- شمولیت
- جنوری 08، 2011
- پیغامات
- 6,595
- ری ایکشن اسکور
- 21,397
- پوائنٹ
- 891
واذا مرضت فھو یشفین ( الشعراء )
” جب میں بیمار ہوتا ہوں تو اللہ ہی مجھے شفاءدیتا ہے ۔ “
اللہ کے علاوہ نہ کوئی شفا دے سکتا ہے اور نہ ہی کوئی تکلیف پہنچانے والا ہے جب تک اللہ کا حکم نہ ہو ۔ اور اسی طرح انسان کی بیماری کبھی جلد ختم ہو جاتی ہے کبھی دیر تک رہتی ہے ۔ اور کبھی معمولی بیماری بھی جان لیوا ثابت ہو جاتی ہے ۔ لیکن جو کچھ بھی ہوتا اللہ رب العزت کی رضا سے ہوتا ہے ۔ کیونکہ وہ عالم الغیب ہے اس کا کوئی عمل بھی حکمت سے خالی نہیں ۔
کیونکہ یہ بیماری کسی وقت تو اللہ کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے اور کبھی گناہوں کی معافی کا موجب بنتی ہے ۔ لیکن ہر بیماری کو دیکھ کر انسان یہ نہ سمجھ لے کہ وہ گناہ گار ہے جس کی وجہ سے بیماری میں مبتلا کیا گیا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بیماری اس کے لئے آزمائش ہو اور ہو سکتا ہے اس کے درجات بلند کرنے کے لیے ہو ۔ اس کی حکمت اللہ ہی جانتا ہے ۔
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں : کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سخت بخاری میں مبتلا ہوئے تو میرا یہ نظریہ ہی بدل گیا کہ انسان کی بیماری کا سبب گناہ ہی ہوتے ہیں ۔ بلکہ بیماری قدر و منزلت اور درجات کی بلندی کا سبب بھی ہو سکتی ہے ۔
صحابی رسول ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
( ( قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من یرد اللہ بہ خیرا یصب منہ ) )
” کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص سے اللہ جل شانہ بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں اسے مصائب میں مبتلا کر دیتے ہیں ۔ “ ( بخاری فتح 5645 )
کہ جب میرا بندہ اس دنیا سے رخصت ہو تو اس کا نامہ اعمال اس طرح صاف ہو جائے جیسے سفید چادر میل کچیل اور داغ دھبوں سے صاف ہوتی ہے ۔
ایک دفعہ ایک مجلس میں کسی نے بخار کو گالی دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مجلس میں تشریف فرما تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( ( لاتسبھا فانھا تنفی الذنوب کما تنفی النار خبث الحدید ) ) ( ابن ماجہ )
” کہ بخار کو گالی مت دو! یہ گناہوں کو اس سے دور کرتا ہے جس طرح آگ لوہے کی میل کچیل کو دور کر دیتی ہے ۔ “
صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( ( الحمی من فیح جہنم فابردوھا بالماء ) ) ( بخاری مع الفتح 5748 )
کہ بخار جہنم کی سخت گرمی کی وجہ سے ہے اسے پانی سے ٹھنڈا کرو ۔ ملاحظہ کیجئے یہ کئی دفعہ تجربہ ہوا ہے کہ بخار کی شدت میں ڈاکٹر صاحبان بھی برف کی پٹیاں استعمال کرنے کو کہتے ہیں جس سے عموماً مریض صحت یاب ہو جاتا ہے جبکہ یہ علاج اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اور آزمودہ علاج ہے ۔
صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایسے وقت میں حاضر ہوا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت بخار میں مبتلا تھے ۔ میں نے اپنے ہاتھ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر کو چھوا اور گوش گزار کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو تو بہت تیز بخار ہے! اللہ کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں مجھے اتنا بخار ہوتا ہے جتنا تمہارے دو آدمیوں کو ہوتا ہے ۔ تو پھر میں نے کہا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ثواب بھی دو گنا ہوتا ہے فرمایا ” ہاں “ پھر ارشاد فرمایا کہ کوئی مسلمان ایسا نہیں جس کو بیماری یا کوئی اور تکلیف پہنچی ہو مگر اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس کے گناہوں کو اس طرح جھاڑ دیتے ہیں جس طرح درخت سے پتے جھڑ جاتے ہیں ۔ ( بخاری مع الفتح 5660 و مسلم مع المنھاج 6504 )
حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ اور حضرت صنابحی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ دونوں ایک بیمار کی عیادت کے لیے گئے ۔ تو ہم نے اس بیمار سے پوچھا کیسے ہو ؟ ( رات کیسی گزری اور اب کیسا محسوس کر رہے ہو ) تو کہنے لگے کہ نعمت کے ساتھ ( یعنی الحمد للہ ) اللہ کا شکر ہے ۔
حضرت شداد رضی اللہ عنہ بولے کہ تجھے تیرے گناہ معاف ہونے اور خطاؤں کے زائل ہونے کی خوشخبری ہو ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ بے شک اللہ فرماتے ہیں کہ جس وقت میں کسی بندہ مومن کو آزمائش میں مبتلا کرتا ہوں اور وہ آزمائش کے وقت میری تعریف و تحمید کرتا ہے ، اللہ کا شکر ادا کرتا ہے ، تو اپنے بستر سے وہ اس طرح گناہوں سے پاک اٹھتا ہے جس طرح پیدائش کے وقت گناہوں سے پاک ہوتا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ ( فرشتوں سے ) فرماتے ہیں میں نے اپنے مومن بندے کو بیمار کر کے اس کو آزمائش میں ڈالا ( اب وہ میری عبادت یا نیکی کا کام اس طرح نہیں کر سکتا جس طرح وہ تندرستی میں کیا کرتا تھا ) تو اس کے اس عمل کا ثواب اسی طرح جاری رکھو جس طرح وہ تندرستی میں کیا کرتا تھا ۔ ( سبحان اللہ )
اللہ کی ذات بندے کے ساتھ رحیم و کریم ہے کہ بیمار بھی خود کرتے ہیں اور ثواب بھی مفت کا عنائت کرتے ہیں ۔ کاش کہ بندہ مومن بھی یہ سمجھ لے کہ اللہ اس بیماری کی حالت میں بھی اپنے بندے کو نہیں بھولے بلکہ مزید رحمتوں سے نواز رہیں ہیں ۔
سیدنا ابوسعید خدری نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں :
( ( قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ما یصیب المسلم من نصب ولا وصب ولاھم ولاحزن ولا اذی ولا غم حتی الشوکة یشاکھا الا کفراللہ بھا من خطایاہ ) ) ( بخاری 5647 ، سنن الکبری للبیھقی ج 3 ص373 )
” کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان کو کوئی رنج ، فکر ، دکھ اور غم نہیں پہنچتا یہاں تک کہ کوئی کانٹا بھی چبھ جائے تو اللہ وحدہ لا شریک لہ اس کے بدلے بھی اس کے گناہوں کو مٹا دیتے ہیں ۔ “
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
( ( سمعت رسول اللہ یقول مامن مومن یشوکہ شوکة فما فوقھا الا حط اللہ عنہ بھا خطیئة ورفع لہ بھا درجة ) ) ( سنن الکبریٰ للبیھقی )
” کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس مومن کو بھی ایک کانٹا چبھتا ہے یا اس سے بھی چھوٹی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ معاف کرنے کے ساتھ اس کے درجات بھی بلند کر دیتے ہیں ۔ “
صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
( ( سمعت رسول اللہ یقول قال اللہ عزوجل اذا ابتلیت عبدی بحبیبتہ ثم صبر عوضتہ منھما الجنة یرید عینیہ ) ) ( سنن الکبریٰ للبیھقی 385 )
” میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب میں اپنے بندے کو دو محبوب ترین چیزوں ( آنکھوں ) کی آزمائش میں مبتلا کر دیتا ہوں اور وہ صبر کرتا ہے تو اس کے بدلے میں اس کو جنت عطا کرتا ہوں ۔ “
صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
