• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا خبر تھی کہ خار بھی آئے گی بہار کے ساتھ!

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,296
پوائنٹ
326
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کل رات ڈاکٹر ام عائشہ سے بات ہوئی۔پوچھنے لگیں کہ پاکستان کے حالات اب کیسے ہیں؟میرا بھائی بتا رہا تھا کہ بڑے بڑے ہورڈنگ بورڈز لگ گئے ہیں۔۔لڑکیوں کی تصاویر آویزاں ہیں۔۔"معصومیت کی انتہا!
میں نے بتایا کہ جی ہاں 2008،09 تو پرانا دور ہو گیا۔۔آپ کے بھائی نے درست کہا ہے کہ آپ پاکستان آئیں گی تو پہلی سی خوشی محسوس نہیں کریں گی۔۔واقعی ہر چیز مصنوعیت سے مرعوب ہو چکی ہے۔۔کسی کے پاس دوسرے کے لیے وقت نہیں۔۔دوست احباب۔۔رشتہ دار۔۔ملنا جلنا۔۔خلوص،محبت سب عنقا ہے۔۔زندہ ہے تو بس مادہ پرستی۔۔موبائل اور انٹرنیٹ۔۔باقی مخلوق سے رشتہ کیا؟
"میرا بھائی کہہ رہا تھا کہ لند ن تو پھر بہتر ہے۔۔پاکستان کا کوئی حال نہیں ہے"
"جی ہاں!جب ہم کسی کی نقل کرتے ہیں تو نقالی نہ بھی کر سکیں۔۔بگاڑ ضرور دیتے ہیں۔۔۔۔کوا چلا ہنس کی چالاپنی بھی بھول گیا یا دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاڑ کا۔۔۔"
"جب میں یہاں آئی تھی تو بہت حیران ہوتی تھی کہ کوئی شخص کسی کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔۔ٹرین میں بیٹھو۔۔کوئی سر اٹھا کر نہیں دیکھتا۔۔ہر ایک کی اپنی دنیا ہے"وہ بتا رہی تھیں۔
"بس پھر۔۔۔فکر کس بات کی؟؟پاکستان میں بھی ایسا ہی ماحول ملنے جا رہا ہے۔۔سب اکٹھے بیٹھے بھی ہیں تو ٹیکسٹ ہو رہے ہیں۔۔اسٹیٹس اپ ڈیٹ ہو رہے ہیں۔۔پاس بیٹھ کر بھی پاس نہیں۔۔ایک آرٹیکل پڑھا تھا کہ سماجی سائیٹس استعمال کرنے کی وجہ تنہائی ہے،،جبکہ ہم سماجی سائٹس استعمال کر کے خود تنہا پسندی اختیار کر رہے ہیں!"
"یہاں لندن میں ایسے ہاؤسزیا شیلٹرز بنائے جاتے ہیں جہاں لوگ آ کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔۔آپ اس کی زبان سمجھیں یا نہ سمجھیں۔۔اسے کچھ سروکار نہیں اسے بس ایک سامع چاہیے۔۔وہ کسی کو دیکھتے ہی بولنا شروع کر دے گا کہ میری بیوی نے میرے ساتھ یوں اور یوں کیا۔۔میرے بچوں نے یہ کیا اور یہ کہا۔۔لوگ رضاکارانہ طور پر ان کی باتیں سننے،ان کو تسلی دینے ان جگہوں پر جاتے ہیں۔۔کسی ایسی ہی جگہ میرے والد نے ایک سیاہ فام کو دیکھا۔۔وہ بہت شکستہ تھا۔میرے والد نے اس کے کندھے تھپتھپائے تو گویا دنیا بھر کی دولت اسے مل گئی۔۔وہ میرے والد کے گلے لگ گیا اور پھر اپنی داستان سنانے لگا۔۔یہاں والدین کے پاس بچوں کے لیے اور بچوں کے پاس والدین کے لیے وقت نہیں۔۔مائیں اپنے نومود بچے ڈے کئیرز اور آیاؤوں کے حوالے کر کے ڈالرز کمانے چل دیتی ہیں۔۔مالک جانتے ہیں کہ وہ بچے کی نگہداشت کی بنا پر چھٹیاں کرے گی تو وہ اضافی تنخواہ کا لالچ دیتے ہیں۔۔۔مال کی طمع۔۔بچے بے سہارا!ایسے بچے بڑے ہو کر والدین کو کیا دیں گے؟میں ایک دن اپنی والدہ کو لیکر قریبی ہسپتال گئی تو پوارا عملہ اکٹھا ہو گیا۔۔انہیں یقین نہیں آتا تھا کہ ایک بیٹی اپنی ماں کے ساتھ یہاں تک آ سکتی ہے؟ٹرین میں بیٹھتے ہی بوڑھے افراد آپ کو مخاطب کر لیں گے اور آپ کو اپنی زندگی کے لمحات بتانا شروع کر دیں گے کیونکہ ان کے بچوں اور گھر والوں کے پاس ان کی باتیں سننے کا وقت نہیں۔۔۔۔۔"
مغرب کی مادی ترقی اور چکاچوند سے متاثرہ افراد مغرب کا یہ تاریک پہلو شائد کبھی نہیں دیکھ پائے!
 
شمولیت
دسمبر 11، 2014
پیغامات
40
ری ایکشن اسکور
39
پوائنٹ
55
درحقیقت پاکستان میں اجتماعی مذیبی بےحسی عروج پر ہے ،
مگر وقت مایوسی کا نہیں نہی عن المنکر اور امر با المعروف کا ہے۔
 
Top