علی محمد
مبتدی
- شمولیت
- مارچ 03، 2023
- پیغامات
- 58
- ری ایکشن اسکور
- 1
- پوائنٹ
- 21
الحمد للہ.
"الموسوعة الفقهية الكويتية" (34/ 117) کے مطابق قیام اللیل یہ ہے کہ : "نماز، تلاوت قرآن، اور ذکر الہی جیسی دیگر عبادات میں رات گزارنا یا رات کا کچھ حصہ گزارنا چاہے ایک لمحہ ہی ہو ، نیز یہ شرط نہیں ہے کہ رات کا اکثر حصہ عبادت میں گزاریں۔
مراقی الفلاح میں ہے کہ: قیام اللیل کا مطلب یہ ہے کہ رات کا بڑا حصہ اطاعت گزاری میں مشغول رہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ : رات کی کسی گھڑی میں قرآن پڑھے، یا حدیث سنے یا نوافل پڑھے یا نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر درود پڑھے۔" مختصراً ختم شد
جبکہ تہجد : صرف رات کی نماز پر بولا جاتا ہے، کچھ اہل علم نے تہجد کے لئے شرط لاگو کی ہے کہ رات کو سونے کے بعد جو نماز پڑھی جائے وہ تہجد کہلاتی ہے۔
حجاج بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
"تم میں سے کوئی رات کو صبح تک قیام کر کے یہ سمجھتا ہے کہ اس نے تہجد پڑھی ہے، تہجد تو یہ ہے کہ تھوڑی دیر سونے کے بعد نماز پڑھی، پھر دوبارہ سونے کے بعد اٹھ کر پڑھی جائے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز ایسی ہی تھی۔ "
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ "التلخيص الحبير" (2/ 35) میں لکھتے ہیں کہ: "اس اثر کی سند حسن ہے، اس کی سند میں ابو صالح جو کہ لیث کے کاتب تھے اس میں معمولی کمزوری ہے، نیز اس اثر کو طبرانی نے بھی روایت کیا ہے، لیکن طبرانی کی سند میں ابن لھیعہ ہے، تاہم اس کی روایت سابقہ روایت سے تقویت حاصل کر لیتی ہے" ختم شد
تو ان تفصیلات سے معلوم ہوا کہ قیام اللیل کا مفہوم تہجد کے مقابلے میں وسیع اور عام ہے؛ کیونکہ قیام اللیل میں نماز اور دیگر عبادات سب شامل ہیں، اسی طرح سونے سے پہلے یا بعد کی نماز بھی شامل ہے۔
جبکہ تہجد کا لفظ نماز کے ساتھ خاص ہے، اور اس بارے میں دو موقف ہیں: پہلا یہ کہ: یہ رات کی کسی بھی نماز پر بولتے ہیں، یہ اکثر فقہائے کرام کا موقف ہے۔
دوسرا موقف یہ ہے کہ: رات کو سونے کے بعد اٹھ کر پڑھی جانے والی نماز تہجد کہلاتی ہے۔
اس بارے میں مزید کے لئے آپ الموسوعة الفقهية (2/ 232) دیکھیں۔
امام قرطبی رحمہ اللہ نے وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا
ترجمہ: رات کے کچھ حصے میں تہجد کی نماز میں قرآن کی تلاوت کریں یہ آپ کے لئے زائد عمل ہے عنقریب آپ کا رب آپ کو مقام محمود پہ کھڑا کرے گا ۔[الإسراء:79] کی تفسیر میں لکھا ہے کہ:
"لفظ تہجد، عربی کے لفظ ھجود سے ماخوذ ہے، جو کہ اضداد میں سے ہے، یعنی ھجد کہہ کر سونا ، اور جاگنا دونوں ہی مراد لیے جاتے ہیں، جیسے کہ شاعر کا شعر ہے کہ:
أَلا زارَت وَأَهلُ مِنىً هُجودُ وَلَيتَ خَيالَها بِمِنىً يَعودُ
ترجمہ: وہ کیوں نہ ملنے آئی حالانکہ اہل منی بیدار تھے، کاش کہ اس کا خیال ہی منی میں آ جاتا۔
ألا طرقَتنا والرفاقُ هجودُ فباتَت بعِلّاتِ النوالِ تجودُ
وہ رات کے وقت ہمیں ملنے کیوں نہ آئی کہ ساتھی سوئے ہوئے تھے اور وہ ساری رات وصال کی بیماری میں سخاوت کرتی۔
تو اس لیے ھجد اور تھجد کے دو معنی ہیں: سونا اور بیدار ہونا۔
