- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
جیسے ہی رمضان کا آخری عشرہ داخل ہوتا ہے تو بعض اہل حدیث حلقہ جات اور سوشل میڈیا پر یہ بحث تقریبا ہر سال سامنے آتی ہے کہ رمضان میں وتر کی نماز میں لمبی لمبی اجتماعی دعاوں کا کیا جواز ہے؟ خاص طور اس طبقے کے لیے جو فرض نمازوں کےبعد اجتماعی دعا کو بدعت قرار دیتے ہیں؟
سوال اگرچہ مشکل ہے لیکن بہرحال اب ہمارے علماء کو اس بارے کسی واضح موقف کا اظہار کر دینا چاہیے۔ ایک عالم دین، جو اہل حدیث نہیں ہیں، آج ان سے اس بات پر گفتگو ہوئی ہے کہ اہل حدیث مساجد میں یہ جو وتر میں اجتماعی دعا کی رسم چل پڑی ہے، اور اس کا اکثر مساجد میں اہتمام ہوتا ہے، قراء حضرات ائمہ حرمین کی رٹی ہوئی دعائیں بڑے خشوع وخضوع سے مانگتے ہیں اور لوگ اس مقصد کے لیے اہل حدیث مساجد کا شد رحال کرتے ہیں کہ ان کی اجتماعی دعا میں شریک ہوا جائے تو اس سب کچھ کی شرعی دلیل کیا ہے؟
میں نے یہ عرض کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنا تو ثابت ہے کہ آپ نے وتر جماعت کے ساتھ پڑھائے لہذا اس کے پڑھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ وتر میں جو لمبی دعائیں کی جاتی ہیں، ان کے جواز کی کیا دلیل ہے؟ میں نے کہا کہ قنوت نازلہ سے استدلال کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قنوت نازلہ کے علاوہ جو وتر میں دعائیں کی جاتی ہے اور وہ دعائیں بھی غیر مسنون اس معنی میں ہیں کہ الفاظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں ہیں بلکہ ائمہ حرمین یا ائمہ بلاد عرب کے ہیں تو اس کا کیا جواز ہے؟
میں نے کہا یہ بات درست ہے کہ قنوت نازلہ کے الفاظ متعین ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز وتر میں ویسی یا اتنی لمبی دعائیں نہیں کی جیسا کہ ہمارے ہاں کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کیا آپ اسے ایک نیا ٹرینڈ کہہ سکتے ہیں اور اس کی ابتداء کہاں سے ہوئی۔ میں نے کہا اسے بالکل ایک نیا رجحان کہا جا سکتا ہے اور اس کی ابتداء حرمین سے ہوئی۔ ہمارے ہاں اہل حدیث اس بارے ائمہ حرمین کو فالو کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ عمل اخلاص کے منافی نہیں ہے؟ میں نے کہا کہ اس خدشے کا اظہار اب اہل حدیث میں بہت سے لوگ کرنا شروع ہو گئے ہیں کہ اس طرح کی اجتماعی دعاوں میں رونے اور رلانے کے مناظر میں بعض اوقات واضح تکلف نظر آتا ہے۔
اس گفتگو کے بعد میں یہ سوچ رہا تھا کہ ہم کسی کی نیت یا اخلاص پر شک تو نہیں کر سکتے ہیں لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ ہمیں دعا میں تضرع کے ساتھ اللہ تعالی نے اسے چھپانے کا حکم دیا ہے۔ ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ﴿٥٥﴾ تَدْعُونَهُ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً لَّئِنْ أَنجَانَا مِنْ هَـٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ ﴿٦٣﴾
اس اعتبار سے تو دعا میں خلوت میں تو خوب اہتمام ہونا چاہیے اور اگر جلوت میں بھی کبھی کبھار لمبی دعا ہو جائے اور اس میں رونا آ جائے تو شاید کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہ بات شاید مناسب نہیں ہے کہ ایک قاری یا عالم دین رمضان کے آخری عشرے میں ہر دن میں نپے تلے ردیف اور قافیوں میں دعا کا اہتمام کرتے ہوئے اپنا خشوع وخضوع لوگوں کو دکھائیں اور آواز کے زیر وبم سے لوگوں کو رلانے کی حتی الامکان کوشش کریں اور پھر ایسے مواقع کی آڈیو یا ویڈیو ریکارڈنگ کا بھی اہتمام ہو۔ علاوہ ازیں بعض اوقات اور وہی قاری یا عالم دین ایک ہی رات میں ایک سے زائد مساجد میں وتر پڑھا کر اپنی خشیت کا اظہار کریں تو اس پر شاید قرآن مجید کی اس آیت کا اطلاق کیا جا سکتا ہے کہ تم اپنے آپ کو پاک صاف مت ظاہر کرتے پھرو کیونکہ اللہ کو علم ہے کہ تمہارے اندر کتنا تقوی ہے؟ فلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَىٰ ﴿٣٢﴾
اس تھریڈ کے لگانے کا مقصد یہی ہے کہ بہت مختلف لوگوں اس مسئلے کے متنوع اچھے یا برے پہلووں پر روشنی ڈالیں تو شاید ایک معتدل رائے سامنے آ سکتی ہے۔ مجھے ذاتی طور جو اس کا تجربہ ہے کہ میں نے خود بھی وتر کی ایسی اجتماعی دعاوں میں لوگوں کو بہت رلایا ہوا ہے تو وہ یہی ہے کہ یہ ایسا عمل ہے کہ جسے قرآن مجید کے بیان کے مطابق شیطان انسان کے لیے مزین کر کے خوبصورت بنا دیتا ہے: وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ﴿٢٤﴾ إِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمَالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُونَ ﴿٤﴾ یعنی ہے تو ریاکاری لیکن انسان اسے نیکی اور تقوی سمجھ رہا ہوتا ہے کہ میں نے اتنے لوگوں کو اللہ کے حضور میں رلا دیا اور ان سے توبہ کروا دی تو شاید یہ بہت بڑا نیکی کا کام ہے کہ اس کے بندوں کو ان کے خالق سے ملا دیا لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہوتا ہے کہ انسان یہ سب کچھ اپنے اخلاص کے خون کا نذرانہ دے کر رہا ہوتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
سوال اگرچہ مشکل ہے لیکن بہرحال اب ہمارے علماء کو اس بارے کسی واضح موقف کا اظہار کر دینا چاہیے۔ ایک عالم دین، جو اہل حدیث نہیں ہیں، آج ان سے اس بات پر گفتگو ہوئی ہے کہ اہل حدیث مساجد میں یہ جو وتر میں اجتماعی دعا کی رسم چل پڑی ہے، اور اس کا اکثر مساجد میں اہتمام ہوتا ہے، قراء حضرات ائمہ حرمین کی رٹی ہوئی دعائیں بڑے خشوع وخضوع سے مانگتے ہیں اور لوگ اس مقصد کے لیے اہل حدیث مساجد کا شد رحال کرتے ہیں کہ ان کی اجتماعی دعا میں شریک ہوا جائے تو اس سب کچھ کی شرعی دلیل کیا ہے؟
میں نے یہ عرض کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنا تو ثابت ہے کہ آپ نے وتر جماعت کے ساتھ پڑھائے لہذا اس کے پڑھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ وتر میں جو لمبی دعائیں کی جاتی ہیں، ان کے جواز کی کیا دلیل ہے؟ میں نے کہا کہ قنوت نازلہ سے استدلال کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قنوت نازلہ کے علاوہ جو وتر میں دعائیں کی جاتی ہے اور وہ دعائیں بھی غیر مسنون اس معنی میں ہیں کہ الفاظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں ہیں بلکہ ائمہ حرمین یا ائمہ بلاد عرب کے ہیں تو اس کا کیا جواز ہے؟
میں نے کہا یہ بات درست ہے کہ قنوت نازلہ کے الفاظ متعین ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز وتر میں ویسی یا اتنی لمبی دعائیں نہیں کی جیسا کہ ہمارے ہاں کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کیا آپ اسے ایک نیا ٹرینڈ کہہ سکتے ہیں اور اس کی ابتداء کہاں سے ہوئی۔ میں نے کہا اسے بالکل ایک نیا رجحان کہا جا سکتا ہے اور اس کی ابتداء حرمین سے ہوئی۔ ہمارے ہاں اہل حدیث اس بارے ائمہ حرمین کو فالو کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ عمل اخلاص کے منافی نہیں ہے؟ میں نے کہا کہ اس خدشے کا اظہار اب اہل حدیث میں بہت سے لوگ کرنا شروع ہو گئے ہیں کہ اس طرح کی اجتماعی دعاوں میں رونے اور رلانے کے مناظر میں بعض اوقات واضح تکلف نظر آتا ہے۔
اس گفتگو کے بعد میں یہ سوچ رہا تھا کہ ہم کسی کی نیت یا اخلاص پر شک تو نہیں کر سکتے ہیں لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ ہمیں دعا میں تضرع کے ساتھ اللہ تعالی نے اسے چھپانے کا حکم دیا ہے۔ ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ﴿٥٥﴾ تَدْعُونَهُ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً لَّئِنْ أَنجَانَا مِنْ هَـٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ ﴿٦٣﴾
اس اعتبار سے تو دعا میں خلوت میں تو خوب اہتمام ہونا چاہیے اور اگر جلوت میں بھی کبھی کبھار لمبی دعا ہو جائے اور اس میں رونا آ جائے تو شاید کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہ بات شاید مناسب نہیں ہے کہ ایک قاری یا عالم دین رمضان کے آخری عشرے میں ہر دن میں نپے تلے ردیف اور قافیوں میں دعا کا اہتمام کرتے ہوئے اپنا خشوع وخضوع لوگوں کو دکھائیں اور آواز کے زیر وبم سے لوگوں کو رلانے کی حتی الامکان کوشش کریں اور پھر ایسے مواقع کی آڈیو یا ویڈیو ریکارڈنگ کا بھی اہتمام ہو۔ علاوہ ازیں بعض اوقات اور وہی قاری یا عالم دین ایک ہی رات میں ایک سے زائد مساجد میں وتر پڑھا کر اپنی خشیت کا اظہار کریں تو اس پر شاید قرآن مجید کی اس آیت کا اطلاق کیا جا سکتا ہے کہ تم اپنے آپ کو پاک صاف مت ظاہر کرتے پھرو کیونکہ اللہ کو علم ہے کہ تمہارے اندر کتنا تقوی ہے؟ فلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَىٰ ﴿٣٢﴾
اس تھریڈ کے لگانے کا مقصد یہی ہے کہ بہت مختلف لوگوں اس مسئلے کے متنوع اچھے یا برے پہلووں پر روشنی ڈالیں تو شاید ایک معتدل رائے سامنے آ سکتی ہے۔ مجھے ذاتی طور جو اس کا تجربہ ہے کہ میں نے خود بھی وتر کی ایسی اجتماعی دعاوں میں لوگوں کو بہت رلایا ہوا ہے تو وہ یہی ہے کہ یہ ایسا عمل ہے کہ جسے قرآن مجید کے بیان کے مطابق شیطان انسان کے لیے مزین کر کے خوبصورت بنا دیتا ہے: وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ﴿٢٤﴾ إِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمَالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُونَ ﴿٤﴾ یعنی ہے تو ریاکاری لیکن انسان اسے نیکی اور تقوی سمجھ رہا ہوتا ہے کہ میں نے اتنے لوگوں کو اللہ کے حضور میں رلا دیا اور ان سے توبہ کروا دی تو شاید یہ بہت بڑا نیکی کا کام ہے کہ اس کے بندوں کو ان کے خالق سے ملا دیا لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہوتا ہے کہ انسان یہ سب کچھ اپنے اخلاص کے خون کا نذرانہ دے کر رہا ہوتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
Last edited: