کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
کیا قید کی سزا اسلامی ہے؟
کیا اسلامی قوانین کے تحت کسی جرم کی سزا قید ہو سکتی ہے؟
کیا قرآن مجید میں کہیں قید کی سزا کا ذکر ہے؟
کیا کسی بھی فقہ میں کسی جرم کی سزا کے طور پر کسی بھی مدت کے لیئے قید کی سزا تجویز کی گئی ہے؟
کیا رسول اﷲ اور ان کے بعد خلفاءِ راشدین کے دور میں جیل موجود تھے؟
قرآن مجید میں جن سزائوں کا ذکر ہے ان میں کوڑے مارنا، ہاتھ کاٹنا، جرمانہ اور سر قلم کرنا شامل ہیں۔
اس کے علاوہ قصاص اور دیت کا بھی ذکر ہے۔
اگرچہ حضرت یوسف کے قصہ میں ان کے قید خانہ میں کئی سال تک رہنے کا ذکر ہے لیکن وہ اپنی رضامندی سے رہے، نہ کہ کسی قانون کے تحت جرم کی سزا کے طور پر۔ (اگر سزا ہوتی بھی تو ظاہر ہے اسلامی قوانین کے مطابق نہ ہوتی کیونکہ وہ تو اس وقت تھے ہی نہیں۔) اس کے علاوہ قید کی سزا کا ذکر کہیں نہیں ملتا۔
نافرمانی کی صورت میں عورت کو گھر میں بند رکھنے کا بھی حکم ہے، لیکن یہ نظر بندی کسی جرم پر قید کی سزا نہیں سمجھی جا سکتی۔
مسلم بادشاہوں کے دور میں قید خانے ضرور ہوتے تھے لیکن ان میں ان افراد کو رکھا جاتا، جن سے بادشاہ ناراض ہوتا یا جن سے بغاوت کا خطرہ ہوتا۔ چنانچہ یہ قید دراصل سیاسی مخالفوں کی نظربندی ہوتی اور اس کی کوئی مدت بھی مقرر نہ ہوتی۔ کسی قانون کی خلاف ورزی یا کسی جرم پر قاضی جو سزائیں دے سکتا تھا، ان میں قید شامل نہ ہوتی تھی۔ میرے ناقص علم کے مطابق فقہ کی کتابوں میں جہاں ہر جرم اور اس کی سزا کی تفصیلات درج ہیں وہاں یہ نہیں لکھا گیا کہ کسی جرم پر مقررہ مدت کے لیئے قید کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔
سزا کی قسمیں
جنوبی ایشیا میں قید کی سزا انگریزوں کے بنائے ہوئے مجموعہ تعزیرات ہند (انڈین پینل کوڈ) 1860 کے ذریعے نافذ کی گئی۔ انگریزوں کے لیئے یہ کوئی غیرمعمولی بات نہ تھی کیونکہ ان کے ملک میں یورپ کے دوسرے ملکوں کی طرح صدیوں سے قید کی سزا موجود تھی اور مختلف جرائم کے لیئے مختلف مدتیں مقرر تھیں۔ انہوں نے جنوبی ایشیا بھر میں، بقول شخصے، جیلوں کا جال بچھا دیا، جہاں عداتوں سے قید کی سزا پانے والوں کو رکھا جانے لگا۔ ایک مفصل ہدائت نامہ (مینوئل) نافذ کیا گیا، جس میں جیل کے نظام اور قیدیوں کے بارے میں تفصیل سے ہدایات درج تھیں۔
1993 میں مجموعہ تعزیرات پاکستان میں ترمیم کر کے 16 ویں باب (دفعات 299 تا 338) کی جگہ نیا باب شامل کیا گیا تاکہ انسانی زندگی کے بارے میں جرائم کی سزائیں اسلامی تعلیمات کے مطابق کی جائیں۔ نئے باب میں نئی اصطلاحات کی تعریف بھی کی گئی۔ ان کے مطابق
”ارش“ سے مراد اس باب میں متعین وہ معاوضہ ہے، جو اس باب کے تحت جرم کا نشانہ بننے والے یا اس کے وارثوں کو دیا جائے گا۔