( ( قال رسول اللہ لایزال البلاءبالمومن والمومنة فی نفسہ ومالہ وفی ولدہ حتی یلقی اللہ تبارک وتعالی وما علیہ من خطیئة ) ) ( سنن الکبریٰ للبیھقی 374 )
” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا جو مومن مرد یا عورت ہمیشہ جانی لحاظ سے ، مالی لحاظ سے، اولاد کے سبب مرنے تک مصائب ومشکلات میں رہے اسی حالت میں وہ اللہ کو ملے تو وہ خطاؤں سے بالکل پاک صاف ہوگا۔“
صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( ( لن یدخل احدا منکم عملہ الجنة ، قالوا ولا انت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ولا انا الا ان یتغمدنی اللہ بفضل ورحمة فسددوا وقاربوا ولا یمنین احدکم الموت اما محسنا فلعلہ ان یزداد خیرا واما مسیئا فلعلہ ان یستعتب ) ) ( بخاری ، مسلم )
” کسی کو بھی اس کا عمل جنت میں نہیں لے جائے گا ۔ صحابی کرام رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ بھی نہیں ؟ فرمایا میں بھی نہیں ۔ مگر اللہ کا خاص فضل و کرم اور رحمت جو ڈھانپ لے ۔ لیکن تم میانہ روی اختیار کرو! اور صحیح راستہ ڈھونڈو! اور کوئی شخص بھی موت کی تمنا نہ کرے اگر نیکی کرنے والا ہے تو ہو سکتا ہے بھلائی کرنے کے مزید مواقع نصیب ہو جائیں اور اگر خطاکار ہے تو ہو سکتا ہے اصلاح اور توبہ کا موقع مل جائے اس سے معلوم ہوا کہ بعض لوگ کسی ایسی مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں جس سے تنگ آ کر موت کی تمنا کرنے لگ پڑتے ہیں حدیث کی رو سے ایسا ہر گز نہیں کرنا چاہیے ۔
حضرت سعد بن ابی وقاص فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کن لوگوں پر آزمائشیں زیادہ آتی ہیں ۔ فرمایا انبیاءپر پھر ان سے کم درجہ والے لوگوں پر پھر ان سے کم درجہ والوں پر ۔ جتنی دین میں مضبوطی ہو گی اتنی زیادہ آزمائش ہو گی اور اگر اس کے دین میں نرمی ہو گی تو آزمائش بھی ہلکی ہو گی اگر دین میں سختی اپنائے گا تو پھر آزمائش بھی سخت ہو گی کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو آزماتے ہیں کہ بھلا میرا بندہ میرے دین پر قائم رہتا ہے یا پھسل جاتا ہے اگر قائم رہتا ہے اسی طرح تکالیف ، دکھ ، غم ، درد ، پریشانیاں اور مصائب برداشت کرتا رہتا ہے تو پھر انسان کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ زمین پر چل رہا ہوتا ہے تو گناہوں سے بالکل پاک ہوتا ہے ۔
آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد ارشاد ملاحظہ کےے ہیں کہ بیماری انسان کے گناہوں کا کفارہ اور درجات کی بلندی کا سبب بنتی ہے ۔ اب اس شخص کا حال سنےے جس کو کبھی بیماری آئی ہی نہیں ۔
حضرت عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ( صحابہ کی مجلس میں ) فرمایا بے شک جب کبھی مومن کو کوئی بیماری ہوتی ہے ، تو وہ اس کے گزشتہ گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد جو اصحاب بیٹھے ہوئے تھے ان میں سے ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ! وما الاسقام ؟ ما مرضت قط اے اللہ کے رسول! بیماری کی حقیقت کیا ہے بخدا میں تو کبھی بیمار نہیں ہوا ۔
قال : قم فلست منا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اٹھ کھڑے ہو تم ہم میں سے نہیں ہو ۔ “ ( ابوداؤد )
دیکھا آپ نے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم بیماری کو ایمان کی ایک علامت قرار دے رہے ہیں جو کبھی بیمار نہیں ہوا اس کے ایمان اور خلوص میں شک ہے چنانچہ ایک دوسرے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( ( عجبت للمومن وجذعة من السقم ولو یعلم ما لہ فی السقم وجب ان یکون سقیما حتی یلقی اللہ تعالی ) )
