ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 650
- ری ایکشن اسکور
- 197
- پوائنٹ
- 77
کیا توحید سے جہالت شرک کا عذر بن سکتی ہے؟ مدخلی مولوی عبید الجابری کے باطل نظریے پر شیخ ایمن بن سعود العنقری حفظہ اللہ کا علمی رد
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الأستاذ المشارك بقسم العقيدة والمذاهب المعاصرة بجامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية فضيلة الشیخ الدكتور أيمن بن سعود العنقري حفظہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
قرأت كتاب:(البيان المفيد في شرح كتاب التوحيد) ل عبيد الجابري ،قال في ص 149:(فعلى سبيل المثال:لو أن الله أنقذ على يديك رجلا ،فشهد الشهادتين وصار يصلي،ثم لما جاء قبرا من القبور سجد،فهذا العمل شركي،لكن هل نقول في هذا الرجل هو مشرك؟ لا؛لأنه يظن جواز ذلك؛لأنه مافقه التوحيد حق الفقه).
میں نے کتاب البيان المفيد في شرح كتاب التوحيد از عبید الجابری کا مطالعہ کیا، جس کے صفحہ 149 پر اس نے کہا ہے: "مثال کے طور پر، اگر اللہ نے تمہارے ذریعے کسی آدمی کو ہدایت دی، اس نے شہادتین کی گواہی دی اور نماز پڑھنے لگا، پھر جب وہ کسی قبر کے قریب پہنچا تو اسے سجدہ کیا، تو یہ عمل شرک ہے۔ لیکن کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ شخص مشرک ہے؟ نہیں؛ کیونکہ وہ اسے جائز سمجھتا ہے، کیونکہ اس نے توحید کو صحیح طریقے سے نہیں سمجھا۔"
أقول:كلام عبيد باطل لمخالفته الكتاب والسنة والإجماع
أما الكتاب:فقوله تعالى:(ومن يدع مع الله إلها آخر لابرهان له به فإنما حسابه عند ربه إنه لايفلح الكافرون)
میں کہتا ہوں: عبید کا قول باطل ہے کیونکہ یہ کتاب، سنت اور اجماع کے مخالف ہے۔ جہاں تک کتاب کا تعلق ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "اور جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو پکارتا ہے، اس کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں، تو اس کا حساب اس کے رب کے پاس ہے، بے شک کافر لوگ فلاح نہیں پاتے۔"
وجه الدلالة:أن الله سمى من دعا غيره كافرا،فنحن نقول بنص الآية :أن من سجد لقبر من القبور فهو مشرك .
وجہ الدلالہ : اللہ نے اس شخص کو کافر قرار دیا ہے جو کسی اور کو اللہ کے ساتھ پکارے، پس ہم آیت کی نص کے مطابق کہتے ہیں کہ جو شخص قبر کے سامنے سجدہ کرے وہ مشرک ہے۔
من السنة/ قوله صلى الله عليه وسلم :(من قال لاإله إلا الله وكفر بمايعبد من دون الله حرم دمه وماله وحسابه على الله)
سنت سے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص لا الہ الا اللہ کہے اور اللہ کے سوا جس چیز کی عبادت کی جاتی ہے، اس کا انکار کرے، اس کا خون اور مال حرام ہے، اور اس کا حساب اللہ کے سپرد ہے۔"
ومن سجد لصاحب القبر لم يكفر بمايعبد من دون الله فصار مشركا لم يحرم دمه وماله .
اور جو شخص قبر والے کو سجدہ کرے، وہ اللہ کے سوا جن کی عبادت کی جاتی ہے، ان کا انکار نہیں کرتا، پس وہ مشرک ہوتا ہے، اس کا خون اور مال حرام نہیں ہوتا۔
الإجماع/ نقله شيخ الإسلام ابن تيمية بقوله في مجموع الفتاوى(1/ 124):(فمن جعل الملائكة والأنبياء وسائط يدعوهم ،ويتوكل عليهم،ويسألهم جلب المنافع ودفع المضار،مثل أن يسألهم غفران الذنب،وهداية القلوب،وتفريج الكربات ، وسد الفاقات :فهو كافر بإجماع المسلمين).
