ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 574
- ری ایکشن اسکور
- 184
- پوائنٹ
- 77
کیا تابعی محمد بن منکدر رحمہ اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر جاکر ان سے مدد طلب کرتے تھے؟
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
علامہ ذھبی رحمہ اللہ نے سير أعلام النبلاء میں امام محمد بن منکدر رحمہ اللہ کے تعلق سے حکایات نقل فرمائی ہے:
وَقَالَ مُصْعَبُ بنُ عَبْدِ اللهِ: حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيْلُ بنُ يَعْقُوْبَ التَّيْمِيُّ، قَالَ: كَانَ ابْنُ المُنْكَدِرِ يَجْلِسُ مَعَ أَصْحَابِه، فَكَانَ يُصِيْبُه صُمَاتٌ، فَكَانَ يَقُوْمُ كَمَا هُوَ حَتَّى يَضَعَ خَدَّهُ عَلَى قَبْرِ النَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- ثُمَّ يَرْجِعُ. فَعُوتِبَ فِي ذَلِكَ، فَقَالَ: إِنَّهُ يُصِيْبُنِي خَطَرٌ، فَإِذَا وَجَدْتُ ذَلِكَ، اسْتَعَنْتُ بِقَبْرِ النَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-.
ابن منکدر اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے تھے تو ان کو بہرے پن کا مرض لاحق ہوا۔ وہ وہاں سے اٹھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر اپنا رخسار رکھا، پھر واپس پلٹ آئے۔ اس کام پر انہیں ملامت کی گئی ، تو انہوں نے کہا: جب مجھے مرض کا خطرہ محسوس ہوتا ہے، تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر جا کر فریاد کرتا ہوں۔
[سير أعلام النبلاء، ج : ٥، ص: ٣٥٨- ٣٥٩]
اس واقعہ کو قبر پرست بریلوی دلیل بناتے ہیں کہ ائمہ و اسلاف ہر مشکل اور پریشانی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہوتے اور ان کے ذریعے سے اللہ کی بارگاہ میں دعا فرماتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر انور پر استغاثہ پیش کیا کرتے تھے جبکہ سلفی اہل حدیث تو ائمہ اسلاف کی ان تعلیمات پر شرک و کفر کے فتوے لگاتے نہیں تھکتے!
تو عرض ہے کہ قبوریوں کی جانب سے پیش کیا جانے والا یہ اثر بالکل ضعیف اور غیر ثابت ہے۔
اس کی سند میں "اسماعیل بن یعقوب تیمی" ضعیف راوی ہے۔
ابن أبي حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
إسماعيل بن يعقوب التيمي روى عن هشام بن عروة روى عنه يعقوب بن حميد سمعت أبي وأبا زرعة يقولان ذلك، زاد أبو زرعة: يعد في [الحجازيين وزاد أبي روى عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ الله.قال أبو محمد روى عنه داود بن عبد الله الجعفري.
سمعت أبي يقول هو ضعيف الحديث.
[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ج: ٢، ص: ٢٠٤]
علامہ ذھبی رحمہ اللہ "ديوان الضعفاء والمتروكين" میں فرماتے ہیں:
إسماعيل بن يعقوب التيمي: ضعفه أبو حاتم.
[ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين، ص: ٣٨]
اسی طرح علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے بھی کتاب "الضعفاء والمتروكون" میں إسماعيل بن يعقوب التيمي کا تذکرہ کر لکھا ہے :
إِسْمَاعِيل بن يَعْقُوب التَّيْمِيّ قَالَ أَبُو حَاتِم الرَّازِيّ ضَعِيف الحَدِيث
[الضعفاء والمتروكون لابن الجوزي، ج: ١، ص: ١٢٣]
حافظ ابن حجر العسقلاني رحمہ اللہ "لسان الميزان" میں فرماتے ہیں :
إسماعيل بن يعقوب التَّيمي، عن هشام بن عروة. ضعَّفه أبو حاتم، وله حكايةٌ منكرة عن مالكٍ ساقَها الخطيب، وقيل: بينه وبين هشام رجل، انتهى.
[لسان الميزان، ج: ٢، ص: ١٨٥]
اسی طرح شیخ شعيب الأرنؤوط نے بھی "سير أعلام النبلاء" کی تحقیق میں اس قصہ پر حکم لگایا ہے :
إسناد القصة ضعيف، فقد قال المصنف في " ميزان الاعتدال " في ترجمة إسماعيل بن يعقوب التيمي: ضعفه أبو حاتم وله حكاية منكرة عن مالك ساقها الخطيب.
[كتاب سير أعلام النبلاء - ط الرسالة، ج: ٥، ص: ٣٥٩]
اس کے علاوہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد مانگنا، ان سے فریاد کرنا ان کی قبر سے استغاثہ واستعانت کرنا شرک ہے جو کسی طرح بھی جائز نہیں ہے کیونکہ یہ قرآن کی واضح تعلیمات کے خلاف ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے :
وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ ۖ فَإِن فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِّنَ الظَّالِمِينَ
اور اللہ کو چھوڑ کر اس چیز کو مت پکار جو نہ تجھے نفع دے اور نہ تجھے نقصان پہنچائے، پھر اگر تو نے ایسا کیا تو یقیناً تو اس وقت ظالموں سے ہوگا۔
[سورۃ یونس، آیت : ۱۰۶]
شیخ عبد الرحمن بن ناصر آل سعدي رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهذا وصف لكل مخلوق، أنه لا ينفع ولا يضر، وإنما النافع الضار، هو الله تعالى. {فَإِنْ فَعَلْتَ} بأن دعوت من دون الله، ما لا ينفعك ولا يضرك {فَإِنَّكَ إِذًا مِنَ الظَّالِمِينَ} أي: الضارين أنفسهم بإهلاكها، وهذا الظلم هو الشرك كما قال تعالى: {إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ} فإذا كان خير الخلق، لو دعا مع الله غيره، لكان من الظالمين المشركين فكيف بغيره؟!!