”ضَمان“ سے مراد وہ معاوضہ ہے جو عدالت طے کرے لیکن جو ارش کے تحت نہ آتا ہو۔
”دِیت“ وہ معاوضہ ہے جو دفعہ 323 کے تحت وارثوں کو دیا جائے گا۔ اس کا تعین جج قرآن و سنت کے مطابق اور مجرم اور اس کے جرم کا نشانہ بننے والے کے وارثوں کی مالی حیثیت کو سامنے رکھ کر کرے گا۔ یہ رقم 30,600 روپے یا 30 گرام چاندی کی حکومت کی طرف سے طے کردہ مالیت سے کم نہیں ہوگی۔
”قصاص“ سے مراد مجرم کو جسم کے اسی حصے پر ویسی ہی ضرب لگانا ہے، جیسی اس کے جرم کا نشانہ بننے والے کو لگائی گئی اور قتل عمد کی صورت میں موت کی سزا دینا ہے۔ یہ سزا جرم کا نشانہ بننے والے یا اس کے ولی کی مرضی سے دی جائے گی۔
”تعزیر“ سے مراد وہ سزا ہے جو قصاص، دیت، ارش اور ضمان کے تحت نہیں آتی۔
مجموعہ تعزیرات پاکستان کے تیسرے باب کی دفعہ 53 کے تحت مختلف جرائم پر یہ سزائیں دی جا سکتی تھیں:
موت، عمر قید، قید محض، قید با مشقت، جائداد کی ضبطی اور جرمانہ۔ ترمیم کر کے ان میں قصاص، دیت، ارش، ضمان اور تعزیر کو بھی شامل کر لیا گیا۔
مجموعہ تعزیرات میں ترمیم کے تحت ہر قسم کی قید کی سزا کو تعزیر میں شامل کر لیا گیا۔ جن علما نے اس کی توثیق کی انہیں یقیناً علم ہو گا کہ قید کی سزا نہ قرآن مجید میں کہیں درج ہے اور نہ فقہ میں اس کا کہیں ذکر ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے اسے قبول کر لیا۔ ہمارے حکمرانوں کی تو سوچ ہی یہی رہی ہے کہ جو نظام ورثہ میں ملا ہے اس میں کوئی بنیادی تبدیلی نہ کی جائے تاکہ ان کی ”روشن خیالی“ پر حرف نہ آئے اور انہیں ”بنیاد پرست مسلمان“ نہ سمجھا جائے۔
ان کی ذہنی تربیت بھی اس طرح ہوتی ہے کہ وہ ہر معاملہ میں یورپ اور امریکہ کی سوچ ہی کو سند سمجھتے ہیں، چاہے وہ واضح طور پر اسلامی تعلیمات کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ انہوں نے سود کو ختم کرنے کی بجائے ”مارک اپ“ کے نام سے برقرار رکھا اور علماء نے اس کی تائید کر دی، یہ جانتے ہوئے بھی کہ قرآن مجید میں ربا کو واضح طور پر حرام قرار دیا گیا ہے۔ لیکن اسلام کی تعلیمات کسی نظریہ ضرورت کے تابع نہیں ہو سکتیں۔ چنانچہ جس طرح سود کو بالکل ختم کرنے کی ضرورت ہے، اسی طرح قید کی سزا کو بھی تعزیرات میں سے نکالنا ضروری ہے۔
آئین کی دفعہ 2 میں اسلام کو ریاست کا دین کہا گیا ہے اور دفعہ 227 میں کہا گیا ہے کہ تمام موجودہ قوانین کو اسلامی تعلیمات کے مطابق بنایا جائے گا اور ان تعلیمات کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا۔ چنانچہ قید کی سزا کو خلاف اسلام ہونے کی بنا پر تعزیرات میں سے حذف کرنا لازمی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ جو لوگ کوڑے مارنے اور ہاتھ کاٹنے کی سزائیں نافذ کرنے پر زور دیتے ہیں، وہ قید کے خلاف اسلام ہونے پر غور نہیں کرتے۔
قید کیوں نہیں؟
