lovelyalltime
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2012
- پیغامات
- 3,735
- ری ایکشن اسکور
- 2,899
- پوائنٹ
- 436
مبتدعین العصر کے دلائل اکثر و بیشتر ضعیف یا موضوع روایات ہوا کرتی ہیں۔ موضوع روایات کے متعلق محدثین کا اجماع ہے کہ ان سے دلیل نہیں پکڑی جا سکتی ۔ لیکن فضائلِ اعمال میں ضعیف روایت کے قبول و ردود میں معمولی سا اختلاف ہے ۔ لیکن مبتدعین یعنی اہلِ بدعت عوام الناس کو یہ دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ فضائل اعمال میں ضعیف احادیث بالاتفاق مقبول ہیں ، جو سراسر جھوٹ ہے ۔ اس کی وضاحت آگے آ رہی ہے۔
ضعیف احادیث کے متعلق محدثین کرام رحمہ اللہ کی کیا آراء ہیں اور اس میں کس قدر احتیاط کا رویہ اختیار کیا جاتا ہا ہے؟
محدثین کرام اور ائمہ عظام احدیث کو دین سمجھتے تھے جیسا کہ امام ابن سیرین فرماتے ہیں:
"ان ھذ العلم دین فانظروا عمن تاخذون دینکم" (مسلم ص ۱۱)
اور امام انس بن سیرین فرماتے ہیں:
اتقوا یا معشر الشباب فانظروا عمن تاخذون ھذا الاحادیث فانھا دینکم
"اے نوجوانوں! تم احتیاط کرو۔ اور جس سے یہ احادیث لیتے ہو اسے دیکھو( کیا وہ اس لائق بھی ہے یا نہیں) کیونکہ یہ احادیث تمھارا دین ہیں۔
( التمھید شرح مؤطا ص ۱۷)
امام مالک فرماتے ہیں:
" حدیث کا علم دین ہے تم دیکھو دین کس سے حاصل کرتے ہو ، میں نے ستر (۷۰) ایسے لوگ دیکھے ہیں جو مسجد نبوی میں بیٹھ کر کہتے تھے مجھ سے فلاں نے روایت کی کہ رسول اللہ نے فرمایا: مگر میں نے ان کی روایات قبول نہیں کیں۔"
(التمھید ص ۱۷ ج۱)
ان آثار سے ظاہر ہے کہ متقدمین محدثین ہر قسم کی احایدث میں تحقیق کرتے تھے اور وہ صرف ثقہ راویوں کی روایات قبول کرتے تھے جیسا کہ امام سعید بن ابراہیم فرماتے ہیں:
لا یحدث عن رسول اللہ إلا الثقاتف
صرف ثقہ راویوں سے حدیث رسول لی جائے۔
(سنن دارمی ج۱ ص ۹۳)
امام مسلم فرماتے ہیں:
"محدثین نے خود پ اویوں کے عیوب ظاہر کرنے کو لازم کر رکھا ہے اس لیئے کہ اس میں بہت سا خطرہ ہے کیونکہ دین کے بارے میں جو خبریں ہیں وہ حلال، حرام، امر نہی اور ترغیب و ترہیب (فضائل اعمال) کو بیان کرتی ہیں ایسا راوی جو صدق و امانت کا خوگر نہیں اس کا لوگوں پر عیب ظاہر نہ کرنے والا شخص مسلمان عوام کوھوکا دیتا ہے۔"
(مقدمہ صحیح مسلم ص 20 ج1)
یہی وجہ ہے کہ ائمہ نقاد بلا تفریق فضائل و دیگر معاملات میں ضعیف روایات کو قابل عمل نہیں سمجھتے تھے جن میں امام یحیی بن معین ، امام بخاری ، امام مسلم،امام ابن حزم اور ابو بکر بن العربی اور احمد شاکر مصری رحمہم اللہ ہیں۔
(قواعد التحدیث للقاسمی ص 113 ، الباعث الحشیث ص 76)
رضاخانی حضرات جو فضائلِ اعمال میں ضعیف روایات کی مقبولیت کا رونا روتے نہیں تھکتے وہ بھی صرف اپنی من پسند روایات کے لیئے اس اصول کو پیش کرتے ہیں ورنہ مخالفین کے پاس بھی کا تعداد ضعیف روایات موجود ہیں لیکن رضاخان ان روایات کو تسلیم کرنے کے لیئے تیار نہیں کیونکہ وہ روایات ان کے عقائد اور مذہب کے خلاف ہیں۔
نا أَبُو مُوسَى، نا مُؤَمَّلٌ، نا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ: «صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى عَلَى صَدْرِهِ»
ہم سے أبوموسی نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے مؤمل بن اسماعیل نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے سفیان نے بیان کیاانہوں نے : عاصم بن کلیب سے روایت کیاانہوں نے ، اپنے والد سے روایت کیاانہوں نے، وائل بن حجر سے روایت کیاکہ انہوں نے کہا:''میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازپڑھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ پر رکھ کرانہیں اپنے سینے پررکھ لیا۔
(صحیح ابن خزیمة (ج 1ص243):ـکتاب الصلوة:باب وضع الیمین علی الشمال فی الصلوةقبل افتتاح الصلوٰة،حدیث نمبر479۔
لیکن رضاخانی و دیوبندی اس حدیث کو نہیں مانتے۔ اس طرح کی سینکڑوں مثالیں دی جا سکتی ہیں۔
ضعیف احادیث کے متعلق محدثین کرام رحمہ اللہ کی کیا آراء ہیں اور اس میں کس قدر احتیاط کا رویہ اختیار کیا جاتا ہا ہے؟
محدثین کرام اور ائمہ عظام احدیث کو دین سمجھتے تھے جیسا کہ امام ابن سیرین فرماتے ہیں:
"ان ھذ العلم دین فانظروا عمن تاخذون دینکم" (مسلم ص ۱۱)
اور امام انس بن سیرین فرماتے ہیں:
اتقوا یا معشر الشباب فانظروا عمن تاخذون ھذا الاحادیث فانھا دینکم
"اے نوجوانوں! تم احتیاط کرو۔ اور جس سے یہ احادیث لیتے ہو اسے دیکھو( کیا وہ اس لائق بھی ہے یا نہیں) کیونکہ یہ احادیث تمھارا دین ہیں۔
( التمھید شرح مؤطا ص ۱۷)
امام مالک فرماتے ہیں:
" حدیث کا علم دین ہے تم دیکھو دین کس سے حاصل کرتے ہو ، میں نے ستر (۷۰) ایسے لوگ دیکھے ہیں جو مسجد نبوی میں بیٹھ کر کہتے تھے مجھ سے فلاں نے روایت کی کہ رسول اللہ نے فرمایا: مگر میں نے ان کی روایات قبول نہیں کیں۔"
(التمھید ص ۱۷ ج۱)
ان آثار سے ظاہر ہے کہ متقدمین محدثین ہر قسم کی احایدث میں تحقیق کرتے تھے اور وہ صرف ثقہ راویوں کی روایات قبول کرتے تھے جیسا کہ امام سعید بن ابراہیم فرماتے ہیں:
لا یحدث عن رسول اللہ إلا الثقاتف
صرف ثقہ راویوں سے حدیث رسول لی جائے۔
(سنن دارمی ج۱ ص ۹۳)
امام مسلم فرماتے ہیں:
"محدثین نے خود پ اویوں کے عیوب ظاہر کرنے کو لازم کر رکھا ہے اس لیئے کہ اس میں بہت سا خطرہ ہے کیونکہ دین کے بارے میں جو خبریں ہیں وہ حلال، حرام، امر نہی اور ترغیب و ترہیب (فضائل اعمال) کو بیان کرتی ہیں ایسا راوی جو صدق و امانت کا خوگر نہیں اس کا لوگوں پر عیب ظاہر نہ کرنے والا شخص مسلمان عوام کوھوکا دیتا ہے۔"
(مقدمہ صحیح مسلم ص 20 ج1)
یہی وجہ ہے کہ ائمہ نقاد بلا تفریق فضائل و دیگر معاملات میں ضعیف روایات کو قابل عمل نہیں سمجھتے تھے جن میں امام یحیی بن معین ، امام بخاری ، امام مسلم،امام ابن حزم اور ابو بکر بن العربی اور احمد شاکر مصری رحمہم اللہ ہیں۔
(قواعد التحدیث للقاسمی ص 113 ، الباعث الحشیث ص 76)
رضاخانی حضرات جو فضائلِ اعمال میں ضعیف روایات کی مقبولیت کا رونا روتے نہیں تھکتے وہ بھی صرف اپنی من پسند روایات کے لیئے اس اصول کو پیش کرتے ہیں ورنہ مخالفین کے پاس بھی کا تعداد ضعیف روایات موجود ہیں لیکن رضاخان ان روایات کو تسلیم کرنے کے لیئے تیار نہیں کیونکہ وہ روایات ان کے عقائد اور مذہب کے خلاف ہیں۔
نا أَبُو مُوسَى، نا مُؤَمَّلٌ، نا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ: «صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى عَلَى صَدْرِهِ»
ہم سے أبوموسی نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے مؤمل بن اسماعیل نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے سفیان نے بیان کیاانہوں نے : عاصم بن کلیب سے روایت کیاانہوں نے ، اپنے والد سے روایت کیاانہوں نے، وائل بن حجر سے روایت کیاکہ انہوں نے کہا:''میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازپڑھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ پر رکھ کرانہیں اپنے سینے پررکھ لیا۔
(صحیح ابن خزیمة (ج 1ص243):ـکتاب الصلوة:باب وضع الیمین علی الشمال فی الصلوةقبل افتتاح الصلوٰة،حدیث نمبر479۔
لیکن رضاخانی و دیوبندی اس حدیث کو نہیں مانتے۔ اس طرح کی سینکڑوں مثالیں دی جا سکتی ہیں۔