یہ وصف ہر مخلوق کی ہے، مخلوق نہ کوئی فائدہ دے سکتی ہے نہ نقصان، نفع اور نقصان پہنچانے والی ہستی صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے ﴿فَإِن فَعَلْتَ﴾ ” اگر ایسا کرو گے“ یعنی اگر آپ نے اللہ کے علاوہ کسی ہستی کو پکارا جو کسی کو نفع دے سکتی ہے نہ نقصان ﴿ فَإِنَّكَ إِذًا مِّنَ الظَّالِمِينَ﴾ ” تو ظالموں میں سے ہوجاؤ گے۔“ یعنی آپ کا شمار ان لوگوں میں ہوگا جنہوں نے ہلاکت کے ذریعے سے اپنے آپ کو نقصان پہنچایا۔ یہاں ظلم سے مراد شرک ہے جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ﴿إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ﴾ ” بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے“ اگر اللہ تعالیٰ کی بہترین مخلوق، اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو پکارے تو اس کا شمار مشرکوں میں ہوجاتا ہے، تو دیگر لوگوں کا کیا حال ہوگا؟
[تيسير الكريم الرحمن في تفسير كلام المنان، ص: ٣٧٥]
وَلَا تَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ ۘ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ ۚ لَهُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو مت پکار، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے، مگر اس کا چہرہ، اسی کے لیے حکم ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔
[سورۃ القصص، آیت : ۸۸]
اس آیت کی تفسیر میں حافظ صلاح الدین یوسف فرماتے ہیں: قرآن میں ہر جگہ غیر اللہ کی عبادت کو پکارنے سے تعبیر کیا گیا ہے، جس سے مقصود اسی نکتے کی وضاحت ہے کہ غیر اللہ کو مافوق الاسباب طریقے سے پکارنا، ان سے استمداد واستغاثہ کرنا، ان سے دعائیں اور التجائیں کرنا یہ ان کی عبادت ہی ہے جس سے انسان مشرک بن جاتا ہے۔ [تفسیر احسن البیان]
قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي ضَرًّا وَلَا نَفْعًا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۗ لِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ ۚ إِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَلَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ
آپ فرما دیجئے کہ میں اپنی ذات کے لئے تو کسی نفع کا اور کسی ضرر کا اختیار رکھتا ہی نہیں مگر جتنا اللہ کو منظور ہو، ہر امت کے لئے ایک معین وقت ہے جب ان کا وہ معین وقت آپہنچتا ہے تو ایک گھڑی نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ اگے سرک سکتے ہیں۔
[سورۃ یونس، آیت : ۴۹]
أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ
بے کس کی پکار کو جب کہ وہ پکارے، کون قبول کر کے سختی کو دور کردیتا ہے اور تمہیں زمین کا خلیفہ بنانا ہے کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور معبود ہے؟ تم بہت کم نصیحت و عبرت حاصل کرتے ہو۔
[سورۃ النمل، آیت : ۶۲]
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
ينبه تعالى أنه هو المدعو عند الشدائد، المرجو عند النوازل، كما قال تعالى: ﴿وَإِذا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُونَ إِلاّ إِيّاهُ﴾ [الإسراء: ٦٧] وقال تعالى: ﴿ثُمَّ إِذا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَإِلَيْهِ تَجْئَرُونَ﴾ [النحل: ٥٣] وهكذا قال هاهنا ﴿أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذا دَعاهُ﴾ أي من هو الذي لا يلجأ المضطر إلا إليه، والذي لا يكشف ضر المضرورين سواه.
بے کسوں کا سہار سختیوں اور مصیبتوں کے وقت پکارے جانے کے قابل اسی کی ذات ہے ۔ بےکس ، بےبس لوگوں کا سہارا وہی ہے گرے پڑے بھولے بھٹکے مصیبت زدہ اسی کو پکارتے ہیں ۔ اسی کی طرف لو لگاتے ہیں جیسے فرمایا کہ تمہیں جب سمندر کے طوفان زندگی سے مایوس کر دیتے ہیں تو تم اسی کو پکارتے ہو اس کی طرف گریہ وزاری کرتے ہو اور سب کو بھول جاتے ہو ۔ اسی کی ذات ایسی ہے کہ ہر ایک بیقرار وہاں پناہ لے سکتا ہے مصیبت زدہ لوگوں کی مصیبت اس کے سوا کوئی بھی دور نہیں کر سکتا۔
[تفسير القرآن العظيم، ج: ٦، ص: ١٨٣]
امام محمد بن عبد الوھاب التمیمی النجدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
من جعل بينه وبين الله وسائط يدعوهم ويسألهم الشفاعة، ويتوكل عليهم، كفر إجماعا
جس نے اللہ تعالی اور اپنے درمیان کوئی واسطے اور وسیلے بنائے جنہیں وہ پکارے اور ان سے شفاعت طلب کرے اور ان پر توکل اور بھروسہ کرے تو وہ بالاجماع کافر ہے۔
[الدرر السنية في الأجوبة النجدية، ج: ٢، ص: ٣٦١]