اسلام کی تعلیمات میں قید کی سزا کا ذکر کیوں نہیں ملتا؟ اس کی وجہ بالکل واضح ہے۔ اسلام دین فطرت ہے اور اس کی تعلیمات اور احکام میں ہر امر فطرت کے مطابق ہے۔ چنانچہ کوئی ایسی سزا مقرر نہیں کی گئی جو فطرت کے خلاف ہو۔ کوڑے مارنا، ہاتھ کاٹنا یا جرمانہ ایسی سزائیں ہیں، جن سے مجرم کو یقیناً تکلیف ہوتی ہے۔ اسے احساس ہوتا ہے کہ اس نے معاشرہ یا اس کے کسی فرد کو جو نقصان پہنچایا اسے اس کی سزا دی گئی ہے۔ اس کی سزا سے دوسروں کو بھی عبرت ہوتی ہے کہ اگر وہ جرم کریں گے تو انہیں بھی اسی طرح سزا ملے گی۔ لیکن ان میں سے کوئی سزا بھی مجرم کی باقی زندگی پر حاوی نہیں ہوتی۔ دوسرے لفظوں میں، جرم کی سزا تو مل جاتی ہے لیکن مجرم باقی زندگی اپنی مرضی کے مطابق گزار سکتا ہے۔ اگر وہ اپنی اصلاح کر لے اور نیکی کا راستہ اپنا لے تو اپنی ذات اور اپنے معاشرہ کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ بقایا زندگی اس کی اپنی ہے اور وہ اسے پوری آزادی اور اپنی مرضی سے گزار سکتا ہے۔
اس کے برعکس، قید کی سزا مجرم سے اس کا وقت چھین لیتی ہے، جو اس کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ وہ جتنی بار چاہے توبہ کر لے، جتنی چاہے معافی مانگ لے، اسے وہ مدت جیل ہی میں گزارنی ہوتی ہے، جس کا تعین عدالت کر دے۔ وہ وقت جو وہ اپنی اور اپنے خاندان کی بہتری کے لیئے استعمال کر سکتا ہے اور جس سے معاشرہ کو فائدہ پہنچا سکتا ہے وہ اسے جیل کی کوٹھڑی میں ہر صورت میں گزارنا ہوتا ہے۔
قید کی سزا اس وقت کہیں زیادہ ظالمانہ ہو جاتی ہے جب کسی ملزم کو بے قصور ہونے کے باوجود صرف اس لیئے سزا دے دی جاتی ہے کہ استغاثہ کے دلائل اور گواہوں کے بیانات نے عدالت کو قائل کر دیا تھا کہ جرم اسی نے کیا تھا۔ ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں جب کسی کو بلاجواز سزا ملنے پر اپنی زندگی کا بہترین حصہ جیل میں گزارنا پڑا اور بعد میں اصل مجرم کوئی اور نکل آیا۔ ایسی صورت میں کیا کوئی بے قصور قیدی کے اس کھوئے ہوئے وقت کو واپس لا سکتا ہے جو جیل میں ضائع ہو گیا؟ کیا معاوضہ کی کوئی بڑی سے بڑی رقم اس کے اس نقصان کی تلافی کر سکتی ہے جو جیل میں رہنے سے ہوا؟
دسمبر 2003 میں پشاور میں ایشیائی ترقیاتی بینک کے زیر اہتمام ایک سیمینار ہوا، جس میں معاشرہ میں عدل کے مختلف پہلوئوں کے بارے میں غور کیا گیا۔ اس میں قانون دان، دین کے عالم، پولیس افسر، انسانی حقوق کے علمبردار اور دوسرے لوگ شریک تھے۔ میں نے اپنے لیکچر کے دوران سوال اٹھایا کہ کیا قید اسلامی سزا ہے؟ اس کے علاوہ کیا یہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی نہیں کہ کسی کی زندگی کے کئی سال جیل میں ضائع کر دیئے جائیں؟ ایک بھی آواز اختلاف میں نہ آئی۔
اسلام کے مطابق معاشرہ کو یہ حق ضرور ہے کہ وہ مجرم کو سزا دے۔ ہر دور میں جرم ہوتے رہے ہیں اور ان پر سزائیں بھی ملتی رہی ہیں۔ سزا دینے سے ایک طرف مجرم کو احساس ہوتا ہے کہ اس نے دوسروں کو نقصان پہنچا کر ان کی حق تلفی کی اور دوسری طرف دوسروں کو تنبیہ ہوتی ہے کہ اگر وہ جرم کریں گے تو انہیں بھی اسی طرح سزا دی جائے گی۔ لیکن معاشرہ کو یہ حق ہرگز نہیں دیا گیا کہ وہ کسی کی زندگی کا کچھ حصہ اسے ضائع کرنے پر مجبور کرے۔ دوسرے لفظوں میں، معاشرہ کو مجرم کو سزا دینے کا اختیار تو ہے لیکن اس کی زندگی کا وقت ضائع کرنے کا نہیں۔
قید ختم کرنے سے کیا ہوگا؟
جو نظام ہمارے ہاں ڈیڑھ سو سال سے چلا آ رہا ہے، اسے ختم کرنے سے بالکل نئی صورت حال پیدا ہو جائے گی اور اس کے پیش نظر کئی تبدیلیاں کرنی ہونگیں۔ سب سے پہلے تو ان تمام قوانین میں ترمیم کرنی ہوگی، جن میں کسی خلاف ورزی پر کسی نہ کسی مدت کی قید کی سزا مقرر ہے۔ اس کے بعد ہر جرم کی سزا ان سزائوں میں سے ایک ہو گی، جو اسلام کے مطابق ہیں۔
جیسا کہ قرآن مجید میں ہے، اسلامی نظام میں تین قسم کی سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ جن جرائم کی سزا خود ﷲ تعالی نے مقرر کی ہے، اس میں تو ظاہر ہے کوئی قانون تبدیلی نہیں کر سکتا۔ کوڑے لگائے جائیں گے، ہاتھ کاٹے جائیں گے، جرمانہ ہوگا یا سر قلم کر دیا جائے گا۔ جن جرائم کا قرآن مجید میں ذکر نہیں لیکن ہمارے قوانین میں موجود ہیں، انہیں تین گروپوں میں تقسیم کر کے متعلق گروپ کے لیئے مقرر سزا دی جائے گی۔
الف)۔ مالی فراڈ، ہیرا پھیری، غبن، خرد برد، دھوکہ دہی، جعل سازی، وعدہ خلافی، ناجائز قبضہ، جائداد کو نقصان، وغیرہ، چوری کی قسم میں شامل کیئے جا سکتے ہیں۔
ب)۔ انسانی جسم کو کسی طرح سے ضرر پہنچانے اور جنسی جرائم پر کوڑے لگائے جا سکتے ہیں، جن کی کم از کم یا زیادہ سے زیادہ تعداد قانون میں مقرر کی جا سکتی ہے۔
پ)۔ وہ جرائم جنھیں اس وقت قانون کے تحت سنگین سمجھا جاتا ہے، جیسے ڈاکہ، رہزنی، دہشت گردی، زنا بالجبر، منشیات فروشی، وغیرہ، انہیں قتل کی قسم میں شامل کیا جا سکتا ہے اور ان پر سر قلم کرنے کی سزا دی جا سکتی ہے۔ (البتہ قتل میں صرف قتل عمد شامل ہوگا، جو جان بوجھ کر کیا جاتا ہے۔ قتل خطا پر قصاص یا دیت کا اطلاق ہوگا، جیسے غلطی سے یا حادثاتی پر کسی کو ہلاک کر دینا۔) جن سنگین جرائم پر موت کی سزا دی جا سکتی ہے ان کے ساتھ متبادل کے طور پر قید کی سزا ختم کر دی جائے گی۔
عائد کیا گیا جرمانہ یا تو جرم کی زد میں آنے والوں کو بطور تلافی دے دیا جائے گا یا سرکاری خزانہ میں جمع کرا دیا جائے گا۔ جرمانہ سے مظلوم یا حکومت کا فائدہ ہوگا جبکہ مجرم کو جیل میں ڈالنے سے دونوں میں سے کسی کو کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ بلکہ سرکار کو تو الٹا سالہا سال تک مجرم پر خرچہ کرنا پڑتا ہے جو آخرکار عوام سے ٹیکس کی شکل میں وصول کیا جاتا ہے۔ گویا جرم کی سزا معاشرہ کو بھی بھگتنی پڑتی ہے۔
صدر ضیاء الحق کے دور میں چار حدود آرڈینینس نافذ کیئے گئے، جن میں وہ تمام سزائیں درج تھیں جو اسلامی فقہ کے مطابق دی جا سکتی ہیں۔ ان حدود میں قید شامل نہ تھی۔
ملزم کیوں فرار نہیں ہو گا
آج اگر کسی کے خلاف کوئی مقدمہ درج ہو جائے تو عام طور پر وہ چھپ جاتا ہے یا فرار ہو جاتا ہے۔ اس دوران وہ کوشش کرتا ہے کہ ضمانت قبل از گرفتاری کرا لے۔ اس کے گرفتاری نہ دینے کی تین وجوہ ہوتی ہیں:
الف)۔ ملزم کو ڈر ہوتا ہے کہ پولیس اسے تھانہ کی حوالات میں بند کر دے گی اور اس پر تشدد کر کے اقبال جرم کرانے کی کوشش کرے گی، چاہے وہ بے قصور ہی کیوں نہ ہو۔ اگر وہ تشدد سے بچنا چاہتا ہو تو اسے بھاری رشوت دینی پڑتی ہے۔ اگر جسمانی تشدد نہ ہو تو بھی حوالات کی حالت اتنی خراب ہوتی ہے کہ اس میں میں چند گھنٹے گزارنا بھی مشکل ہوتا ہے۔
ب)۔ کسی جج کے سامنے ضمانت کے لیئے پیش کرنے میں تاخیر کی صورت میں ملزم کو حوالات ہی میں رہنا پڑتا ہے۔ یہ تاخیر جج کی مصروفیت کی بنا پر کئی دن بلکہ کئی ہفتے کی بھی ہو سکتی ہے۔ پھر یہ بھی یقین نہیں ہوتا کہ عدالت ضمانت لے لے گی۔ عام طور پر عدالت پولیس کی ایک دو ہفتے کے لیئے ریمانڈ کی درخاست منظور کر لیتی ہے، جس دوران ملزم پولیس کی تحویل میں رہتا ہے اور اس سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔ حقائق اگلوانے یا اقبال جرم کرانے کے لیئے تشدد بھی کیا جا سکتا ہے۔
پ)۔ اگر عدالت ضمانت کی درخاست منظور نہ کرے اور پولیس کو ریمانڈ بھی نہ دے تو ملزم کو جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد ملزم کو پولیس کے تشدد سے بچانا ہوتا ہے۔ پولیس کو پوچھ گچھ کے لیئے ملزم سے جیل میں ملنا پڑتا ہے۔ لیکن جیل کے حالات بھی تھانہ کی حوالات سے بہتر نہیں ہوتے۔
اگر ملزم کو یقین ہو کہ گرفتاری کے بعد اسے نہ تو حوالات میں بند کیا جائے گا اور نہ جیل بھیجا جائے گا بلکہ ضمانت لے کر چھوڑ دیا جائے گا تو وہ فرار ہونے کی کوشش کیوں کرے گا؟
عدالت میں حاضری یقینی بنانے کے لیئے ایک صورت تو ضمانت ہے۔ یہ ضمانت تھانیدار بھی لے سکتا ہے۔ اس وقت بھی اسے قانونی طور پر اختیار ہے کہ گرفتاری کے بعد بعض صورتوں میں ملزم کو اس کی ذاتی ضمانت پر رہا کر دے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ عام طور پر یہ اختیار استعمال نہیں کرتا اور اس ڈر کے مارے ضمانت کا فیصلہ عدالت پر چھوڑ دیتا ہے کہ کہیں مدعی فریق اس پر ملزم سے رشوت لینے کا الزام نہ لگا دے۔ یہ ضمانت عبوری ہو گی اور اس وقت تک رہے گی جب تک عدالت مقدمہ کی پوری صورت حال کا جائزہ لے کر مستقل ضمانت نہیں لے لیتی۔
تھانیدار کو صرف یہ دیکھنا ہوگا کہ ملزم کے فرار کا کتنا امکان ہے۔ بہت سی صورتوں میں ایسے شریف اور مسکین افراد کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا جاتا ہے، جن کے گھر چھوڑ جانے کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ ملازمت اور کاروبار کرنے والے بھی فرار ہونے کا نہیں سوچتے کیونکہ ان کے غائب ہو جانے سے ان کا اور ان کے گھر والوں کا بہت زیادہ نقصان ہو سکتا ہے۔ جب تھانیدار کو معلوم ہو گا کہ ملزم کے فرار ہونے کا امکان بہت کم ہے تو وہ ملزم کی ذاتی ضمانت موقع پر ہی لے سکتا ہے۔ اگر مزید اطمینان کرنا چاہے تو عزیزوں، رشتہ داروں میں سے بھی بعض کی ضمانت لے سکتا ہے۔ سنگین جرم کی صورت میں شخصی ضمانت کے ساتھ جائداد یا مال کی ضمانت بھی لی جا سکتی ہے۔ صرف عادی مجرموں کے فرار کا امکان ہوسکتا ہے لیکن وہ بھی زیادہ دن غائب نہیں رہ سکتے کیونکہ غیرحاضری سے انہیں کہیں زیادہ نقصان ہوگا، جیسا کہ آگے وضاحت کی جائے گی۔
تھانیدار کی لی ہوئی ضمانت عبوری ہوگی اور اس وقت تک رہے گی جب تک عدالت مقدمہ کی پوری صورت حال کا جائزہ لے کر مستقل ضمانت نہیں لے لیتی۔ عدالت میں استغاثہ اور صفائی میں بحث اس پر نہیں ہوگی کہ ضمانت لی جانی چاہیئے یا نہیں کیونکہ ضمانت نہ لینے کا تو سوال ہی نہ ہوگا۔ بحث صرف اس پر ہوگی کہ جائداد یا مال کی صورت میں کتنی مالیت کی ضمانت مناسب ہوگی اور کیا ملزم کی اپنی ضمانت کے ساتھ مزید ضامن بھی ضروری ہونگے؟۔
کسی ملزم کے فرار کا امکان ایک اور طریقہ سے مزید کم کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت قانون یہ ہے کہ اگر ملزم مفرور ہو جائے تو اس کے خلاف مقدمہ کی سماعت نہیں ہو سکتی۔ اسے بدل دیا جائے گا اور ملزم کی غیرحاضری میں بھی مقدمہ کی سماعت ہو گی اور شہادتوں اور گواہیوں کی بنا پر سزا سنائی جا سکے گی۔ ملزم جب بھی گرفتار ہو گا، اسے سزا دے دی جائے گی۔ مقدمہ کی سماعت بھی دوبارہ نہیں ہو گی کیونکہ ملزم نے غائب ہو کر خود ہی اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع کھو دیا۔ جب ملزم کو معلوم ہو گا کہ حاضر رہنے کی صورت میں وہ مقدمہ کی پیروی کر سکے گا اور پوری طرح اپنی صفائی دے سکے گا تو وہ غائب نہیں ہو گا۔ چنانچہ وہ تو تھانیدار کو دی گئی ضمانت کی بھی خلاف ورزی نہیں کرے گا کیونکہ اسے اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ یوں وہ تمام مرحلے ختم ہو جائیں گے، جو صرف ضمانت کے لیئے طے کرنے پڑتے ہیں۔ ملزم کو وہ قید بھی نہیں کاٹنی پڑے گی جو صرف ضمانت کے انتظار میں ہوتی ہے اور جس کا جرم کی سزا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
ضمانت کے بعد تفتیش اور کاروائی
اس وقت ملزم حوالات میں اس لیئے بھی بند کیا جاتا ہے تاکہ تفتیش میں آسانی ہو۔ ضمانت کے بعد ملزم کے تعاون نہ کرنے کا خدشہ ہو سکتا ہے۔ اگر پولیس اس کے گھر جائے تو وہ چھپ سکتا ہے یا غائب ہو سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ پولیس بار بار گھر کے چکر نہیں لگا سکتی۔ اس کا حل یہ ہے کہ عدالت ملزم کو پابند کر دے کہ وہ ہر روز مقررہ وقت پر چند گھنٹوں کے لیئے گھر میں موجود رہے تاکہ اس دوران پولیس اس سے پوچھ گچھ کر سکے۔ مقررہ اوقات کے علاوہ بھی اگر ضرورت ہو تو پولیس ملزم کو ساتھ لے جا کر مقدمہ سے متعلق ثبوت اور دستاویزیں، جہاں کہیں بھی ہوں، برامد کر سکے گی۔ اس طرح ملزم اپنی ملازمت یا اپنے کاروبار سے بھی غیر حاضر نہیں ہوگا اور تفتیش بھی جاری رہے گی۔ اگر ملزم تعاون نہ کرے تو پولیس عدالت سے درخاست کر سکتی ہے کہ اس کی ضمانت منسوخ کر دی جائے۔ منسوخی کی صورت میں ملزم کو مقدمہ کی کاروائی پوری ہونے تک جیل میں نظر بند کر دیا جائے گا۔ چنانچہ اس کی اپنی بہتری اس میں ہوگی کہ پولیس سے پورا تعاون کرے۔
پولیس کی طرف سے تفتیش مکمل کرنے کے بعد چالان عدالت میں پیش کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد مقدمہ کی کاروائی شروع ہو گی۔ اس دوران ملزم ہر سماعت پر حاضر ہوگا۔ کاروائی مکمل ہو جانے کے بعد اسے یا تو سزا ہو جائے گی یا بری کر دیا جائے گا۔
بعض صورتیں البتہ ایسی ہونگیں، جن میں ملزم کو ضمانت لیئے بغیر حوالات یا جیل میں بند رکھنا ضروری ہوگا۔ اگر کسی پر دشمنی یا ذاتی عناد کی بنا پر قتل کرنے کا الزام ہو تو امکان ہے کہ وہ ان کو بھی قتل کرنے کی کوشش کرے گا جو اس کے پہلے حملہ میں بچ گئے تھے یا جو موقع کے گواہ بن سکتے ہوں۔ اسی طرح زنا بالجبر کا ملزم بھی لڑکی یا عورت کو ہراساں کر سکتا ہے۔ ڈاکو یا عادی چور دوبارہ واردات کر سکتے ہیں۔ ایسے ملزم مقدمہ کی کاروائی پوری ہونے تک جیل میں رہیں گے۔ اس کے بعد انہیں یا تو جرم کے مطابق سزا دے دی جائے گی یا بے قصور ثابت ہونے پر رہا کر دیا جائے گا۔ عدالتوں کو پابند کیا جا سکتا ہے کہ وہ سنگین جرائم کے مقدموں کی سماعت جلد از جلد کریں تاکہ جیل میں نظربندی کی مدت کم از کم ہو۔ چونکہ سنگین جرم، خاص طور پر وہ جن پر اس وقت قتل یا عمرقید کی سزا ہو سکتی ہے، بہت کم ہوتے ہیں، اس لیئے مقدمہ کی سماعت تک جیل بھیجنے کی نوبت کبھی کبھار ہی آئے گی۔
سزا کے بعد فرار
فرض کریں کہ ملزم کو یقین ہو جاتا ہے کے اس کے خلاف ٹھوس شہادتوں کی بنا پر اسے سزا ہو جائے گی۔ چنانچہ وہ فرار ہو سکتا ہے۔ اس سے بجائے اس کے بچنے کے سزا یقینی ہو جائے گی۔ قانون میں ترمیم کر دی جائے گی کہ اگر ملزم عدالت کی اجازت یا معقول جواز کے بغیر کسی پیشی پر حاضر نہ ہو تو سمجھا جائے گا کہ اس نے واقعی جرم کیا ہے اور اس کا فرار بذات خود کافی ثبوت ہے۔ یوں فیصلہ اس کے خلاف کر دیا جائے گا۔ چنانچہ غیر حاضری کا مطلب کاروائی کو طول دینا یا سزا سے بچنا نہیں بلکہ یقینی طور سزا بھگتنا ہوگا۔ جان بوجھ کر فرار ہونے کی بنا پر اسے سزا کے خلاف اپیل کرنے کا بھی حق نہ ہوگا۔
فرض کیا کہ اس کے باوجود ملزم فرار ہو جاتا ہے۔ اس پر عدالت اسے مجرم قرار دے کر سزا سنا دے گی۔ سزا کا حکم تا حیات قابل عمل ہوگا۔ چنانچہ باقی زندگی کے دوران مجرم کسی وقت بھی پکڑا جائے تو سزا پر عمل کرایا جائے گا۔ سزایافتہ افراد کو مخبری ہونے پر ملک بھر میں کہیں سے بھی گرفتار کیا جا سکے گا۔ اس مقصد کے لیئے ہر ضلع کی پولیس کو باخبر کیا جا سکتا ہے۔ اس کا برا چاہنے والے قریبی لوگ بھی اس کے خلاف مخبری کر سکتے ہیں۔ مجرم جونہی اپنے گھر والوں یا عزیزوں اور دوستوں سے رابطہ کرے گا تو اس کا سراغ مل جائے گا۔ اس طرح وہ سزا سے صرف کچھ مدت کے لیئے ہی بچ سکے گا۔ اس سے کہیں بہتر ہوگا کہ ملزم سزا بھگت لے تاکہ نئے سرے سے زندگی شروع کر سکے۔
سزا سے بچنے کے لیئے مجرم ملک سے باہر جا سکتا ہے۔ بظاہر یہ ترکیب آسان نظر آتی ہے لیکن اس پر عمل کر کے وہ اپنے گھر والوں، رشتے داروں اور دوستوں سے ملنے کے لیئے کبھی نہیں لوٹ سکے گا۔ یہ بذات خود بہت بڑی سزا ہے۔ آج بھی جو لوگ مفرور ہو کر ملک سے باہر ہیں وہ آپ کو بتائیں گے کہ اس سے بڑی سزا نہیں ہو سکتی۔ وہ اجنبی دیس میں ہر وقت تڑپتے رہتے ہیں لیکن سکون نہیں ملتا۔ بظاہر آزاد ہونے کے باوجود انہیں جیل کی بند کوٹھڑی سے زیادہ سخت سزا ملتی رہتی ہے۔ (گھر والوں اور عزیزوں سے دوری اپنی مرضی سے ہو تو بھی بڑی تکلیف دہ ہوتی ہے۔) مفرور مجرم کو یہ دھڑکا بھی لگا رہے گا کہ ملک سے باہر بھی گرفتاری ہو سکتی ہے اور دوسرے ملکوں سے مجرموں کے تبادلے کے معاہدوں یا پولیس کے عالمی نظام، انٹرپول، کے تحت پتہ چلنے پر کسی بھی اسے واپس لایا جا سکتا ہے۔
فرار کا معاشرہ کو فائدہ
اس وقت قید کی سزا ملنے کے بعد مجرم کو جیل میں رکھنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایک طرف تو اسے اپنے کیئے پر سزا ملے اور دوسری طرف اس کے شر سے معاشرہ محفوظ رہے، جس میں اس کا گاؤں یا محلہ اور اردگرد کی آبادی شامل ہے۔ مجرم کا ہمیشہ کے لیئے جلاوطن ہو جانا اس معاشرہ کے لیئے راحت کا باعث ہوگا جہاں جرم کیا گیا۔ معاشرہ مجرم کے وجود سے پاک ہو جائے گا۔ اس طرح جرم کی سزا کا مقصد بھی پورا ہو جائے گا اور مجرم کی باقی زندگی کے مہینے اور سال بھی اس کے اپنے رہیں گے، جو بحیثیت انسان اس کا حق ہے۔ معاشرہ کو یہ راحت تو مجرم کو عمر قید کی سزا سے بھی نہیں ملتی کیونکہ اسے کاٹ کر وہ پھر واپس آ سکتا ہے اور مجرمانہ زندگی کا آغاز کر سکتا ہے یا اپنے دشموں سے بدلہ لے سکتا ہے۔ ملک سے فرار کی صورت میں بھی مجرم کو سزا ملے گی گو اس کی نوعیت جسمانی نہیں بلکہ ذہنی اور نفسیاتی ہو گی۔
(محمد عبدالحمید، لاہور)