• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا حدیثِ عمار "تقتلك الفئة الباغية" سے سیدنا معاویہ کا باغی و باطل پر ہونا ثابت ہوتا ہے ؟

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
کیا حدیثِ عمار "تقتلك الفئة الباغية" سے سیدنا معاویہ کا باغی و باطل پر ہونا ثابت ہوتا ہے ؟

⁦تحریر: حافظ عبدالرحمن المعلمی


بعض لوگ اس حدیث کی بنیاد پر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ کو باغی اور باطل پر لڑنے والا کہتے ہیں جیسا کہ مولانا مودودی صاحب نے لکھا ہے:اس جنگ کے دوران میں ایک ایسا واقعہ پیش آ گیا جس نے نصِ صریح سے یہ بات کھول کر رکھ دی کہ فریقین میں حق پر کون تھا اور باطل پر کون وہ واقعہ یہ ہے کہ عمار بن یاسر جو علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں شامل تھے ۔۔۔۔۔

خلافت و ملوکیت ص 136/137

اگر ایسا ہی ہے تو اس پر چند سوالات پیدا ہوتے ہیں ۔

1)یہ روایت قطعِ نظر صحتِ اسانید کے جن صحابہ کرام سے مروی ہے ان میں سے چار سیدنا عثمان سیدنا حذیفہ سیدنا ابن مسعود اور سیدنا ابورافع رضی اللہ عنھم اجمعین جنگِ صفین سے پہلے ہی دارِ فانی سے رخصت ہو چکے تھے ۔

سیدنا ابو ایوب سیدنا ابوھریرہ سیدنا ابوسعید الخدری اور ام سلمہ رضی اللہ عنھم اجمعین غیر جانب دار رہے ۔

سیدنا ابو قتادہ سیدنا خزیمہ بن ثابت اور ابوالیسر جنگ صفین میں علی المرتضیٰ کے ساتھ تھے ۔

دو صحابی عمرو بن العاص اور عبداللہ بن عمرو بن العاص سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔

اگر قتلِ عمار حق و باطل کے لیے نص صریح تھی تو ان غیر جانب دار صحابہ کرام نے سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا ساتھ کیوں نہیں دیا ؟

اگر قتل عمار نص صریح تھی تو ان صحابہ کرام جنھوں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرمان سنا تھا وہ سیدنا علی کے لشکر میں شامل کیوں نہ ہو گئے ؟

ان پاکباز ہستیوں سے اس اخلاقی گراوٹ کی امید نہیں کی جا سکتی کہ وضوحِ حق کے بعد بھی وہ حمائت نہ کریں ۔۔۔۔

اس نصِ صریح کے ہوتے ہوئے جو صحابہ کرام سیدنا امیر معاویہ کے ساتھ تھے ان کا کیا حکم ہو گا ؟

2)اگر قتلِ عمار کو حق و باطل کے لیے نصِ صریح قرار دیا جائے تو خود سیدنا علی المرتضیٰ کا اپنا طرزِ عمل انتہائی الجھا ہوا نظر آتا ہے ۔

1)جب قتلِ عمار کے ذریعہ حق و باطل واضح ہو چکا تھا سیدنا علی نے جنگ بندی کیوں قبول کی ؟ قرآن کا حکم تو واضح ہے باغی گروہ جب تک بغاوت سے باز نہ آ جائے اس سے اس وقت تک قتال جاری رکھا جائے۔

2)اگر نصِ صریح سے حق و باطل کا فیصلہ ہو چکا تھا کہ تو سیدنا علی جنگ صفین کے بعد یہ خواہش کرتے ہوئے کیوں نظر آتے ہیں کہ کاش میں اس جنگ سے بیس سال (بعض روایات میں سال کا تعین مبھم ہے) پہلے وفات پا چکا ہوتا ۔

یہ روایت متعدد اسانید سے مروی اور صحیح ثابت ہے تفصیل آپ شیخنا الامام ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کی کتاب "مقام صحابہ" میں دیکھ سکتے ہیں۔

بعض روایات میں ذکر ہے کہ سیدنا علی نے فرمایا:اگر مجھے معلوم ہوتا کہ معاملہ اس طرح ہو گا تو میں اس لڑائی کے لیے نکلتا ہی نہیں ۔

بلکہ سیدنا علی نے ابو موسیٰ اشعری کو کہا:ابو موسیٰ جاؤ اور کوئی فیصلہ کرو اگرچہ میری گردن نیچے ہو جائے ۔

المصنف لابن ابی شیبہ 293/15

3) اگر نصِ صریح سے حق و باطل کا فیصلہ ہو چکا تھا تو سیدنا علی المرتضیٰ نے ثالثی کا فیصلہ کیوں قبول کیا ؟

