محدث میڈیا
رکن
- شمولیت
- مارچ 02، 2023
- پیغامات
- 876
- ری ایکشن اسکور
- 30
- پوائنٹ
- 69
ہر قوم کا مخصوص دن ہوتا ہے جس میں وہ خوبصورتی اختیار کرتے ہیں اور اجتماعی طورپر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔
حضرت انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ دور جاہلیت کے لوگوں کے لیے سال میں دو دن تھے جن میں وہ کھیلتے کودتے تھے۔ جب نبی ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے فرمایا:
كَانَ لَكُمْ يَوْمَانِ تَلْعَبُونَ فِيهِمَا وَقَدْ أَبْدَلَكُمْ اللَّهُ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا يَوْمَ الْفِطْرِ وَيَوْمَ الْأَضْحَى (سنن نسائى: 1556)
”تمھارے لیے دودن تھے جن میں تم کھیلا کودا کرتے تھے۔ اب اللہ تعالیٰ نے تمھیں ان کے بجائے دو اچھے دن دے دیے ہیں۔ ایک عیدالفطر کا دن اور ایک عیدالاضحیٰ کا دن۔“
عید کی نماز پڑھنے کے حکم کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے:
1- عید کی نماز ادا کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے، یہ امام ابوحنیفہ ، امام شافعی اور امام حمد کا ایک قول، بعض مالکیہ کاقول ہے، ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اسی قول کو اختیار کیا ہے۔
دلیل:
نبی ﷺ ہمیشہ عید کی نماز پڑھا کرتے تھے، کبھی بھی آپ نے عید کی نماز نہیں چھوڑی، آپ ﷺ کے بعد خلفاء کرام اور تمام مسلمان بھی نماز عید کو ہمیشگی کے ساتھ پڑھتے آئے ہیں۔
رسول الله ﷺ نے عورتوں کو بھی نماز عید کے لیے باہر نکلنے کا حکم دیا حتی کہ حائضہ عورتوں کو بھی حکم دیا کہ وہ عیدگاہ آئیں اور دعا میں شریک ہوں۔
2- عید کی نماز ادا کرنا فرض کفایہ ہے، یعنی اگر بعض لوگ نماز عید ادا کر لیں تو باقی تمام لوگوں سے یہ فریضہ ساقط ہو جائے گا، یہ حنابلہ اور بعض شافعیہ کا قو ل ہے۔
دلیل:
نماز عید کے لیے اذان نہیں دی جاتی اسی لیے یہ نماز جنازہ کی طرح تمام لوگوں پر واجب نہیں ہے۔
3- یہ سنت مؤکدہ ہے، واجب نہیں ہے، یہ اما م مالک ، شافعی کا قول ہے۔
دلیل:
رسول الله ﷺ نے دیہاتی آدمی کو کہا کہ پانچ نمازیں فرض ہیں ، اس نے کہا کہ اس کے علاوہ بھی کوئی نماز فرض ہے تو رسول الله ﷺ نے کہا:
لاَ، إِلَّا أَنْ تَطَوَّعَ (صحیح بخاری:46)
’نہیں، مگر یہ کہ تو اپنی خوشی سے رکھے۔
راجح:
پہلا قول راجح ہے کیونکہ ان کے دلائل زیادہ قوی ہیں۔
حضرت انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ دور جاہلیت کے لوگوں کے لیے سال میں دو دن تھے جن میں وہ کھیلتے کودتے تھے۔ جب نبی ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے فرمایا:
كَانَ لَكُمْ يَوْمَانِ تَلْعَبُونَ فِيهِمَا وَقَدْ أَبْدَلَكُمْ اللَّهُ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا يَوْمَ الْفِطْرِ وَيَوْمَ الْأَضْحَى (سنن نسائى: 1556)
”تمھارے لیے دودن تھے جن میں تم کھیلا کودا کرتے تھے۔ اب اللہ تعالیٰ نے تمھیں ان کے بجائے دو اچھے دن دے دیے ہیں۔ ایک عیدالفطر کا دن اور ایک عیدالاضحیٰ کا دن۔“
عید کی نماز پڑھنے کے حکم کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے:
1- عید کی نماز ادا کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے، یہ امام ابوحنیفہ ، امام شافعی اور امام حمد کا ایک قول، بعض مالکیہ کاقول ہے، ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اسی قول کو اختیار کیا ہے۔
دلیل:
نبی ﷺ ہمیشہ عید کی نماز پڑھا کرتے تھے، کبھی بھی آپ نے عید کی نماز نہیں چھوڑی، آپ ﷺ کے بعد خلفاء کرام اور تمام مسلمان بھی نماز عید کو ہمیشگی کے ساتھ پڑھتے آئے ہیں۔
رسول الله ﷺ نے عورتوں کو بھی نماز عید کے لیے باہر نکلنے کا حکم دیا حتی کہ حائضہ عورتوں کو بھی حکم دیا کہ وہ عیدگاہ آئیں اور دعا میں شریک ہوں۔
2- عید کی نماز ادا کرنا فرض کفایہ ہے، یعنی اگر بعض لوگ نماز عید ادا کر لیں تو باقی تمام لوگوں سے یہ فریضہ ساقط ہو جائے گا، یہ حنابلہ اور بعض شافعیہ کا قو ل ہے۔
دلیل:
نماز عید کے لیے اذان نہیں دی جاتی اسی لیے یہ نماز جنازہ کی طرح تمام لوگوں پر واجب نہیں ہے۔
3- یہ سنت مؤکدہ ہے، واجب نہیں ہے، یہ اما م مالک ، شافعی کا قول ہے۔
دلیل:
رسول الله ﷺ نے دیہاتی آدمی کو کہا کہ پانچ نمازیں فرض ہیں ، اس نے کہا کہ اس کے علاوہ بھی کوئی نماز فرض ہے تو رسول الله ﷺ نے کہا:
لاَ، إِلَّا أَنْ تَطَوَّعَ (صحیح بخاری:46)
’نہیں، مگر یہ کہ تو اپنی خوشی سے رکھے۔
راجح:
پہلا قول راجح ہے کیونکہ ان کے دلائل زیادہ قوی ہیں۔