محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,803
- پوائنٹ
- 1,069
کیا رؤیت ہلال کیلیے فلکی حساب پر اعتماد کرنے والے اپنے ملک کے مطابق چلیں ؟
سوال: ہم ترکی میں ڈیڑھ سال سے مقیم ہیں اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ ترکی کے لوگ رویت ہلال کیلیے فلکی حساب پر اعتماد کرتے ہیں شرعی رویت پر بالکل انحصار نہیں کرتے، چنانچہ انہوں نے فلکی حساب سے ثابت کیا ہے کہ روزہ جمعرات کو ہو گا، تو کیا ہم ترکی کی وزارت اوقاف کے اعلان کے مطابق روزہ رکھیں جیسے کہ ہم نے گزشتہ سال رکھا تھا یا ہم شرعی رویت کے لیے مملکت حرمین کے مطابق روزے رکھیں؟
Published Date: 2016-06-05
الحمد للہ:
رویت کیلیے فلکی حساب پر اعتماد کرنا جائز نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"رافضی حضرات اجرام فلکی کی نقل و حرکت کو معتبر سمجھتے ہیں، اور کچھ فقہا ءبھی ان کی اس بات کو مانتے ہیں، اس بارے میں الباجی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: "سلف کا اجماع ان کے خلاف حجت ہے" اور اسی طرح ابن بزیزہ کہتے ہیں کہ: "یہ باطل موقف ہے" انتہی
"فتح الباری" (4/ 127)
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جو شخص فلکی حساب کا قائل ہے تو اس کا یہ موقف مردود ہے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے:
(ہم ان پڑھ ہیں، ہمیں لکھنا اور حساب کرنا نہیں آتا، [آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہاتھ کے اشارے سے 29 اور 30 کا اشارہ کرتے ہوئے فرمایا]مہینہ اتنے اتنے دنوں کا ہوتا ہے۔۔۔)
اس لیے صحیح بات یہی ہے کہ جمہور کا موقف درست ہے، اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے صریح احادیث کی وجہ سے باطل اور مردود ہے" انتہی
"المجموع" (6/ 270)
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں کہ:
"مسلمانوں پر اللہ تعالی کی جانب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانی مقرر کردہ شریعت پر چلنا ضروری ہے، اس لیے روزے رکھنے اور عید کیلیے صرف رویت ہلال پر ہی اکتفا کریں، اسی پر اہل علم کا اجماع ہے، اس لیے اس موقف سے اختلاف کرتے ہوئے فلکی حساب پر اعتماد کرنے والے کا موقف شاذ ہے اس پر عمل نہ کیا جائے" انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (10/ 107)
مزید کیلیے سوال نمبر: (37667) کا جواب ملاحظہ کریں۔
چنانچہ اگر کوئی مسلمان کسی ایسے ملک میں رہتا ہے جہاں پر لوگ رویت ہلال کیلیے فلکی حساب پر اکتفا کرتے ہیں تو ان کی بات معتمد نہیں ہو گی؛ کیونکہ وہ صریح احادیث اور اجماع کی مخالفت کر رہے ہیں۔
آثار میں یہ ملتا ہے کہ:
"نافع ، مالک سے ایسے حکمران کے بارے میں کہتے ہیں جو رویت کیلیے فلکی حساب پر اعتماد کرتا ہے کہ: ہم اس کی اس بارے میں بات نہیں مانے گے۔
اسی طرح "المدونہ" کے شارح نے اس بات پر اجماع بھی نقل کیا ہے۔
سبکی رحمہ اللہ اپنے رسالے: "العلم المنشور" میں کہا ہے کہ:
"متعدد مالکی فقہائے کرام کہتے ہیں کہ: اگر حکمران رویت ہلال کیلیے فلکی حساب پر اعتماد کرے اور اسی سے رویت ثابت کرے تو اس کی بات نہیں مانی جائے گی؛ کیونکہ یہ موقف سلف صالحین کے اجماع سے متصادم ہے" انتہی
"مجلة مجمع الفقه الإسلامي" (3/ 430) مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق۔
تو ایسی صورت حال میں جہاں آپ رہائش پذیر ہیں وہی کی رویت ہلال پر اعتماد کیا جائے چاہے کسی اسلامی تنظیم، ادارے کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو ، یا پھر ان ممالک کے مطابق عمل کرے جو رویت ہلال کو ہی معتمد سمجھتے ہیں جیسے کہ مملکت حرمین شریفین۔
مزید کیلیے آپ فتوی نمبر: (97750) کا جواب بھی ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم.
