برس امریکہ نے نئے ایرانی صدر حسن روحانی کے ساتھ بات چیت کرنا شروع کر دی۔
سنی سعودی عرب کو خطرہ ہے کہ شیعہ ایران خطے میں اپنی طاقت بڑھا رہا ہے
اورجب یہ بات منظر عام پر آئی کہ نومبر میں جنیوا میں ایران کے ساتھ امریکہ کے مذاکرات سے کئی مہینوں پہلے امریکی اور ایرانی سرکاری افسران ایران کے جوہری پروگرام پر خفیہ مذاکرات کرتے رہے تھے، تو سعودی عرب کو محسوس ہوا کہ امریکہ اس کے ساتھ دھوکہ کرتا رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک سال کی کوششوں کے بعد جب سعودی عرب کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رکنیت کی پیشکش ہوئی تو اس نے خطے میں امریکی پالیسوں کے خلاف احتجاجاً یہ نشت لینے سے انکار کر دیا۔
اس کے علاوہ یہ اطلاعات بھی آتی رہی ہیں کہ سعودی عرب نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ شامی باغیوں کو تربیت دینے میں سعودی عرب کی مدد کرے، بلکہ یہاں تک کہ ایران کو سعودی عرب پر حملے کرنے سے روکنے کے لیے پاکستان سعودی عرب کو جوہری ہتھیار فراہم کرے۔
الگ الگ مفادات
لگتا ہے کہ صدر اوباما سعودی عرب کو بتائیں گے کہ امریکہ ایران کے ساتھ طویل مدت کا ایسا کوئی جوہری معاہدہ نہیں کرے گا جو سعودی عرب کے لیے بُرا ثابت ہو۔
لیکن سعودی عرب کے سُنی شاہی خاندان کو لگتا ہے کہ شیعہ ایران اور عراق، شام، لبنان، یمن اور بحرین میں موجود ایران کے اتحادی سعودی عرب کو گھیرے میں لے رہے ہیں۔ سعودی عرب کو فکر ہے کہ امریکہ ان کی اس پریشانی کو خاطر میں نہیں لا رہا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ سعودی عرب کی یہ پریسشانی اتنی غلط بھی نہ ہو۔
سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات میں تناؤ کی بنیادی وجہ دونوں ممالک کے درمیان اس بات پر اختلافات ہیں کہ خطے میں امریکہ کی پالیسی کیا ہونی چاہئیے۔
اس کی پرواہ کیے بغیر کے سعودی عرب کے خیال میں اس کے لیے کیا اچھا ہے، صدر اوباما اس بات کی وضاحت کرتے آ رہے ہیں کہ خطے میں امریکہ کے مفادات کیا ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ ایران جیسے کسی معاملے پر واشنگٹن اور ریاض کی پالیسی مختلف ہو سکتی ہے، لیکن اب ایسا ہو رہا ہے۔
اگرچہ امریکہ تہران کے معاملے میں کسی خوش فہمی کا شکار نہیں، تاہم ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ صدر اوباما کی قومی سلامتی کی پالیسی میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔
اپنے پیشرو امریکی صدور کی نسبت مسٹر اوباما میٹھی میٹھی باتیں کرنے کے زیادہ قائل نہیں ہیں اور وہ عموماً امریکہ کے اتحادیوں کے شور کی وجہ سے اپنے مقاصد سے پیچھے نہیں ہٹتے۔
ساٹھ سال سے زیادہ کے عرصے سے امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان یہی انتظام چلتا رہا ہے کہ ’تیل دو اور سیکیورٹی لو۔‘
اگرچہ اب امریکہ سعودی تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک نہیں رہا، لیکن سعودی عرب کو اپنی سیکیورٹی کے لیے اب بھی امریکہ کی ضرورت ہے۔
لیکن چونکہ سعودی عرب کی بدلتی ہوئی پالیسیاں خطے میں امریکہ کے مقاصد پر برے اثرات مرتب کر سکتی ہیں، اس لیے امکان یہی ہے کہ مسٹر اوباما اپنے دورے میں تعلقات میں اتنی بہتری لانے کی کوشش ضرور کریں گے کہ دونوں ملکوں کے درمیان درجہ حرارت کچھ کم ہو جائے اور سعودی امریکہ کے قریب ہی رہیں۔
جمعـہ 28 مارچ 2014