اجماع سے: شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اپنے مجموع الفتاویٰ (1/ 124) میں فرمایا: "جو شخص فرشتوں اور نبیوں کو وسیلہ بنا کر انہیں پکارے، ان پر توکل کرے، اور ان سے نفع طلب کرے اور پریشانیوں کو دور کرنے کی درخواست کرے، جیسے کہ ان سے گناہوں کی مغفرت، دلوں کی ہدایت، غموں کا دور کرنا، اور ضروریات کو پورا کرنے کی درخواست کرے، تو وہ مسلمانوں کے اجماع کے مطابق کافر ہے۔"
أقول:وأما قول عبيد؛لأنه يظن جواز ذلك؛ولأنه مافقه التوحيد حق الفقه، فهذا باطل وموافقة منه لبدعة الجاحظ وعبدالله العنبري من المعتزلة.
میں کہتا ہوں: اور جہاں تک عبید کے قول کا تعلق ہے کہ لأنه يظن جواز ذلك؛لأنه مافقه التوحيد حق الفقه "کیونکہ وہ اسے جائز سمجھتا ہے، کیونکہ اس نے توحید کو صحیح طریقے سے نہیں سمجھا۔" یہ بات باطل ہے اور اس میں عبید جابری جاحظ اور عبداللہ العنبری کی معتزلہ کی بدعت کی موافقت کر رہا ہے۔
قال ابن قدامة في روضة الناظر (2/ 712-713):(وزعم الجاحظ أن مخالف ملة الإسلام إذا نظر فعجز عن درك الحق فهو معذور غير آثم).
ابن قدامہ نے روضة الناظر (2/ 712-713) میں فرمایا:
"جاحظ نے یہ گمان کیا کہ اگر کوئی شخص ملت اسلامیہ کے خلاف ہو اور حق کو سمجھنے میں عاجز ہو، تو وہ معذور اور بے گناہ ہے۔"
فالجاحظ يرى أن من اجتهد فأدى اجتهاده للوقوع في أي مكفر صريح أولديه شبهة أوكان جاهلا أو متأولا ووقع في أي ناقض من نواقض الإسلام فهو معذور مالم يكن معاندا، وكلام عبيد موافق لبدعة الجاحظ ،وقال عبيد الله بن الحسن العنبري من المعتزلة:(كل مجتهد مصيب في الأصول والفروع جميعا)
قال ابن قدامة معلقا:(وهذه كلها أقاويل باطلة).
جاحظ کا یہ نظریہ تھا کہ جو شخص اجتہاد کرے اور اس کے اجتہاد کے نتیجے میں وہ کسی صریح کفر میں مبتلا ہو یا اس کے پاس کوئی شبہ ہو یا وہ جاہل ہو یا تاویل کرے اور کسی ایسی چیز میں مبتلا ہو جو نواقض الاسلام میں سے ہو، تو وہ معذور ہوگا جب تک کہ وہ ہٹ دھرمی نہ کرے۔ عبید کا قول جاحظ کی بدعت کے مطابق ہے، اور عبید اللہ بن حسن العنبری جو معتزلہ میں سے تھا، وہ کہتا ہے: "ہر مجتہد اصول اور فروع میں صحیح ہے۔"
ابن قدامہ رحمہ اللہ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا: "یہ سب باتیں باطل ہیں۔"
وأيضا/قول عبيد؛لأنه مافقه التوحيد حق الفقه فنقول:هذا ليس عذرا ؛لأنه معرض ومفرطين عن تعلم التوحيد،فمن تمكن من التعلم ولم يتعلم فهو معرض .
اور اسی طرح عبید کا کہنا کہ لأنه مافقه التوحيد حق الفقه "وہ توحید کو صحیح طور پر نہیں سمجھا"، ہم کہتے ہیں: یہ عذر نہیں ہے؛ کیونکہ وہ تو توحید کا علم حاصل کرنے سے منہ موڑنے والا اور اس کی تعلیم میں کوتاہی کرنے والا ہے۔ جو شخص سیکھنے کی استطاعت رکھتا ہو اور پھر بھی نہ سیکھے، وہ دراصل توحید سے منہ موڑنے بوالا ہے۔
[مأخوذ من الحساب الرسمي للشيخ أيمن بن سعود العنقري حفظه الله]