تحنیک یہ کھجور کے ساتھ لعاب سے برکت حاصل کرنے کا نام ہے اوریہ چیز صرف اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ساتھ خاص ہے ۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی بھی شخص کی ذات سے تبرک حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔
تحنیک بھی تبرک ہی کی ایک شکل ہے اس لئے یہ چیز بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ساتھ خاص ہے ۔ اس کی مزید تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ صحابہ وتابعین میں سے کسی ایک بھی شخص سے بسند صحیح یہ ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے تحنیک کی ہو ۔ اس سلسلے میں کوئی ایک روایت بھی صحیح سند سے موجود نہیں ہے۔
بعض حضرات مسند احمد کی اس حدیث سے عموم کا استدلال کرتے ہیں:
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: اشْتَكَى ابْنٌ لِأَبِي طَلْحَةَ، فَخَرَجَ أَبُو طَلْحَةَ إِلَى الْمَسْجِدِ فَتُوُفِّيَ الْغُلَامُ، فَهَيَّأَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ الْمَيِّتَ. وَقَالَتْ لِأَهْلِهَا: لَا يُخْبِرَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ أَبَا طَلْحَةَ بِوَفَاةِ ابْنِهِ، فَرَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ، وَمَعَهُ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ الْمَسْجِدِ مِنْ أَصْحَابِهِ. قَالَ: مَا فَعَلَ الْغُلَامُ؟ قَالَتْ: خَيْرُ مَا كَانَ، فَقَرَّبَتْ إِلَيْهِمْ عَشَاءَهُمْ، فَتَعَشَّوْا وَخَرَجَ الْقَوْمُ، وَقَامَتِ الْمَرْأَةُ إِلَى مَا تَقُومُ إِلَيْهِ الْمَرْأَةُ، فَلَمَّا كَانَ آخِرُ اللَّيْلِ، قَالَتْ: يَا أَبَا طَلْحَةَ، أَلَمْ تَرَ إِلَى آلِ فُلَانٍ اسْتَعَارُوا عَارِيَةً فَتَمَتَّعُوا بِهَا، فَلَمَّا طُلِبَتْ كَأَنَّهُمْ كَرِهُوا ذَاكَ. قَالَ: مَا أَنْصَفُوا، قَالَتْ: فَإِنَّ ابْنَكَ كَانَ عَارِيَةً مِنَ اللهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، وَإِنَّ اللهَ قَبَضَهُ فَاسْتَرْجَعَ وَحَمِدَ اللهَ، فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَآهُ قَالَ: " بَارَكَ اللهُ لَكُمَا فِي لَيْلَتِكُمَا "، فَحَمَلَتْ بِعَبْدِ اللهِ فَوَلَدَتْهُ لَيْلًا، وَكَرِهَتْ أَنْ تُحَنِّكَهُ حَتَّى يُحَنِّكَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَحَمَلْتُهُ غُدْوَةً، وَمَعِي تَمَرَاتُ عَجْوَةٍ، فَوَجَدْتُهُ يَهْنَأُ أَبَاعِرَ لَهُ، أَوْ يَسِمُهَا، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ أُمَّ سُلَيْمٍ وَلَدَتِ اللَّيْلَةَ، فَكَرِهَتْ أَنْ تُحَنِّكَهُ حَتَّى يُحَنِّكَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " أَمَعَكَ شَيْءٌ؟ " قُلْتُ: تَمَرَاتُ عَجْوَةٍ، فَأَخَذَ بَعْضَهُنَّ فَمَضَغَهُنَّ، ثُمَّ جَمَعَ بُزَاقَهُ فَأَوْجَرَهُ إِيَّاهُ، فَجَعَلَ يَتَلَمَّظُ، فَقَالَ: " حُبُّ الْأَنْصَارِ التَّمْرَ ". قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ سَمِّهِ، قَالَ: " هُوَ عَبْدُ اللهِ "[مسند أحمد ط الرسالة 19/ 86]
اس روایت میں محل شاہد یہ جملہ ہے:
وَكَرِهَتْ أَنْ تُحَنِّكَهُ حَتَّى يُحَنِّكَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
یعنی ام سلیم نے اس بات کو ناپسند کیا کہ بچے کی تحنیک کریں اس سے قبل کی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تحنیک کردیں۔
تقریر استدلال یہ ہے کہ اس روایت میں ہے کہ تحنیک نبوی سے قبل ام سلیم نے اپنی تحنیک کو ناپسند کیا ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ میں اوروں کی تحنیک بھی عام تھی ۔
عرض ہے کہ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اس روایت میں خود بچے کی ماں کی تحنیک کا ذکر ہے ، سوال یہ ہے کہ کیا عہدصحابہ میں بچوں کی مائیں بھی اپنے بچوں کی تحنیک کرتی تھی ؟ اس عقدہ کو حل کرنے کے لئے جب ہم اس روایت کو تمام طرق اور تمام سندوں کے ساتھ دیکھتے ہیں تو یہ حقیقت کھل کرسامنے آتی ہے کہ مسند احمد کے طریق میں راوی سے روایت بالمعنی کرنے میں چوک ہوئی ہے ۔ اور یہ الفاظ سرے سے اس حدیث میں ثابت ہی نہیں ہیں جن پر استدلال کی عمارت قائم کی گئی ہے ۔
