ابن قدامہ
مشہور رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2014
- پیغامات
- 1,772
- ری ایکشن اسکور
- 428
- پوائنٹ
- 198
اس موضوع پر دلائل دیکھئ
خلاصہ کلام یہ کہ جب باب احکام میں ضعیف حدیث مقبول تو دیگر ابواب میں بدرجہ اولیٰ مقبول ہوگی۔
ضعیف حدیث باب احکام کے علاوہ میں
جیساکہ عرض کیا گیا کہ ضعیف غیر موضوع عقائد واحکام کے علاوہ جمہور کے نزدیک قابل عمل ہے، عقائد واحکام کے باب میں تشدد اور فضائل ،ترغیب وترہیب اور مناقب وغیرہ میں تساہل کی بات حافظ سخاوینے امام احمد،ابن معین،ابن المبارک،سفیان ثوریاورابن عینیہسے نقل کی ہے۔
حافظ نووینے تو اس پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے، اپنی کتاب جزء اباحة القیام لاہل الفضلمیں فرماتے ہیں۔
امام نووی نے اصول حدیث و اصول روایات کی کتاب میں لکھا ہے:ويجوز عند أهل الحديث وغيرهم التساهل في الأسانيد ورواية ما سوى الموضوع من الضعيف ، والعمل به من غير بيان ضعفه في غير صفات الله تعالى والأحكام كالحلال والحرام .[تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي » أنواع الحديث » النوع الثاني والعشرون المقلوب » شروط العمل بالأحاديث الضعيفة ص: 350 (1/455)]
ترجمہ: اہل حدیث کے نزدیک ضعیف سندوں میں تساہل (نرمی) برتنا اور موضوع کو چھوڑ کر ضعیف حدیثوں کو روایت کرنا اور ان پر عمل کرنا ان کا ضعف بیان کیے بغیر جائز ہے؛ مگر اللہ کی صفات اور حلال و حرام جیسے احکام کی حدیثوں میں ایسا کرنا جائز نہیں ہے.
اجمع اہل الحدیث وغیرہم علی العمل فی الفضائل ونحوہا مما لیس فیہ حکم، ولاشئ من العقائد، وصفات اللّٰہ تعالیٰ بالحدیث الضعیف۔
(نقلاً عن التعریف باوہام․․․)
امام نووی کی الاربعین اور اس کی شرح فتح المبین لابن حجر المکی الہیثمی کے الفاظ میں:
قد اتفق العلماء علی جواز العمل بالحدیث فی فضائل الاعمال ،لانہ ان کان صحیحاً فی نفس الامر، فقد اعطی حقہ، والا لم یترتب علی العمل بہ مفسدة تحلیل ولاتحریم، ولاضیاع حق الغیر۔
(الاجوبة الفاضلة ص:۴۳)
یعنی فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کے بارے میں علماء کا اتفاق ہے، کیونکہ اگر وہ واقعتاً صحیح تھی تو اس کا حق اس کو مل گیا، ورنہ اس پر عمل کرنے سے نہ تو حرام کو حلال کرنا لازم آیا اور نہ اس کے برعکس اور نہ ہی کسی غیر کا حق پامال کرنا۔
معلوم ہوا کہ مسئلہ اجماعی ہے، اور کوئی بھی حدیث ضعیف کو شجرہٴ ممنوعہ قرار نہیں دیتا، لیکن چند بڑے محدثین واساطین علم کے نام ذکر کئے جاتے ہیں، جن کے متعلق یہ نقل کیا جاتا ہے کہ وہ فضائل میں بھی ضعیف حدیث پر عمل کرنے کے قائل نہیں ہے۔
(قواعد التحدیث للشیخ جمال الدین القاسمی ص:۱۱۶)
ان اساطین میں امام بخاری، مسلم،یحی بن معیناورابوبکر بن العربیہیں، بعض حضرات نے ابوشامہ مقدسی، شیخ الاسلام ابن تیمیہاور علامہ شوکانیکا نام بھی لیا ہے۔ تفصیل کا تو موقع نہیں، آیئے ان حضرات کی آراء کے متعلق کچھ تحقیق کرلیں:
امام بخاریکا موقف
علامہ جمال الدین قاسمیصاحب قواعد التحدیث کے بقول بظاہر امام بخاریکا مذہب مطلقاً منع ہے اور یہ نتیجہ انہوں نے صحیح بخاری کی شرائط اور اس میں کسی ضعیف حدیث کو داخل کتاب نہ کرنے سے نکالا ہے، علامہ شیخ زاہد الکوثرینے بھی اپنے مقالات (ص:۵۴) میں یہی بات کہی ہے، لیکن یہ بات درست نہیں، بلکہ اس مسئلہ میں امام بخاریکا موقف بالکل جمہور کے موافق ہے۔
جہاں تک صحیح بخاری کا تعلق ہے تو اولاً: اس میں امام نے صرف صحیح حدیثوں کا التزام کیا ہے، لہذا اس میں کسی ضعیف حدیث کانہ ہونااس بات کو مستلزم نہیں کہ امام کے نزدیک ضعیف سرے سے ناقابل عمل ہے، جیساکہ کسی حدیث کا اس میں نہ ہونا اس بات کو مستلزم نہیں کہ وہ غیر صحیح ہے، چنانچہ خود آپ نے احادیث آداب واخلاق کا ایک گراں قدر مجموعہ الادب المفردمرتب فرمایا، جس کی شرط یقیناً ان کی جامع صحیح سے بہت فروتر ہے، حتی کہ عصر حاضر کے بعض علم برداران حفاظت سنت کو صحیح الادب المفرد اور ضعیف الادب المفرد کے جراحی عمل کی مشقت اٹھانی پڑی۔
اس کتاب میں امام بخاری نے ضعیف احادیث وآثار کی ایک بڑی مقدار تخریج کی ہے، بلکہ بعض ابواب تو آبادہی ضعیف سے ہیں ،اور آپ نے ان سے استدلال کیا ہے، چنانچہ اس کے رجال میں ضعیف، مجہول، منکر الحدیث اور متروک ہر طرح کے پائے جاتے ہیں، مثال کے طور علامہ شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ نے الادب المفرد کی شرح فضل اللہ الصمد سے بائیس احادیث وآثار اور ان کے رجال کے احوال نقل کئے ،ان میں سے بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں:
۱-اثر نمبر ۲۳ میں: علی بن الحسین بن واقد المروزی، ضعیف الحدیث۔
۲-حدیث نمبر :۴۳ میں محمد بن فلان بن طلحہ، مجہول، او ضعیف متروک۔
۳-اثر نمبر: ۴۵ میں عبید اللہ بن موہب، قال احمد: لایعرف۔
۴-اثر نمبر: ۵۱ ابو سعد سعید بن البرزبان البقال الاعور، ضعیف۔
۵-حدیث نمبر: ۶۳ میں سلیمان ابو اِدام یعنی سلیمان بن زید۔ضعیف لیس بثقة، کذاب، متروک الحدیث۔
۶-حدیث نمبر: ۱۱۱ میں لیث بن ابی سلیم القرشی ابوبکر: ضعیف۔
۷-حدیث نمبر :۱۱۲ میں عبد اللہ بن المساور: مجہول۔
۸-حدیث نمبر: ۱۳۷ میں یحی بن ابی سلیمان: قال البخاری: منکر الحدیث۔
شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ نے تقریب التہذیب سے الادب المفرد کے رجال کو کھنگالا تو مستورین کی تعداد: دو۔ ضعفاء کی تعداد: بائیس۔ اور مجہولین کی تعداد :اٹھائیس نکلی، مجموعہ باون رواة۔ اس جائزہ سے بخوبی واضح ہوگیا کہ فضائل کی حدیثوں کے تئیں امام بخاریکا مسلک وہی ہے جو جمہور کا ہے۔
صحیح بخاری میں متکلم فیہ رجال کی حدیثیں
ثانیا خود الجامع الصحیح میں ایسی مثالیں موجود ہیں جن کی روایت میں کوئی متکلم فیہ راوی موجود ہے، جس کی حدیثیں ،محدثین کے اصول پر کسی طرح حسن سے اوپر نہیں اٹھ سکتی، بلکہ بعض حدیثوں میں ضعیف راوی منفرد ہے، اور اس کو داخل صحیح کرنے کی اس کے علاوہ کوئی تاویل نہیں ہوسکتی کہ اس کا مضمون غیر احکام سے متعلق ہے، اور شارحین نے یہی تاویل کی بھی ہے۔ ملاحظہ ہوں چند مثالیں:۱- حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مقدمہ فتح الباری (ص:۶۱۵)میں محمد بن عبد الرحمن الطُفاوی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:
قال ابو زرعة منکر الحدیث، واورد لہ ابن عدی عدة احادیث، قلت: لہ فی البخاری ثلاثة احادیث، لیس فیہا شئ مما استکرہ ابن عدی․․․ثالثہا فی الرقاق کن فی الدنیا کأنک غریب وہذا تفرد بہ الطفاوی، وہو من غرائب الصحیح، وکان البخاری لم یشدد فیہ، لکونہ من احادیث الترغیب والترہیب۔
یہ حدیث صحیح بخاری کی غریب حدیثوں میں سے ہے۔
یعنی کن فی الدنیا کأنک غریب (بخاری کتاب الرقاق) حدیث کی روایت میں محمد بن عبد الرحمن الطفاوی منفرد ہے، حافظ فرماتے ہیں: شاید کہ امام بخاری نے اس کے ساتھ تساہل کا معاملہ صرف اس وجہ سے کیا ہے کہ یہ ترغیب وترہیب کی حدیثوں میں سے ہے۔
۲-عن ابی بن عباس بن سہل بن سعد، عن ابیہ عن جدہ قال: کان للنبی ا فی حائطنا فرس یقال لہ اللحیف
(کتاب الجہاد باب اسم الفرس والحمار)
حافظنے تہذیب التہذیب میں ابی بن عباس بن سہل کی بابت امام احمد، نسائی، ابن معیناور امام بخاریسے تضعیف کے جملے نقل کئے، عقیلی نے کہا :اس کی کئی حدیثیں ہیں اور کسی پر اس کی متابعت نہیں کی گئی ہے۔ پھر حافظنے فرمایا کہ :مذکورہ حدیث پر اس کے بھائی عبد المہیمن بن عباس نے متابعت کی ہے، لیکن وہ بھی ضعیف ہے، ملاحظہ ہوں یہ الفاظ:
وعبد المہیمن ایضاً فیہ ضعف، فاعتضد، وانضاف الی ذلک انہ لیس من احادیث الاحکام، فلہذہ الصورة المجموعة حکم البخاری بصحتہ انتہی۔
ابی بن عباسکے ضعف کی تلافی اس کے بھائی سے اس قدر نہیں ہوسکی کہ حدیث کو صحیح کا درجہ دیا جائے تو اس خلل کو اس پہلو سے پر کیا گیا کہ حدیث احکام سے متعلق نہیں ہے، اس لئے چل جائے گی۔
۳-محمد بن طلحة، عن طلحة، عن مصعب بن سعد قال: رای سعد ان لہ فضلاً علی من دونہ، فقال النبی ا تنصرون وترزقون الا بضعفائکم۔
(کتاب الجہاد وباب من استعان بالضعفاء والصالحین فی الحرب)
محمد بن طلحة بن مصرف الکوفی ان کا سماع اپنے والد سے کم سنی میں ہوا تھا، امام نسائی، ابن معین، ابن سعدوغیرہ نے ان کو ضعیف کہاہے ،تقریب میں ہے: صدوق لہ اوہام، وانکروا سماعہ من ابیہ لصغرہ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مقدمہ (ص:۶۱۳) میں فرماتے ہیں۔
صحیح بخاری میں ان کی تین حدیثیں ہیں، دو تو متابعت کی وجہ سے درجہ صحت کو پہنچ جاتی ہے، تیسری (مذکورہ بالا حدیث) ہے، اس کی روایت میں محمد بن طلحہ منفرد ہیں، مگر یہ فضائل اعمال سے متعلق ہے یعنی فضائل اعمال کی حدیث ہونے کی وجہ سے چشم پوشی کی گئی۔
امام مسلم کا موقف
علامہ جمال الدین رحمہ اللہ نے امام مسلم کے متعلق دلیل یہ دی کہ انہوں نے مقدمہ میں ضعیف ومنکر احادیث کے روایت کرنے والوں کی سخت مذمت کی ہے اور اپنی صحیح میں ضعیف حدیث کا اخراج نہیں کیا ہے، لیکن امام مسلم کی اس تشنیع سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ ضعفاء سے روایت کرنا مطلقاً ناجائز ہے، انہوں نے تو صحیح حدیثوں کو جمع کرنے والے پر یہ بات ضروری قرار دی ہے کہ وہ مشہور ثقہ راویوں کی حدیثوں کو تلاش کرکے جمع کرے، ضعیف حدیث کے علی الاطلاق مردود ہونے پر ان سے کوئی صراحت منقول نہیں ہے۔تاہم امام مسلم نے بعض ضعفاء کی حدیثیں صحیح میں متابعات وشواہد کے طور پر اخراج کی ہیں، آپ نے مقدمہ میں حدیثوں کی تین قسمیں قرار دی ہیں۔
۱-وہ حدیثیں جو حفاظ متقنین کی روایت سے ہیں۔۲- وہ حدیثیں جو ایسے لوگوں کی روایت سے ہیں جو حفظ واتقان میں متوسط اور بظاہر جرح سے محفوظ ہیں۔۳- وہ حدیثیں جو ضعفاء ومتروکین کی روایت سے ہیں۔
امام مسلم کی اس صراحت اور صحیح میں ان کے طرز عمل کے درمیان تطبیق میں شراح نے مختلف باتیں کہی ہیں، قاضی عیاضنے جو توجیہ کی، علامہ ذہبیاور نووینے ا س کو پسند کیا، ا س کا خلاصہ یہ ہے:
امام مسلم نے جن تین طبقات کا ذکر کیا ہے ،ان میں سے آخری طبقہ ان رواة کا ہے جن کے متہم ہونے پر تمام یا اکثر علماء کا اتفاق ہے، اس سے پہلے ایک طبقہ ہے جس کا ذکر امام نے اپنی عبارت میں نہیں کیا ہے ، اور وہ ، وہ لوگ ہیں جن کو بعض تو متہم سمجھتے ہیں اور بعض صحیح الحدیث قرار دیتے ہیں۔ یہ کل چار طبقے ہوئے، میں نے امام مسلم کو پایا کہ وہ پہلے دونوں طبقوں کی حدیثیں لاتے ہیں، اس طرح کہ باب میں اولاً طبقہٴ اولیٰ کی حدیث تخریج کرتے ہیں پھر مزید تقویت کے لئے طبقہ ثانیہ کی حدیثیں ذکر کرتے ہیں اور جب کسی باب میں طبقہٴ اولیٰ سے کوئی حدیث ان کے پاس نہیں ہوتی تو ثانیہ ہی کی حدیث پر اکتفاء کرتے ہیں، پھر کچھ ایسے لوگوں کی حدیثیں بھی تخریج کرتے ہیں جن کی بعض نے تضعیف اور بعض نے توثیق کی ہوتی ہے،رہے چوتھے طبقہ کے لوگ تو ان کو آپ نے ترک کردیا ہے۔
(مقدمہ شرح نووی)
امام ذہبیفرماتے ہیں:
میں کہتاہوں کہ طبقہٴ اولیٰ وثانیہ کی حدیثیں مساویانہ طور پر لیتے ہیں، ثانیہ کی معدود ے چند کو چھوڑ کر جس میں وہ کسی قسم کی نکارت سمجھتے ہیں، پھر متابعات وشواہد کے طور پر طبقہٴ ثالثہ کی حدیثیں لیتے ہیں ،جن کی تعداد بہت زیادہ نہیں، اصول میں تو ان کی حدیثیں شاید وباید ہی لیتے ہیں، یہ عطاء بن السائب، لیث بن ابی سلیم، یزید بن ابی زیاد، ابان بن صمعہ، محمد بن اسحاق اور محمد بن عمرو بن علقمہ اور ان کی حیثیت کے لوگ ہیں۔
(سیر اعلاء مالنبلاء ۱۲/۵۷۵)
ایک غلط فہمی کا ازالہ
اوپر صحیحین کے تعلق سے جو کچھ عرض کیا گیا ،اس سے ممکن ہے بعض اہل علم کو شبہ ہو کہ پھر تو صحیحین سے اعتماد اٹھ جائے گا، اور نتیجتاً پوراذخیرہ حدیث مشکوک ہوجائے گا ،جب کہ صحیحین کا اصح الکتاب بعد کتاب اللہ ہونا مسلم، اور متفق علیہ ہے، کیونکہ جب صحیحین تک ضعیف حدیثوں سے محفوظ نہیں رہیں تو دوسری کتب حدیث تو بدرجہ اولیٰ محفوظ نہیں رہیں گی اور اس طرح پورا ذخیرہ حدیث مشکوک اور ناقابل اعتبار ہوجائے گا اور منکرین حدیث کو انکار حدیث کے لئے بہا نہ ملے گا۔
اس سلسلہ میں عرض ہے کہ ہم نے یہ کہا ہی کب ہے کہ صحیحین میں ضعیف حدیثیں بھی ہیں؟ اصل بات یہ ہے کہ جمہور امت کے نزدیک حدیثوں میں صحت وحسن کا معیار مختلف ہوتا ہے، باب احکام (حلال وحرام) میں سخت ہوتا ہے تو فضائل وغیرہ میں نرم۔
چنانچہ ہم نے بخاری شریف سے جو مثالیں پیش کی ہیں ،وہ اپنی علتوں کے باوجود فضائل وآداب کے باب کے اعتبار سے یقینا صحیح ہیں، اگرچہ باب احکام میں جس درجہ کی صحت مطلوب ہوتی ہے ،وہ ان میں نہیں ہے، اسی لئے امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کو داخل صحیح کرلیا۔
اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے بعض حضرات ہرباب میں صحت وحسن کے اسی معیار کو استعمال کرنے لگتے ہیں جو باب احکام کے لئے مخصوص ہے، اور وہ بھی صرف اسنادی پہلو سے ،ا س لئے مناسب خیال کیا گیا کہ ضعیف اور متکلم فیہ رجال کی حدیثوں کی بابت صحیحین کے مصنفین کا اصل موقف واضح کردیا جائے ،تاکہ اس مغالطہ کی گنجائش باقی نہ رہے۔ ورنہ صحیحین کے متعلق جمہور امت کی جو رائے ہے، وہی ہمارا بھی مسلک ہے کہ یہ دونوں کتابیں صرف صحیح احادیث کا مجموعہ ہیں۔ علامہ شبیر احمد عثمانینے مقدمہ فتح الملہم میں صحیحین کی حدیثوں کے مفید قطع ویقین ہونے کے نظریہ کی مدلل تردید کرنے کے بعد صحیحین کی عظمت ومقام کی بابت حضرت شاہ ولی اللہ کی عبارت نقل کی ہے، اس جگہ ہم بھی انہیں عبارات کو نقل کرنا مناسب سمجھتے ہیں، علامہ عثمانیفرماتے ہیں:
لیس غرضنا مماکتبنا فی ہذا لبحث تہوین امر الصحیحین، او غیرہما من کتب الحدیث، بل المقصود نفی التعمق والغلو، ووضع کل شئ فی موضعہ، وتنویہ شانہ بما یستحقہ، ونحن بحمد اللّٰہ نعتقد فی ہٰذین الکتابین الجلیلین، ونقول بما قال شیخ شیوخنا ومقدم جماعتنا الشاہ ولی اللّٰہ الدہلوی فی حجة اللّٰہ البالغة وہذا لفظہ:
اما الصحیحان: فقد اتفق المحدثون علی ان جمیع ما فیہما من المتصل المرفوع صحیح بالقطع (بالتفصیل الذی ذکرنا) وانہما متواتران الی مصنفیہما وانہ غیر سبیل المؤمنین۔ اھ
ترجمہ:․․․اس بحث میں جو کچھ ہم نے لکھا ،اس سے ہمارا مقصد معاذ اللہ! صحیحین، یا دوسری کتب حدیث کی کسر شان نہیں ہے، بلکہ ان کی بابت غلو کی تردید اور ہرچیز کو اس کے اصل مقام پر رکھنے اور اس کو اس کا واجبی حق دینے کی کوشش ہے، ورنہ ہم بحمد اللہ! ان دونوں عظیم الشان کتابوں کے متعلق وہی نظریہ رکھتے ہیں جو ہمارے شیخ الشیوخ اور مقتدا حضرات شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے حجة اللّٰہ البالغہ میں فرمایا ہے۔