” مجھے اس مومن پر تعجب ہوتا ہے جو مومن بھی ہو اور بیماری پر بے صبری کا مظاہرہ کرتا ہو ، اگر اس کو علم ہوتا کہ بیماری میں اس کے لیے کیا کیا فوائد ہیں تو وہ لازم پکڑ لیتا کہ وہ بیمار ہی رہے ۔ یہاں تک کہ اللہ سے جا ملے ۔ “ ( البزار )
بیماری کیسی بھی ہو اس کو برا یا بے صبری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ اللہ کی حکمت سمجھتے ہوئے توبہ و استغفار کرتے ہوئے صبر اور شکر کرنا چاہیے ۔
ایسا کرنے کی تلقین اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی فرمائی کہ مومن انسان کی حالت پر تعجب ہے جب اسے کوئی خوشی پہنچتی ہے تب بھی اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور جب کوئی مصیبت آ جاتی ہے تب بھی صبر اور شکر ادا کرتا ہے ۔ دونوں حالات میں اس کیلئے بہتری ہی بہتری ہے ۔ اگر انسان چیخ و پکار کرے گا ، واویلا کرے گا کسی دوسرے کو سنائے گا ۔ تو کیا اس کی بیماری دور ہو جائے گی ؟ اسے کوئی شفا دے دے گا ؟ یا اس کی مصیبت ٹل جائے گی نہیں ، ہر گز نہیں! جب تک اللہ نہ چاہے نہ کسی دواءسے شفا مل سکتی ہے اور نہ کسی طبیب اور ڈاکٹر سے ۔ اور یہی بندہ مومن کا عقیدہ ہے ۔
اور یہ وہ سبق ہے جو سب مومنوں اور مسلمانوں کے لیے سیدالانبیاءسرچشمہ نور ھدیٰ ، عرب و عجم کے راہبر و راہنما ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا کہ جب بھی کوئی شخص کسی بیمار کے پاس جائے تو اسے اللہ کی تعریف و تحمید اور گناہوں ، خطاؤں اور لغزشوں سے توبہ و استغفار کی طرف راغب کرے اور صبر و شکر کی تلقین کرے ۔ تا کہ اس کا دل و دماغ اللہ ہی کی طرف لگا رہے ۔ اگر صحت یاب ہو تو اجر و ثواب پائے اور اگر موت آ جائے تو اس دنیا سے بالکل پاک صاف ہو کر جائے۔
” جب میں بیمار ہوتا ہوں تو اللہ ہی مجھے شفاءدیتا ہے ۔ “
اللہ کے علاوہ نہ کوئی شفا دے سکتا ہے اور نہ ہی کوئی تکلیف پہنچانے والا ہے جب تک اللہ کا حکم نہ ہو ۔ اور اسی طرح انسان کی بیماری کبھی جلد ختم ہو جاتی ہے کبھی دیر تک رہتی ہے ۔ اور کبھی معمولی بیماری بھی جان لیوا ثابت ہو جاتی ہے ۔ لیکن جو کچھ بھی ہوتا اللہ رب العزت کی رضا سے ہوتا ہے ۔ کیونکہ وہ عالم الغیب ہے اس کا کوئی عمل بھی حکمت سے خالی نہیں ۔
کیونکہ یہ بیماری کسی وقت تو اللہ کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے اور کبھی گناہوں کی معافی کا موجب بنتی ہے ۔ لیکن ہر بیماری کو دیکھ کر انسان یہ نہ سمجھ لے کہ وہ گناہ گار ہے جس کی وجہ سے بیماری میں مبتلا کیا گیا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بیماری اس کے لئے آزمائش ہو اور ہو سکتا ہے اس کے درجات بلند کرنے کے لیے ہو ۔ اس کی حکمت اللہ ہی جانتا ہے ۔
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں : کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سخت بخاری میں مبتلا ہوئے تو میرا یہ نظریہ ہی بدل گیا کہ انسان کی بیماری کا سبب گناہ ہی ہوتے ہیں ۔ بلکہ بیماری قدر و منزلت اور درجات کی بلندی کا سبب بھی ہو سکتی ہے ۔
صحابی رسول ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
( ( قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من یرد اللہ بہ خیرا یصب منہ ) )
” کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص سے اللہ جل شانہ بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں اسے مصائب میں مبتلا کر دیتے ہیں ۔ “ ( بخاری فتح 5645 )