دراصل ام سلیم کی خواہش یہ تھی کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تحنیک سے قبل بچے کے منہ میں کوئی اور چیز نہ جانے پائے چنانچہ یہ حدیث بخاری میں ہے اور وہاں پر متعلقہ الفاظ یہ ہیں:
فَلاَ يُصِيبَنَّ شَيْئًا حَتَّى تَغْدُوَ بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَنِّكُهُ
یعنی بچے کچھ نہ لینے پائے یہاں تک اسے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا جائے اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تحنیک کردیں[صحيح البخاري 7/ 148]
اور یہاں ام سلیم کی مراد بچے کو دوددھ پلانا تھا ، یعنی ان کی خواہش یہ تھی کہ بچے کواس وقت تک دودھ نہ پلایا جائے جب تک کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تحنیک نہ کردیں ، چنانچہ صحیح مسلم کی روایت میں یہ بات پوری صراحت کے ساتھ موجود ہے چنانچہ مسلم میں منقول اسی حدیث کے متعلقہ الفاظ ہیں:
يَا أَنَسُ لَا يُرْضِعُهُ أَحَدٌ حَتَّى تَغْدُوَ بِهِ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ام سلیم نے کہا: اے انس ! اس بچے کوکوئی بھی دودھ نہ پلانے پائے یہان تک کہ اسے (تحنیک کے لئے) اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لاؤ ۔۔۔(اور پھر روایت میں آگے ذکر ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تحنیک کی) [صحيح مسلم 3/ 1909]
صحیح مسلم کی اس روایت سے حدیث کے مذکورہ حصہ کا مفہوم بالکل واضح ہوگیا کہ یہاں ام سلیم کی اس خواہش کا ذکر ہے کہ بچے کو دودھ پلانا شروع نہ کیا جائے یہاں تک کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تحنیک کردیں ۔بخاری ومسلم کی صحیح ترین روایت میں اسی مفہوم کا بیان ہے لیکن مسند احمد کی طریق میں کسی راوی سے روایت بالمعنی میں چوک ہوئی ۔ اور بعض اہل علم نے سند و متن کی تحقیق سے قبل ہی اس پر استدلال کی عمارت کھڑی کردی ۔
یادرہے کہ جس طرح صحیح روایت کے بعض الفاظ کی روایت میں بعض ثقہ رواۃ سے غلطی ہوجاتی ہے ٹھیک اسی طرح صحیح روایت کے بعض الفاظ کو روایت بالمعنی کرنے میں بھی بعض ثقہ رواۃ غلطی کے شکار ہوجاتے ہیں ۔علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی صفۃ الصلاۃ میں ’’انا من المسلمین‘‘ اور ’’انا اول المسلمین ‘‘ پر بحث کرتے ہوئے اسی بات کی وضاحت کی ہے۔لیکن یادرہے کہ اس طرح کے معاملات میں راوی کی تغلیط کے لئے دلیل درکار ہے بغیر دلیل کے ہم کسی بھی ثقہ راوی کی طرف لفظی یا معنوی غلطی منسوب نہیں کرسکتے ۔
تنبیہ:
امام ابن قيم رحمه الله (المتوفى751)نے کہا:
وقال الخلال أخبرني محمد بن علي قال سمعت أم ولد أحمد بن حنبل تقول لما أخذ بي الطلق كان مولاي نائما فقلت له يا مولاي هو ذا أموت فقال يفرج الله فما هو إلا أن قال يفرج الله حتى ولدت سعيدا فلما ولدته قال هاتوا ذلك التمر لتمر كان عندنا من تمر مكة فقلت لأم علي إمضغي هذا التمر وحنكيه ففعلت والله أعلم [تحفة المودود ص: 33]
عرض ہے کہ امام خلال کے اساتذہ میں محمدبن علی نام کے کئ لوگ ہیں اور یہاں محمدبن علی کون ہیں اس کے تعین کے لئے کوئی ٹھوس قرینہ ہمیں نہیں مل سکا اس لئے امام احمد رحمہ اللہ سے یہ بات ہمارے نزدیک ثابت نہیں ۔ اور یہ ثابت بھی ہوجائے تو یہ محض ایک فتوی ہے ۔ اور اس کے دلائل موجود نہیں ہیں۔واللہ اعلم۔
خلاصہ یہ کہ:
نومولود کے لئے تحنیک کا عمل اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ساتھ خاص ہے ۔ امتی میں سے کسی اور شخص کے لئے اس عمل کی دلیل موجود نہیں ہے۔
نیز کہا جاتا ہے کہ جدید طبی تحقیقات کی رو سے نومود بچے کے منہ میں کسی اور شخص کا لعاب جانا بچے کی صحت کے لئے مضر ہے ۔واللہ اعلم۔ یادرہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لعاب کا معاملہ الگ ہے ۔ آپ نبی تھے اور آپ کا لعاب بھی بابرکت تھا لیکن آپ کے علاوہ امتیوں میں سے کسی اور شخص کے ایسا معاملہ نہیں ہے۔