اسلام سوال و جواب
https://islamqa.info/ur/231523
سوال: ہم ترکی میں ڈیڑھ سال سے مقیم ہیں اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ ترکی کے لوگ رویت ہلال کیلیے فلکی حساب پر اعتماد کرتے ہیں شرعی رویت پر بالکل انحصار نہیں کرتے، چنانچہ انہوں نے فلکی حساب سے ثابت کیا ہے کہ روزہ جمعرات کو ہو گا، تو کیا ہم ترکی کی وزارت اوقاف کے اعلان کے مطابق روزہ رکھیں جیسے کہ ہم نے گزشتہ سال رکھا تھا یا ہم شرعی رویت کے لیے مملکت حرمین کے مطابق روزے رکھیں؟
Published Date: 2016-06-05
الحمد للہ:
رویت کیلیے فلکی حساب پر اعتماد کرنا جائز نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"رافضی حضرات اجرام فلکی کی نقل و حرکت کو معتبر سمجھتے ہیں، اور کچھ فقہا ءبھی ان کی اس بات کو مانتے ہیں، اس بارے میں الباجی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: "سلف کا اجماع ان کے خلاف حجت ہے" اور اسی طرح ابن بزیزہ کہتے ہیں کہ: "یہ باطل موقف ہے" انتہی
"فتح الباری" (4/ 127)
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جو شخص فلکی حساب کا قائل ہے تو اس کا یہ موقف مردود ہے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے:
(ہم ان پڑھ ہیں، ہمیں لکھنا اور حساب کرنا نہیں آتا، [آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہاتھ کے اشارے سے 29 اور 30 کا اشارہ کرتے ہوئے فرمایا]مہینہ اتنے اتنے دنوں کا ہوتا ہے۔۔۔)
اس لیے صحیح بات یہی ہے کہ جمہور کا موقف درست ہے، اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے صریح احادیث کی وجہ سے باطل اور مردود ہے" انتہی
"المجموع" (6/ 270)
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں کہ:
"مسلمانوں پر اللہ تعالی کی جانب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانی مقرر کردہ شریعت پر چلنا ضروری ہے، اس لیے روزے رکھنے اور عید کیلیے صرف رویت ہلال پر ہی اکتفا کریں، اسی پر اہل علم کا اجماع ہے، اس لیے اس موقف سے اختلاف کرتے ہوئے فلکی حساب پر اعتماد کرنے والے کا موقف شاذ ہے اس پر عمل نہ کیا جائے" انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (10/ 107)
مزید کیلیے سوال نمبر: (37667) کا جواب ملاحظہ کریں۔
چنانچہ اگر کوئی مسلمان کسی ایسے ملک میں رہتا ہے جہاں پر لوگ رویت ہلال کیلیے فلکی حساب پر اکتفا کرتے ہیں تو ان کی بات معتمد نہیں ہو گی؛ کیونکہ وہ صریح احادیث اور اجماع کی مخالفت کر رہے ہیں۔
آثار میں یہ ملتا ہے کہ:
"نافع ، مالک سے ایسے حکمران کے بارے میں کہتے ہیں جو رویت کیلیے فلکی حساب پر اعتماد کرتا ہے کہ: ہم اس کی اس بارے میں بات نہیں مانے گے۔
اسی طرح "المدونہ" کے شارح نے اس بات پر اجماع بھی نقل کیا ہے۔
سبکی رحمہ اللہ اپنے رسالے: "العلم المنشور" میں کہا ہے کہ:
"متعدد مالکی فقہائے کرام کہتے ہیں کہ: اگر حکمران رویت ہلال کیلیے فلکی حساب پر اعتماد کرے اور اسی سے رویت ثابت کرے تو اس کی بات نہیں مانی جائے گی؛ کیونکہ یہ موقف سلف صالحین کے اجماع سے متصادم ہے" انتہی
"مجلة مجمع الفقه الإسلامي" (3/ 430) مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق۔
تو ایسی صورت حال میں جہاں آپ رہائش پذیر ہیں وہی کی رویت ہلال پر اعتماد کیا جائے چاہے کسی اسلامی تنظیم، ادارے کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو ، یا پھر ان ممالک کے مطابق عمل کرے جو رویت ہلال کو ہی معتمد سمجھتے ہیں جیسے کہ مملکت حرمین شریفین۔
مزید کیلیے آپ فتوی نمبر: (97750) کا جواب بھی ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم.
اسلام سوال و جواب
https://islamqa.info/ur/231523