ثالثی کی ضرورت وہاں پیش آتی ہے جہاں جب دونوں متحارب گروہوں کے پاس ایسے دلائل ہوں جن سے کھل کر یہ واضح نہ ہوتا ہو کہ حق پر کون ہے ؟اور باطل پر کون ؟

اگر شہادت عمار سے حق و باطل کا فیصلہ ہو چکا تھا تو تحکیم کی ضرورت ہی کیا تھی ؟

4)جب واضح نصوص سے سیدنا امیر معاویہ کا باغی ہونا ثابت ہو چکا تھا تو ان سے قتال کی بجائے سیدنا حسن کا ان کے حق میں دستبردار کیوں ہوئے ؟

5)اگر نص صریح سے صحابہ کرام کو معلوم ہو چکا تھا کہ سیدنا امیر معاویہ باغی و باطل پر ہیں تو ان تمام کو ان سے علیحدگی اختیار کرنی چاہیے تھی لیکن تمام مسلمانوں نے سیدنا حسن کے فیصلہ کی تائید کی اور اس سال کا نام "عام الجماعہ" پڑ گیا ۔

6)صحابہ کرام میں سے کسی نے بھی قتل عمار رضی اللہ عنہ کی بنیاد پر انہیں باغی نہیں کہا بلکہ تابعین میں سے بھی کسی نے اس بنیاد پر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو باغی نہیں کہا ۔
بعض مؤرخین نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ سیدنا معاویہ کے گروہ سے شہید ہونے والے لوگوں کی نماز جنازہ سیدنا علی المرتضیٰ خود پڑھاتے تھے۔

7) حضراتِ حکمین سیدنا ابو موسیٰ اشعری و سیدنا عمرو بن عاص کے سامنے بھی یہ نکتہ نہ اٹھایا گیا پھر سیدنا حسن نے بھی یہ بات کسی کے سامنے پیش نہ کی بلکہ ان کے حق میں دستبردار ہو کر اپنے بھائی سیدنا حسین سمیت ان کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔

8)جنگ صفین سے قبل اور اس کے دوران متعدد مرتبہ سیدنا علی کا وفد امیر معاویہ کی طرف بات چیت کے لیے آتا رہا ہے اور سیدنا علی کے لشکر میں عمار موجود تھے ۔

سیدنا علی اور ان کے اصحاب نے کسی موقع پر بھی سیدنا معاویہ یا ان کے وفد کو یہ بات یاد نہ دلائی کہ عمار ہمارے لشکر میں موجود ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق انہیں ایک باغی گروہ قتل کرے گا عمار ہمارے ساتھ مل کر تم سے جنگ کریں گے عین ممکن ہے کہ وہ تمھارے ہاتھوں قتل ہو جائیں اور تم بزبان رسالت باغی قرار پاؤ گے ۔۔۔۔

یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ بعض اہل علم نے سیدنا معاویہ کے لیے حق کے مقابلے میں باغی کا لفظ ضرور استعمال کیا ہے لیکن علماء نے صراحت کر دی ہے کہ یہاں بغاوت سے مراد اجتھاد علی کا درست ہونا ہے اور اجتہاد سیدنا معاویہ کا خطا ہونا ہے ۔

علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں:اس معاملے میں اجتھاد اگرچہ سیدنا علی کا درست تھا لیکن سیدنا معاویہ بھی اپنے موقف پر باطل پر نہ تھے مقصد ان کا بھی حق تھا گو ان سے خطا ہو گئی تاہم یہ تمام افراد اپنے مقاصد کے لحاظ سے حق پر تھے ۔

مقدمہ ابن خلدون ص 364 بحوالہ خلافت و ملوکیت ص 383

باقی جنگ صفین کے متعلق شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے درست لکھا فرماتے ہیں:جن لوگوں نے سیدنا علی کو مشورہ دیا کہ امیر معاویہ کو آپ بحال رہنے دیں وہ لوگ حازم و محتاط تھے البتہ سیدنا علی امام و مجتھد تھے انھوں نے اپنے طور پر جس چیز کو بہتر سمجھا وہی کیا اگر انھیں مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا پہلے علم ہوتا تو وہ جان لیتے کہ سیدنا معاویہ کو گورنری پر بحال رکھنا اس جنگ صفین سے بہتر ہے جس سے فایدہ کچھ حاصل نہ ہوا شر ہی میں اضافہ ہوا ۔۔۔۔ان کی گورنری میں سیدنا علی کو جس خطرے کا امکان تھا ان سے جنگ کرنے میں ان سے کہیں زیادہ شر موجود تھی۔

منھاج السنہ 179/4 بحوالہ خلافت و ملوکیت ص 367
 
Top