رہیں صحیحین، تو محدثین اس پر متفق ہیں کہ ان میں جو کچھ مرفوع متصل کے قبیل سے ہے، وہ بالکل صحیح ہے اور ان کتابوں کا ثبوت ان کے مصنفین سے بطور تواتر ہے، بلاشبہ جو شخص بھی ان کی شان گھٹائے گا وہ بدعتی، گمراہ اور مسلمانوں کے راستے کے علاوہ راستہ کی پیروی کرنے والا ہوگا۔
(مقدمہ فتح الملہم ص:۱۰۸)
یحیٰ بن معینکا موقف
ابن سید الناس نے تو عیون الاثر میں یحی بن معینکا مذہب مطلقاََردہی نقل کیا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ ان کا مذہب جمہور کے موافق ہے، شواہد درج ذیل ہیں:
۱-جیساکہ اوپر مذکور ہوا ،حافظ سخاوینے فتح المغیث میں جن چند لوگوں سے (عقائد واحکام میں تشدد فضائل وغیرہ میں تساہل) نقل کیا ہے، ان میں ابن معینبھی ہیں۔ (فتح المغیث۱/۴۹۷) ۲- شیخ احمد محمد نور سیف نے مقدمہ تاریخ ابن معین میں لکھا کہ: یحیی بن معینکی محمد بن اسحاق کے متعلق جو رائیں منقول ہیں ،ان سے قطعاً یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اس کی حدیثیں مطلقاً قابل ترک ہیں، چنانچہ فرمایا: ثقة، ولکن لیس بحجةابن اسحاق کے شاگرد زیاد بن عبد اللہ البکائی کے متعلق فرمایا: لیس بشئ ، لابأس بہ فی المغازی، واما فی غیرہا، فلا معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک مغازی وغیرہ میں تو ابن اسحاق اور ان کے شاگرد مقبول ہیں، احکام وغیرہ میں نہیں۔
۳-الکامل لابن عدی ۱/۶۶۶ میں ہے:
عن ابن ابی مریم، قال سمعت ابن معین یقول: ادریس بن سنان یکتب من حدیثہ الرقاق
ابن معین کے نزدیک ادریس بن سنان کی حدیث رقاق (آداب وفضائل) کے باب میں قابل قبول ہے، جبکہ یہ ضعیف ہیں۔
ابوبکر بن العربی کا موقف
یہ مالکی المسلک فقیہ ہیں، ان سے ایسی کوئی صراحت تو نہیں ملی جس سے ثابت ہو کہ ان کے نزدیک فضائل اعمال میں ضعیف حدیث قابل عمل نہیں، البتہ اس کے برعکس ثابت ہے۔ ۱-مرسل حدیث جوجمہور محدثین وشافعیہ کے نزدیک ضعیف ہے ،مالکیہ کے نزدیک اس سے استدلال درست ہے، وہ خود اس بات کو نقل کرتے ہیں:
المرسل عند نا حجة فی احکام الدین من التحلیل والتحریم، وفی الفضائل، وثواب العبادات، وقد بینا ذلک فی اصول الفقہ۔
(عارضة الاحوذی ۲/۲۳۷)
۲-ضعیف کے معمول بہ ہونے کی صراحت خود فرما تے ہیں:
روی ابو عیسی حدیثاً مجہولاً: ان شئت شمتہ، وان شئت فلا وہو ان کان مجہولاً ،فانہ یستحب العمل بہ ،لانہ دعاء بخیر، وصلة للجلیس،وتوددلہ اھ
(عارضة ۱۰/۲۰۵)
یعنی اگرچہ یہ حدیث مجہول کی روایت سے ہے، لیکن اس پر عمل کرنا مستحب ہے، کیونکہ اس میں خیر کی دعاء ہم نشین کی دل بستگی اور اس سے محبت کا اظہار ہے۔
ابوشامہ مقدسیکا موقف
محدث ابو شامہ مقدسی کی بات شیخ طاہر الجزائرینے توجیہ النظر ۲/۶۵۷ میں نقل کی ہے، انہوں نے اپنی کتاب الباعث علی انکار البدع والحوادث میں حافظ ابن عساکر دمشقی کی ایک مجلس املاء کے حوالہ سے ماہ رجب کی فضیلت کے متعلق تین حدیثیں ذکر کیں۔ اس کے بعد لکھا کہ:
کنت اودّ ان الحافظ لم یذکر ذلک، فان فیہ تقریراً لما فیہ من الاحادیث المنکرةفقدرہ کان اجل من ان یحدث عن رسول اللہ ا بحدیث یری انہ کذب ،ولکنہ جری علی عادة جماعة من اہل الحدیث یتساہلون فی احادیث الفضائل الخ۔
یعنی کاش کہ ابن عساکر ان حدیثوں کو بیان نہ کرتے ،کیونکہ ا س سے منکر حدیثوں کو رواج دینا ہے، آپ جیسے محدث کی شایان شان نہیں کہ ایک حدیث جس کو غلط سمجھ رہے ہیں، بیان کریں۔ لیکن محدثین کی ایک جماعت جو فضائل اعمال میں تساہل بر تتی ہے کے طریقہ کو آپ نے اختیار کیا۔
علامہ شبیر احمد عثمانیفتح الملہم میں پر تبصرہ یوں فرماتے ہیں:
محدث ابوشامہ نے فضائل وغیرہ میں ضعیف پر عمل کے سلسلہ میں تو کوئی نقد نہیں کیا، بلکہ ابن عساکر جیسے ماہر فن کے طرز عمل پر نکتہ چینی کی کہ انہوں نے ایک منکر حدیث بغیر کسی وضاحتی بیان کے عوام میں نقل فرمادی، جس سے عوام یا جس کو اس فن سے مناسبت نہیں ابن عساکر کی نقل سے دھوکہ کھانے اور اس کو ثابت سمجھنے کا اندیشہ ہے، جبکہ محدثین کے نزدیک یہ غیر ثابت ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا موقف
شیخ الاسلام ابن تیمیہ بھی فضائل وغیرہ میں ضعیف پر عمل کے مسئلہ میں جمہور سے الگ نہیں ہوسکے، اس دعویٰ کا بین ثبوت ان کی کتاب الکلم الطیب ہے، اس میں ضعیف حدیثوں کی تعداد کتنی ہے، اس کا جواب علامہ ناصر الدین البانیدیں گے ،جنہوں نے صحیح الکلم الطیب اور ضعیف الکلم الطیب میں خط امتیاز قائم کرنے کا کار نامہ انجام دیا ہے۔
(التحریف باوہام ۱/۱۰۳)
قال شيخ الإسلام رحمه الله: قول أحمد بن حنبل: إذا جاء الحلال والحرام شددنا في الأسانيد، وإذا جاء الترغيب والترهيب تساهلنا في الأسانيد، وكذلك ما عليه العلماء من العمل بالحديث الضعيف في فضائل الأعمال[مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ : ١٨/٦٥]؛
ترجمہ : شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ، امام احمدؒ کا قول نقل کرتے فرماتے ہیں کہ : جب حلال و حرام کی بات آۓ گی تو اسانید (سندوں) کی جانچ پرکھ میں سختی سے کام لیں گے، اور جب ترغیب (نیکی کا شوق دلانے) اور ترھیب (برائی کا خوف دلانے) کی بات آۓ گی تو ہم اسانید میں تساہل (نرمی) برتینگے، اسی طرح فضائل اعمال میں جس ضعیف حدیث کے عمل کرنے پر علماء ہیں.
[مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ : ١٨/٦٥]
علامہ شوکانیکا موقف
اگرچہ علامہ شوکانی کی الفوائد المجموعہ (ص:۲۸۳) کی عبارت سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے نزدیک ضعیف حدیث مطلقاً ناقابل عمل ہے، لیکن ان کی اہم ترین تصنیف نیل الاوطار (۳/۶۰) کی یہ عبارت ا س کی نفی کرتی ہے:
والایات والاحادیث المذکورة فی الباب تدل علی مشروعیة الاستکثار من الصلاة بین المغرب والعشاء والاحادیث وان کان اکثرہا ضعیفاً فہی منتہضة لمجموعہا لاسیما فی فضائل الاعمال۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ مغرب وعشاء کے درمیان نوافل کی کثرت سے متعلق اکثر حدیثیں اگرچہ ضعیف ہیں لیکن مجموعی حیثیت سے مضبوط ہیں ،خاص کر فضائل اعمال میں۔ نیز آپ کی کتاب تحفة الذاکرین کا مطالعہ کرنے والا شخص تو ہمت ہی نہیں کرسکتا کہ ان کی طرف زیر بحث مسئلہ میں خلاف جمہور رائے کا انتساب کرے، کیونکہ وہ تو ضعاف سے بھری پڑی ہے
(ملاحظہ ہو التعریف)
ان معروضات سے یہ حقیقت آشکارا ہوگئی کہ ضعیف حدیث جبکہ موضوع نہ ہو، باب احکام وعقائد کے علاوہ میں اجماعی طور سے پوری امت کے نزدیک قابل عمل ہے، اور چونکہ فضائل، مناقب، ترغیب وترہیب سیر ومغازی کی احادیث کے ذریعہ غفلت سے بیداری اور دین پر عمل کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، اس لئے پورے شد ومد سے ان کے خلاف ہوا کھڑا کیا گیا ہے، تاکہ مذہبی احکام کی اہمیت کم سے کم تر ہوجائے ،پھر زیاں کے بعد زیاں کا احساس تک باقی نہ رہے۔ یالیت قومی یعلمون۔
ضعیف حدیث پر عمل کے شرائط
ہاں یہ ضرور ہے کہ ضعیف حدیث کا ثبوت محتمل ہوتا ہے اس لئے اس سے استدلال کے وقت کچھ امور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، حافظ شمس الدین سخاوی نے القول البدیع (ص:۱۵۹) میں ابن حجرسے نقل کیا ہے۔
ضعیف حدیث پر عمل کے لئے تین شرطیں ہیں:
۱-یہ کہ ضعف غیر شدید ہو، چنانچہ وہ حدیث جس کی روایت تنہا کسی ایسے شخص کے طریق سے ہو جو کذاب یا متہہم بالکذب یا فاحش الغلط ہو خارج ہوگی۔
شرط العمل بالحديث الضعيف عدم شدة ضعفه ، وأن يدخل تحت أصل عام ، وأن لا يعتقد سنية ذلك الحديث . [رد المحتار على الدر المختار» كتاب الطهارة» سنن الوضوء : الجزء الأول ص: 129 ]
شديد الضعف هو الذي لا يخلو طريق من طرقه عن كذاب أو متهم بالكذب (رد المختار : ١/٨٧)
۲-اس کا مضمون قواعد شرعیہ میں سے کسی قاعدہ کے تحت آتا ہو چنانچہ وہ مضمون خارج از عمل ہوگا جو محض اختراعی ہو۔ اصول شرعیہ میں سے کسی اصل سے میل نہ کھاتا ہو (ظاہر ہے اس کا فیصلہ دیدہ در، بالغ نظر فقہاء ہی کر سکتے ہیں، جو ہر کہہ دمہ کے بس کی بات نہیں)
۳-اس پر عمل کرتے وقت اس کے ثبوت کا عقیدہ نہ رکھا جائے، بلکہ صرف اس کے ثواب کے حصول کی امید کے ساتھ کیا جائے، مبادا آں حضرت ا کی جانب ایک بات جو واقع میں آپ نے نہ فرمائی ہو، اس کا آپ کی طرف منسوب کرنا لازم آجائے۔
۴-مولانا عبد الحئ لکھنوینے ایک چوتھی شرط بھی ذکر کی ہے، وہ یہ کہ اس مسئلہ کے متعلق اس سے قوی دلیل معارض موجود نہ ہو۔ پس اگر کوئی قوی دلیل کسی عمل کی حرمت یا کراہت پر موجود ہو، اور یہ ضعیف اس کے جواز یا استحباب کی متقاضی ہو تو قوی کے مقتضی پر عمل کیا جائے گا۔
فضائل اعمال اور ترغیب وترہیب کا فرق
واضح رہے کہ اہل علم ضعیف حدیث کے قابل قبول ہونے کے مواقع کو بیان کرتے ہوئے اپنی عبارتوں میں فضائل اعمال اور ترغیب وترہیب دولفظوں کا استعمال کرتے ہیں فضائل اعمال کااطلاق ایسے موقعوں پر کرتے ہیں جہاں کوئی مخصوص عمل پہلے سے کسی نص صحیح یا حسن سے ثابت ہونے کی بجائے کسی ضعیف حدیث میں اس عمل کا ذکر اور اس کی فضیلت آئی ہو اور علماء امت اور فقہاء کرام اس ضعیف حدیث ہی کی بنیاد پر اس عمل کو مستحب قرار دیتے ہیں، مذکورہ بالا شرطوں کے ساتھ ، مثلاً مغرب کے بعد چھ رکعات کا پڑھنا، قبر میں مٹی ڈالتے وقت مخصوص دعاء کا پڑھنا مستحب قرار دیا گیا ہے (جیساکہ گذرا) اور جیسے اذان میں ترسل (ٹھہر ٹھہر کر کلمات اذان ادا کرنا) اور اقامت میں حدر (روانی سے ادا کرنا) مستحب ہے ترمذی کی حدیث ضعیف کی وجہ سے جو عبد المنعم بن نعیم کے طریق سے روایت کرکے کہتے ہیں ہذا اسناد مجہول اور عبد المنعم کو دار قطنی وغیرہ نے ضعیف کہا ہے۔ ان مثالوں میں مذکورہ بالا شرطیں پائی جارہی ہیں۔
اور ترغیب وترہیب کا اطلاق ایسے مواقع میں کرتے ہیں جہاں کہ وہ مخصوص عمل کسی نص قرآنی، حدیث صحیح یا حسن سے ثابت ہو، اور کسی حدیث ضعیف میں ان اعمال کے کرنے پر مخصوص ثواب کا وعدہ اور نہ کرنے یا کوتاہی کرنے پر مخصوص وعید وارد ہوئی ہو۔ چنانچہ اس مخصوص وعدہ اور وعید کو بیان کرنے کے لئے ضعیف سے ضعیف حدیث کو مذکورہ بالا شرطوں کے بغیر بھی بیان کرنا جائز قرار دیتے ہیں اس لئے کہ اس میں اس حدیث سے کسی طرح کا کوئی حکم ثابت نہیں ہوتا، اور فضائل میں جو استحباب ثابت ہوتا ہے وہ بربنائے احتیاط ہے، اور بعض شوافع کے نزدیک تو استحباب حقیقةً حکم اصطلاحی ہی نہیں ہے، اس لئے کوئی اشکال نہیں، امام بیہقی رحمہ اللہ دلائل النبوة (۱/۳۳-۳۴) میں فرماتے ہیں۔
واما النوع الثانی من الاخبار ، فہی احادیث اتفق اہل العلم بالحدیث علی ضعف مخرجہا وہذا النوع علی ضربین ضرب رواہ من کان معروفاً بوضع الحدیث والکذب فیہ فہذا الضرب لایکون مستعملاً فی شئ من امور الدین الا علی وجہ التلیین۔وضرب لایکون راویہ متہماً بالوضع غیر انہ عرف بسوء الحفظ وکثرة الغلط فی روایاتہ او یکون مجہولاً لم یثبت من عدالتہ وشرائط قبول خبرہ ما یوجب القبول، فہذا الضرب من الاحادیث لایکون مستعملاً فی الاحکام، وقد یستعمل فی الدعوات، والترغیب والترہیب، والتفسیر، والمغازی فیما لایتعلق بہ حکم انتہی۔
اور ترغیب وترہیب کے لئے مذکورہ نرمی محدثین کے طرز عمل سے ظاہر ہے ،جیساکہ اگلے عنوان میں واضح ہوگا۔ یہ فرق مولانا عبد الحئ لکھنویکی اس عبارت سے بھی مترشح ہوتا ہے:
فان عبارة النووی، وابن الہمام ، وغیرہما منادیة باعلی النداء بکون المراد بقبول الحدیث الضعیف فی فضائل الاعمال ہو ثبوت الاستحباب ونحوہ بہ، لامجرد ثبوت فضیلة لعمل ثابت بدلیل آخر، ویافقہ صنیع جمع من الفقہاء والمحدثین حیث یثبتون استحباب الاعمال۔ التی لم تثبت۔ بالاحادیث الضعیفة، ایضاً لوکان المراد ما ذکرہ۔ یعنی الخفاجی من ان المراد بقبول الضعیف فی الفضائل ہو مجرد ثبوت فضلة لعمل ثابت) لما کان لقولہم یقبل الضعیف فی فضائل الاعمال وفی المناقب، وفی الترغیب والترہیب فائدة یعتدبہا۔
ضعیف حدیثوں کی پذیرائی کس کس نے کی
جیساکہ گذرچکا کہ بطور متن لائی گئی حدیثوں میں شیخ الحدیث رحمہ اللہ نے کوئی ایسی حدیث اپنی دانست کے مطابق ذکر نہیں کی جو موضوع ہو، چنانچہ جس کسی حدیث کے متعلق کسی نے وضع کی بات کی ہوتی ہے اور شیخ اس کے طرق اور مویدات وشواہد کی بناء پر مطمئن ہوتے ہیں تو ان طرق وشواہد کے ساتھ حدیث ذکر کرتے ہیں۔البتہ شرح میں تائید وتوضیح کے طور پر امام غزالی کی احیاء العلوم فقیہ ابو اللیث کی تنبیہ الغافلین اور قرة العیون جیسی کتابوں سے بکثرت لیتے ہیں، اس حقیقت کے اعتراف میں ہمیں ذرا بھی تأمل نہیں کہ ان کتابوں میں انتہائی ضعیف، موضوع وبے اصل روایات کی تعداد خاصی ہے۔چنانچہ مجموعہ فضائل اعمال میں بھی اس طرح کی روایات کا در آنا بعید نہیں اس کے باوجود ہمارا دعویٰ ہے کہ اس سے اس کتاب کی معتبریت اور حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، آخر کیوں؟
اس لئے کہ ہم نے بڑے بڑے ائمہ جرح وتعدیل اور نقاد حدیث کو دیکھا کہ جب وہ رجال کی جرح وتعدیل اور حدیثوں میں ثابت وغیر ثابت صحیح وغیر صحیح کی تحقیق کرنے کے موڈ میں ہوتے ہیں تو ان کا انداز تحقیق اور لب ولہجہ اور ہوتا ہے اور جب اخلاق، آداب ، فضائل یا ترغیب وترہیب کے موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں تو اتنا نرم پہلو اختیار کرتے ہیں کہ موضوع تک بطور استدلال پیش کرڈالتے ہیں اور معلوم نہیں ہوتا کہ یہ وہی ابن جوزی، منذری، نووی، ذہبی ابن حجر، ابن تیمیہ اور ابن قیم ہیں جن پر فن نقد ودرایت کو بجا طور پر ناز ہے اور مجموعی طور پر ان اساطین علم حدیث کا طرز عمل صاف غمازی کرتا ہے کہ ترغیب وترہیب وغیرہ کے باب میں چشم پوشی زیادہ ہے جس کو آج کے مدعیان علم وتحقیق نہ جانے کس مصلحت سے نظر انداز کررہے ہیں۔امام بخاری سمیت جمہور محدثین وفقہاء کا ضعیف حدیث کے ساتھ نرم پہلو اختیار کرنے کا معاملہ تو معلوم ہورہی چکا ہے، اس کے علاوہ کچھ ناموں ناقدین حدیث اور مشہور مصنفین کا ان کی کتابوں میں طرز عمل ملاحظہ فرمائیں۔
۱-حافظ ابن جوزی
حافظ ابو الفرج عبد الرحمن بن الجوزی نے ایک طرف موضوعات کی تحقیق میں بے مثال کتاب تصنیف فرمائی تاکہ واعظین اور عام مسلمین ان موضوع حدیثوں کی آفت سے محفوظ رہیں، نیز وہ حدیث پر وضع کا حکم لگانے میں متشدد بھی مانے جاتے ہیں، دوسری طرف اپنی پند وموعظت اور اخلاق وآداب کے موضوع پر تصنیف کردہ کتابوں میں آپ نے بہت سی ایسی حدیثیں نقل کر ڈالی ہیں جو ضعیف کے علاوہ موضوع بھی ہیں۔ مثلاً دیکھئے ان کی یہ کتابیں۔ ذم الہویٰ تلبیس ابلیس رؤوس القواریر اور التبصرة جس کی تلخیص شیخ ابوبکر احسائی نے قرة العیون المبصرة بتلخیص کتاب التبصرة میں کی ہے۔
یہ بات حافظ ابن تیمیہ نے الرد علی البکری (ص:۱۹) میں ابو نعیم خطیب ، ابن جوزی، ابن عساکر اور ابن ناصر سب کے متعلق مشترکہ طور پر کہی ہے حافظ سخاوی نے شرح الالفیہ میں لکھا۔