عربی لغت میں تہجد تھوڑی دیر سو کر اٹھنے کو کہتے ہیں، پھر بعد میں یہ نماز کا نام بن گیا؛ کیونکہ اس نماز کے لئے بیدار ہوا جاتا ہے، تو لغوی معنی سے مناسبت یہ ہو گی کہ اس نماز کے لئے سو کر اٹھتے ہیں، یہ معنی الاسود، علقمہ، عبد الرحمن بن الاسود اور دیگر نے بیان کیا ہے۔
اسماعیل بن اسحاق قاضی نے صحابی رسول صلی اللہ علیہ و سلم حجاج بن عمرو رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں: تم میں سے کوئی رات کو صبح تک قیام کر کے یہ سمجھتا ہے کہ اس نے تہجد پڑھی ہے، تہجد تو یہ ہے کہ تھوڑی دیر سونے کے بعد نماز پڑھی، پھر دوبارہ سونے کے بعد اٹھ کر نماز پڑھی جائے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز ایسی ہی تھی۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ الھجود کا معنی نیند ہے، تو " تهجد الرجل"اس وقت کہا جاتا ہے جب کوئی آدمی رات کو بیدار ہو، اور نیند کو اپنے آپ سے ہٹا دے، پھر رات کو نماز پڑھنے والے کے لئے بھی عربی زبان میں لفظ " متهجد" بولتے ہیں؛ کیونکہ تہجد پڑھنے والا نیند کو اپنے آپ سے بھگا کر نماز ادا کرتا ہے۔" ختم شد
"تفسير القرطبي" (10/ 307)
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"نماز تراویح ، قیام اور تہجد میں کیا فرق ہے؟ ہمیں اس بارے میں فتوی عنایت فرمائیں، اللہ آپ کو اجر سے نوازے"
تو انہوں نے جواب دیا کہ:
"رات کی نماز کو تہجد کہتے ہیں، اور اسی کو قیام اللیل بھی کہتے ہیں، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ ترجمہ: رات کے کچھ حصے میں تہجد کی نماز میں قرآن کی تلاوت کریں یہ آپ کے لئے زائد عمل ہے[الاسراء: 79]
ایک اور مقام پر فرمایا: يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ * قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا ترجمہ: اے چادر اوڑھنے والے ٭ تھوڑے وقت کے علاوہ رات قیام کریں[المزمل: 1،2]
اسی طرح سورت ذاریات میں اللہ تعالی نے اپنے متقی بندوں کے بارے میں فرمایا: آخِذِينَ مَا آتَاهُمْ رَبُّهُمْ إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذَلِكَ مُحْسِنِينَ * كَانُوا قَلِيلًا مِنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ ترجمہ: جو کچھ ان کا پروردگار انہیں دے گا وہ لے رہے ہوں گے۔ وہ اس دن کے آنے سے پہلے نیکو کار تھے [16] وہ رات کو کم ہی سویا کرتے تھے۔[الذاریات: 16، 17]
جبکہ تراویح کا لفظ علمائے کرام کے ہاں رمضان میں رات کے ابتدائی حصے میں پڑھے جانے والے قیام اللیل پر بولا جاتا ہے، اس میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ اس کی رکعات قدرے ہلکی ہوں لمبی نہ ہوں، اس کو تہجد کہنا بھی جائز ہے، اور اسی طرح قیام اللیل بھی کہہ سکتے ہیں ، اس میں کوئی اختلاف والی بات نہیں ہے۔ اللہ تعالی توفیق دے۔" ختم شد
"فتاوى شیخ ابن باز" (11/ 317)
قیام اللیل کے ثواب اور فضیلت کے لیے آپ سوال نمبر: (50070) کا جواب ملاحظہ کریں۔
نیز قیام اللیل کے لئے معاون اسباب جاننے کے لئے آپ سوال نمبر: (3749) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم
ماخذ: الاسلام سوال و جواب
ماخذ: الاسلام سوال و جواب