کہ جب میرا بندہ اس دنیا سے رخصت ہو تو اس کا نامہ اعمال اس طرح صاف ہو جائے جیسے سفید چادر میل کچیل اور داغ دھبوں سے صاف ہوتی ہے ۔
ایک دفعہ ایک مجلس میں کسی نے بخار کو گالی دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مجلس میں تشریف فرما تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( ( لاتسبھا فانھا تنفی الذنوب کما تنفی النار خبث الحدید ) ) ( ابن ماجہ )
” کہ بخار کو گالی مت دو! یہ گناہوں کو اس سے دور کرتا ہے جس طرح آگ لوہے کی میل کچیل کو دور کر دیتی ہے ۔ “
صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( ( الحمی من فیح جہنم فابردوھا بالماء ) ) ( بخاری مع الفتح 5748 )
کہ بخار جہنم کی سخت گرمی کی وجہ سے ہے اسے پانی سے ٹھنڈا کرو ۔ ملاحظہ کیجئے یہ کئی دفعہ تجربہ ہوا ہے کہ بخار کی شدت میں ڈاکٹر صاحبان بھی برف کی پٹیاں استعمال کرنے کو کہتے ہیں جس سے عموماً مریض صحت یاب ہو جاتا ہے جبکہ یہ علاج اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اور آزمودہ علاج ہے ۔
صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایسے وقت میں حاضر ہوا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت بخار میں مبتلا تھے ۔ میں نے اپنے ہاتھ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر کو چھوا اور گوش گزار کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو تو بہت تیز بخار ہے! اللہ کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں مجھے اتنا بخار ہوتا ہے جتنا تمہارے دو آدمیوں کو ہوتا ہے ۔ تو پھر میں نے کہا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ثواب بھی دو گنا ہوتا ہے فرمایا ” ہاں “ پھر ارشاد فرمایا کہ کوئی مسلمان ایسا نہیں جس کو بیماری یا کوئی اور تکلیف پہنچی ہو مگر اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس کے گناہوں کو اس طرح جھاڑ دیتے ہیں جس طرح درخت سے پتے جھڑ جاتے ہیں ۔ ( بخاری مع الفتح 5660 و مسلم مع المنھاج 6504 )
حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ اور حضرت صنابحی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ دونوں ایک بیمار کی عیادت کے لیے گئے ۔ تو ہم نے اس بیمار سے پوچھا کیسے ہو ؟ ( رات کیسی گزری اور اب کیسا محسوس کر رہے ہو ) تو کہنے لگے کہ نعمت کے ساتھ ( یعنی الحمد للہ ) اللہ کا شکر ہے ۔
حضرت شداد رضی اللہ عنہ بولے کہ تجھے تیرے گناہ معاف ہونے اور خطاؤں کے زائل ہونے کی خوشخبری ہو ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ بے شک اللہ فرماتے ہیں کہ جس وقت میں کسی بندہ مومن کو آزمائش میں مبتلا کرتا ہوں اور وہ آزمائش کے وقت میری تعریف و تحمید کرتا ہے ، اللہ کا شکر ادا کرتا ہے ، تو اپنے بستر سے وہ اس طرح گناہوں سے پاک اٹھتا ہے جس طرح پیدائش کے وقت گناہوں سے پاک ہوتا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ ( فرشتوں سے ) فرماتے ہیں میں نے اپنے مومن بندے کو بیمار کر کے اس کو آزمائش میں ڈالا ( اب وہ میری عبادت یا نیکی کا کام اس طرح نہیں کر سکتا جس طرح وہ تندرستی میں کیا کرتا تھا ) تو اس کے اس عمل کا ثواب اسی طرح جاری رکھو جس طرح وہ تندرستی میں کیا کرتا تھا ۔ ( سبحان اللہ )
اللہ کی ذات بندے کے ساتھ رحیم و کریم ہے کہ بیمار بھی خود کرتے ہیں اور ثواب بھی مفت کا عنائت کرتے ہیں ۔ کاش کہ بندہ مومن بھی یہ سمجھ لے کہ اللہ اس بیماری کی حالت میں بھی اپنے بندے کو نہیں بھولے بلکہ مزید رحمتوں سے نواز رہیں ہیں ۔
سیدنا ابوسعید خدری نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں :
( ( قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ما یصیب المسلم من نصب ولا وصب ولاھم ولاحزن ولا اذی ولا غم حتی الشوکة یشاکھا الا کفراللہ بھا من خطایاہ ) ) ( بخاری 5647 ، سنن الکبری للبیھقی ج 3 ص373 )
” کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان کو کوئی رنج ، فکر ، دکھ اور غم نہیں پہنچتا یہاں تک کہ کوئی کانٹا بھی چبھ جائے تو اللہ وحدہ لا شریک لہ اس کے بدلے بھی اس کے گناہوں کو مٹا دیتے ہیں ۔ “
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
( ( سمعت رسول اللہ یقول مامن مومن یشوکہ شوکة فما فوقھا الا حط اللہ عنہ بھا خطیئة ورفع لہ بھا درجة ) ) ( سنن الکبریٰ للبیھقی )
” کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس مومن کو بھی ایک کانٹا چبھتا ہے یا اس سے بھی چھوٹی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ معاف کرنے کے ساتھ اس کے درجات بھی بلند کر دیتے ہیں ۔ “
صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
( ( سمعت رسول اللہ یقول قال اللہ عزوجل اذا ابتلیت عبدی بحبیبتہ ثم صبر عوضتہ منھما الجنة یرید عینیہ ) ) ( سنن الکبریٰ للبیھقی 385 )
” میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب میں اپنے بندے کو دو محبوب ترین چیزوں ( آنکھوں ) کی آزمائش میں مبتلا کر دیتا ہوں اور وہ صبر کرتا ہے تو اس کے بدلے میں اس کو جنت عطا کرتا ہوں ۔ “
صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
( ( قال رسول اللہ لایزال البلاءبالمومن والمومنة فی نفسہ ومالہ وفی ولدہ حتی یلقی اللہ تبارک وتعالی وما علیہ من خطیئة ) ) ( سنن الکبریٰ للبیھقی 374 )
” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا جو مومن مرد یا عورت ہمیشہ جانی لحاظ سے ، مالی لحاظ سے، اولاد کے سبب مرنے تک مصائب ومشکلات میں رہے اسی حالت میں وہ اللہ کو ملے تو وہ خطاؤں سے بالکل پاک صاف ہوگا۔“
صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( ( لن یدخل احدا منکم عملہ الجنة ، قالوا ولا انت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ولا انا الا ان یتغمدنی اللہ بفضل ورحمة فسددوا وقاربوا ولا یمنین احدکم الموت اما محسنا فلعلہ ان یزداد خیرا واما مسیئا فلعلہ ان یستعتب ) ) ( بخاری ، مسلم )
” کسی کو بھی اس کا عمل جنت میں نہیں لے جائے گا ۔ صحابی کرام رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ بھی نہیں ؟ فرمایا میں بھی نہیں ۔ مگر اللہ کا خاص فضل و کرم اور رحمت جو ڈھانپ لے ۔ لیکن تم میانہ روی اختیار کرو! اور صحیح راستہ ڈھونڈو! اور کوئی شخص بھی موت کی تمنا نہ کرے اگر نیکی کرنے والا ہے تو ہو سکتا ہے بھلائی کرنے کے مزید مواقع نصیب ہو جائیں اور اگر خطاکار ہے تو ہو سکتا ہے اصلاح اور توبہ کا موقع مل جائے اس سے معلوم ہوا کہ بعض لوگ کسی ایسی مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں جس سے تنگ آ کر موت کی تمنا کرنے لگ پڑتے ہیں حدیث کی رو سے ایسا ہر گز نہیں کرنا چاہیے ۔