وقد اکثر ابن الجوزی فی تصانیفہ الوعظیة فما اشبہہا من ایراد الموضوع وشبہہ
۲-حافظ منذری
حافظ منذری کی الترغیب والترہیب کے نہج اور اس کے متعلق حافظ سیوطی رائے گذرچکی اور ضمناً یہ بات بھی آئی کہ وہ ایسی حدیثیں بھی لاتے ہیں جس کی سند میں کوئی کذاب یا متہم راوی ہوتا ہے اور اس کو صیغہٴ تمریض روی سے شروع کرتے ہیں (شیخ رحمہ اللہ بھی ترغیب منذری کی ایسی کوئی روایت نقل کرتے ہیں) تو صیغہٴ تمریض ہی سے کرتے ہیں) حافظ منذری اپنے مقدمہ میں کتاب کی شرطوں اور مصادر ومآخذ کے ذکر سے فارغ ہوکر لکھتے ہیں:
استوعبت جمیع ما فی کتاب ابی القاسم الاصفہانی مما لم یکن فی الکتب المذکورة واضربت عن ذکر ماقیل فیہ من الاحادیث المتحققة الوضع۔
یعنی مذکورہ اہم مصادر حدیث کے علاوہ میں نے ابو القاسم اصفہانی کی ترغیب وترہیب (جس میں انہوں نے اپنی سند سے حدیثیں تخریج کی ہیں) کی وہ ساری حدیثیں لی ہیں جو مذکورہ کتب میں نہیں آسکیں اور ان کی تعداد تھوڑی ہے اور ان حدیثوں کو نظر انداز کردیا ہے جن کا موضوع ہونا قطعی ہے۔
معلوم ہوا کہ کسی حدیث کی سند میں کذاب یا متہم راوی کا ہونا اس کے واقعی موضوع ہونے کو مستلزم نہیں ہے، جب ہی تو منذری نے ایسی روایات کو منتخب کرلیا، جو ان کے نزدیک قطعی طور پر موضوع نہیں ہیں اور ان کی سند میں ایسے رجال ہیں جو کذاب اور متہم کہے گئے ہیں۔
۳-امام نووی
علامہ نووی شارح صحیح مسلم کے متعلق بھی علامہ کتانی نے (الرحمة المرسلة ص:۱۵)میں حافظ سیوطی کا یہ جملہ نقل کیا ہے۔
اذا علمتم بالحدیث انہ فی تصانیف الشیخ محی الدین النووی فارووہ مطمئنین
اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ موضوع حدیث اپنی کتابوں میں ذکر نہیں کرتے، رہیں ضعیف حدیثیں معذرت کے طور پر مقدمہ میں انہیں یہ حقیقت واشگاف کرنی پڑی کہ ضعیف حدیث اگر موضوع نہ ہو تو فضائل اور ترغیب وترہیب میں معتبر ہوتی ہے جیسا کہ گذرا۔ بلکہ ریاض الصالحین جو باب فضائل میں صحیح حدیثوں کا مجموعہ ہے اور جس کے متعلق انہوں نے صراحت کی ہے کہ وہ صحیح حدیث ہی ذکر کریں گے اس میں چند ایک ضعیف حدیثیں موجود ہیں۔ شیخ عبد الفتاح ابوغدہ نے بطور مثال تین حدیثیں پیش کی ہیں، مثلاً
۱- الکیس من دان نفسہ․․․․الخ ا سکی سند میں ابوبکر بن عبد اللہ بن ابی مریم ہے جو بہت ہی ضعیف ہے
(فیض القدیر ۵/۶۸)
۲- ما اکرم شاب شیخاً الا قیض اللہ لہ من یکرمہ عند کبر سنہ
اس کے ضعیف ہونے میں تو کوئی شبہ نہیں، کیونکہ اس کی سند میں یزید بن بیان عقیل اور اس کا شیخ ابو الرحال خالد بن محمد الانصاری دونوں ضعیف ہیں۔ (فیض القدیر ۵/۴۲۵) تہذیب التہذیب وغیرہ۔
۳- لاتشربوا واحداً کشرب البعیر
اس کی سند میں یزید بن سنان ابو فروہ الرہادی ضعیف ہیں، ترمذی کے نسخوں میں اس حدیث پر حکم مختلف ہے، بعض نسخوں میں حسن ہے، اور بعض میں غریب واضح رہے کہ امام ترمذی تنہا لفظ غریب اس جگہ لاتے ہیں جہاں سند میں کوئی ضعیف راوی منفرد ہوتا ہے حافظ نے فح (۱۰/۸۱) میں فرمایا سندہ ضعیف۔-
۴-حافظ ذہبی
حافظ ذہبی جن کی فن جرح وتعدیل میں شان امامت مسلم ہے، ہزاروں راویان حدیث میں سے ہرایک کی ذمہ دارانہ شناخت کے سلسلہ میں اپنی نظیر نہیں رکھتے، چنانچہ تلخیص المستدرک، میزان الاعتدال وغیرہ میں حدیثوں پر ان کی جانب سے صادر شدہ احکام مستند قرار دیئے گئے ہیں، بلکہ بعض مواقع میں تو ان پر تشدد کا بھی الزام ہے انہوں نے بھی اپنی کتاب الکبائر میں ضعیف ، واہی، بلکہ موضوع تک بطور استشہاد پیش کیا ہے، شاید ان کا بھی مذہب اس سلسلہ میں ان کے پیش رو حافظ ابن الجوزی کا ساہے، مثلاً
۱-کبیرہ گناہ ترک صلاة کے تحت کئی ضعیف حدیثیں ذکر کی ہیں، ان میں وہ طویل حدیث بھی ہے جو شیخ کی کتاب فضائل نمار ص:۲۸تا۳۱ میں درج ہے۔ جس کے بموجب نماز کا اہتمام کرنے والے کا اللہ تعالیٰ پانچ طرح سے اکرام کرتے ہیں اور اس میں سستی کرنے والے کو پندرہ طریقے سے عذاب دیتے ہیں، پانچ طرح دنیا میں، تین طرح موت کے وقت ، تین طرح قبر میں اور تین طرح قبر سے نکلنے کے بعد ،شیخ نے تو یہ حدیث ابن حجر مکی ہیتمی کی الزواجر کے حوالہ سے نقل کی ہے جس کے ابتداء ،وقال بعضہم: ورد فی الحدیث سے کی ہے، مزید اس کے چند ایک حوالے اور مؤیدات ذکر کرتے ہوئے حافظ سیوطی کی ذیل اللآلی سے نقل کیا کہ ابن النجار نے ذیل تاریخ بغدادی میں اپنی سند سے ابوہریرہکے طریق سے اس کو روایت کیا ہے میزان الاعتدال میں ہے ہذا حدیث باطل، رکبہ علی بن عباس علی ابی بکر بن زیاد النیسابوری پھر امام غزالی اور صاحب منبہات کے حوالہ سے بھی اس مضمون کو مؤید کیا، الغرض شیخ نے تو مذکورہ بالا تمام حضرات کے طرز عمل سے یہ نتیجہ نکالا کہ حدیث بے اصل نہیں ہے اور ترغیب وترہیب کے لئے پیش کی جاسکتی ہے۔ لیکن تعجب حافظ ذہبیپر ہے کہ خود میزان میں اس ک/ باطل ہونے کی تصریح فرماتے ہیں اور کتاب الکبائر میں قد ورد فی الحدیث کے صیغہ جزم سے اس طرح ذکر کرتے ہیں جیسے کتنی مضبوط درجہ کی حدیث ہو۔
۲-اسی کتاب کے ص:۴۴ پر کبیرہ گناہ عقوق الوالدین کے تحت یہ حدیث نقل کرتے ہیں:
،،لو علم اللہ شیئاً ادنیٰ من الاف لنہی عنہ فلیعمل العاق ما شاء ان یعمل فلن یدخل الجنة، ولیعمل البار ماشاء ان یعمل، فلن یدخل النار
اس حدیث کو دیلمی نے اصرم بن حوشب کے طریق سے حضرت حسین بن علیکی حدیث سے مرفوعاً روایت کیا ہے، اس اصرم کے متعلق خود حافظ ذہبی میزان ۱/۲۶ میں فرماتے ہیں: قال یحیی فیہ: کذاب خبیث، وقال ابن حبان: کان یضع الحدیث علی الثقات اس میں شبہ نہیں کہ حدیث میں معنوی نکارت کے علاوہ ایک کذاب اس کی روایت میں منفرد ہے جو کسی طرح ترغیب وترہیب میں قابل ذکر نہیں ہے اور ذہبی نے اس سے استشہاد کیا۔
۳-کبیرہ گناہ شرب خمر کے تحت دو ایسی حدیثیں نقل کی ہیں جن پر محدثین نے وضع کا حکم لگایاہے، ایک ص:۸۹ پر حضرت ابوسعید خدریکی روایت سے جس کے بموجب شرابی کی توبہ قبول نہیں ہوتی، دوسری ص:۹۱ پر حضرت ابن عمرکی روایت سے جس کے بموجب شرابی کو سلام کرنا اس کے جنازہ میں شرکت وغیرہ رسول اللہ ا نے منع فرمایا ہے۔
حافظ ذہبیکی ہی دوسری کتاب العلو للعلی الغفار اس میں بھی کافی حد تک تساہل پایا جاتاہے ، لیکن ا س کا معاملہ ہلکا یوں ہے کہ اس میں ذہبی نے حدیثیں اپنی سند سے ذکر کی ہیں، اب یہ لینے والے کی ذمہ داری ہے کہ تحقیق کر کے لے۔
۵-حافظ ابن حجر
حافظ ابن حجر عسقلانی جو حدیثوں کے طرق والفاظ پر وسیع نظر رکھنے کے سلسلہ میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اور احادیث ورواة کے مراتب کی شناخت وتعیین میں سند ہیں، یہ اپنی کتابوں میں موضوع اور بے اصل روایات ہرگز پیش نہیں کرتے، البتہ کسی حدیث پر موضوع کا حکم لگانے میں بہت ہی محتاط ہیں، محدث مغرب علامہ احمد بن الصدیق الغماری رحمہ اللہ اپنی کتاب المغیر علی الاحادیث الموضوعة فی الجامع الصغیر کے ص:۷ میں حدیث آفة الدین ثلاثۃ: فقیہ فاجر،وامام جائر، ومجتہد جاہل (جو مسند فردوس کے حوالہ سے ابن عباسکے مسند کے طور پر جامع صغیر میں ہے) کو نقل کرکے فرماتے ہیں:
قال الحافظ فی زہر الفردوس: فیہ ضعف وانقطاع، قلت (المغازی) : بل فیہ کذاب وضاع، وہو نہشل بن سعید، فالحدیث، موضوع، والحافظ وشیخہ العراقی متساہلان فی الحکم للحدیث، ولایکادان یصرحان بوضع حدیث الا اذا کان کالشمس فی رابعة النہار
(کما فی التعلیقات علی الاجویة الفاضلة)
یعنی محدث احمد الصدیق الغماری کے بقول حافظ ابن حجر اور ان کے شیخ حافظ عراقی دونوں حدیث پر وضع کا حکم اس وقت تک نہیں لگاتے جب تک علامات وضع روز روشن کی طرح نہیں دیکھ لیتے، اگر یہی مسلک شیخ زکریا رحمہ اللہ نے مجموعہ فضائل اعمال میں اختیار کرلیا تو ا سقدر واویلا مچانے کی کیا ضرورت ہے۔
۶-حافظ سیوطی
حافظ ابوبکر سیوطی تو اس میدان کے مرداور ضعاف وموضوعات کی پذیرائی میں ضرب المثل ہیں، انہوں نے اپنی کتاب الجامع الصغیر کے مقدمہ میں اپنی شرط کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا:
ووصنتہ عما تفرد بہ وضاع او کذاب
اس کی شرح میں حافظ عبد الرؤف المنادی لکھتے ہیں:
ان ما ذکرہ من صونہ عن ذلک اغلبی او ادعائی، والا فکثیراً ما وقع لہ انہ لم یصرف الی النقد الاہتمام، فسقط فیما التزم الصوم الصون عنہ فی ہذا المقام کما ستراہ موضحا فی مواضعہ، لکن العصمة لغیر الانبیاء متعذرة، والغفلة علی البشر شاملة منتشرة والکتاب مع ذلک من اشرف الکتب مرتبة واسماہا منقبة۔
(فیض القدیر ۱/۲۱)
یعنی حافظ سیوطی کا یہ کہنا کہ میں نے ایسی حدیث سے اس کتاب کو محفوظ رکھا ہے جس کی روایت میں کوئی کذاب یا وضاع منفرد ہو، یہ دعویٰ یا تو اکثری ہے یا دعویٰ محض ہے، کیونکہ بہت سے مواقع ایسے ہیں جہاں آپ نے صحیح طور پر کھا نہیں، چنانچہ جس سے محفوظ رکھنے کا التزام کیا تھا وہ نادانستہ طور سے کتاب میں در آیا، جیساکہ موقع پر وضاحت سے آپ کو معلوم ہوگا، بہرحال معصوم نبی کے علاوہ کوئی نہیں،بھول چوک انسانی خاصہ ہے، اس کے باوجود کتاب مرتبہ وحیثیت کے اعتبار سے عظیم ترین ہے، اور بلند پایہ خصوصیات کی حامل ہے ۔
محدث احمد بن الصدیق الغماری اپنی کتاب المغیر علی الاحادیث الموضوعة فی الجامع الصغیر میں لکھتے ہیں:
بلکہ اس میں جو حدیثیں سیوطی نے ذکر کی ہیں ان میں وہ حدیثیں بھی ہیں جن کے موضوع ہونے کا حکم خود انہوں نے لگایا ہے یا تو اپنی لالی میں ابن جوزی کی موافقت کرکے یا خود ذیل اللآلی میں بطور استدراک ذکر کرکے۔
شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ نے الجامع الصغیر کی سات ایسی حدیثوں کی تعیین کی ہے جن کے وضع پر مؤلف نے ابن جوزی کی موافقت کی ہے اور پندرہ ایسی حدیثوں کی جن پر مؤلف نے اپنی طرف سے ذیل اللآلی میں وضع کا حکم لگایا ہے۔ فاحظ سیوطی کے تساہل پر بصیرت افروز کلام کے لئے دیکھئے۔
(تعلیقات علی الاجوبة الفاضلة للشیخ ابو غدة ص:۱۲۶تا۱۳۰)
جیساکہ معلوم ہو چکا کہ جن حدیثوں کے متعلق موضوع ہونے کا شیخ کو شبہ بھی ہوتا ہے تو مؤیدات وشواہد جمع کرنے کا پورا اہتمام فرماتے ہیں، تو کیا اس بناء پر مجموعہ فضائل اعمال حافظ سیوطی کی کتاب سے۔ اگر فائق نہیں تو اس کے برابر بھی قرار نہیں دیا جاسکتا؟ ہمارے نزدیک اس پر بھی وہ تبصرہ منطبق ہوتا ہے جو منادی نے جامع صغیر پر کیا۔
۷-حافظ ابن قیم الجوزیہ
حدیثوں پر وضع کا حکم لگانے میں جو محدثین متشدد مانے جاتے ہیں ان میں ایک نام حافظ ابن قیم کا ہے اس دعویٰ کا ثبوت ان کی کتاب المنار المنیف فی الصحیح والضعیف جس میں انہوں نے چند ایک ابواب پر یہ کلی حکم لگایا ہے کہ اس باب میں جو کچھ مروی ہے باطل ہے، تاہم اس میں شک نہیں کہ نقد حدیث میں ان کی حیثیت مرجع وسند ہے۔
لیکن ان کا بھی حال یہ ہے کہ اپنی بعض تصنیفات مثلاً مدارج السالکین، زاد المعاد وغیرہ میں کتنی ہی ضعیف اور منکر حدیثیں کوئی تبصرہ کے بغیر بطور استدلال پیش کر ڈالتے ہیں، خاص طور سے اگر حدیث ان کے نظریہ کی تائید میں ہوئی ہے تو اس کی تقویت میں بات مبالغہ کی حد تک پہنچ جاتی ہے، مثلاً زاد المعاد ۳/۵۴،۵۷ میں وفد بنی المنتفق پر کلام کے ذیل میں ایک بہت لمبی حدیث ذکر کی ہے جس میں یہ الفاظ بھی ہیں۔
ثم تلبثون ما لبثتم، ثم تبعث الصائحة، فلعمرو الہک ما تدع فی ظہرہا شیئاً الامات تلبثون ما لبثتم ثم یوفی نبیکم والملائکة الذین مع ربک فاصبع ربک عز وجل یطوف فی الارض وخلت علیہ البلاد․․․
اس حدیث کو ثابت وصحیح قرار دینے میں ابن قیم نے پورا زور صرف کیا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں:
ہذا حدیث جلیل تنادی جلالتہ وفخامتہ وعظمتہ علی انہ قد خارج من مشکاة النبوة لا یعرف الا من حدیث عبد الرحمن بن المغیرة المدنی ۔
پھر عبد الرحمن بن مغیرة کی توثیق اور ان کتابوں کے حوالوں کے ذریعہ جن میں یہ حدیث تخریج کی گئی ہے لمبا کلام کیا، حالانکہ خود ان کے شاگرد حافظ ابن کثیر نے البدایةوالنہایة میں لکھا کہ:
ہذا حدیث غریب جداً، والفاظہ فی بعضہا نکارة
یعنی یہ حدیث انتہائی اوپری ہے، اس کے بعض الفاظ میں نکارت ہے، حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں عاصم بن لقیط بن عامر بن المنتفق العقیلی کے ترجمہ میں لکھا کہ: وہو حدیث غریب جداً جبکہ علامہ ابن قیم نے اس کی تائید میں کسی کہنے والے کے اس قول تک کو نقل کرڈالا۔
ولاینکر ہذا القول الاجاحد او جاہل او مخالف للکتاب والسنة اھ
یہ چند نمونے ہیں جو مشتے نمونہ از خردار ے پیش کئے گئے اور یہ بات اظہر منالشمسہوگئی کہ بطور عمل متوارث حدیث ضعیف کا احترام ہوتا چلا آیا ہے، اس کے خلاف کو موقف اتباع غیر سبیل المؤمنین (جماعت مسلمین کے راستہ کو چھوڑنے کے مرادف ہے) خاص کر فضائل وغیرہ کے باب میں ضعیف حدیث کو بیان کرنا یا کسی کتاب میں شامل کرنا جرم نہیں ہے، ایسا کرنے والوں کی یہ ایک لمبی قطار ہے، ہم تو ان حضرات پر مکمل اعتماد کرتے ہیں، جو کچھ دینی وعلمی ورثہ ہم تک پہنچا وہ اسی قدسی صفت جماعت کا احسان ہے، البتہ لوگوں کو ان کے طرز عمل پر اعتراض ہے وہ جانیں کہ یہ لوگ مجرم ہیں یا نہیں؟شیخ نے بجا طور پر کہا اور کیا خوب کہا:
اگر ان سب اکابر کی یہ ساری کتابیں غلط ہیں تو پھر فضائل حج کے غلط ہونے کا اس ناکارہ کو بھی قلق نہیں۔
(کتب فضائل پر اشکالات اور ان کے جوابات ص:۱۸۲)
حافظ ابن صلاح “مقدمہ ابن صلاح” میں لکھتے ہیں کہ جب ہم کسی حدیث کو صحیح قرار دیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ حدیث یقینا صحیح ہے اور اس کی صحت درجہ علم تک پہنچتی ہے؛ بلکہ اس حکم صحت سے مراد صرف یہ ہوتی ہے کہ اس میں صحیح کی وہ فنی شرائط موجود ہیں جو محدثین کے یہاں صحت حدیث کے لیے درکار ہیں،لہذا گمان یہی ہے کہ وہ حدیث صحیح ہوگی، اسی طرح ضعیف کا مطلب بھی یہ نہیں کہ یقینی طور پر وہ خلاف واقعہ ہے، ہوسکتا ہے کہ نفس الامر میں صحیح ہو؛ یہی وجہ ہے کہ اہل علم کا تعامل اس کی فنی کمزوریوں کو ڈھانپ لیتا ہے۔ علامہ ابن حجر العسقلانی رح فرماتے ہیں : کسی حدیث کو “لا یصح” یعنی وہ صحیح نہیں، کہنے سے اس (حدیث) کا موضوع (جھوٹی/من گھڑت) ہونا لازم نہیں آتا.[شرح الفیہ : ١/١٥]
ملا علی قاری رح فرماتے ہیں : عدم_ثبوت سے حدیث کا موضوع ہونا لازم نہیں آتا.[تذكرة الموضوعات للقاری : ٨٢]
شواہد والی حدیث کو صحیح کہنا:
غیر مقلد زبیر علی زئی صاحب نے لکھا ہے: اس روایت میں دوراوی عصمہ بن محمد اور عبد الرحمن بن قریش سخت مجروح ہیں لیکن اس کے بہت سے شواہد موجود ہیں آصول حدیث کا یہ متفقہ مسئلہ ہے کہ جو رویت شواہد کے ساتھ ثابت ہوجائے اسے صحیح ہی تسلیم کیا جاتا ہے ( تسھیل الوصول ص 197)
فقہ اسلامی کی بنیاد جن چار چیزوں پر ہے ان میں سے ایک اہم ماخذ حدیثِ نبویﷺبھی ہے، جس کے بیان ونقل میں انتہائی حزم واحتیاط سے کام لیا گیا ہے، ماضی میں بعض اسباب کے تحت احادیث کووضع کرنے اور اس کے ذریعہ سے لوگوں کو گمراہ کرنے کی ناپاک سازش کی گئی تھی، جن کے خلاف محدثین نے سخت محاذ آرائی کی؛ اِسی پسِ منظر میں"ائمۂ جرح وتعدیل" کی جماعت کا ظہور ہوا؛ جنھوں نے موضوع اور من گھڑت احادیث کو چھانٹ کر موضوعات کے نام سے الگ کردیا اور راویوں کے حالات کو مدنظررکھتے ہوئے ان کے احوال واعمال کے مطابق احادیث کی تقسیم کردی، ان ہی اقسام میں ایک "ضعیف" حدیث بھی ہے، جو فی الحال موضوعِ بحث ہے، اس کے تحت تعارف، حکم اور اس میں فقہاء کا اختلاف اور دیگرضروری امور کو بیان کیا جائے گا:
حدیثِ ضعیف
حدیثِ ضعیف کی تعریف میں متقدمین اور متأخرین کی الگ الگ رائیں ہیں، متقدمین کی اصطلاح میں"ضعیف" وہ حدیث کہلاتی ہے جومنکر اور باطل نہ ہو اور اس کےراوی متہم بالکذب نہ ہو؛ گویا متقدمین کے یہاں حدیث صحیح ہی کی ایک قسم "حدیثِ ضعیف" ہے اور اسے متأخرین کی اصطلاح میں "حدیثِ حسن" کہا جاتا ہے اور متقدمین نے یہ طے کررکھا تھا کہ اس ضعیف حدیث کے خلاف اگرکوئی حدیث صحیح نہ ہو توپھر اس حدیثِ ضعیف (حدیثِ حسن عندالمتأخرین) پر عمل کیا جائے گا اور اسے قیاس پربھی ترجیح دی جائے گی۔
(اعلاء السنن:۱/۶۰)
لیکن متأخرین کی اصطلاح میں "حدیثِ ضعیف" وہ کہلاتی ہے جس میں حدیث صحیح وحسن کے شرائط نہ پائے جائیں، اس کے راوی غیرعادل یامتہم بالکذب، یامستورالحال ہوں اور وہ متعدد طرق سے مروی بھی نہ ہو یااس میں شذوذ وعلتِ خفیہ ہوں یہ اسباب کسی حدیث کوضعیف قرار دینے کے لیے کافی ہیں۔
(احکام القرآن للجصاص:۱/۳۸۶)
حدیثِ ضعیف کا ضعف ختم ہوسکتا ہے
اگرحدیث ضعیف ہے تواس کا ضعف مختلف قرائن سے دور ہوسکتا ہے، ان میں سے ایک تعدد طرق ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگرحدیث ضعیف کئی سندوں سے مروی ہو تواس کی وجہ سے وہ ضعف سے نکل جاتی ہے اور اسے قوی ومعتبر اور لائق عمل قرار دیا جاتا ہے، محدثین کی اصطلاح میں اس کو "حسن لغیرہ" کہتے ہیں، حافظ بن حجرؒ کی تفصیل کے مطابق یہ حدیث مقبول ومعتبر کی چار اقسام میں سے ایک ہیں۔
(ردالمحتار:۱/۲۵۳)
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ حسن لغیرہ بھی اصل میں ضعیف ہی ہے؛ مگرکسی قوت پہونچانے والے امر کی وجہ سے اس میں حسن پیدا ہو جاتاہے۔
(فتح المغیث:۳۵/۳۶)
"الحسن لغيره أصله ضعيف وإنماطرأعليه الحسن بالعاضد الذي عضده"۔
(بدایۃ المجتہد:۱/۴۳)
ترجمہ:حسن لغیرہ دراصل ضعیف ہی ہے اور اس میں حسن دیگر روایات کے اس کی تائید کرنے کی وجہ سے پایا جاتا ہے۔
لیکن شرط یہ ہے کہ یہ ضعف کسی راوی کے فسق یاکذب بیانی کی وجہ سے نہ ہو؛ کیونکہ تعددِطرق ان کے کذب وفسق کے احتمال کو ختم کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔
(حاشیہ اعلاء السنن:۱/۵۸)
دوسرا قرینہ یہ ہے کہ وہ حدیث ضعیف کسی اصل شرعی ودلیلِ شرعی کے موافق ہو؛ خواہ کوئی نص قرآنی ہویاقولِ صحابی ہو یاشریعت کا کوئی قاعدہ وضابطہ ہو۔
(نزھۃ النظر:۲۹)
اس کے علاوہ بھی کچھ قرائن ہیں جو کہ حدیث ضعیف کوتقویت پہنچاتے ہیں؛ اسی لیے حافظ ابنِ حجرؒ نے نخبہ میں ذکرفرمایا ہے کہ؛ اگرکوئی ایسا قرینہ مل جائے جوحدیث ضعیف کو قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کو راجح بتائے تواس کو "حسن لغیرہ" کہتے ہیں۔
(اعلاء السنن:۱/۶۲۔ اصول امام احمدبن حنبل:۲۶۹)
ضعیف کی اقسام
زمانہ قدیم میں حدیث کی دوہی قسمیں ہوا کرتی تھیں؛ لیکن سب سے پہلے جس نے احادیث کوتین قسموں میں منقسم کیا وہ حضرت امام ترمذیؒ کی شخصیت ہے، صحیح، حسن، ضعیف، ان ہی کی اس تقسیم کومدنظر رکھتے ہوئے احادیث ضعیف کی پھر چارقسمیں سامنے آتی ہیں:
(۱)وہ ضعیف جس کا ضعف تعددِ طرق اور دیگرقرائن سے دور ہوجاتا ہو
(۲)ضعیف متوسط الضعف
(۳)ضعیف شدید الضعف
(۴)موضوع۔
فقہاء کا اختلاف
قسم اوّل سے توباتفاق احتجاج واستدلال جائز ہے اور قسم سوم وچہارم سے باتفاق استدلال کرنا درست نہیں ہے؛ البتہ قسمِ دوم سے استدلال کی امام احمدؒ وامام اعظمؒ وغیرہ گنجائش دیتے ہیں؛ جب کہ بہت سے علماء اس سے منع کرتے ہیں۔
(المسودہ فی اصول الفقہ:۲۷۳۔ اصول امام احمدبن حنبل:۲۷۱)
حدیثِ ضعیف پر عمل کرنے کے شرائط
حافظ ابن حجرؒ نے حدیثِ ضعیف پر عمل کرنے کی تین شرطیں بیان کی ہیں:
(۱)اس حدیث کا ضعف ضعفِ شدید نہ ہو یعنی اس کا راوی کا ذب اور دروغ گوئی میں مشہور نہ ہو اور نہ فاحش غلطیوں کا مرتکب ہو
(۲)حدیث جس مفہوم پر مشتمل ہو اس کی ایسی بنیاد موجود ہو جومعمول بہ ہو، یعنی اس پر عمل کرنا اپنے اندر غرابت کا کوئی پہلو نہ رکھتا ہو اور اسلام کے ثابت اور مقرر ومعروف قواعد کے خلاف نہ ہو
(۳)دورانِ عمل اس کے ثبوت کا عقیدہ نہ رکھا جائے؛ بلکہ ازروئے احتیاط اس پر عمل ہو، یعنی اس طور پر نہ قبول کی جائے کہ واقعتاً یہ حدیث صحیح النسبت ہے؛ بلکہ اس بناء پر عمل کیا جائے کہ ممکن ہے کہ نفس الامر میں اس کی نسبت آپﷺکی طرف درست ہو۔
(اعلاء السنن:۱/۵۸)
ضعیف اور مضعف میں فرق
حدیثِ مضعف کا درجہ حدیثِ ضعیف سے اونچا ہوتا ہے کہ احکامات میں حدیثِ مضعف سے استدلال کیا جاتا ہے اور ضعیف سے فقط فضائل میں ہی استدلال کرنا درست ہے۔
دوسرا فرق:جو"علامہ قسطلانی رحمہ اللہ" نے بیان کیا ہے کہ مضعف وہ حدیث ہے جس کے متن میں یاسند میں ایسا وقتی ضعف آگیا ہو، جس کی تلافی دیگراسناد وروایات سے ہوسکتی ہے؛ یہی وجہ ہے کہ امام بخاریؒ نے بھی ایسی احادیث کو بعض مرتبہ انپے صحیح میں جگہ دی ہے۔
(اعلام الموقعین:۱/۸۲)
حدیثِ ضعیف اور اقوالِ صحابہ رضی اللہ عنہم
حضرت امام ابوحنیفہؒ وامام احمدؒ حدیث ضعیف کا درجہ حدیث صحیح سے کمتر قرار دیتے ہیں؛ البتہ وہ حدیثِ ضعیف کے بالمقابل فتاویٰ اور اقوالِ صحابہ کوترجیح دیتے ہیں۔
(المسودہ فی اصول الفقہ:۲۷۶۔ حیات امام احمد بن حنبلؒ:۳۵۰)
صحابہ کرامؓ سے جوفقہی فتاوے منقول ہیں، ان کی ایک بڑی تعداد ہے جومختلف واقعات وحوادثات سے متعلق ہیں، ان فتاویٰ واقوال میں رنگا رنگ کی غذاء فکری اور طرح طرح کے امراض اجتماعی کی چارہ گری موجود ہے۔
(اعلام الموقعین:۱/۸۴)
اگران کے فتاویٰ اوراقوال کا تعارض حدیثِ ضعیف سے ہوجائے توفتاویٰ صحابی کو ترجیح حاصل ہوگی؛ کیونکہ صحابہ کرامؓ درس رسالت کے چراغ ہیں، ان کا ہرقول وعمل سنت کے مطابق ہوا کرتا تھا، ان کے کلام سے کلام رسالت کی بومہکتی ہے اور انھوں نے دین کوپہلو رسالت میں رہ کر جتنا سمجھا اور سیکھا ہے دوسرا ان کی خاک تک نہیں پہونچ سکتا، ان کے اقوال وافعال میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہے اورحدیث ضعیف کی صحت وعدمِ صحت مشتبہ ہے؛ لہٰذا صحابہ کرامؓ کے فتاویٰ واقوال کو ضعیف حدیث پر ترجیح حاصل ہوگی۔
حدیثِ ضعیف اور قیاس کا تعارض
جب کہیں حدیث ضعیف اور قیاس میں تضاد نظر آئے توفقہاء کرامؓ کے اس سلسلے میں دونقطہ نظر ہیں۔
حنفیہ وحنابلہ
ان حضرات کا موقف یہ ہے کہ ضعیف حدیث کی موجودگی میں قیاس کوئی معنی نہیں رکھتا؛ بلکہ قیاس کی طرف جانے کی ضرورت ہی نہیں ہے، حدیث اگرچہ ضعیف ہے؛ لیکن بہرِحال موجود توہے اور اس میں صحت کا بھی پہلو ہے؛ اس لیے قیاس کے مقابلہ میں حدیثِ ضعیف ہی کو ترجیح دی جائے گی (الاحکام لابنِ حزم:۲/۵۴) چنانچہ امام احمد کا قول خود ان کے فرزندِارجمند حضرت عبداللہ نقل کرتے ہیں کہ ضعیف حدیث کو قیاس پر ترجیح حاصل ہوگی۔
(اصول امام احمد بن حنبل:۲۷۲۔ المسودہ فی اصول الفقہ:۲۷۵)
ایک مرتبہ عبداللہ نے اپنے والد امام احمدؒ سے دریافت کیا کہ کسی جگہ ایک محدث ہیں جودرسِ حدیث دیا کرتے ہیں اور وہ حدیث کی صحت وضعف میں تمیز نہیں کرپاتے اور اسی جگہ ایک صاحب رائے شخص موجود ہو، جواپنی رائے اور قیاس سے مسائل کو حل کرتا ہو اور ایک ایسا شخص جوعلم سے ناواقف حلال وحرام میں تمیز خود سے نہ کرپاتا ہو تووہ مسئلہ کس سے دریافت کرے، محدث سے یاصاحبِ رائے سے؟ امام احمدؒ نے فرمایا محدث سے مسئلہ دریافت کرے، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ امام احمدؒ کا مسلک یہ ہے کہ ضعیف حدیث کو قیاس پر ترجیح دی جائے گی۔
(الاحکام لابنِ حزم:۲/۵۴)
شوافع اور مالکیہ
امام شافعیؒ کا مذہب یہ ہے کہ اگرنصِ قرآنی اور حدیثِ صحیح نہ ہوتوپھر حدیثِ ضعیف کونظر انداز کرکے قیاس کرنا واجب ہوگا، ٹھیک اسی طرح مالکیہ میں سے قاضی ابوالفرج اور ابوبکر الابہریؒ کا بھی یہی کہنا ہے کہ حدیثِ ضعیف پر قیاس کوترجیح حاصل ہوگی۔
(بدایہ المجتھد:۱/۲۹)
فقہ حنفی اور حدیثِ ضعیف
احناف کا مذہب چونکہ حدیثِ ضعیف (بقول متقدمین جودرحقیقت حدیثِ حسن ہے) کوقیاس کے مقابلے میں ترجیح دینے کا ہے؛ اسی لیے فقہ حنفی میں بکثرت ایسی مثالیں ملتی ہیں جن میں قیاس کو نظر انداز کرکے حدیث ضعیف پر عمل کیا گیا ہے، مثلاً:
۱۔نمازی حالت صلوٰۃ میں قہقہہ لگادے توقیاس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا وضو نہ ٹوٹے؛ کیونکہ قہقہہ میں خروجِ نجاست کا تحقق نہیں ہوتا ہے؛ مگراس سلسلہ میں ایک ضعیف حدیث ہے جویہ بتلاتی ہے کہ ایسے شخص کا وضوٹوٹ جاتا ہے؛ لہٰذا قیاس کو ترک کرکے احناف نے یہاں ضعیف حدیث پر عمل کیا اور قہقہہ کوناقض وضو قرار دیا۔
(اعلام الموقعین:۱/۸۵)
۲۔دس درہم سے کم کے سرقہ میں بھی قطع ید کا حکم قیاس کے مطابق ہونا چاہیے؛ کیونکہ وہ بھی توشرعاً سرقہ ہے؛ لیکن ایک "ضعیف حدیث" ہے کہ دس درہم سے کم میں ہاتھ کاٹنے کا حکم نہ لگایا جائے؛ چنانچہ حنفیہ نے قیاس کے مقابلہ میں اسی ضعیف حدیث کوحجت مانا ہے۔
(اصول امام احمدبن حنبلؒ:۲۸۲)
ضعیف حدیث اور عقائد
جمہور فقہاء کا مذہب یہی ہے کہ عقائد کے ثبوت کے لیے مشہور یامتواتر حدیث ضروری ہے، حدیث ضعیف اور خبرِواحد اثبات عقائد کے لیے کافی نہیں ہے، امام احمدؒ نے اگرچہ خبرواحد سے عقائد کے باب میں استدلال کیا ہے لیکن وہ بھی حدیثِ ضعیف کے بارے میں اس بات کے قائل ہیں کہ حدیثِ ضعیف سے عقائد کے باب میں استدلال کرنا درست نہیں ہے؛ چنانچہ سیدشریف احمدجرجانیؒ فرماتے ہیں کہ "حدیثِ ضعیف" سے صفاتِ باری وعقائد میں استدلال کرنا جائز نہیں۔
(الرسالہ فی فن اصول الحدیث علی الترمذی:۲)
ایک شبہ
یہاں اس شبہ کا ازالہ بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ سابق میں احناف وحنابلہ کا یہ مسلک بیان کیا گیا کہ وہ حدیث ضعیف کومعتبر مانتے ہیں اور فقہ حنفی سے کچھ ایسے مسائل بھی ذکر کئے گئے جن میں محض حدیث ضعیف کی بناء پرقیاس کوچھوڑدیا گیا ہے، بظاہر یہ دعویٰ سابقہ تصریحات کے خلاف ہے؛ لیکن یہ شبہ اس لیے نہیں کیا جاسکتاکیونکہ حدیث ضعیف کی اصطلاح درحقیقت دو ہیں، ایک متاخرین کی اصطلاح ہے، جس کی وضاحت اسی مقالہ کے ابتداء میں کی جاچکی ہے اور دوسری اصطلاح متقدمین کی ہے (اس کی وضاحت بھی ابتداء میں آچکی ہے) کہ وہ حضرات حسن لغیرہ کو بھی ضعیف کے ہی درجہ میں شمار کیا کرتے تھے؛ چنانچہ علامہ ابنِ قیم رقمطراز ہیں:
"وليس المراد بالحديث الضعيف في اصطلاح السلف هوالضعف في اصطلاح المتأخرين؛ بل مايسميه المتأخرون حسنا قد يسميه المتقدمون ضعيفا"۔
(اعلام الموقعین:۱/۸۴)
ترجمہ:سلف کی اصطلاح میں حدیثِ ضعیف سے مراد وہ حدیث نہیں ہے جسے متاخرین حدیث ضعیف کہتے ہیں؛ کیونکہ متقدمین کی اصطلاح میں اس حدیث کو بھی ضعیف کہہ دیا جاتا ہے جسے متاخرین نے حسن کا درجہ دیا ہے۔
اس لیے فضائل کے باب کے علاوہ جہاں کہیں احناف وحنابلہ حدیث ضعیف کو قابلِ حجت شمار کرتے ہیں اس سے مراد متقدمین کی اصطلاح ہیں اور اس سے "حدیث حسن" ہی مراد ہے، متاخرین کی اصطلاح کے مطابق حدیث ضعیف مراد نہیں ہے۔
ضعیف حدیث اور فضائل
علامہ سخاویؒ نے اس تعلق سے کافی طویل بحث کی ہے اور اس سلسلہ میں متعدد مذاہب کو نقل کیا ہے، جن میں سے ایک حافظ الحدیث امام مسلمؒ اور دیگرمحدثین اور ابنِ حزمؒ کا ہے کہ ضعیف حدیث کسی بھی باب میں حجت نہیں بن سکتی، چاہے وہ فضائل کا باب ہی کیوں نہ ہو؛ البتہ اگرمتقدمین کی اصطلاح کے مطابق ضعیف حدیث ہو کہ اس کے طرق متعدد ہوں جس کی وجہ سے اس کا ضعف ختم ہوجاتا ہے تواس سے فضائل کے باب میں استدلال کرنا درست ہوگا ابنِ حزم کہتے ہیں کہ ضعیف حدیث کے مقابلہ میں قیاس اولیٰ ہے؛ کیونکہ حدیثِ ضعیف آپؐ سے ثابت نہیں ہے، رائے میں اگرغلطی ہوگی توشرعاً وہ معاف ہے؛ بلکہ اس پر اجتہاد کا ثواب بھی ملے گا۔
(نووی علی مسلم:۱/۶۰)
دوسرا مذہب جس کو علامہ سخاویؒ نے جمہور کا مذہب کہہ کر بیان کیاہے اور حافظ ابنِ حجر مکیؒ اور ملا علی قاریؒ نے بھی جسے جمہور کا اجماعی مسلک قرار دیا ہے کہ فضائل کے باب میں حدیث ضعیف پر عمل کرنا جائز ہے۔
(الفتاویٰ الحدیثیہ :۱۱۰)
ائمہ حدیث میں عبداللہ بن مبارک، عبدالرحمن بن مہدی، امام احمدوغیرہ سے بھی یہی نقل کیا گیا ہے (اصول امام احمد بن حنبل:۲۷۴) شیخ تقی الدین تحریر فرماتے ہیں کہ یہ گنجائش اس لیے ہے کہ اگرایسی حدیث نفس الامر اور واقع میں صحیح ہے تواس پر عمل کرنا اس کا حق تھا اور اگرواقع میں صحیح نہ تھی توبھی فضائل کے باب میں اس پر عمل کرنے کی وجہ سے دین میں کوئی فساد لازم نہیں آئےگا، اس لیے کہ یہ صورت تحلیل وتحریم اور کسی کے حق سے متعلق نہیں ہے اور پھریہ جواز مطلق نہیں ہے؛ بلکہ ماقبل میں ذکرکردہ شرائط کے ساتھ ہے۔
(شرح الکوکب المنیر:۲/۵۷۱)
اس لیے فضائل کے باب میں حدیث ضعیف کا اعتبار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ جب باب احکام میں ضعیف حدیث مقبول تو دیگر ابواب میں بدرجہ اولیٰ مقبول ہوگی۔
ضعیف حدیث باب احکام کے علاوہ میں
جیساکہ عرض کیا گیا کہ ضعیف غیر موضوع عقائد واحکام کے علاوہ جمہور کے نزدیک قابل عمل ہے، عقائد واحکام کے باب میں تشدد اور فضائل ،ترغیب وترہیب اور مناقب وغیرہ میں تساہل کی بات حافظ سخاوینے امام احمد،ابن معین،ابن المبارک،سفیان ثوریاورابن عینیہسے نقل کی ہے۔
حافظ نووینے تو اس پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے، اپنی کتاب جزء اباحة القیام لاہل الفضلمیں فرماتے ہیں۔
امام نووی نے اصول حدیث و اصول روایات کی کتاب میں لکھا ہے:ويجوز عند أهل الحديث وغيرهم التساهل في الأسانيد ورواية ما سوى الموضوع من الضعيف ، والعمل به من غير بيان ضعفه في غير صفات الله تعالى والأحكام كالحلال والحرام .[تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي » أنواع الحديث » النوع الثاني والعشرون المقلوب » شروط العمل بالأحاديث الضعيفة ص: 350 (1/455)]
ترجمہ: اہل حدیث کے نزدیک ضعیف سندوں میں تساہل (نرمی) برتنا اور موضوع کو چھوڑ کر ضعیف حدیثوں کو روایت کرنا اور ان پر عمل کرنا ان کا ضعف بیان کیے بغیر جائز ہے؛ مگر اللہ کی صفات اور حلال و حرام جیسے احکام کی حدیثوں میں ایسا کرنا جائز نہیں ہے.
اجمع اہل الحدیث وغیرہم علی العمل فی الفضائل ونحوہا مما لیس فیہ حکم، ولاشئ من العقائد، وصفات اللّٰہ تعالیٰ بالحدیث الضعیف۔
(نقلاً عن التعریف باوہام․․․)
امام نووی کی الاربعین اور اس کی شرح فتح المبین لابن حجر المکی الہیثمی کے الفاظ میں:
قد اتفق العلماء علی جواز العمل بالحدیث فی فضائل الاعمال ،لانہ ان کان صحیحاً فی نفس الامر، فقد اعطی حقہ، والا لم یترتب علی العمل بہ مفسدة تحلیل ولاتحریم، ولاضیاع حق الغیر۔
(الاجوبة الفاضلة ص:۴۳)
یعنی فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کے بارے میں علماء کا اتفاق ہے، کیونکہ اگر وہ واقعتاً صحیح تھی تو اس کا حق اس کو مل گیا، ورنہ اس پر عمل کرنے سے نہ تو حرام کو حلال کرنا لازم آیا اور نہ اس کے برعکس اور نہ ہی کسی غیر کا حق پامال کرنا۔
معلوم ہوا کہ مسئلہ اجماعی ہے، اور کوئی بھی حدیث ضعیف کو شجرہٴ ممنوعہ قرار نہیں دیتا، لیکن چند بڑے محدثین واساطین علم کے نام ذکر کئے جاتے ہیں، جن کے متعلق یہ نقل کیا جاتا ہے کہ وہ فضائل میں بھی ضعیف حدیث پر عمل کرنے کے قائل نہیں ہے۔
(قواعد التحدیث للشیخ جمال الدین القاسمی ص:۱۱۶)
ان اساطین میں امام بخاری، مسلم،یحی بن معیناورابوبکر بن العربیہیں، بعض حضرات نے ابوشامہ مقدسی، شیخ الاسلام ابن تیمیہاور علامہ شوکانیکا نام بھی لیا ہے۔ تفصیل کا تو موقع نہیں، آیئے ان حضرات کی آراء کے متعلق کچھ تحقیق کرلیں:
امام بخاریکا موقف
علامہ جمال الدین قاسمیصاحب قواعد التحدیث کے بقول بظاہر امام بخاریکا مذہب مطلقاً منع ہے اور یہ نتیجہ انہوں نے صحیح بخاری کی شرائط اور اس میں کسی ضعیف حدیث کو داخل کتاب نہ کرنے سے نکالا ہے، علامہ شیخ زاہد الکوثرینے بھی اپنے مقالات (ص:۵۴) میں یہی بات کہی ہے، لیکن یہ بات درست نہیں، بلکہ اس مسئلہ میں امام بخاریکا موقف بالکل جمہور کے موافق ہے۔
جہاں تک صحیح بخاری کا تعلق ہے تو اولاً: اس میں امام نے صرف صحیح حدیثوں کا التزام کیا ہے، لہذا اس میں کسی ضعیف حدیث کانہ ہونااس بات کو مستلزم نہیں کہ امام کے نزدیک ضعیف سرے سے ناقابل عمل ہے، جیساکہ کسی حدیث کا اس میں نہ ہونا اس بات کو مستلزم نہیں کہ وہ غیر صحیح ہے، چنانچہ خود آپ نے احادیث آداب واخلاق کا ایک گراں قدر مجموعہ الادب المفردمرتب فرمایا، جس کی شرط یقیناً ان کی جامع صحیح سے بہت فروتر ہے، حتی کہ عصر حاضر کے بعض علم برداران حفاظت سنت کو صحیح الادب المفرد اور ضعیف الادب المفرد کے جراحی عمل کی مشقت اٹھانی پڑی۔
اس کتاب میں امام بخاری نے ضعیف احادیث وآثار کی ایک بڑی مقدار تخریج کی ہے، بلکہ بعض ابواب تو آبادہی ضعیف سے ہیں ،اور آپ نے ان سے استدلال کیا ہے، چنانچہ اس کے رجال میں ضعیف، مجہول، منکر الحدیث اور متروک ہر طرح کے پائے جاتے ہیں، مثال کے طور علامہ شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ نے الادب المفرد کی شرح فضل اللہ الصمد سے بائیس احادیث وآثار اور ان کے رجال کے احوال نقل کئے ،ان میں سے بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں:
۱-اثر نمبر ۲۳ میں: علی بن الحسین بن واقد المروزی، ضعیف الحدیث۔
۲-حدیث نمبر :۴۳ میں محمد بن فلان بن طلحہ، مجہول، او ضعیف متروک۔
۳-اثر نمبر: ۴۵ میں عبید اللہ بن موہب، قال احمد: لایعرف۔
۴-اثر نمبر: ۵۱ ابو سعد سعید بن البرزبان البقال الاعور، ضعیف۔
۵-حدیث نمبر: ۶۳ میں سلیمان ابو اِدام یعنی سلیمان بن زید۔ضعیف لیس بثقة، کذاب، متروک الحدیث۔
۶-حدیث نمبر: ۱۱۱ میں لیث بن ابی سلیم القرشی ابوبکر: ضعیف۔
۷-حدیث نمبر :۱۱۲ میں عبد اللہ بن المساور: مجہول۔
۸-حدیث نمبر: ۱۳۷ میں یحی بن ابی سلیمان: قال البخاری: منکر الحدیث۔
شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ نے تقریب التہذیب سے الادب المفرد کے رجال کو کھنگالا تو مستورین کی تعداد: دو۔ ضعفاء کی تعداد: بائیس۔ اور مجہولین کی تعداد :اٹھائیس نکلی، مجموعہ باون رواة۔ اس جائزہ سے بخوبی واضح ہوگیا کہ فضائل کی حدیثوں کے تئیں امام بخاریکا مسلک وہی ہے جو جمہور کا ہے۔
صحیح بخاری میں متکلم فیہ رجال کی حدیثیں
ثانیا خود الجامع الصحیح میں ایسی مثالیں موجود ہیں جن کی روایت میں کوئی متکلم فیہ راوی موجود ہے، جس کی حدیثیں ،محدثین کے اصول پر کسی طرح حسن سے اوپر نہیں اٹھ سکتی، بلکہ بعض حدیثوں میں ضعیف راوی منفرد ہے، اور اس کو داخل صحیح کرنے کی اس کے علاوہ کوئی تاویل نہیں ہوسکتی کہ اس کا مضمون غیر احکام سے متعلق ہے، اور شارحین نے یہی تاویل کی بھی ہے۔ ملاحظہ ہوں چند مثالیں:۱- حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مقدمہ فتح الباری (ص:۶۱۵)میں محمد بن عبد الرحمن الطُفاوی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:
قال ابو زرعة منکر الحدیث، واورد لہ ابن عدی عدة احادیث، قلت: لہ فی البخاری ثلاثة احادیث، لیس فیہا شئ مما استکرہ ابن عدی․․․ثالثہا فی الرقاق کن فی الدنیا کأنک غریب وہذا تفرد بہ الطفاوی، وہو من غرائب الصحیح، وکان البخاری لم یشدد فیہ، لکونہ من احادیث الترغیب والترہیب۔
یہ حدیث صحیح بخاری کی غریب حدیثوں میں سے ہے۔
یعنی کن فی الدنیا کأنک غریب (بخاری کتاب الرقاق) حدیث کی روایت میں محمد بن عبد الرحمن الطفاوی منفرد ہے، حافظ فرماتے ہیں: شاید کہ امام بخاری نے اس کے ساتھ تساہل کا معاملہ صرف اس وجہ سے کیا ہے کہ یہ ترغیب وترہیب کی حدیثوں میں سے ہے۔
۲-عن ابی بن عباس بن سہل بن سعد، عن ابیہ عن جدہ قال: کان للنبی ا فی حائطنا فرس یقال لہ اللحیف
(کتاب الجہاد باب اسم الفرس والحمار)
حافظنے تہذیب التہذیب میں ابی بن عباس بن سہل کی بابت امام احمد، نسائی، ابن معیناور امام بخاریسے تضعیف کے جملے نقل کئے، عقیلی نے کہا :اس کی کئی حدیثیں ہیں اور کسی پر اس کی متابعت نہیں کی گئی ہے۔ پھر حافظنے فرمایا کہ :مذکورہ حدیث پر اس کے بھائی عبد المہیمن بن عباس نے متابعت کی ہے، لیکن وہ بھی ضعیف ہے، ملاحظہ ہوں یہ الفاظ:
وعبد المہیمن ایضاً فیہ ضعف، فاعتضد، وانضاف الی ذلک انہ لیس من احادیث الاحکام، فلہذہ الصورة المجموعة حکم البخاری بصحتہ انتہی۔
ابی بن عباسکے ضعف کی تلافی اس کے بھائی سے اس قدر نہیں ہوسکی کہ حدیث کو صحیح کا درجہ دیا جائے تو اس خلل کو اس پہلو سے پر کیا گیا کہ حدیث احکام سے متعلق نہیں ہے، اس لئے چل جائے گی۔
۳-محمد بن طلحة، عن طلحة، عن مصعب بن سعد قال: رای سعد ان لہ فضلاً علی من دونہ، فقال النبی ا تنصرون وترزقون الا بضعفائکم۔
(کتاب الجہاد وباب من استعان بالضعفاء والصالحین فی الحرب)
محمد بن طلحة بن مصرف الکوفی ان کا سماع اپنے والد سے کم سنی میں ہوا تھا، امام نسائی، ابن معین، ابن سعدوغیرہ نے ان کو ضعیف کہاہے ،تقریب میں ہے: صدوق لہ اوہام، وانکروا سماعہ من ابیہ لصغرہ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مقدمہ (ص:۶۱۳) میں فرماتے ہیں۔
صحیح بخاری میں ان کی تین حدیثیں ہیں، دو تو متابعت کی وجہ سے درجہ صحت کو پہنچ جاتی ہے، تیسری (مذکورہ بالا حدیث) ہے، اس کی روایت میں محمد بن طلحہ منفرد ہیں، مگر یہ فضائل اعمال سے متعلق ہے یعنی فضائل اعمال کی حدیث ہونے کی وجہ سے چشم پوشی کی گئی۔
امام مسلم کا موقف
علامہ جمال الدین رحمہ اللہ نے امام مسلم کے متعلق دلیل یہ دی کہ انہوں نے مقدمہ میں ضعیف ومنکر احادیث کے روایت کرنے والوں کی سخت مذمت کی ہے اور اپنی صحیح میں ضعیف حدیث کا اخراج نہیں کیا ہے، لیکن امام مسلم کی اس تشنیع سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ ضعفاء سے روایت کرنا مطلقاً ناجائز ہے، انہوں نے تو صحیح حدیثوں کو جمع کرنے والے پر یہ بات ضروری قرار دی ہے کہ وہ مشہور ثقہ راویوں کی حدیثوں کو تلاش کرکے جمع کرے، ضعیف حدیث کے علی الاطلاق مردود ہونے پر ان سے کوئی صراحت منقول نہیں ہے۔تاہم امام مسلم نے بعض ضعفاء کی حدیثیں صحیح میں متابعات وشواہد کے طور پر اخراج کی ہیں، آپ نے مقدمہ میں حدیثوں کی تین قسمیں قرار دی ہیں۔
۱-وہ حدیثیں جو حفاظ متقنین کی روایت سے ہیں۔۲- وہ حدیثیں جو ایسے لوگوں کی روایت سے ہیں جو حفظ واتقان میں متوسط اور بظاہر جرح سے محفوظ ہیں۔۳- وہ حدیثیں جو ضعفاء ومتروکین کی روایت سے ہیں۔
امام مسلم کی اس صراحت اور صحیح میں ان کے طرز عمل کے درمیان تطبیق میں شراح نے مختلف باتیں کہی ہیں، قاضی عیاضنے جو توجیہ کی، علامہ ذہبیاور نووینے ا س کو پسند کیا، ا س کا خلاصہ یہ ہے:
امام مسلم نے جن تین طبقات کا ذکر کیا ہے ،ان میں سے آخری طبقہ ان رواة کا ہے جن کے متہم ہونے پر تمام یا اکثر علماء کا اتفاق ہے، اس سے پہلے ایک طبقہ ہے جس کا ذکر امام نے اپنی عبارت میں نہیں کیا ہے ، اور وہ ، وہ لوگ ہیں جن کو بعض تو متہم سمجھتے ہیں اور بعض صحیح الحدیث قرار دیتے ہیں۔ یہ کل چار طبقے ہوئے، میں نے امام مسلم کو پایا کہ وہ پہلے دونوں طبقوں کی حدیثیں لاتے ہیں، اس طرح کہ باب میں اولاً طبقہٴ اولیٰ کی حدیث تخریج کرتے ہیں پھر مزید تقویت کے لئے طبقہ ثانیہ کی حدیثیں ذکر کرتے ہیں اور جب کسی باب میں طبقہٴ اولیٰ سے کوئی حدیث ان کے پاس نہیں ہوتی تو ثانیہ ہی کی حدیث پر اکتفاء کرتے ہیں، پھر کچھ ایسے لوگوں کی حدیثیں بھی تخریج کرتے ہیں جن کی بعض نے تضعیف اور بعض نے توثیق کی ہوتی ہے،رہے چوتھے طبقہ کے لوگ تو ان کو آپ نے ترک کردیا ہے۔
(مقدمہ شرح نووی)
امام ذہبیفرماتے ہیں:
میں کہتاہوں کہ طبقہٴ اولیٰ وثانیہ کی حدیثیں مساویانہ طور پر لیتے ہیں، ثانیہ کی معدود ے چند کو چھوڑ کر جس میں وہ کسی قسم کی نکارت سمجھتے ہیں، پھر متابعات وشواہد کے طور پر طبقہٴ ثالثہ کی حدیثیں لیتے ہیں ،جن کی تعداد بہت زیادہ نہیں، اصول میں تو ان کی حدیثیں شاید وباید ہی لیتے ہیں، یہ عطاء بن السائب، لیث بن ابی سلیم، یزید بن ابی زیاد، ابان بن صمعہ، محمد بن اسحاق اور محمد بن عمرو بن علقمہ اور ان کی حیثیت کے لوگ ہیں۔
(سیر اعلاء مالنبلاء ۱۲/۵۷۵)
ایک غلط فہمی کا ازالہ
اوپر صحیحین کے تعلق سے جو کچھ عرض کیا گیا ،اس سے ممکن ہے بعض اہل علم کو شبہ ہو کہ پھر تو صحیحین سے اعتماد اٹھ جائے گا، اور نتیجتاً پوراذخیرہ حدیث مشکوک ہوجائے گا ،جب کہ صحیحین کا اصح الکتاب بعد کتاب اللہ ہونا مسلم، اور متفق علیہ ہے، کیونکہ جب صحیحین تک ضعیف حدیثوں سے محفوظ نہیں رہیں تو دوسری کتب حدیث تو بدرجہ اولیٰ محفوظ نہیں رہیں گی اور اس طرح پورا ذخیرہ حدیث مشکوک اور ناقابل اعتبار ہوجائے گا اور منکرین حدیث کو انکار حدیث کے لئے بہا نہ ملے گا۔
اس سلسلہ میں عرض ہے کہ ہم نے یہ کہا ہی کب ہے کہ صحیحین میں ضعیف حدیثیں بھی ہیں؟ اصل بات یہ ہے کہ جمہور امت کے نزدیک حدیثوں میں صحت وحسن کا معیار مختلف ہوتا ہے، باب احکام (حلال وحرام) میں سخت ہوتا ہے تو فضائل وغیرہ میں نرم۔
چنانچہ ہم نے بخاری شریف سے جو مثالیں پیش کی ہیں ،وہ اپنی علتوں کے باوجود فضائل وآداب کے باب کے اعتبار سے یقینا صحیح ہیں، اگرچہ باب احکام میں جس درجہ کی صحت مطلوب ہوتی ہے ،وہ ان میں نہیں ہے، اسی لئے امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کو داخل صحیح کرلیا۔
اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے بعض حضرات ہرباب میں صحت وحسن کے اسی معیار کو استعمال کرنے لگتے ہیں جو باب احکام کے لئے مخصوص ہے، اور وہ بھی صرف اسنادی پہلو سے ،ا س لئے مناسب خیال کیا گیا کہ ضعیف اور متکلم فیہ رجال کی حدیثوں کی بابت صحیحین کے مصنفین کا اصل موقف واضح کردیا جائے ،تاکہ اس مغالطہ کی گنجائش باقی نہ رہے۔ ورنہ صحیحین کے متعلق جمہور امت کی جو رائے ہے، وہی ہمارا بھی مسلک ہے کہ یہ دونوں کتابیں صرف صحیح احادیث کا مجموعہ ہیں۔ علامہ شبیر احمد عثمانینے مقدمہ فتح الملہم میں صحیحین کی حدیثوں کے مفید قطع ویقین ہونے کے نظریہ کی مدلل تردید کرنے کے بعد صحیحین کی عظمت ومقام کی بابت حضرت شاہ ولی اللہ کی عبارت نقل کی ہے، اس جگہ ہم بھی انہیں عبارات کو نقل کرنا مناسب سمجھتے ہیں، علامہ عثمانیفرماتے ہیں:
لیس غرضنا مماکتبنا فی ہذا لبحث تہوین امر الصحیحین، او غیرہما من کتب الحدیث، بل المقصود نفی التعمق والغلو، ووضع کل شئ فی موضعہ، وتنویہ شانہ بما یستحقہ، ونحن بحمد اللّٰہ نعتقد فی ہٰذین الکتابین الجلیلین، ونقول بما قال شیخ شیوخنا ومقدم جماعتنا الشاہ ولی اللّٰہ الدہلوی فی حجة اللّٰہ البالغة وہذا لفظہ:
اما الصحیحان: فقد اتفق المحدثون علی ان جمیع ما فیہما من المتصل المرفوع صحیح بالقطع (بالتفصیل الذی ذکرنا) وانہما متواتران الی مصنفیہما وانہ غیر سبیل المؤمنین۔ اھ
ترجمہ:․․․اس بحث میں جو کچھ ہم نے لکھا ،اس سے ہمارا مقصد معاذ اللہ! صحیحین، یا دوسری کتب حدیث کی کسر شان نہیں ہے، بلکہ ان کی بابت غلو کی تردید اور ہرچیز کو اس کے اصل مقام پر رکھنے اور اس کو اس کا واجبی حق دینے کی کوشش ہے، ورنہ ہم بحمد اللہ! ان دونوں عظیم الشان کتابوں کے متعلق وہی نظریہ رکھتے ہیں جو ہمارے شیخ الشیوخ اور مقتدا حضرات شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے حجة اللّٰہ البالغہ میں فرمایا ہے۔
رہیں صحیحین، تو محدثین اس پر متفق ہیں کہ ان میں جو کچھ مرفوع متصل کے قبیل سے ہے، وہ بالکل صحیح ہے اور ان کتابوں کا ثبوت ان کے مصنفین سے بطور تواتر ہے، بلاشبہ جو شخص بھی ان کی شان گھٹائے گا وہ بدعتی، گمراہ اور مسلمانوں کے راستے کے علاوہ راستہ کی پیروی کرنے والا ہوگا۔
(مقدمہ فتح الملہم ص:۱۰۸)
یحیٰ بن معینکا موقف
ابن سید الناس نے تو عیون الاثر میں یحی بن معینکا مذہب مطلقاََردہی نقل کیا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ ان کا مذہب جمہور کے موافق ہے، شواہد درج ذیل ہیں:
۱-جیساکہ اوپر مذکور ہوا ،حافظ سخاوینے فتح المغیث میں جن چند لوگوں سے (عقائد واحکام میں تشدد فضائل وغیرہ میں تساہل) نقل کیا ہے، ان میں ابن معینبھی ہیں۔ (فتح المغیث۱/۴۹۷) ۲- شیخ احمد محمد نور سیف نے مقدمہ تاریخ ابن معین میں لکھا کہ: یحیی بن معینکی محمد بن اسحاق کے متعلق جو رائیں منقول ہیں ،ان سے قطعاً یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اس کی حدیثیں مطلقاً قابل ترک ہیں، چنانچہ فرمایا: ثقة، ولکن لیس بحجةابن اسحاق کے شاگرد زیاد بن عبد اللہ البکائی کے متعلق فرمایا: لیس بشئ ، لابأس بہ فی المغازی، واما فی غیرہا، فلا معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک مغازی وغیرہ میں تو ابن اسحاق اور ان کے شاگرد مقبول ہیں، احکام وغیرہ میں نہیں۔
۳-الکامل لابن عدی ۱/۶۶۶ میں ہے:
عن ابن ابی مریم، قال سمعت ابن معین یقول: ادریس بن سنان یکتب من حدیثہ الرقاق
ابن معین کے نزدیک ادریس بن سنان کی حدیث رقاق (آداب وفضائل) کے باب میں قابل قبول ہے، جبکہ یہ ضعیف ہیں۔
ابوبکر بن العربی کا موقف
یہ مالکی المسلک فقیہ ہیں، ان سے ایسی کوئی صراحت تو نہیں ملی جس سے ثابت ہو کہ ان کے نزدیک فضائل اعمال میں ضعیف حدیث قابل عمل نہیں، البتہ اس کے برعکس ثابت ہے۔ ۱-مرسل حدیث جوجمہور محدثین وشافعیہ کے نزدیک ضعیف ہے ،مالکیہ کے نزدیک اس سے استدلال درست ہے، وہ خود اس بات کو نقل کرتے ہیں:
المرسل عند نا حجة فی احکام الدین من التحلیل والتحریم، وفی الفضائل، وثواب العبادات، وقد بینا ذلک فی اصول الفقہ۔
(عارضة الاحوذی ۲/۲۳۷)
۲-ضعیف کے معمول بہ ہونے کی صراحت خود فرما تے ہیں:
روی ابو عیسی حدیثاً مجہولاً: ان شئت شمتہ، وان شئت فلا وہو ان کان مجہولاً ،فانہ یستحب العمل بہ ،لانہ دعاء بخیر، وصلة للجلیس،وتوددلہ اھ
(عارضة ۱۰/۲۰۵)
یعنی اگرچہ یہ حدیث مجہول کی روایت سے ہے، لیکن اس پر عمل کرنا مستحب ہے، کیونکہ اس میں خیر کی دعاء ہم نشین کی دل بستگی اور اس سے محبت کا اظہار ہے۔
ابوشامہ مقدسیکا موقف
محدث ابو شامہ مقدسی کی بات شیخ طاہر الجزائرینے توجیہ النظر ۲/۶۵۷ میں نقل کی ہے، انہوں نے اپنی کتاب الباعث علی انکار البدع والحوادث میں حافظ ابن عساکر دمشقی کی ایک مجلس املاء کے حوالہ سے ماہ رجب کی فضیلت کے متعلق تین حدیثیں ذکر کیں۔ اس کے بعد لکھا کہ:
کنت اودّ ان الحافظ لم یذکر ذلک، فان فیہ تقریراً لما فیہ من الاحادیث المنکرةفقدرہ کان اجل من ان یحدث عن رسول اللہ ا بحدیث یری انہ کذب ،ولکنہ جری علی عادة جماعة من اہل الحدیث یتساہلون فی احادیث الفضائل الخ۔
یعنی کاش کہ ابن عساکر ان حدیثوں کو بیان نہ کرتے ،کیونکہ ا س سے منکر حدیثوں کو رواج دینا ہے، آپ جیسے محدث کی شایان شان نہیں کہ ایک حدیث جس کو غلط سمجھ رہے ہیں، بیان کریں۔ لیکن محدثین کی ایک جماعت جو فضائل اعمال میں تساہل بر تتی ہے کے طریقہ کو آپ نے اختیار کیا۔
علامہ شبیر احمد عثمانیفتح الملہم میں پر تبصرہ یوں فرماتے ہیں:
محدث ابوشامہ نے فضائل وغیرہ میں ضعیف پر عمل کے سلسلہ میں تو کوئی نقد نہیں کیا، بلکہ ابن عساکر جیسے ماہر فن کے طرز عمل پر نکتہ چینی کی کہ انہوں نے ایک منکر حدیث بغیر کسی وضاحتی بیان کے عوام میں نقل فرمادی، جس سے عوام یا جس کو اس فن سے مناسبت نہیں ابن عساکر کی نقل سے دھوکہ کھانے اور اس کو ثابت سمجھنے کا اندیشہ ہے، جبکہ محدثین کے نزدیک یہ غیر ثابت ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا موقف
شیخ الاسلام ابن تیمیہ بھی فضائل وغیرہ میں ضعیف پر عمل کے مسئلہ میں جمہور سے الگ نہیں ہوسکے، اس دعویٰ کا بین ثبوت ان کی کتاب الکلم الطیب ہے، اس میں ضعیف حدیثوں کی تعداد کتنی ہے، اس کا جواب علامہ ناصر الدین البانیدیں گے ،جنہوں نے صحیح الکلم الطیب اور ضعیف الکلم الطیب میں خط امتیاز قائم کرنے کا کار نامہ انجام دیا ہے۔
(التحریف باوہام ۱/۱۰۳)
قال شيخ الإسلام رحمه الله: قول أحمد بن حنبل: إذا جاء الحلال والحرام شددنا في الأسانيد، وإذا جاء الترغيب والترهيب تساهلنا في الأسانيد، وكذلك ما عليه العلماء من العمل بالحديث الضعيف في فضائل الأعمال[مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ : ١٨/٦٥]؛
ترجمہ : شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ، امام احمدؒ کا قول نقل کرتے فرماتے ہیں کہ : جب حلال و حرام کی بات آۓ گی تو اسانید (سندوں) کی جانچ پرکھ میں سختی سے کام لیں گے، اور جب ترغیب (نیکی کا شوق دلانے) اور ترھیب (برائی کا خوف دلانے) کی بات آۓ گی تو ہم اسانید میں تساہل (نرمی) برتینگے، اسی طرح فضائل اعمال میں جس ضعیف حدیث کے عمل کرنے پر علماء ہیں.
[مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ : ١٨/٦٥]
علامہ شوکانیکا موقف
اگرچہ علامہ شوکانی کی الفوائد المجموعہ (ص:۲۸۳) کی عبارت سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے نزدیک ضعیف حدیث مطلقاً ناقابل عمل ہے، لیکن ان کی اہم ترین تصنیف نیل الاوطار (۳/۶۰) کی یہ عبارت ا س کی نفی کرتی ہے:
والایات والاحادیث المذکورة فی الباب تدل علی مشروعیة الاستکثار من الصلاة بین المغرب والعشاء والاحادیث وان کان اکثرہا ضعیفاً فہی منتہضة لمجموعہا لاسیما فی فضائل الاعمال۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ مغرب وعشاء کے درمیان نوافل کی کثرت سے متعلق اکثر حدیثیں اگرچہ ضعیف ہیں لیکن مجموعی حیثیت سے مضبوط ہیں ،خاص کر فضائل اعمال میں۔ نیز آپ کی کتاب تحفة الذاکرین کا مطالعہ کرنے والا شخص تو ہمت ہی نہیں کرسکتا کہ ان کی طرف زیر بحث مسئلہ میں خلاف جمہور رائے کا انتساب کرے، کیونکہ وہ تو ضعاف سے بھری پڑی ہے
(ملاحظہ ہو التعریف)
ان معروضات سے یہ حقیقت آشکارا ہوگئی کہ ضعیف حدیث جبکہ موضوع نہ ہو، باب احکام وعقائد کے علاوہ میں اجماعی طور سے پوری امت کے نزدیک قابل عمل ہے، اور چونکہ فضائل، مناقب، ترغیب وترہیب سیر ومغازی کی احادیث کے ذریعہ غفلت سے بیداری اور دین پر عمل کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، اس لئے پورے شد ومد سے ان کے خلاف ہوا کھڑا کیا گیا ہے، تاکہ مذہبی احکام کی اہمیت کم سے کم تر ہوجائے ،پھر زیاں کے بعد زیاں کا احساس تک باقی نہ رہے۔ یالیت قومی یعلمون۔
ضعیف حدیث پر عمل کے شرائط
ہاں یہ ضرور ہے کہ ضعیف حدیث کا ثبوت محتمل ہوتا ہے اس لئے اس سے استدلال کے وقت کچھ امور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، حافظ شمس الدین سخاوی نے القول البدیع (ص:۱۵۹) میں ابن حجرسے نقل کیا ہے۔
ضعیف حدیث پر عمل کے لئے تین شرطیں ہیں:
۱-یہ کہ ضعف غیر شدید ہو، چنانچہ وہ حدیث جس کی روایت تنہا کسی ایسے شخص کے طریق سے ہو جو کذاب یا متہہم بالکذب یا فاحش الغلط ہو خارج ہوگی۔
شرط العمل بالحديث الضعيف عدم شدة ضعفه ، وأن يدخل تحت أصل عام ، وأن لا يعتقد سنية ذلك الحديث . [رد المحتار على الدر المختار» كتاب الطهارة» سنن الوضوء : الجزء الأول ص: 129 ]
شديد الضعف هو الذي لا يخلو طريق من طرقه عن كذاب أو متهم بالكذب (رد المختار : ١/٨٧)
۲-اس کا مضمون قواعد شرعیہ میں سے کسی قاعدہ کے تحت آتا ہو چنانچہ وہ مضمون خارج از عمل ہوگا جو محض اختراعی ہو۔ اصول شرعیہ میں سے کسی اصل سے میل نہ کھاتا ہو (ظاہر ہے اس کا فیصلہ دیدہ در، بالغ نظر فقہاء ہی کر سکتے ہیں، جو ہر کہہ دمہ کے بس کی بات نہیں)
۳-اس پر عمل کرتے وقت اس کے ثبوت کا عقیدہ نہ رکھا جائے، بلکہ صرف اس کے ثواب کے حصول کی امید کے ساتھ کیا جائے، مبادا آں حضرت ا کی جانب ایک بات جو واقع میں آپ نے نہ فرمائی ہو، اس کا آپ کی طرف منسوب کرنا لازم آجائے۔
۴-مولانا عبد الحئ لکھنوینے ایک چوتھی شرط بھی ذکر کی ہے، وہ یہ کہ اس مسئلہ کے متعلق اس سے قوی دلیل معارض موجود نہ ہو۔ پس اگر کوئی قوی دلیل کسی عمل کی حرمت یا کراہت پر موجود ہو، اور یہ ضعیف اس کے جواز یا استحباب کی متقاضی ہو تو قوی کے مقتضی پر عمل کیا جائے گا۔
فضائل اعمال اور ترغیب وترہیب کا فرق
واضح رہے کہ اہل علم ضعیف حدیث کے قابل قبول ہونے کے مواقع کو بیان کرتے ہوئے اپنی عبارتوں میں فضائل اعمال اور ترغیب وترہیب دولفظوں کا استعمال کرتے ہیں فضائل اعمال کااطلاق ایسے موقعوں پر کرتے ہیں جہاں کوئی مخصوص عمل پہلے سے کسی نص صحیح یا حسن سے ثابت ہونے کی بجائے کسی ضعیف حدیث میں اس عمل کا ذکر اور اس کی فضیلت آئی ہو اور علماء امت اور فقہاء کرام اس ضعیف حدیث ہی کی بنیاد پر اس عمل کو مستحب قرار دیتے ہیں، مذکورہ بالا شرطوں کے ساتھ ، مثلاً مغرب کے بعد چھ رکعات کا پڑھنا، قبر میں مٹی ڈالتے وقت مخصوص دعاء کا پڑھنا مستحب قرار دیا گیا ہے (جیساکہ گذرا) اور جیسے اذان میں ترسل (ٹھہر ٹھہر کر کلمات اذان ادا کرنا) اور اقامت میں حدر (روانی سے ادا کرنا) مستحب ہے ترمذی کی حدیث ضعیف کی وجہ سے جو عبد المنعم بن نعیم کے طریق سے روایت کرکے کہتے ہیں ہذا اسناد مجہول اور عبد المنعم کو دار قطنی وغیرہ نے ضعیف کہا ہے۔ ان مثالوں میں مذکورہ بالا شرطیں پائی جارہی ہیں۔
اور ترغیب وترہیب کا اطلاق ایسے مواقع میں کرتے ہیں جہاں کہ وہ مخصوص عمل کسی نص قرآنی، حدیث صحیح یا حسن سے ثابت ہو، اور کسی حدیث ضعیف میں ان اعمال کے کرنے پر مخصوص ثواب کا وعدہ اور نہ کرنے یا کوتاہی کرنے پر مخصوص وعید وارد ہوئی ہو۔ چنانچہ اس مخصوص وعدہ اور وعید کو بیان کرنے کے لئے ضعیف سے ضعیف حدیث کو مذکورہ بالا شرطوں کے بغیر بھی بیان کرنا جائز قرار دیتے ہیں اس لئے کہ اس میں اس حدیث سے کسی طرح کا کوئی حکم ثابت نہیں ہوتا، اور فضائل میں جو استحباب ثابت ہوتا ہے وہ بربنائے احتیاط ہے، اور بعض شوافع کے نزدیک تو استحباب حقیقةً حکم اصطلاحی ہی نہیں ہے، اس لئے کوئی اشکال نہیں، امام بیہقی رحمہ اللہ دلائل النبوة (۱/۳۳-۳۴) میں فرماتے ہیں۔
واما النوع الثانی من الاخبار ، فہی احادیث اتفق اہل العلم بالحدیث علی ضعف مخرجہا وہذا النوع علی ضربین ضرب رواہ من کان معروفاً بوضع الحدیث والکذب فیہ فہذا الضرب لایکون مستعملاً فی شئ من امور الدین الا علی وجہ التلیین۔وضرب لایکون راویہ متہماً بالوضع غیر انہ عرف بسوء الحفظ وکثرة الغلط فی روایاتہ او یکون مجہولاً لم یثبت من عدالتہ وشرائط قبول خبرہ ما یوجب القبول، فہذا الضرب من الاحادیث لایکون مستعملاً فی الاحکام، وقد یستعمل فی الدعوات، والترغیب والترہیب، والتفسیر، والمغازی فیما لایتعلق بہ حکم انتہی۔
اور ترغیب وترہیب کے لئے مذکورہ نرمی محدثین کے طرز عمل سے ظاہر ہے ،جیساکہ اگلے عنوان میں واضح ہوگا۔ یہ فرق مولانا عبد الحئ لکھنویکی اس عبارت سے بھی مترشح ہوتا ہے:
فان عبارة النووی، وابن الہمام ، وغیرہما منادیة باعلی النداء بکون المراد بقبول الحدیث الضعیف فی فضائل الاعمال ہو ثبوت الاستحباب ونحوہ بہ، لامجرد ثبوت فضیلة لعمل ثابت بدلیل آخر، ویافقہ صنیع جمع من الفقہاء والمحدثین حیث یثبتون استحباب الاعمال۔ التی لم تثبت۔ بالاحادیث الضعیفة، ایضاً لوکان المراد ما ذکرہ۔ یعنی الخفاجی من ان المراد بقبول الضعیف فی الفضائل ہو مجرد ثبوت فضلة لعمل ثابت) لما کان لقولہم یقبل الضعیف فی فضائل الاعمال وفی المناقب، وفی الترغیب والترہیب فائدة یعتدبہا۔
ضعیف حدیثوں کی پذیرائی کس کس نے کی
جیساکہ گذرچکا کہ بطور متن لائی گئی حدیثوں میں شیخ الحدیث رحمہ اللہ نے کوئی ایسی حدیث اپنی دانست کے مطابق ذکر نہیں کی جو موضوع ہو، چنانچہ جس کسی حدیث کے متعلق کسی نے وضع کی بات کی ہوتی ہے اور شیخ اس کے طرق اور مویدات وشواہد کی بناء پر مطمئن ہوتے ہیں تو ان طرق وشواہد کے ساتھ حدیث ذکر کرتے ہیں۔البتہ شرح میں تائید وتوضیح کے طور پر امام غزالی کی احیاء العلوم فقیہ ابو اللیث کی تنبیہ الغافلین اور قرة العیون جیسی کتابوں سے بکثرت لیتے ہیں، اس حقیقت کے اعتراف میں ہمیں ذرا بھی تأمل نہیں کہ ان کتابوں میں انتہائی ضعیف، موضوع وبے اصل روایات کی تعداد خاصی ہے۔چنانچہ مجموعہ فضائل اعمال میں بھی اس طرح کی روایات کا در آنا بعید نہیں اس کے باوجود ہمارا دعویٰ ہے کہ اس سے اس کتاب کی معتبریت اور حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، آخر کیوں؟
اس لئے کہ ہم نے بڑے بڑے ائمہ جرح وتعدیل اور نقاد حدیث کو دیکھا کہ جب وہ رجال کی جرح وتعدیل اور حدیثوں میں ثابت وغیر ثابت صحیح وغیر صحیح کی تحقیق کرنے کے موڈ میں ہوتے ہیں تو ان کا انداز تحقیق اور لب ولہجہ اور ہوتا ہے اور جب اخلاق، آداب ، فضائل یا ترغیب وترہیب کے موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں تو اتنا نرم پہلو اختیار کرتے ہیں کہ موضوع تک بطور استدلال پیش کرڈالتے ہیں اور معلوم نہیں ہوتا کہ یہ وہی ابن جوزی، منذری، نووی، ذہبی ابن حجر، ابن تیمیہ اور ابن قیم ہیں جن پر فن نقد ودرایت کو بجا طور پر ناز ہے اور مجموعی طور پر ان اساطین علم حدیث کا طرز عمل صاف غمازی کرتا ہے کہ ترغیب وترہیب وغیرہ کے باب میں چشم پوشی زیادہ ہے جس کو آج کے مدعیان علم وتحقیق نہ جانے کس مصلحت سے نظر انداز کررہے ہیں۔امام بخاری سمیت جمہور محدثین وفقہاء کا ضعیف حدیث کے ساتھ نرم پہلو اختیار کرنے کا معاملہ تو معلوم ہورہی چکا ہے، اس کے علاوہ کچھ ناموں ناقدین حدیث اور مشہور مصنفین کا ان کی کتابوں میں طرز عمل ملاحظہ فرمائیں۔
۱-حافظ ابن جوزی
حافظ ابو الفرج عبد الرحمن بن الجوزی نے ایک طرف موضوعات کی تحقیق میں بے مثال کتاب تصنیف فرمائی تاکہ واعظین اور عام مسلمین ان موضوع حدیثوں کی آفت سے محفوظ رہیں، نیز وہ حدیث پر وضع کا حکم لگانے میں متشدد بھی مانے جاتے ہیں، دوسری طرف اپنی پند وموعظت اور اخلاق وآداب کے موضوع پر تصنیف کردہ کتابوں میں آپ نے بہت سی ایسی حدیثیں نقل کر ڈالی ہیں جو ضعیف کے علاوہ موضوع بھی ہیں۔ مثلاً دیکھئے ان کی یہ کتابیں۔ ذم الہویٰ تلبیس ابلیس رؤوس القواریر اور التبصرة جس کی تلخیص شیخ ابوبکر احسائی نے قرة العیون المبصرة بتلخیص کتاب التبصرة میں کی ہے۔
یہ بات حافظ ابن تیمیہ نے الرد علی البکری (ص:۱۹) میں ابو نعیم خطیب ، ابن جوزی، ابن عساکر اور ابن ناصر سب کے متعلق مشترکہ طور پر کہی ہے حافظ سخاوی نے شرح الالفیہ میں لکھا۔
وقد اکثر ابن الجوزی فی تصانیفہ الوعظیة فما اشبہہا من ایراد الموضوع وشبہہ
۲-حافظ منذری
حافظ منذری کی الترغیب والترہیب کے نہج اور اس کے متعلق حافظ سیوطی رائے گذرچکی اور ضمناً یہ بات بھی آئی کہ وہ ایسی حدیثیں بھی لاتے ہیں جس کی سند میں کوئی کذاب یا متہم راوی ہوتا ہے اور اس کو صیغہٴ تمریض روی سے شروع کرتے ہیں (شیخ رحمہ اللہ بھی ترغیب منذری کی ایسی کوئی روایت نقل کرتے ہیں) تو صیغہٴ تمریض ہی سے کرتے ہیں) حافظ منذری اپنے مقدمہ میں کتاب کی شرطوں اور مصادر ومآخذ کے ذکر سے فارغ ہوکر لکھتے ہیں:
استوعبت جمیع ما فی کتاب ابی القاسم الاصفہانی مما لم یکن فی الکتب المذکورة واضربت عن ذکر ماقیل فیہ من الاحادیث المتحققة الوضع۔
یعنی مذکورہ اہم مصادر حدیث کے علاوہ میں نے ابو القاسم اصفہانی کی ترغیب وترہیب (جس میں انہوں نے اپنی سند سے حدیثیں تخریج کی ہیں) کی وہ ساری حدیثیں لی ہیں جو مذکورہ کتب میں نہیں آسکیں اور ان کی تعداد تھوڑی ہے اور ان حدیثوں کو نظر انداز کردیا ہے جن کا موضوع ہونا قطعی ہے۔
معلوم ہوا کہ کسی حدیث کی سند میں کذاب یا متہم راوی کا ہونا اس کے واقعی موضوع ہونے کو مستلزم نہیں ہے، جب ہی تو منذری نے ایسی روایات کو منتخب کرلیا، جو ان کے نزدیک قطعی طور پر موضوع نہیں ہیں اور ان کی سند میں ایسے رجال ہیں جو کذاب اور متہم کہے گئے ہیں۔
۳-امام نووی
علامہ نووی شارح صحیح مسلم کے متعلق بھی علامہ کتانی نے (الرحمة المرسلة ص:۱۵)میں حافظ سیوطی کا یہ جملہ نقل کیا ہے۔
اذا علمتم بالحدیث انہ فی تصانیف الشیخ محی الدین النووی فارووہ مطمئنین
اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ موضوع حدیث اپنی کتابوں میں ذکر نہیں کرتے، رہیں ضعیف حدیثیں معذرت کے طور پر مقدمہ میں انہیں یہ حقیقت واشگاف کرنی پڑی کہ ضعیف حدیث اگر موضوع نہ ہو تو فضائل اور ترغیب وترہیب میں معتبر ہوتی ہے جیسا کہ گذرا۔ بلکہ ریاض الصالحین جو باب فضائل میں صحیح حدیثوں کا مجموعہ ہے اور جس کے متعلق انہوں نے صراحت کی ہے کہ وہ صحیح حدیث ہی ذکر کریں گے اس میں چند ایک ضعیف حدیثیں موجود ہیں۔ شیخ عبد الفتاح ابوغدہ نے بطور مثال تین حدیثیں پیش کی ہیں، مثلاً
۱- الکیس من دان نفسہ․․․․الخ ا سکی سند میں ابوبکر بن عبد اللہ بن ابی مریم ہے جو بہت ہی ضعیف ہے
(فیض القدیر ۵/۶۸)
۲- ما اکرم شاب شیخاً الا قیض اللہ لہ من یکرمہ عند کبر سنہ
اس کے ضعیف ہونے میں تو کوئی شبہ نہیں، کیونکہ اس کی سند میں یزید بن بیان عقیل اور اس کا شیخ ابو الرحال خالد بن محمد الانصاری دونوں ضعیف ہیں۔ (فیض القدیر ۵/۴۲۵) تہذیب التہذیب وغیرہ۔
۳- لاتشربوا واحداً کشرب البعیر
اس کی سند میں یزید بن سنان ابو فروہ الرہادی ضعیف ہیں، ترمذی کے نسخوں میں اس حدیث پر حکم مختلف ہے، بعض نسخوں میں حسن ہے، اور بعض میں غریب واضح رہے کہ امام ترمذی تنہا لفظ غریب اس جگہ لاتے ہیں جہاں سند میں کوئی ضعیف راوی منفرد ہوتا ہے حافظ نے فح (۱۰/۸۱) میں فرمایا سندہ ضعیف۔-
۴-حافظ ذہبی
حافظ ذہبی جن کی فن جرح وتعدیل میں شان امامت مسلم ہے، ہزاروں راویان حدیث میں سے ہرایک کی ذمہ دارانہ شناخت کے سلسلہ میں اپنی نظیر نہیں رکھتے، چنانچہ تلخیص المستدرک، میزان الاعتدال وغیرہ میں حدیثوں پر ان کی جانب سے صادر شدہ احکام مستند قرار دیئے گئے ہیں، بلکہ بعض مواقع میں تو ان پر تشدد کا بھی الزام ہے انہوں نے بھی اپنی کتاب الکبائر میں ضعیف ، واہی، بلکہ موضوع تک بطور استشہاد پیش کیا ہے، شاید ان کا بھی مذہب اس سلسلہ میں ان کے پیش رو حافظ ابن الجوزی کا ساہے، مثلاً
۱-کبیرہ گناہ ترک صلاة کے تحت کئی ضعیف حدیثیں ذکر کی ہیں، ان میں وہ طویل حدیث بھی ہے جو شیخ کی کتاب فضائل نمار ص:۲۸تا۳۱ میں درج ہے۔ جس کے بموجب نماز کا اہتمام کرنے والے کا اللہ تعالیٰ پانچ طرح سے اکرام کرتے ہیں اور اس میں سستی کرنے والے کو پندرہ طریقے سے عذاب دیتے ہیں، پانچ طرح دنیا میں، تین طرح موت کے وقت ، تین طرح قبر میں اور تین طرح قبر سے نکلنے کے بعد ،شیخ نے تو یہ حدیث ابن حجر مکی ہیتمی کی الزواجر کے حوالہ سے نقل کی ہے جس کے ابتداء ،وقال بعضہم: ورد فی الحدیث سے کی ہے، مزید اس کے چند ایک حوالے اور مؤیدات ذکر کرتے ہوئے حافظ سیوطی کی ذیل اللآلی سے نقل کیا کہ ابن النجار نے ذیل تاریخ بغدادی میں اپنی سند سے ابوہریرہکے طریق سے اس کو روایت کیا ہے میزان الاعتدال میں ہے ہذا حدیث باطل، رکبہ علی بن عباس علی ابی بکر بن زیاد النیسابوری پھر امام غزالی اور صاحب منبہات کے حوالہ سے بھی اس مضمون کو مؤید کیا، الغرض شیخ نے تو مذکورہ بالا تمام حضرات کے طرز عمل سے یہ نتیجہ نکالا کہ حدیث بے اصل نہیں ہے اور ترغیب وترہیب کے لئے پیش کی جاسکتی ہے۔ لیکن تعجب حافظ ذہبیپر ہے کہ خود میزان میں اس ک/ باطل ہونے کی تصریح فرماتے ہیں اور کتاب الکبائر میں قد ورد فی الحدیث کے صیغہ جزم سے اس طرح ذکر کرتے ہیں جیسے کتنی مضبوط درجہ کی حدیث ہو۔
۲-اسی کتاب کے ص:۴۴ پر کبیرہ گناہ عقوق الوالدین کے تحت یہ حدیث نقل کرتے ہیں:
،،لو علم اللہ شیئاً ادنیٰ من الاف لنہی عنہ فلیعمل العاق ما شاء ان یعمل فلن یدخل الجنة، ولیعمل البار ماشاء ان یعمل، فلن یدخل النار
اس حدیث کو دیلمی نے اصرم بن حوشب کے طریق سے حضرت حسین بن علیکی حدیث سے مرفوعاً روایت کیا ہے، اس اصرم کے متعلق خود حافظ ذہبی میزان ۱/۲۶ میں فرماتے ہیں: قال یحیی فیہ: کذاب خبیث، وقال ابن حبان: کان یضع الحدیث علی الثقات اس میں شبہ نہیں کہ حدیث میں معنوی نکارت کے علاوہ ایک کذاب اس کی روایت میں منفرد ہے جو کسی طرح ترغیب وترہیب میں قابل ذکر نہیں ہے اور ذہبی نے اس سے استشہاد کیا۔
۳-کبیرہ گناہ شرب خمر کے تحت دو ایسی حدیثیں نقل کی ہیں جن پر محدثین نے وضع کا حکم لگایاہے، ایک ص:۸۹ پر حضرت ابوسعید خدریکی روایت سے جس کے بموجب شرابی کی توبہ قبول نہیں ہوتی، دوسری ص:۹۱ پر حضرت ابن عمرکی روایت سے جس کے بموجب شرابی کو سلام کرنا اس کے جنازہ میں شرکت وغیرہ رسول اللہ ا نے منع فرمایا ہے۔
حافظ ذہبیکی ہی دوسری کتاب العلو للعلی الغفار اس میں بھی کافی حد تک تساہل پایا جاتاہے ، لیکن ا س کا معاملہ ہلکا یوں ہے کہ اس میں ذہبی نے حدیثیں اپنی سند سے ذکر کی ہیں، اب یہ لینے والے کی ذمہ داری ہے کہ تحقیق کر کے لے۔
۵-حافظ ابن حجر
حافظ ابن حجر عسقلانی جو حدیثوں کے طرق والفاظ پر وسیع نظر رکھنے کے سلسلہ میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اور احادیث ورواة کے مراتب کی شناخت وتعیین میں سند ہیں، یہ اپنی کتابوں میں موضوع اور بے اصل روایات ہرگز پیش نہیں کرتے، البتہ کسی حدیث پر موضوع کا حکم لگانے میں بہت ہی محتاط ہیں، محدث مغرب علامہ احمد بن الصدیق الغماری رحمہ اللہ اپنی کتاب المغیر علی الاحادیث الموضوعة فی الجامع الصغیر کے ص:۷ میں حدیث آفة الدین ثلاثۃ: فقیہ فاجر،وامام جائر، ومجتہد جاہل (جو مسند فردوس کے حوالہ سے ابن عباسکے مسند کے طور پر جامع صغیر میں ہے) کو نقل کرکے فرماتے ہیں:
قال الحافظ فی زہر الفردوس: فیہ ضعف وانقطاع، قلت (المغازی) : بل فیہ کذاب وضاع، وہو نہشل بن سعید، فالحدیث، موضوع، والحافظ وشیخہ العراقی متساہلان فی الحکم للحدیث، ولایکادان یصرحان بوضع حدیث الا اذا کان کالشمس فی رابعة النہار
(کما فی التعلیقات علی الاجویة الفاضلة)
یعنی محدث احمد الصدیق الغماری کے بقول حافظ ابن حجر اور ان کے شیخ حافظ عراقی دونوں حدیث پر وضع کا حکم اس وقت تک نہیں لگاتے جب تک علامات وضع روز روشن کی طرح نہیں دیکھ لیتے، اگر یہی مسلک شیخ زکریا رحمہ اللہ نے مجموعہ فضائل اعمال میں اختیار کرلیا تو ا سقدر واویلا مچانے کی کیا ضرورت ہے۔
۶-حافظ سیوطی
حافظ ابوبکر سیوطی تو اس میدان کے مرداور ضعاف وموضوعات کی پذیرائی میں ضرب المثل ہیں، انہوں نے اپنی کتاب الجامع الصغیر کے مقدمہ میں اپنی شرط کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا:
ووصنتہ عما تفرد بہ وضاع او کذاب
اس کی شرح میں حافظ عبد الرؤف المنادی لکھتے ہیں:
ان ما ذکرہ من صونہ عن ذلک اغلبی او ادعائی، والا فکثیراً ما وقع لہ انہ لم یصرف الی النقد الاہتمام، فسقط فیما التزم الصوم الصون عنہ فی ہذا المقام کما ستراہ موضحا فی مواضعہ، لکن العصمة لغیر الانبیاء متعذرة، والغفلة علی البشر شاملة منتشرة والکتاب مع ذلک من اشرف الکتب مرتبة واسماہا منقبة۔
(فیض القدیر ۱/۲۱)
یعنی حافظ سیوطی کا یہ کہنا کہ میں نے ایسی حدیث سے اس کتاب کو محفوظ رکھا ہے جس کی روایت میں کوئی کذاب یا وضاع منفرد ہو، یہ دعویٰ یا تو اکثری ہے یا دعویٰ محض ہے، کیونکہ بہت سے مواقع ایسے ہیں جہاں آپ نے صحیح طور پر کھا نہیں، چنانچہ جس سے محفوظ رکھنے کا التزام کیا تھا وہ نادانستہ طور سے کتاب میں در آیا، جیساکہ موقع پر وضاحت سے آپ کو معلوم ہوگا، بہرحال معصوم نبی کے علاوہ کوئی نہیں،بھول چوک انسانی خاصہ ہے، اس کے باوجود کتاب مرتبہ وحیثیت کے اعتبار سے عظیم ترین ہے، اور بلند پایہ خصوصیات کی حامل ہے ۔
محدث احمد بن الصدیق الغماری اپنی کتاب المغیر علی الاحادیث الموضوعة فی الجامع الصغیر میں لکھتے ہیں:
بلکہ اس میں جو حدیثیں سیوطی نے ذکر کی ہیں ان میں وہ حدیثیں بھی ہیں جن کے موضوع ہونے کا حکم خود انہوں نے لگایا ہے یا تو اپنی لالی میں ابن جوزی کی موافقت کرکے یا خود ذیل اللآلی میں بطور استدراک ذکر کرکے۔
شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ نے الجامع الصغیر کی سات ایسی حدیثوں کی تعیین کی ہے جن کے وضع پر مؤلف نے ابن جوزی کی موافقت کی ہے اور پندرہ ایسی حدیثوں کی جن پر مؤلف نے اپنی طرف سے ذیل اللآلی میں وضع کا حکم لگایا ہے۔ فاحظ سیوطی کے تساہل پر بصیرت افروز کلام کے لئے دیکھئے۔
(تعلیقات علی الاجوبة الفاضلة للشیخ ابو غدة ص:۱۲۶تا۱۳۰)
جیساکہ معلوم ہو چکا کہ جن حدیثوں کے متعلق موضوع ہونے کا شیخ کو شبہ بھی ہوتا ہے تو مؤیدات وشواہد جمع کرنے کا پورا اہتمام فرماتے ہیں، تو کیا اس بناء پر مجموعہ فضائل اعمال حافظ سیوطی کی کتاب سے۔ اگر فائق نہیں تو اس کے برابر بھی قرار نہیں دیا جاسکتا؟ ہمارے نزدیک اس پر بھی وہ تبصرہ منطبق ہوتا ہے جو منادی نے جامع صغیر پر کیا۔
۷-حافظ ابن قیم الجوزیہ
حدیثوں پر وضع کا حکم لگانے میں جو محدثین متشدد مانے جاتے ہیں ان میں ایک نام حافظ ابن قیم کا ہے اس دعویٰ کا ثبوت ان کی کتاب المنار المنیف فی الصحیح والضعیف جس میں انہوں نے چند ایک ابواب پر یہ کلی حکم لگایا ہے کہ اس باب میں جو کچھ مروی ہے باطل ہے، تاہم اس میں شک نہیں کہ نقد حدیث میں ان کی حیثیت مرجع وسند ہے۔
لیکن ان کا بھی حال یہ ہے کہ اپنی بعض تصنیفات مثلاً مدارج السالکین، زاد المعاد وغیرہ میں کتنی ہی ضعیف اور منکر حدیثیں کوئی تبصرہ کے بغیر بطور استدلال پیش کر ڈالتے ہیں، خاص طور سے اگر حدیث ان کے نظریہ کی تائید میں ہوئی ہے تو اس کی تقویت میں بات مبالغہ کی حد تک پہنچ جاتی ہے، مثلاً زاد المعاد ۳/۵۴،۵۷ میں وفد بنی المنتفق پر کلام کے ذیل میں ایک بہت لمبی حدیث ذکر کی ہے جس میں یہ الفاظ بھی ہیں۔
ثم تلبثون ما لبثتم، ثم تبعث الصائحة، فلعمرو الہک ما تدع فی ظہرہا شیئاً الامات تلبثون ما لبثتم ثم یوفی نبیکم والملائکة الذین مع ربک فاصبع ربک عز وجل یطوف فی الارض وخلت علیہ البلاد․․․
اس حدیث کو ثابت وصحیح قرار دینے میں ابن قیم نے پورا زور صرف کیا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں:
ہذا حدیث جلیل تنادی جلالتہ وفخامتہ وعظمتہ علی انہ قد خارج من مشکاة النبوة لا یعرف الا من حدیث عبد الرحمن بن المغیرة المدنی ۔
پھر عبد الرحمن بن مغیرة کی توثیق اور ان کتابوں کے حوالوں کے ذریعہ جن میں یہ حدیث تخریج کی گئی ہے لمبا کلام کیا، حالانکہ خود ان کے شاگرد حافظ ابن کثیر نے البدایةوالنہایة میں لکھا کہ:
ہذا حدیث غریب جداً، والفاظہ فی بعضہا نکارة
یعنی یہ حدیث انتہائی اوپری ہے، اس کے بعض الفاظ میں نکارت ہے، حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں عاصم بن لقیط بن عامر بن المنتفق العقیلی کے ترجمہ میں لکھا کہ: وہو حدیث غریب جداً جبکہ علامہ ابن قیم نے اس کی تائید میں کسی کہنے والے کے اس قول تک کو نقل کرڈالا۔
ولاینکر ہذا القول الاجاحد او جاہل او مخالف للکتاب والسنة اھ
یہ چند نمونے ہیں جو مشتے نمونہ از خردار ے پیش کئے گئے اور یہ بات اظہر منالشمسہوگئی کہ بطور عمل متوارث حدیث ضعیف کا احترام ہوتا چلا آیا ہے، اس کے خلاف کو موقف اتباع غیر سبیل المؤمنین (جماعت مسلمین کے راستہ کو چھوڑنے کے مرادف ہے) خاص کر فضائل وغیرہ کے باب میں ضعیف حدیث کو بیان کرنا یا کسی کتاب میں شامل کرنا جرم نہیں ہے، ایسا کرنے والوں کی یہ ایک لمبی قطار ہے، ہم تو ان حضرات پر مکمل اعتماد کرتے ہیں، جو کچھ دینی وعلمی ورثہ ہم تک پہنچا وہ اسی قدسی صفت جماعت کا احسان ہے، البتہ لوگوں کو ان کے طرز عمل پر اعتراض ہے وہ جانیں کہ یہ لوگ مجرم ہیں یا نہیں؟شیخ نے بجا طور پر کہا اور کیا خوب کہا:
اگر ان سب اکابر کی یہ ساری کتابیں غلط ہیں تو پھر فضائل حج کے غلط ہونے کا اس ناکارہ کو بھی قلق نہیں۔
(کتب فضائل پر اشکالات اور ان کے جوابات ص:۱۸۲)
حافظ ابن صلاح “مقدمہ ابن صلاح” میں لکھتے ہیں کہ جب ہم کسی حدیث کو صحیح قرار دیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ حدیث یقینا صحیح ہے اور اس کی صحت درجہ علم تک پہنچتی ہے؛ بلکہ اس حکم صحت سے مراد صرف یہ ہوتی ہے کہ اس میں صحیح کی وہ فنی شرائط موجود ہیں جو محدثین کے یہاں صحت حدیث کے لیے درکار ہیں،لہذا گمان یہی ہے کہ وہ حدیث صحیح ہوگی، اسی طرح ضعیف کا مطلب بھی یہ نہیں کہ یقینی طور پر وہ خلاف واقعہ ہے، ہوسکتا ہے کہ نفس الامر میں صحیح ہو؛ یہی وجہ ہے کہ اہل علم کا تعامل اس کی فنی کمزوریوں کو ڈھانپ لیتا ہے۔ علامہ ابن حجر العسقلانی رح فرماتے ہیں : کسی حدیث کو “لا یصح” یعنی وہ صحیح نہیں، کہنے سے اس (حدیث) کا موضوع (جھوٹی/من گھڑت) ہونا لازم نہیں آتا.[شرح الفیہ : ١/١٥]
