• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خطا اجتہادی تھی ؟

شمولیت
جنوری 04، 2022
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
22
کیا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خطا اجتہادی تھی ؟

انجینر محمد علی مرزا علامہ بدرالدین عینی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھتے ہیں: امام بدرالدین عینی رحمہ اللہ (المتوفی ۸۵۵ھ) لکھتے ہیں: مام کرمانی رحمہ اللہ نے کہا کہ سید نا علی اور حضرت معاویہ دونوں مجتہد تھے، زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو اجتہاد میں خطاء لاحق ہوگئی ، اُن کو ایک اجر ملے گا، جب کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو دو اجر ملیں گے ۔ ( اس پر امام بدر الدین عینی حنفی رحمہ اللہ کہتے ہیں ) میں کہتا ہوں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خطاء کو اجتہادی خطاء کیسے کہہ دیا جائے اور اُن کے اجتہاد پر کیا دلیل ہے؟ حالاں کہ اُن کو یہ حدیث جو کہ صحیح بخاری اور مسلم میں موجود ہے پہنچ چکی تھی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے : " افسوس عمار کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی اور اُن کو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ نے ( جنگ صفین میں قتل کیا ۔ کیا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اس پر راضی نہیں اُن کو برابر چھوڑ دیا جائے ، چہ جائے کہ اُن کو ایک ااجر بھی ملے۔

یہ بات درست ہے امام عینی ، علامہ شوکانی علامہ رشید رضا مصری ، علامہ امیر عمائی ، نواب صدیق حسن خان وغیرہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خطا کو اجتہادی نہیں سمجھا ہے مگر جمہور محدثین نے اس خطا کو اجتہادی خطا سمجھا ہے۔ اہل سنت کا انتہائی محتاط ، راج اور اجماعی موقف یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا خروج کسی ذاتی عداوت و نفرت یا بغض و حسد کی وجہ سے نہیں بلکہ دیانت دارانہ طور پر قرآن و حدیث کی روشنی میں شرعی و فقہی دلائل کی بنیاد پر غلط فہمی کی بنا پر شبہ اور تاویل کی وجہ سے صادر ہوا تھا اس لیے ان کا یہ عمل خطائے اجتہادی کے ذیل میں آتا ہے جس میں بہر حال وہ ایک اجر کے مستحق ہیں۔

امام قاضی عیاض رحمہ اللہ کا حوالہ :
چناں چہ امام قاضی عیاض مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: أن الحق مع علي وحزبه وان عذر الآخر بالاجتهاد. ( اكمال المعلم بفوائد مسلم : ج ٨ ص ٤٥٩)
ترجمہ : حق حضرت علی اور اُن کی جماعت کے ساتھ تھا، اگر چہ (فریق ) آخر ( حضرت معاویہ اور اُن کی جماعت ) اجتہاد کی وجہ سے معذور تھی۔

حافظ عراقی رحمہ اللہ کا حوالہ :
اسی طرح حافظ زین الدین عراقی رحمہ اللہ (المتوفی ۸۰٦) لکھتے ہیں: مذهب أهل الحق أن الفئة المقاتلة لعلي هي الباغية وان كانت متاولة طالبة للحق في أنها غير مذعومة بل مأجورة على الاجتهاد ولا سيما الصحابة منهم . ( طرح التشريب في شرح التقريب للعراقي : ج ۷ ص ٢٧٨ط الطبعة المصرية القديمة )
ترجمہ: بل حق کا مذہب یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے قتال کرنے والی جماعت ہی بافی تھی، اگر چہ وہ تاویل کر رہی تھی ، اپنے گمان میں حق کی طلب گار تھی، وہ قابل مذمت نہیں بلکہ (اپنے) اجتہاد پر ماجور ہے بالخصوص اُن میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم۔

حافظ ذہبی رحمہ اللہ کا حوالہ :
حافظ شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ (المتوفی ٧٤٨ ھ ) لکھتے ہیں: و كان علي السابق الي الامامة فمن نازعه لمخطي ماجور مجتهد. ( المقدمة الزهراء للذهبي : ص ١٣)
ترجمہ: اور حضرت علی رضی اللہ عنہ امامت کی طرف سبقت کرنے والے تھے، سو جس نے اُن سے نزاع کیا تو وہ مجتہد مخطی اور ماجور تھا.

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا حوالہ :
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (المتوفی ٧٢٨ ھ ) لکھتے ہیں: فاتفق أهل السنة علي أنه لا تفسق واحدة من الطائفتين وان قالوا في احداهما أنهم بغاة لأنهم كانوا متأولين مجتهدين والمجتهد لا يكفر ولا يفسق. ( منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية لابن تيمية : ج ٤ ص ٣٩٤ط جامعة الامام محمد بن سعود الاسلامية )
ترجمہ: اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ فریقین میں سے کسی ایک کو بھی فاسق نہیں کہا جائے گا اگر چہ اہل سنت اُن میں سے ایک کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ باغی تھے، کیوں کہ وہ تاویل کرنے والے مجتہد تھے اور مجتہد کو نہ کا فرکا جاتا ہے اور نہ ہی فاسق۔

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کا پہلا حوالہ:
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (المتوفی ۸۵۲ھ) لکھتے ہیں: وأن من قاتلهم كانوا مخطئين في تأويلهم۔(فتح الباري شرح صحيح البخاري لابن حجر : ج ٦ ص ۲۱۹ ط دار الفکر بیروت لبنان )
ترجمہ: اور یہ کہ اُن (اہل عراق) سے جس نے قتال کی وہ اپنی تاویل میں مخطی تھے۔ موصوف آگے چل کر مزید لکھتے ہیں : وقد ثبت أن من قاتل عليا كانوا بغاة وهؤلاء مع هذا التصويب متفقون علي أنه لا يذم واحد من هؤلاء بل يقولون اجتهدوا فأخطئوا۔ ( فتح الباري شرح صحيح البخاري لابن حجر : ج ١٣ ص ٦٧ ط دار الفكر بيروت لبنان)
ترجمہ: اور یہ بات ثابت ہے کہ جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے قتال کی وہ باغی تھے، اور اہل سنت اس تصویب کے باوجود اس بات پر متفق ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کی بھی مذمت نہیں کی جائے گی، بلکہ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اجتہاد کیا تو اُن سے خطاء ہوگئی۔

علامہ فرہاروی رحمہ اللہ کا حوالہ:
علامہ عبد العزیز فرہاروی رحمہ اللہ (المتوفی ۱۳۳۹ھ ) لکھتے ہیں: ان أهل السنة أجمعوا علي أن من خرج علي علي كرم الله وجهه خارج علي الامام الحق الا أن هذا البغي الاجتهادي معفو عنه۔ الناهية عن طعن معاوية للفرهاروي : ص ج ١ ص ٧٤ط مكتبة الحقيقة استنبول تركي )
ترجمہ: اہل سنت کا اس پر اجماع ہے کہ جنہوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے خلاف خروج کیا وہ امام برحق کے خلاف خروج کرنے والے ہیں مگر یہ کہ یہ اجتہاری بغاوت اُن سے معاف کی گئی ہے۔
 
Top