• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا متعین وقت اور تعداد والے اذکار کسی بھی وقت کیے جا سکتے ہیں؟

علی محمد

مبتدی
شمولیت
مارچ 03، 2023
پیغامات
52
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
21
"ایسے مخصوص ذکر و اذکار جن کا رسول اللہ نے وقت اور تعداد متعین کی ہے، انہیں اسی طرح پڑھنا پڑے گا۔ اس میں کسی بھی طرح کا رد و بدل اور اپنی مرضی شامل نہیں کی جا سکتی۔ لیکن ایسے اذکار جن میں وقت اور تعداد کا تعین نہیں ہے، انہیں جب چاہے پڑھا جا سکتا ہے۔"
اول:
جن اذکار کو صبح اور شام کے اذکار کہا جاتا ہے انہیں ممکن ہے کہ ذکر کے سارے وقت میں پڑھا جائے یعنی دن کے مکمل دونوں حصوں میں ، چنانچہ یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ ایک ہی وقت میں اور ایک ہی مجلس میں بیٹھ کر یہ ذکر کریں، کچھ لوگ ایک ہی مجلس میں اذکار پڑھنا لازمی سمجھتے ہیں، اور ایسے اذکار جن کے اجر و ثواب میں پڑھنے والے کے لیے تحفظ کی ضمانت ہے انہیں دیگر اذکار سے پہلے پڑھے، ہماری یہ بات ایسے اذکار کے متعلق ہے جنہیں متعدد بار نہیں صرف ایک بار پڑھنا ہوتا ہے۔
دوم:
جن اذکار کو مخصوص تعداد میں پڑھا جاتا ہے ان کی تعداد میں اجر و ثواب کی امید رکھنے والے کے لیے رد و بدل کرنا جائز نہیں ہے ، اگر کوئی کرتا ہے تو وہ مسنون طریقے کی مخالفت کر رہا ہے اور اجر سے محروم ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
اس سے یہ استنباط کیا گیا ہے کہ اذکار کی مخصوص تعداد کا خیال رکھنا مطلوب ہے، وگرنہ یہ کہنا بھی ممکن تھا کہ اس ذکر کے ساتھ 33 بار لا الہ الا اللہ کا اضافہ بھی کر دو، اسی لیے بعض اہل علم کہا کرتے تھے کہ ایسے اذکار جن کی تعداد مخصوص ہے جیسے کہ نماز کے بعد کے اذکار کو مخصوص تعداد میں پڑھنا ہوتا ہے تو کوئی ان کی تعداد میں اضافہ کر دے تو اسے وہ مخصوص اجر نہیں ملے گا؛ کیونکہ اس بات کا احتمال موجود ہے کہ مخصوص عدد کی خصوصیت اور حکمت ہے جو کہ اس عدد سے تجاوز کرنے پر فوت ہو جاتی ہے۔
" فتح الباری" ( 2 / 330 )
اس موقف کی مخالفت کرنے والے کہتے ہیں کہ وہ شخص ثواب سے محروم نہیں ہو گا اور زائد ذکر کو اس بات پر محمول کیا جائے گا کہ وہ حکم عدولی نہیں کرنا چاہتا بلکہ اس کی نیت ہے کہ حکم کی تعمیل کے بعد اس ذکر کو نفلی طور پر پڑھے، منصوص اجر سے بڑھ کر حاصل نہیں کرنا چاہتا۔ یہی توجیہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اپنے استاد عراقی رحمہ اللہ کے موقف کی سابقہ مقام پر بیان کی ہے۔
سوم:
سوال کے متعلق یہ ہے کہ: دن کے دونوں حصوں میں کہے جانے والے اذکار میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں پوری صبح اور پوری شام میں تقسیم کر کے پڑھا جا سکتا ہے اس کے لیے نہ تو کسی تعداد کو مخصوص کیا جائے اور نہ ہی کسی عمل سے پہلے یا بعد میں اسے معین کیا جائے، بلکہ سارے وقت میں جیسے فرصت ہو پڑھ لے اس کے لیے مخصوص کیفیت اپنانے کی بھی ضرورت نہیں ہے، اس میں افضل یہ ہے کہ ایک وقت میں بیٹھ کر ذکر کی تعداد مکمل کرے تا کہ شمار کرنے میں بھی آسانی ہو اور بھولنے کا خدشہ بھی نہ ہو، تاہم جواز کی حد تک یہ ٹھیک ہے کہ تسلسل کے ساتھ ایک ہی مجلس میں پڑھنا لازم نہیں ہے، ہم نے جو موقف ذکر کیا ہے یہی درج ذیل حدیث کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص سو مرتبہ ایک دن میں کہے:{ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ} تو اس کے گناہ مٹا دیے جاتے ہیں اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔ ) اس حدیث کو امام بخاری: (6042) اور مسلم : (2691) نے روایت کیا ہے۔
علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حدیث کے اطلاق سے یہی مفہوم ظاہر ہوتا ہے کہ ایک دن میں مذکورہ ذکر کہنے والے کو مذکورہ اجر و ثواب مل جاتا ہے، چاہے وہ تسلسل کے ساتھ ایک ہی مجلس میں پڑھے یا الگ الگ مجالس میں پڑھے، کچھ حصہ دن کے آغاز میں پڑھے یا کچھ آخر میں۔ تاہم افضل یہی ہے کہ دن کے آغاز میں تسلسل کے ساتھ پڑھ لے تا کہ اسے پورے دن میں تحفظ حاصل ہو۔" ختم شد
" شرح مسلم " ( 17 / 17 )
اسی طرح علامہ بدر الدین عینی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حدیث مبارکہ میں لفظ یوم آیا ہے، اور اس کے بارے میں طیبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: جب لفظ یوم مطلق ہے اور یہ نہیں بتلایا گیا کہ کس وقت میں تو پھر اسے کسی خاص وقت کے ساتھ مقید نہیں کیا جائے گا۔" ختم شد
" عمدة القاری شرح صحيح البخاری " ( 23 / 25 )
خلاصہ:
افضل یہی ہے کہ مذکورہ تعداد میں ذکر کو ایک ہی مجلس میں پڑھ لے، اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پھر جس قدر ہو سکے جب فرصت ہو پڑھ لے، لیکن کسی قسم کی قید نہ لگائے کہ ہر نماز کے بعد مخصوص تعداد میں پڑھے۔
واللہ اعلم
ماخذ: الاسلام سوال و جواب​
 
Top