ملا علی قاری رح فرماتے ہیں : عدم_ثبوت سے حدیث کا موضوع ہونا لازم نہیں آتا.[تذكرة الموضوعات للقاری : ٨٢]
شواہد والی حدیث کو صحیح کہنا:
غیر مقلد زبیر علی زئی صاحب نے لکھا ہے: اس روایت میں دوراوی عصمہ بن محمد اور عبد الرحمن بن قریش سخت مجروح ہیں لیکن اس کے بہت سے شواہد موجود ہیں آصول حدیث کا یہ متفقہ مسئلہ ہے کہ جو رویت شواہد کے ساتھ ثابت ہوجائے اسے صحیح ہی تسلیم کیا جاتا ہے ( تسھیل الوصول ص 197)
فقہ اسلامی کی بنیاد جن چار چیزوں پر ہے ان میں سے ایک اہم ماخذ حدیثِ نبویﷺبھی ہے، جس کے بیان ونقل میں انتہائی حزم واحتیاط سے کام لیا گیا ہے، ماضی میں بعض اسباب کے تحت احادیث کووضع کرنے اور اس کے ذریعہ سے لوگوں کو گمراہ کرنے کی ناپاک سازش کی گئی تھی، جن کے خلاف محدثین نے سخت محاذ آرائی کی؛ اِسی پسِ منظر میں"ائمۂ جرح وتعدیل" کی جماعت کا ظہور ہوا؛ جنھوں نے موضوع اور من گھڑت احادیث کو چھانٹ کر موضوعات کے نام سے الگ کردیا اور راویوں کے حالات کو مدنظررکھتے ہوئے ان کے احوال واعمال کے مطابق احادیث کی تقسیم کردی، ان ہی اقسام میں ایک "ضعیف" حدیث بھی ہے، جو فی الحال موضوعِ بحث ہے، اس کے تحت تعارف، حکم اور اس میں فقہاء کا اختلاف اور دیگرضروری امور کو بیان کیا جائے گا:
حدیثِ ضعیف
حدیثِ ضعیف کی تعریف میں متقدمین اور متأخرین کی الگ الگ رائیں ہیں، متقدمین کی اصطلاح میں"ضعیف" وہ حدیث کہلاتی ہے جومنکر اور باطل نہ ہو اور اس کےراوی متہم بالکذب نہ ہو؛ گویا متقدمین کے یہاں حدیث صحیح ہی کی ایک قسم "حدیثِ ضعیف" ہے اور اسے متأخرین کی اصطلاح میں "حدیثِ حسن" کہا جاتا ہے اور متقدمین نے یہ طے کررکھا تھا کہ اس ضعیف حدیث کے خلاف اگرکوئی حدیث صحیح نہ ہو توپھر اس حدیثِ ضعیف (حدیثِ حسن عندالمتأخرین) پر عمل کیا جائے گا اور اسے قیاس پربھی ترجیح دی جائے گی۔
(اعلاء السنن:۱/۶۰)
لیکن متأخرین کی اصطلاح میں "حدیثِ ضعیف" وہ کہلاتی ہے جس میں حدیث صحیح وحسن کے شرائط نہ پائے جائیں، اس کے راوی غیرعادل یامتہم بالکذب، یامستورالحال ہوں اور وہ متعدد طرق سے مروی بھی نہ ہو یااس میں شذوذ وعلتِ خفیہ ہوں یہ اسباب کسی حدیث کوضعیف قرار دینے کے لیے کافی ہیں۔
(احکام القرآن للجصاص:۱/۳۸۶)
حدیثِ ضعیف کا ضعف ختم ہوسکتا ہے
اگرحدیث ضعیف ہے تواس کا ضعف مختلف قرائن سے دور ہوسکتا ہے، ان میں سے ایک تعدد طرق ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگرحدیث ضعیف کئی سندوں سے مروی ہو تواس کی وجہ سے وہ ضعف سے نکل جاتی ہے اور اسے قوی ومعتبر اور لائق عمل قرار دیا جاتا ہے، محدثین کی اصطلاح میں اس کو "حسن لغیرہ" کہتے ہیں، حافظ بن حجرؒ کی تفصیل کے مطابق یہ حدیث مقبول ومعتبر کی چار اقسام میں سے ایک ہیں۔
(ردالمحتار:۱/۲۵۳)
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ حسن لغیرہ بھی اصل میں ضعیف ہی ہے؛ مگرکسی قوت پہونچانے والے امر کی وجہ سے اس میں حسن پیدا ہو جاتاہے۔
(فتح المغیث:۳۵/۳۶)
"الحسن لغيره أصله ضعيف وإنماطرأعليه الحسن بالعاضد الذي عضده"۔
(بدایۃ المجتہد:۱/۴۳)
ترجمہ:حسن لغیرہ دراصل ضعیف ہی ہے اور اس میں حسن دیگر روایات کے اس کی تائید کرنے کی وجہ سے پایا جاتا ہے۔
لیکن شرط یہ ہے کہ یہ ضعف کسی راوی کے فسق یاکذب بیانی کی وجہ سے نہ ہو؛ کیونکہ تعددِطرق ان کے کذب وفسق کے احتمال کو ختم کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔
(حاشیہ اعلاء السنن:۱/۵۸)
دوسرا قرینہ یہ ہے کہ وہ حدیث ضعیف کسی اصل شرعی ودلیلِ شرعی کے موافق ہو؛ خواہ کوئی نص قرآنی ہویاقولِ صحابی ہو یاشریعت کا کوئی قاعدہ وضابطہ ہو۔
(نزھۃ النظر:۲۹)
اس کے علاوہ بھی کچھ قرائن ہیں جو کہ حدیث ضعیف کوتقویت پہنچاتے ہیں؛ اسی لیے حافظ ابنِ حجرؒ نے نخبہ میں ذکرفرمایا ہے کہ؛ اگرکوئی ایسا قرینہ مل جائے جوحدیث ضعیف کو قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کو راجح بتائے تواس کو "حسن لغیرہ" کہتے ہیں۔
(اعلاء السنن:۱/۶۲۔ اصول امام احمدبن حنبل:۲۶۹)
ضعیف کی اقسام
زمانہ قدیم میں حدیث کی دوہی قسمیں ہوا کرتی تھیں؛ لیکن سب سے پہلے جس نے احادیث کوتین قسموں میں منقسم کیا وہ حضرت امام ترمذیؒ کی شخصیت ہے، صحیح، حسن، ضعیف، ان ہی کی اس تقسیم کومدنظر رکھتے ہوئے احادیث ضعیف کی پھر چارقسمیں سامنے آتی ہیں:
(۱)وہ ضعیف جس کا ضعف تعددِ طرق اور دیگرقرائن سے دور ہوجاتا ہو
(۲)ضعیف متوسط الضعف
(۳)ضعیف شدید الضعف
(۴)موضوع۔
فقہاء کا اختلاف
قسم اوّل سے توباتفاق احتجاج واستدلال جائز ہے اور قسم سوم وچہارم سے باتفاق استدلال کرنا درست نہیں ہے؛ البتہ قسمِ دوم سے استدلال کی امام احمدؒ وامام اعظمؒ وغیرہ گنجائش دیتے ہیں؛ جب کہ بہت سے علماء اس سے منع کرتے ہیں۔
(المسودہ فی اصول الفقہ:۲۷۳۔ اصول امام احمدبن حنبل:۲۷۱)
حدیثِ ضعیف پر عمل کرنے کے شرائط
حافظ ابن حجرؒ نے حدیثِ ضعیف پر عمل کرنے کی تین شرطیں بیان کی ہیں:
(۱)اس حدیث کا ضعف ضعفِ شدید نہ ہو یعنی اس کا راوی کا ذب اور دروغ گوئی میں مشہور نہ ہو اور نہ فاحش غلطیوں کا مرتکب ہو
(۲)حدیث جس مفہوم پر مشتمل ہو اس کی ایسی بنیاد موجود ہو جومعمول بہ ہو، یعنی اس پر عمل کرنا اپنے اندر غرابت کا کوئی پہلو نہ رکھتا ہو اور اسلام کے ثابت اور مقرر ومعروف قواعد کے خلاف نہ ہو
(۳)دورانِ عمل اس کے ثبوت کا عقیدہ نہ رکھا جائے؛ بلکہ ازروئے احتیاط اس پر عمل ہو، یعنی اس طور پر نہ قبول کی جائے کہ واقعتاً یہ حدیث صحیح النسبت ہے؛ بلکہ اس بناء پر عمل کیا جائے کہ ممکن ہے کہ نفس الامر میں اس کی نسبت آپﷺکی طرف درست ہو۔
(اعلاء السنن:۱/۵۸)
ضعیف اور مضعف میں فرق
حدیثِ مضعف کا درجہ حدیثِ ضعیف سے اونچا ہوتا ہے کہ احکامات میں حدیثِ مضعف سے استدلال کیا جاتا ہے اور ضعیف سے فقط فضائل میں ہی استدلال کرنا درست ہے۔
دوسرا فرق:جو"علامہ قسطلانی رحمہ اللہ" نے بیان کیا ہے کہ مضعف وہ حدیث ہے جس کے متن میں یاسند میں ایسا وقتی ضعف آگیا ہو، جس کی تلافی دیگراسناد وروایات سے ہوسکتی ہے؛ یہی وجہ ہے کہ امام بخاریؒ نے بھی ایسی احادیث کو بعض مرتبہ انپے صحیح میں جگہ دی ہے۔
(اعلام الموقعین:۱/۸۲)
حدیثِ ضعیف اور اقوالِ صحابہ رضی اللہ عنہم
حضرت امام ابوحنیفہؒ وامام احمدؒ حدیث ضعیف کا درجہ حدیث صحیح سے کمتر قرار دیتے ہیں؛ البتہ وہ حدیثِ ضعیف کے بالمقابل فتاویٰ اور اقوالِ صحابہ کوترجیح دیتے ہیں۔
(المسودہ فی اصول الفقہ:۲۷۶۔ حیات امام احمد بن حنبلؒ:۳۵۰)
صحابہ کرامؓ سے جوفقہی فتاوے منقول ہیں، ان کی ایک بڑی تعداد ہے جومختلف واقعات وحوادثات سے متعلق ہیں، ان فتاویٰ واقوال میں رنگا رنگ کی غذاء فکری اور طرح طرح کے امراض اجتماعی کی چارہ گری موجود ہے۔
(اعلام الموقعین:۱/۸۴)
اگران کے فتاویٰ اوراقوال کا تعارض حدیثِ ضعیف سے ہوجائے توفتاویٰ صحابی کو ترجیح حاصل ہوگی؛ کیونکہ صحابہ کرامؓ درس رسالت کے چراغ ہیں، ان کا ہرقول وعمل سنت کے مطابق ہوا کرتا تھا، ان کے کلام سے کلام رسالت کی بومہکتی ہے اور انھوں نے دین کوپہلو رسالت میں رہ کر جتنا سمجھا اور سیکھا ہے دوسرا ان کی خاک تک نہیں پہونچ سکتا، ان کے اقوال وافعال میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہے اورحدیث ضعیف کی صحت وعدمِ صحت مشتبہ ہے؛ لہٰذا صحابہ کرامؓ کے فتاویٰ واقوال کو ضعیف حدیث پر ترجیح حاصل ہوگی۔
حدیثِ ضعیف اور قیاس کا تعارض
جب کہیں حدیث ضعیف اور قیاس میں تضاد نظر آئے توفقہاء کرامؓ کے اس سلسلے میں دونقطہ نظر ہیں۔
حنفیہ وحنابلہ
ان حضرات کا موقف یہ ہے کہ ضعیف حدیث کی موجودگی میں قیاس کوئی معنی نہیں رکھتا؛ بلکہ قیاس کی طرف جانے کی ضرورت ہی نہیں ہے، حدیث اگرچہ ضعیف ہے؛ لیکن بہرِحال موجود توہے اور اس میں صحت کا بھی پہلو ہے؛ اس لیے قیاس کے مقابلہ میں حدیثِ ضعیف ہی کو ترجیح دی جائے گی (الاحکام لابنِ حزم:۲/۵۴) چنانچہ امام احمد کا قول خود ان کے فرزندِارجمند حضرت عبداللہ نقل کرتے ہیں کہ ضعیف حدیث کو قیاس پر ترجیح حاصل ہوگی۔
(اصول امام احمد بن حنبل:۲۷۲۔ المسودہ فی اصول الفقہ:۲۷۵)
ایک مرتبہ عبداللہ نے اپنے والد امام احمدؒ سے دریافت کیا کہ کسی جگہ ایک محدث ہیں جودرسِ حدیث دیا کرتے ہیں اور وہ حدیث کی صحت وضعف میں تمیز نہیں کرپاتے اور اسی جگہ ایک صاحب رائے شخص موجود ہو، جواپنی رائے اور قیاس سے مسائل کو حل کرتا ہو اور ایک ایسا شخص جوعلم سے ناواقف حلال وحرام میں تمیز خود سے نہ کرپاتا ہو تووہ مسئلہ کس سے دریافت کرے، محدث سے یاصاحبِ رائے سے؟ امام احمدؒ نے فرمایا محدث سے مسئلہ دریافت کرے، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ امام احمدؒ کا مسلک یہ ہے کہ ضعیف حدیث کو قیاس پر ترجیح دی جائے گی۔
(الاحکام لابنِ حزم:۲/۵۴)
شوافع اور مالکیہ
امام شافعیؒ کا مذہب یہ ہے کہ اگرنصِ قرآنی اور حدیثِ صحیح نہ ہوتوپھر حدیثِ ضعیف کونظر انداز کرکے قیاس کرنا واجب ہوگا، ٹھیک اسی طرح مالکیہ میں سے قاضی ابوالفرج اور ابوبکر الابہریؒ کا بھی یہی کہنا ہے کہ حدیثِ ضعیف پر قیاس کوترجیح حاصل ہوگی۔
(بدایہ المجتھد:۱/۲۹)
فقہ حنفی اور حدیثِ ضعیف
احناف کا مذہب چونکہ حدیثِ ضعیف (بقول متقدمین جودرحقیقت حدیثِ حسن ہے) کوقیاس کے مقابلے میں ترجیح دینے کا ہے؛ اسی لیے فقہ حنفی میں بکثرت ایسی مثالیں ملتی ہیں جن میں قیاس کو نظر انداز کرکے حدیث ضعیف پر عمل کیا گیا ہے، مثلاً:
۱۔نمازی حالت صلوٰۃ میں قہقہہ لگادے توقیاس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا وضو نہ ٹوٹے؛ کیونکہ قہقہہ میں خروجِ نجاست کا تحقق نہیں ہوتا ہے؛ مگراس سلسلہ میں ایک ضعیف حدیث ہے جویہ بتلاتی ہے کہ ایسے شخص کا وضوٹوٹ جاتا ہے؛ لہٰذا قیاس کو ترک کرکے احناف نے یہاں ضعیف حدیث پر عمل کیا اور قہقہہ کوناقض وضو قرار دیا۔
(اعلام الموقعین:۱/۸۵)
۲۔دس درہم سے کم کے سرقہ میں بھی قطع ید کا حکم قیاس کے مطابق ہونا چاہیے؛ کیونکہ وہ بھی توشرعاً سرقہ ہے؛ لیکن ایک "ضعیف حدیث" ہے کہ دس درہم سے کم میں ہاتھ کاٹنے کا حکم نہ لگایا جائے؛ چنانچہ حنفیہ نے قیاس کے مقابلہ میں اسی ضعیف حدیث کوحجت مانا ہے۔
(اصول امام احمدبن حنبلؒ:۲۸۲)
ضعیف حدیث اور عقائد
جمہور فقہاء کا مذہب یہی ہے کہ عقائد کے ثبوت کے لیے مشہور یامتواتر حدیث ضروری ہے، حدیث ضعیف اور خبرِواحد اثبات عقائد کے لیے کافی نہیں ہے، امام احمدؒ نے اگرچہ خبرواحد سے عقائد کے باب میں استدلال کیا ہے لیکن وہ بھی حدیثِ ضعیف کے بارے میں اس بات کے قائل ہیں کہ حدیثِ ضعیف سے عقائد کے باب میں استدلال کرنا درست نہیں ہے؛ چنانچہ سیدشریف احمدجرجانیؒ فرماتے ہیں کہ "حدیثِ ضعیف" سے صفاتِ باری وعقائد میں استدلال کرنا جائز نہیں۔
(الرسالہ فی فن اصول الحدیث علی الترمذی:۲)
ایک شبہ
یہاں اس شبہ کا ازالہ بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ سابق میں احناف وحنابلہ کا یہ مسلک بیان کیا گیا کہ وہ حدیث ضعیف کومعتبر مانتے ہیں اور فقہ حنفی سے کچھ ایسے مسائل بھی ذکر کئے گئے جن میں محض حدیث ضعیف کی بناء پرقیاس کوچھوڑدیا گیا ہے، بظاہر یہ دعویٰ سابقہ تصریحات کے خلاف ہے؛ لیکن یہ شبہ اس لیے نہیں کیا جاسکتاکیونکہ حدیث ضعیف کی اصطلاح درحقیقت دو ہیں، ایک متاخرین کی اصطلاح ہے، جس کی وضاحت اسی مقالہ کے ابتداء میں کی جاچکی ہے اور دوسری اصطلاح متقدمین کی ہے (اس کی وضاحت بھی ابتداء میں آچکی ہے) کہ وہ حضرات حسن لغیرہ کو بھی ضعیف کے ہی درجہ میں شمار کیا کرتے تھے؛ چنانچہ علامہ ابنِ قیم رقمطراز ہیں:
"وليس المراد بالحديث الضعيف في اصطلاح السلف هوالضعف في اصطلاح المتأخرين؛ بل مايسميه المتأخرون حسنا قد يسميه المتقدمون ضعيفا"۔
(اعلام الموقعین:۱/۸۴)
ترجمہ:سلف کی اصطلاح میں حدیثِ ضعیف سے مراد وہ حدیث نہیں ہے جسے متاخرین حدیث ضعیف کہتے ہیں؛ کیونکہ متقدمین کی اصطلاح میں اس حدیث کو بھی ضعیف کہہ دیا جاتا ہے جسے متاخرین نے حسن کا درجہ دیا ہے۔
اس لیے فضائل کے باب کے علاوہ جہاں کہیں احناف وحنابلہ حدیث ضعیف کو قابلِ حجت شمار کرتے ہیں اس سے مراد متقدمین کی اصطلاح ہیں اور اس سے "حدیث حسن" ہی مراد ہے، متاخرین کی اصطلاح کے مطابق حدیث ضعیف مراد نہیں ہے۔
ضعیف حدیث اور فضائل
علامہ سخاویؒ نے اس تعلق سے کافی طویل بحث کی ہے اور اس سلسلہ میں متعدد مذاہب کو نقل کیا ہے، جن میں سے ایک حافظ الحدیث امام مسلمؒ اور دیگرمحدثین اور ابنِ حزمؒ کا ہے کہ ضعیف حدیث کسی بھی باب میں حجت نہیں بن سکتی، چاہے وہ فضائل کا باب ہی کیوں نہ ہو؛ البتہ اگرمتقدمین کی اصطلاح کے مطابق ضعیف حدیث ہو کہ اس کے طرق متعدد ہوں جس کی وجہ سے اس کا ضعف ختم ہوجاتا ہے تواس سے فضائل کے باب میں استدلال کرنا درست ہوگا ابنِ حزم کہتے ہیں کہ ضعیف حدیث کے مقابلہ میں قیاس اولیٰ ہے؛ کیونکہ حدیثِ ضعیف آپؐ سے ثابت نہیں ہے، رائے میں اگرغلطی ہوگی توشرعاً وہ معاف ہے؛ بلکہ اس پر اجتہاد کا ثواب بھی ملے گا۔
(نووی علی مسلم:۱/۶۰)
دوسرا مذہب جس کو علامہ سخاویؒ نے جمہور کا مذہب کہہ کر بیان کیاہے اور حافظ ابنِ حجر مکیؒ اور ملا علی قاریؒ نے بھی جسے جمہور کا اجماعی مسلک قرار دیا ہے کہ فضائل کے باب میں حدیث ضعیف پر عمل کرنا جائز ہے۔
(الفتاویٰ الحدیثیہ :۱۱۰)
ائمہ حدیث میں عبداللہ بن مبارک، عبدالرحمن بن مہدی، امام احمدوغیرہ سے بھی یہی نقل کیا گیا ہے (اصول امام احمد بن حنبل:۲۷۴) شیخ تقی الدین تحریر فرماتے ہیں کہ یہ گنجائش اس لیے ہے کہ اگرایسی حدیث نفس الامر اور واقع میں صحیح ہے تواس پر عمل کرنا اس کا حق تھا اور اگرواقع میں صحیح نہ تھی توبھی فضائل کے باب میں اس پر عمل کرنے کی وجہ سے دین میں کوئی فساد لازم نہیں آئےگا، اس لیے کہ یہ صورت تحلیل وتحریم اور کسی کے حق سے متعلق نہیں ہے اور پھریہ جواز مطلق نہیں ہے؛ بلکہ ماقبل میں ذکرکردہ شرائط کے ساتھ ہے۔
(شرح الکوکب المنیر:۲/۵۷۱)
اس لیے فضائل کے باب میں حدیث ضعیف کا اعتبار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
Last edited: