کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
کیا عراق کو تقسیم کیا جا رہا ہے؟
کیا عراق کو بھی بوسنیا طرز پر تقسیم کیا جارہا ہے؟
یہ وہ بنیادی سوال ہے جس کا جواب شاید آنے والے چند ہفتوں میں واضح ہو جائے لیکن جو بائیڈن کا ”سوفٹ پارٹیشن“ کا منصوبہ ایک بار پھر زیر بحث آ رہا ہے۔اگرچہ سوفٹ پارٹیشن کو سابق امریکی سیکرٹری خارجہ رابرٹ گیٹس نے پہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ جو بائیڈن کا نقطہ نظر تمام اہم امریکی خارجہ پالیسیوں پر ہمیشہ غلط رہا ہے لیکن ایک بار پھر عراق کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی افواہیں گردش کر رہی ہیں۔
آئی ایس آئی ایس کی موصل اور تکریت کے مبینہ قبضے کے بعد بغداد کی طرف عسکری پیشقدی اور امریکہ کی جانب سے تذبذب اور شورش زدہ علاقوں سے لاعلمی کے دعوے بہت سارے شک و شبہات کو جنم دے رہے ہیں۔ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے اور امریکی وزارت داخلہ نے آئی ایس آئی ایس کی بڑھتی ہوئی طاقت کو اپنے لیے حیران کن قرار دیا ہے۔ جبکہ لبنان کے ایک اہم اخبار ڈیلی اسٹار نے آئی ایس آئی ایس کے جنگجوؤں کی شام اور عراق کے سرحدی علاقوں میں تعینات کرنے کی خبر ایک ماہ قبل ہی بریک کر دی تھی۔
کیا سی آئی اے کے پاس ایک صحافی سے بھی کم معلومات ہیں؟
ایسا سوچنا بھی احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔
کیا امریکہ آئی ایس آئی ایس کی خاموش حمایت کر رہا ہے؟
اگرچہ بہت سارے مبصرین آئی ایس آئی ایس کو القاعدہ کا ہی حصہ قرار دے رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں نے کچھ عرصہ قبل ہی اپنے راستے جدا کر دیے تھے اور آئی ایس آئی ایس کی حالیہ عسکری کامیابیوں نے جہاں وسطیٰ ایشیا میں القاعدہ کی مقبولیت کو نقصان پہنچایا ہے وہاں آئی ایس آئی ایس کو نیا ایجنڈا پیش کرنے کا بھی موقع ملا ہے جسے وسطیٰ ایشیا سمیت دنیا بھر سے افرادی قوت کے ساتھ امدادی رقومات بھی مل رہی ہیں۔آئی ایس آئی ایس کے ایک جنگجو نے امریکی اخبار میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں مبینہ طور پر گھات لگا کر حملہ کرنے اور بچ نکلنے کی تربیت سی آئی اے کے عسکری ماہرین نے دی ہے۔ آئی ایس آئی ایس کا تنظیمی ڈھانچہ ایک بار پھر تجزیہ نگاروں کی نگاہوں کا مرکز بنا ہوا ہے اگرچہ اسکی بظاہراً عسکری انتہا پسند قیادت کر رہے ہیں لیکن حقیقت میں اس تنظیم میں ان لوگوں کا کنٹرول ہے جو کبھی صدام حسین کی فوج اور حکومت میں اہم عہدوں پر فائز تھے جن میں سب سے اہم نام عزت ابراہیم الدوری کا ہے جو صدام حسین کی فوج میں جنرل اور البعث کے بانیوں میں تھا ۔
عزت ابراہیم نے امریکہ کے انخلاءکے بعد سات مطالبات پیش کیئے تھے جن میں سے کسی ایک مطالبہ پر نوری المالکی کی حکومت نے عمل نہیں کیا بلکہ المالکی پر یہ الزام بھی سچ دکھائی دیتا ہے کہ اس نے عراق میں مختلف قوتوں کو ایک پلیٹ فار م پر اکٹھا کرنے کی بجائے شیعہ مسلک کو پروان چڑھایا اور انتہا پسندوں کو یہ موقع مہیا کیا کہ وہ لوگوں کو صوبائی تعصبیت کے ساتھ مسلکی اختلافات کو بھی ہوا دے سکیں اور آج عراق کی بگڑتی صورتحال کی ذمہ داری المالکی پر جاتی ہے۔ آئی ایس آئی ایس کے پلیٹ فارم میں عراقی نیشنل ازم، پان عرب ازم اور اسلامی انتہا پسندی کے نظریات ایک جگہ اکٹھے ہو چکے ہیں اور اسکی جانب سے جاری علاقائی نقشہ ان تینوں عناصر کی طرف نشاندہی کر رہا ہے۔
کچھ مبصرین یہ بھی الزام لگا رہے ہیں کہ جب آئی ایس آئی ایس موصل میں موجود فوجی تنصیبات پر قابض ہو رہے تھے تو امریکہ نے ان سے جان بوجھ کر پردہ پوشی کی تاکہ انہیں امریکی ہتھیاروں سے لیس کیا جا سکے جو عام حالات میں انہیں نہیں دیے جا سکتے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ عراق کی سیکورٹی فوج کی تربیت پر امریکی حکومت نے 20 بلین ڈالرز خرچ کئیے تھے اور سیکورٹی فورس کی قابلیت کا پول اس وقت کھلا جب موصل شہر جسکی آبادی بیس سے تیس لاکھ افراد پر مشتمل تھی اس شہر میں آئی ایس آئی ایس کے آٹھ سو مسلح افراد بغیر کسی مزاحمت کے قابض ہو گئے اور سرکاری فوج کے جوانوں نے اپنی فوجی وردی اتار کر انخلاء کرنے والی شہری آبادی میں شامل ہو کر فرار ہو گئے۔عراق کو کرد، سنی شیعہ نیم خود مختار علاقوں میں تقسیم کرکے امریکہ ایک ’بفر زون‘ بنانا چاہتا ہے تاکہ اس خطے کے رہنے والوں کو آپس میں لڑا دے اور ایران اور حزب اللہ پر نظر بھی رکھ سکے۔
عراق کے سب سے بڑے شیعہ مجتہد آیت اللہ علی الحسینی السیستانی کے فتویٰ کے بعد عراق میں مجموعی صورت حال میں مزید تناو¾ پیدا ہو گیا ہے اور شیعہ آبادی کا ایک بڑا حصہ کربلا، نجف اور بغداد میں شیعہ مقدس مقامات کے تحفظ کے لیے مسلح ہونا شروع ہو چکے ہیں جبکہ سنی آبادی کی طرف سے اس فتویٰ کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق تقریباً پندرہ لاکھ کے قریب شیعہ رضاکار مسلح مزاحمت کے لیے تیار کئیے جا رہے ہیں۔خدشہ اس بات کا بھی ہے کہ کہیں شیعہ سنی بنیادوں پر لڑی جانے والی یہ جنگ دیگر اسلامی ممالک خاص طور پر جنوبی ایشیا سے بھی رضاکاروں کو اپنی جانب متوجہ کر سکتی ہے۔ ایران کی طرف سے ایلیٹ فورس ”قدس“ کو حرکت میں لایا گیا ہے لیکن اہم اطلاع کے مطابق ایران نے نوری المالکی کو یقین دہانی کروائی ہے کہ ایران کا عراق میں فوجی دستے بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں اور کچھ اطلاعات کے مطابق ایرنی فوجی سادہ لباس میں عراق میں داخل ہو چکے ہیں جہاں وہ رضاکاروں کو گوریلا جنگ کی تربیت دیں گے۔اہم بنیادی سوال جو اٹھایا جا رہا ہے کہ آیا امریکہ انہیں لوگوں پر ڈرون حملے کرے گا جنہیں اس نے چند ماہ قبل مبینہ طور پر خود فوجی اور گوریلا تربیت دی ہو؟ یقینا امریکہ فضائی حملے کرے گا جسکا اتنا فائدہ نوری المالکی کو نہیں ہو گا جتنا امریکی اسلحہ ساز انڈسٹری اور بنکوں کو ہو گا۔
مظفر علی: 14 جون 2014