کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
کیا رکشہ چلانا ناجائز ہے؟
سجاد سلیم، جمعرات 4 اگست 2016ابھی یہ کچھ دن پہلے کی ہی بات ہے جب سوشل میڈیا پر ایک تصویر بہت مقبول ہوئی تھی جس کے پیچھے یہ لکھا ہوا تھا کہ رکشہ چلانے والا ماسٹرز ڈگری ہولڈر ہے، اِس تصویر کے سامنے آنے کی دیر تھی کہ ہر طرف ہنگامہ مچ گیا، لوگوں نے موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے حکومت پر بھی خوب لعن طعن کی۔ حالانکہ جب یہی ہمارے ماسٹرز، ایم فل اور پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈرز باہر یعنی مغربی ممالک میں جا کر ٹیکسی چلاتے ہیں یا دوسرا صفائی وغیرہ کا کام کرتے ہیں تو ان کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ دیکھو حلال کس طرح کمایا جاتا ہے کوئی ان سے سیکھے، اور ایسی صورتحال میں ہم سے کوئی کبھی اوبامہ یا انجیلا مرکل سے نہیں پوچھتے کہ آپ ہمارے اتنے اہم تعلیم یافتہ بندوں سے یہ کیا کام کروا رہے ہیں؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرح سے انگریز دور سے چلا ہوا رواج ہے کہ ہم وائٹ کالر بابو کی جاب کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ چاہے ایک ریڑھی والا ایک دفتر میں کام کرنے والے کمپیوٹر آپریٹر سے زیادہ پیسے ہی کیوں نہ کماتا ہو۔ میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جو میرے پاس آیا کہ اسے کسی دفتر میں چند ہزار کی نوکری لگوا دیں، حالانکہ وہ چند ایکڑ کی زرعی زمیں کا بھی مالک ہے، اگر وہ وہاں کام کرنا شروع کر دے تو اچھا خاصہ کما سکتا ہے، لیکن بدقسمتی سے اپنا کام کرنا اب لوگوں کو اچھا نہیں لگتا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم ایک تہ در تہ طبقاتی نظام میں دھنسے ہوئے ہیں۔ ہم ایک وقت میں یا تو انتہائی احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں یا انتہائی احساس برتری کا۔ ہم نے کچھ پیشوں کو خوامخواہ میں حقیر بنایا ہوا ہے، ہم نے کچھ کام نسلی چوڑھے، درزی، موچی، نائی، لوہار، بڑھئی، حلوائی، ڈرائیور، مستری، چرواہے، مزارعے، مزدور، ریڑھی بان اور پلے دار کے لیے چھوڑ رکھے ہیں اور ان کو حقیر سمجھتے ہیں۔ اب یہ کام صرف وہی لوگ کرتے ہیں جن کے پاس کرنے کو اور کچھ نہیں بچتا اور انتہائی مجبوری میں وہ یہ سارے کام کرتا ہے۔ شاید اِن کاموں کو حقیر سمجھنے کی بنیادی وجہ لوگ ہیں جو ایک چھوٹی سی نوکری کرنے والوں کو تو عزت دیتے ہیں لیکن دن بھر محنت مزدوری کرنے والوں کو کمتر سمجھتے ہیں۔
معاشرے کی اسی بد نظری کی وجہ سے ہمارے ملک میں بیروزگار لوگوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے ہماری معیشت پر دباو مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ ہمارے یہاں جوان نسل وزت کے ساتھ مزدوری اِس لیے نہیں کرتی کیونکہ اُس کو شرم آتی ہے لیکن وہ باہر جانے کے لیے ہر وقت تیار رہتی ہے پھر چاہے وہاں اُسے برتن دھونے یا لوگوں کے گھر صفائی کا کام ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ اسی طرح اگر کوئی تعلیم یافتہ بندہ اپنے اور اپنے بچوں کی بھوک مٹانے کے لیے رکشہ چلا لے تو اُس کے اپنے رشتہ دار اور دوست و احباب ہی کڑوی باتیں سنا سنا کر مار دیں کہ لو جناب اب یہ وقت بھی آنا تھا۔
رویوں میں منافقت کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ جب یہی حلوائی کوئی بڑی سی بیکری بنا لیتا ہے، نائی ایک بڑا سا سیلون کھول لیتا ہے، لوہار اسٹیل مل لگا لیتا ہے، مستری بلڈر بن جاتا ہے، موچی جوتوں کی فیکٹری بنا لیتا ہے اور ڈرائیور ٹرانسپورٹر بن جاتا ہے تو ہم ان پر رشک کر رہے ہوتے ہیں کہ دیکھو یہ کتنا بڑا آدمی بن گیا ہے، اللہ نے اِس کو کتنی عزت دی ہے، لیکن کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ اِس مقام تک پہنچنے کے لیے اُس نے کس قدر زیادہ محنت اور لوگوں کی باتیں سنی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اکثر یورپی ممالک میں یہ کام کرنا اس لیے آسان ہیں کہ وہاں کم ازکم اجرت بھی اچھی خاصی ہوتی ہے، مثلاً امریکہ اور یورپ میں ایک مزدور بھی روزانہ آٹھ گھنٹے کام کر کے ماہانہ کم از کم ایک ایک لاکھ پاکستانی روپیہ کما سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے سوشل سیکیورٹی قوانین بھی زیادہ مضبوط ہیں۔
اس لیے ہماری حکومت کی بھی یہ زمہ داری بنتی ہے کہ وہ سوشل سیکیورٹی قوانین وغیرہ کو بہتر بنائے، کم از کم اجرت کے قانون کا بہتر طریقے سے نفاز کیا جائے۔ بہت سے وڈیرے ابھی بھی مزدوروں کو غلام بنا کر رکھتے ہیں اور انہیں کم از کم اجرت بھی نہیں دیتے، جیسا کے بھٹہ مزدوروں کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس بات کو یقنی بنائے کہ مزدور کے ہر گھنٹے کے کام کی صحیح ادائیگی ہو۔
اسلام بھی ہمیں یہی سبق دیتا ہے کہ کوئی پیشہ چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا، فرق صرف حلال حرام کا ہے، تقریباً تمام انبیاء کرام نے بکریا چرائیں، تو کیا ہم نعوز بااللہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنے محبوب بندوں سے یہ کام کیوں کروائے؟ نبی کریم ﷺ نے بھی مزدور کو اپنا دوست قرار دیا، حضرت داود علیہ السلام لوہار کا کام کرتے تھے۔ حضرت ادریس علیہ السلام درزی کا کام کرتے تھے اور نوح علیہ السلام بڑھئی کا کام کرتے تھے، یہ ہستیان یقیناً ہمارے لیے مشعل راہ ہیں اور ہمیں ان سے سیکھنا چاہیئے۔
ہم سب کو اس معاشرتی منافقت سے نکل کر لوگوں کی زندگی آسان بنانے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ ایک بندہ تعلیم یافتہ ہے یا نہیں، سب کو اپنی اور اپنے بچوں کی بھوک مٹانی ہے۔ اس لیے خود بھی حلال کمانے سے نہ ہچکچائیں اور دوسروں کو بھی حلال کام کرنے پر تنقید کا نشانہ نہ بنائیں۔ وہ قومیں ہمیشہ زوال پزیر ہی رہتی ہیں، جو محنت سے اپنا دامن چراتی ہیں۔ اس لیے محنت والوں کی قدر کریں اور اپنے ملک کو خوشحال بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
سجاد سلیم آئی ٹی ایکسپرٹ ہیں، بین الاقوامی سیاست پر نظر رکھتے ہیں اور نئی نسل کے لیے دنیا کو بہتر شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
نوٹ: بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