بسم اللہ الرحمن الرحیم
بشریت رسول اللہ ﷺ
بریلوی حضرات کے بہت سے ایسے عقائد ہیں ،جن کا قرآن و حدیث سے کوئی واسطہ ناطہ نہیں۔اس کے باوجود بھی یہ لوگ خود کو اہل سنت کہلانا پسند کرتے ہیں اور اس میں ذرا سی بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔
چنانچہ ان کا عقیدہ ہے کہ نبی ﷺ اللہ تعالیٰ کے نور کا حصہ ہیں۔یہ لوگ آپ ﷺ کو دائرہ انسانیت سے خارج کر کے نوری مخلوق میں داخل کر دیتے ہیں ۔
یہ غیر عقلی اور غیر منطقی عقیدہ ہے اور عام آدمی کے فہم سے بالاتر ہے ۔شریعت اسلامیہ سادہ اور عام فہم شریعت ہے۔اس قسم کے ناقابل فہم اور خلاف عقل عقائد سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔لہذا قرآنی آیات میں اس بات کی واضح تصریح موجود ہے کہ آپ ﷺ بشر تھے۔اور اسی طرح قرآن ہمیں یہ بھی بتلاتا ہے کہ کفار سابقہ انبیاء و رسل علیھم السلام کی رسالت پر جو اعتراضات کرتے تھے ،ان میں ایک اعتراض یہ تھا کہ وہ کہتے تھے یہ کس طرح ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بشر کو اپنی ترجمانی کے لیے منتخب فرما لیا ہو اور اس کے سر پر تاج نبوت رکھ لیا ہو؟اس کام کے لیے ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ نوری مخلوق میں سے کسی فرشتے کو منتخب فرماتا ۔تو گویا انبیاء و رسل علیھم السلام کی بشریت کو اللہ تعالیٰ نے کفار کی ہدایت میں مانع قرار دیا۔
ثابت ہوا کہ یہ عقیدہ رکھنا کہ کوئی بشر رسول نہیں ہو سکتا ،عقیدہ کفار تھا۔فرق صرف اتنا ہے کہ کفار کہتے تھے بشریت رسالت کے منافی ہے۔اور بریلویت کے پیروکار یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ رسالت بشریت کے منافی ہے۔بہرحال اسی حد تک دونوں شریک ہیں کہ بشریت و رسالت کا اجتماع ناممکن ہے۔اب اس سلسلے میں قرآن کی آیات ملاحظہ فرمائیں:
وَمَا مَنَعَ ٱلنَّاسَ أَن يُؤْمِنُوٓا۟ إِذْ جَآءَهُمُ ٱلْهُدَىٰٓ إِلَّآ أَن قَالُوٓا۟ أَبَعَثَ ٱللَّهُ بَشَرًۭا رَّسُولًۭا ﴿94﴾
اللہ نے اس نظریے کی تردید کرتے ہوئے فرمایا:
قُل لَّوْ كَانَ فِى ٱلْأَرْضِ مَلَٰٓئِكَةٌۭ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِم مِّنَ ٱلسَّمَآءِ مَلَكًۭا رَّسُولًۭا ﴿95﴾
قَالُوٓا۟ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌۭ مِّثْلُنَا تُرِيدُونَ أَن تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ ءَابَآؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَٰنٍۢ مُّبِينٍۢ ﴿10﴾
جوابا پیغمبروں نے اپنی بشریت کا اثبات کرتے ہوئےان کی تردید فرمائی:
قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِن نَّحْنُ إِلَّا بَشَرٌۭ مِّثْلُكُمْ وَلَٰكِنَّ ٱللَّهَ يَمُنُّ عَلَىٰ مَن يَشَآءُ مِنْ عِبَادِهِۦ
نیز
وَٱضْرِبْ لَهُم مَّثَلًا أَصْحَٰبَ ٱلْقَرْيَةِ إِذْ جَآءَهَا ٱلْمُرْسَلُونَ ﴿13﴾إِذْ أَرْسَلْنَآ إِلَيْهِمُ ٱثْنَيْنِ فَكَذَّبُوهُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍۢ فَقَالُوٓا۟ إِنَّآ إِلَيْكُم مُّرْسَلُونَ ﴿14﴾قَالُوا۟ مَآ أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌۭ مِّثْلُنَا وَمَآ أَنزَلَ ٱلرَّحْمَٰنُ مِن شَىْءٍ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا تَكْذِبُونَ ﴿15﴾
الہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے پیروکاروں کے حوالہ سے فرمایا:
ثُمَّ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ وَأَخَاهُ هَٰرُونَ بِـَٔايَٰتِنَا وَسُلْطَٰنٍۢ مُّبِينٍ ﴿45﴾إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَإِي۟هِۦ فَٱسْتَكْبَرُوا۟ وَكَانُوا۟ قَوْمًا عَالِينَ ﴿46﴾فَقَالُوٓا۟ أَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُهُمَا لَنَا عَٰبِدُونَ ﴿47﴾
فَقَالَ ٱلْمَلَؤُا۟ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ مِن قَوْمِهِۦ مَا هَٰذَآ إِلَّا بَشَرٌۭ مِّثْلُكُمْ يُرِيدُ أَن يَتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ لَأَنزَلَ مَلَٰٓئِكَةًۭ مَّا سَمِعْنَا بِهَٰذَا فِىٓ ءَابَآئِنَا ٱلْأَوَّلِينَ ﴿24﴾إِنْ هُوَ إِلَّا رَجُلٌۢ بِهِۦ جِنَّةٌۭ فَتَرَبَّصُوا۟ بِهِۦ حَتَّىٰ حِينٍۢ ﴿25﴾
نیز
مَا هَٰذَآ إِلَّا بَشَرٌۭ مِّثْلُكُمْ يَأْكُلُ مِمَّا تَأْكُلُونَ مِنْهُ وَيَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُونَ ﴿33﴾وَلَئِنْ أَطَعْتُم بَشَرًۭا مِّثْلَكُمْ إِنَّكُمْ إِذًۭا لَّخَٰسِرُونَ ﴿34﴾
اور اصحاب ایکہ نے بھی حضرت شعیب علیہ السلام کو اسی طرح کہا تھا :
وَمَآ أَنتَ إِلَّا بَشَرٌۭ مِّثْلُنَا وَإِن نَّظُنُّكَ لَمِنَ ٱلْكَٰذِبِينَ ﴿186﴾
وَأَسَرُّوا۟ ٱلنَّجْوَى ٱلَّذِينَ ظَلَمُوا۟ هَلْ هَٰذَآ إِلَّا بَشَرٌۭ مِّثْلُكُمْ ۖ أَفَتَأْتُونَ ٱلسِّحْرَ وَأَنتُمْ تُبْصِرُونَ ﴿٣﴾
اللہ تعالیٰ نے انہیں جواب دیا:
وَمَآ أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلَّا رِجَالًۭا نُّوحِىٓ إِلَيْهِمْ ۖ فَسْـَٔلُوٓا۟ أَهْلَ ٱلذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴿٧﴾
اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کو حکم فرمایا کہ:
قُلْ إِنَّمَآ أَنَا۠ بَشَرٌۭ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰٓ إِلَىَّ أَنَّمَآ إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌۭ وَٰحِدٌۭ ۖ
اور
قُلْ سُبْحَانَ رَبِّى هَلْ كُنتُ إِلَّا بَشَرًۭا رَّسُولًۭا ﴿93﴾
لَقَدْ مَنَّ ٱللَّهُ عَلَى ٱلْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًۭا مِّنْ أَنفُسِهِمْ
لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُولٌۭ مِّنْ أَنفُسِكُمْ
كَمَآ أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًۭا مِّنكُمْ يَتْلُوا۟ عَلَيْكُمْ ءَايَٰتِنَا
حضور ﷺ نے اپنے متعلق فرمایا:
إنما أنا بشر مثلكم، أنسى كما تنسون، فإذا نسيت فذكروني
اس مسئلے میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا فیصلہ بھی سن لیجیے :
"
رسول اللہ ﷺ بشر کے سوا کوئی دوسری مخلوق نہیں تھے۔اپنے کپڑے دھوتے اپنی بکری کا دودھ دھوتے اور اپنی خدمت آپ کرتے تھے "(شمائل ترمذی،فتح الباری)
(1)
اور خود بریلویوں کے خان صاحب نے بھی اپنی کتاب میں ایک روایت درج کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"ہر شخص کی ناف میں اس مٹی کا کچھ حصہ موجود ہے ،جس سے اس کی تخلیق ہوئی ہے اور اسی میں وہ دفن ہو گا ۔اور میں ،ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ ایک مٹی سے پیدا کیے گئے ہیں۔(فتاوی افریقہ ص85مطبوعہ1236ھ)
(2)
یہ ہیں قرآنی تعلیمات اور ارشاد نبویہ ﷺ ،منکرین کے عقائد کے بالکل برعکس۔بریلوی حضرات انبیاء و رسل علیھم السلام کی نبوت و رسالت کا انکار تو کر نہ سکے،مگر انہوں نے کفار و مشرین کی تقلید میں ان کی بشریت سے انکار کر دیا۔حالانکہ انسانیت کو رسالت کے قابل نہ سمجھنا انسانیت کی توہین ہے،اور اس عقیدے کے بعد انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کا کوئی معنی نہیں رہتا۔یہ خلاف عقل بات ہے کہ انسان تمام مخلوقات سے افضل بھی ہو اور پھر اس میں نبوت و رسالت کی اہلیت بھی موجود نہ ہو۔مگر بریلویت چونکہ ایسے متضاد افکار اور خلاف فطرت عقائد کے مجموعے کا نام ہے ،جنہیں سمجھنا عام انسان کے بس کے باہر ہے،اس لیے اس کے پیروکاروں کے ہاں اس قسم کے عقائد اکثر ملیں گے۔انہی عقائد میں سے یہ عقیدہ بھی ہے کہ بریلوی حضرات نبی ﷺ کو نور خداوندی کا حصہ سمجھتے ہیں۔چنانچہ بریلویت کے ایک امام لکھتے ہیں:
"رسول ﷺ اللہ کے نور میں سے ہیں اور ساری مخلوق آپ ﷺ کے نور سے ہے۔(مواعظ نعیمیہ،احمد یار بریلوی ص14)
مزید ارشاد ہوتا ہے:
بے شک اللہ ذات کریم نے صورت محمدی ﷺ کو اپنے نام پاک بدیع سے پیدا کیا اور کروڑ ہا سال ذات کریم اسی صورت محمدی ﷺ کو دیکھتا رہا۔اپنے اسم مبارک منان اور قاہر سے،پھر تجلی فرمائی اس پر اپنے اسم پاک لطیف ،غافر سے۔(فتاوی نعیمیہ ص37)
خود بانی بریلویت نے رسول اللہ ﷺکی بشریت کے انکار میں بہت سے رسالے تحریر کیے۔ان میں سے ایک رسالے کا نام ہے "صلوۃ الصفا فی نور المصطفی"۔اس کا خطبہ انہوں نے شکستہ عربی میں لکھا ہے ۔اس کا اسلوب عجیب و غریب اور ناقابل فہم ہے۔اس کا ترجمہ کچھ یوں ہے:
"اے اللہ تیرے لیے سب تعریفیں ہیں ۔تو نوروں کا نور ہے۔سب نوروں سے پہلے نور،سب نوروں کے بعد نور،اے وہ ذات جس کے لیے نور ہے،جس کے ساتھ نور ہے،جس سے نور ہے،جس کی طرف نور ہے اور جو خود نور ہے۔درود و سلامتی اور برکتیں نازل فرمااپنے روشن نور پر جسے تو نے اپنے نور سے پیدا کیا ہےاور پھر اس کے نور سے ساری مخلوق کو پیدا کیا۔اور سلامتی فرما اس کے نور کی شعاعوں پر،اس کی آل ،اصحاب اور اس کے چاندوں پر۔"(رسالۃ صلوۃ الصفا بریلوی مندرجہ مجموعۃ رسائل ص33)
اس غیر منطقی اور بعید از خطبے کے بعد انہوں نے ایک موضوع اور خود ساختہ روایت سے استدلال کیا ہے۔چنانچہ
حافظ عبدالرزاق کی طرف منوب کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
"رسول اللہ ﷺ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے جابر،بے شک بالیقین اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات سے پہلے تیرے نبی کے نور کو پیدا کیا۔نبی ﷺ کا نور پنے قدرت الہی سے جہاں خدا نے چاہا،دورہ کرتا رہا۔اس وقت لوح و قلم،جنت و دوزخ،فرشتگان،آسمان،زمین،سورج،چاند،جن،آدمی کچھ نہ تھا۔پھر جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کرنا چاہا تو اس نور کے چار حصے فرمائے۔پہلے سے قلم،دوسرے سے لوح،تیسرے سے عرش بنایا،پھر چوتھے کے چار حصے کیے۔(رسالۃ صلوۃ الصفا بریلوی مندرجہ مجموعۃ رسائل ص33)
یہ موضوع حدیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
" اس حدیث کو امت نے قبول کر لیا ہے۔اور امت کا قبول کرنا وہ شئے عظیم ہےجس کے بعد کسی سند کی حاجت نہیں رہتی،بلکہ سند ضعیف بھی ہو تو کوئی حرج نہیں کرتی۔(رسالۃ صلوۃ الصفا بریلوی مندرجہ مجموعۃ رسائل )
خان صاحب بریلوی اس امت سے کون سی امت مراد لے رہے ہیں؟
اگر اس سے مراد خان صاحب جیسے اصحاب ضلال اور گمراہ لوگوں کی امت ہےتو خیر،اور اگر ان کی اس سے مراد علماء و ماہرین حدیث ہے،تو ان کے متعلق تو ثابت نہیں ہوتا کہ انہوں نے اس حدیث کو قبول کیا ہو۔اور پھر یہ کس نے کہا ہے کہ امت کے کسی حدیث کو قبول کرلینے سے اس کی سند دیکھنی کی حاجت نہیں رہتی؟
اور یہ روایت توقرآنی نصوص اور احادیث نبویہ (ﷺ) کے صریح خلاف ہے۔اور پھر تمام واقعات و شواہد اس غیر اسلامی و غیر عقلی نظریے کی تردید کرتے ہیں۔اس لیے کہ نبی اکرم ﷺ دوسرے انسانوں کی طرح اپنے بابا عبداللہ بن عبدالمطلب کے گھر پیدا ہوئے،اپنی والدہ آمنہ کی گود میں پلے،حلیمہ سعدیہ کا دودھ نوش فرمایا،ابوطالب کے گھر پرورش پائی،حضرت خدیجہ ررضی اللہ عنہا،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا،زینب رضی اللہ عنہا اور حفصہ رضی اللہ عنہا اور دوسری ازواج مطہرات سے شادی فرمائی۔پھر مکہ مکرمہ میں آپ ﷺ نے جوانی اور کہولت کے ایام گزارے،مدینہ منورہ ہجرت کی،آپ ﷺ کے ہاں بیٹوں ابراہیم،قاسم،طیب،طاہر اور بیٹیوں زینب رضی اللہ عنہا،رقیہ رضی اللہ عنہا،ام کلثوم رضی اللہ عنہااور فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ولادت ہوئی۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ،حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ،آپ ﷺ کا سسر،حضرت ابوالعاص ،حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنھم اجمعین آپ کے داماد بنے۔حضرت حمزہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنھما آپ ﷺ کے چچا تھے۔حضرت صفیہ اور حضرت اروی رضی اللہ عنہماآپ (ﷺ) کی پھوپیاں تھیں اور دوسرے اعزاء و اقارب تھے۔
ان ساری باتوں کے باوجود آپ ﷺ کی بشریت اور آپ ﷺ کے انسان ہونے سے انکار کس قدر عجیب اور غیر منطقی بات ہے؟
کیا مذہب اسلام اس قدر متضاد اور بعید از قیاس عقائد کا نام ہے؟
ان نظریات اور عقائد کی طرف دعوت دے کر آپ غیر مسلموں کو کس طرح قائل کر سکیں گے؟
ان عقائد کی نشرواشاعت سے دین اسلام کیا ناقابل فہم مذہب بن کر رہ جائے گا ؟
(بریلویت از علامہ احسان)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)چونکہ مصنف نے یہاں حدیث مبارکہ کا عربی متن درج نہیں کیا اسی لیے یہ حدیث مبارکہ کا ترجمہ یا مفہوم ہے۔(محمد ارسلان)
(2)اس حدیث مبارکہ کی سند پر اہل علم حضرات روشنی ڈالیں۔(محمد ارسلان)