حضرت سعد بن ابی وقاص فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کن لوگوں پر آزمائشیں زیادہ آتی ہیں ۔ فرمایا انبیاءپر پھر ان سے کم درجہ والے لوگوں پر پھر ان سے کم درجہ والوں پر ۔ جتنی دین میں مضبوطی ہو گی اتنی زیادہ آزمائش ہو گی اور اگر اس کے دین میں نرمی ہو گی تو آزمائش بھی ہلکی ہو گی اگر دین میں سختی اپنائے گا تو پھر آزمائش بھی سخت ہو گی کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو آزماتے ہیں کہ بھلا میرا بندہ میرے دین پر قائم رہتا ہے یا پھسل جاتا ہے اگر قائم رہتا ہے اسی طرح تکالیف ، دکھ ، غم ، درد ، پریشانیاں اور مصائب برداشت کرتا رہتا ہے تو پھر انسان کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ زمین پر چل رہا ہوتا ہے تو گناہوں سے بالکل پاک ہوتا ہے ۔
آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد ارشاد ملاحظہ کےے ہیں کہ بیماری انسان کے گناہوں کا کفارہ اور درجات کی بلندی کا سبب بنتی ہے ۔ اب اس شخص کا حال سنےے جس کو کبھی بیماری آئی ہی نہیں ۔
حضرت عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ( صحابہ کی مجلس میں ) فرمایا بے شک جب کبھی مومن کو کوئی بیماری ہوتی ہے ، تو وہ اس کے گزشتہ گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد جو اصحاب بیٹھے ہوئے تھے ان میں سے ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ! وما الاسقام ؟ ما مرضت قط اے اللہ کے رسول! بیماری کی حقیقت کیا ہے بخدا میں تو کبھی بیمار نہیں ہوا ۔
قال : قم فلست منا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اٹھ کھڑے ہو تم ہم میں سے نہیں ہو ۔ “ ( ابوداؤد )
دیکھا آپ نے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم بیماری کو ایمان کی ایک علامت قرار دے رہے ہیں جو کبھی بیمار نہیں ہوا اس کے ایمان اور خلوص میں شک ہے چنانچہ ایک دوسرے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( ( عجبت للمومن وجذعة من السقم ولو یعلم ما لہ فی السقم وجب ان یکون سقیما حتی یلقی اللہ تعالی ) )
” مجھے اس مومن پر تعجب ہوتا ہے جو مومن بھی ہو اور بیماری پر بے صبری کا مظاہرہ کرتا ہو ، اگر اس کو علم ہوتا کہ بیماری میں اس کے لیے کیا کیا فوائد ہیں تو وہ لازم پکڑ لیتا کہ وہ بیمار ہی رہے ۔ یہاں تک کہ اللہ سے جا ملے ۔ “ ( البزار )
بیماری کیسی بھی ہو اس کو برا یا بے صبری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ اللہ کی حکمت سمجھتے ہوئے توبہ و استغفار کرتے ہوئے صبر اور شکر کرنا چاہیے ۔
ایسا کرنے کی تلقین اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی فرمائی کہ مومن انسان کی حالت پر تعجب ہے جب اسے کوئی خوشی پہنچتی ہے تب بھی اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور جب کوئی مصیبت آ جاتی ہے تب بھی صبر اور شکر ادا کرتا ہے ۔ دونوں حالات میں اس کیلئے بہتری ہی بہتری ہے ۔ اگر انسان چیخ و پکار کرے گا ، واویلا کرے گا کسی دوسرے کو سنائے گا ۔ تو کیا اس کی بیماری دور ہو جائے گی ؟ اسے کوئی شفا دے دے گا ؟ یا اس کی مصیبت ٹل جائے گی نہیں ، ہر گز نہیں! جب تک اللہ نہ چاہے نہ کسی دواءسے شفا مل سکتی ہے اور نہ کسی طبیب اور ڈاکٹر سے ۔ اور یہی بندہ مومن کا عقیدہ ہے ۔
اور یہ وہ سبق ہے جو سب مومنوں اور مسلمانوں کے لیے سیدالانبیاءسرچشمہ نور ھدیٰ ، عرب و عجم کے راہبر و راہنما ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا کہ جب بھی کوئی شخص کسی بیمار کے پاس جائے تو اسے اللہ کی تعریف و تحمید اور گناہوں ، خطاؤں اور لغزشوں سے توبہ و استغفار کی طرف راغب کرے اور صبر و شکر کی تلقین کرے ۔ تا کہ اس کا دل و دماغ اللہ ہی کی طرف لگا رہے ۔ اگر صحت یاب ہو تو اجر و ثواب پائے اور اگر موت آ جائے تو اس دنیا سے بالکل پاک صاف ہو کر جائے۔