• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا مداری کو شرم آئے گی

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
جعلی ڈگری والے عامر لیاقت حسین کے بارے میں اس اخبارنویس کی رائے بہت ہی منفی ہے۔ میرے نزدیک یہ شخص دین کا مذاق اڑانے والا، رمضان کا تماشا بنانے، بدترین ڈرامہ بازیوں کے ذریعے ریٹنگ لینے والا ایک نہایت فضول انسان ہے، حماقت جس کے چہرے سے برستی، جہالت لبوں سے ابلتی اور کمینگی و شیطنیت اس کی آنکھوں سے ٹپکتی ہے۔ حیرت ہے کہ ایسے بدترین شخص کے پروگرام کو ریٹنگ مل جاتی ہے۔ اس سال 12 ربیع الاول کے موقع پر بدقسمتی سے چند منٹ کے لیے مجھے اس کی جیو ٹی وی پر ٹرانسمیشن دیکھنے کا موقع ملا تو بیٹھا دوبھر ہوگیا۔ اس کی حرکتیں اس قدر افسوسناک، گھٹیا اور بازاری تھیں کہ خون کھولنا شروع ہوگیا۔
میں سمجھتا تھا کہ یہ شخص جسے دنیا عامرلیاقت کہتی ہے، اپنے بدترین لمحات تک پہنچ چکا ہے، شر اس کے انگ انگ میں بھرا ہے، جسے بیچ کر یہ کروڑوں کماتا ہے، مگر نہیں میں غلطی پر تھا، کمینگی، گھٹیا پن اور بے شرمی کی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔ تحث الثریٰ سے بھی نیچے کی بعض منزلیں ایسے لوگوں کے لیے وقف ہوتی ہیں۔ آج جنگ میں اس نے کالم لکھا. ایسا شرمناک، فضول اور گھٹیا کالم کہ مجھے افسوس ہوا، اسے جنگ اخبار نے چھاپا۔ جنگ پر تنقید کی جا سکتی ہے کئی حوالوں سے، مگر بہرحال اس قسم کے شرمناک کالم کبھی یہاں شائع نہیں ہوئے تھے۔ افسوس صد افسوس۔
اور یہ کالم اس نے بزرگ کالم نویس ہارون الرشید کے خلاف لکھا۔ ہارون صاحب کی تحریروں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، ان پر تنقید کی بھی گنجائش ہے، اس خاکسار نے کئی بار ان سے اختلاف کیا اور ان کے سامنے کیا۔ وہ ایک انسان ہیں، خامیاں جس میں موجود ہونا فطری امر ہے۔ لیکن بہرحال ہارون الرشید صاحب کا کالم نگاری میں ایک بہت معتبر نام ہے۔ ان کا سحرانگیز اسلوب آج بھی ہزاروں لاکھوں کو مسحور کر دیتا ہے۔ یہ ان کا کریڈٹ ہے کہ کالموں میں قرآن وحدیث کے حوالے دینا، صوفیا کے اقوال دینا شروع کیے، اس وقت جب ایسا کرنا جرم سمجھا جانے لگا تھا۔ ہارون صاحب ٹی وی اینکرز میں بھی اپنا مقام رکھتے ہیں، بے لاگ، تیز اور کھری کھری گفتگو سنانے میں ان کا ثانی نہیں۔ اتفاق سے کل میں نے وہ پروگرام خود دیکھا جس میں یہ مجسم شر عامر لیاقت اور ہارون الرشید صاحب موجود تھے۔ ہارون صاحب کا جرم یہی ہے کہ انھوں نے ایم کیوایم جیسی بدمعاش اور فسطائیت کی علمبردار قاتل جماعت پر تنقید کی اور صاف صاف کہہ ڈالا کہ ایم کیو ایم نے میڈیا کو ہائی جیک کر رکھا تھا، اس کے خلاف ایک لفظ کوئی نہیں چھاپ سکتا تھا، اس کی بدمعاشی، ظلم اور فسطائیت کی وجہ سے۔ اس پر عامر لیاقت الجھ پڑا۔ ہارون صاحب نے اس پر کوئی غیر شائستہ جملہ نہیں کہا اور صرف اتنا کہا کہ یہ شخص جھوٹ بولتا ہے۔ اینکر نے اس پر بریک لی اور پھر بریک کے بعد عامر لیاقت نے کہا کہ میں ہارون صاحب کا احترام کرتا ہوں، وہ سینئر کالم نگار ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
یہ شخص ہارون الرشید کا جس قدر احترام کرتا ہے اور منافقت سے لبریز جملہ اس نے جس طرح ادا کیا، اس کی سچائی آج کے جنگ میں اس کا کالم پڑھ کر معلوم کی جا سکتی ہے۔ کالم اس قدر گھٹیا ہے کہ پوسٹ کے ساتھ اسے لگانا بھی مجھے ناگوار لگ رہا ہے۔ صرف عنوان لکھ رہا ہوں۔۔۔۔۔’’دنیا کا ایک بوڑھا کیڑا‘‘
اپنے قارئین اور دوستوں سے ایک معذرت کہ میں نے خلاف معمول سخت زبان لکھی اور اس بدبخت عامر لیاقت کا نام بھی کھردرے الفاظ میں لکھا، مگر یہ میرے ضبط کی انتہا ہے، ورنہ اس کا جواب قابل اشاعت زبان میں دینا ممکن ہی نہیں تھا۔ میرا بلڈ پریشر ہائی ہوگیا، اس کا کالم پڑھ کر.(عامر خاکوانی کا کالم)
 
Last edited by a moderator:

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
جناب ڈاکٹر عامر لیاقت حسین صاحب !
آج آپ نے اپنے روایتی مہمل انداز میں اپنے تئیں ایک اور معرکۃ الآراء کالم لکھ مارا…. اور چھاپنے والوں نے چھاپ بھی دیا.
تاہم آج کا کالم محض ایک فرد کی توہین اور تضحیک نہیں تھا. یہ ایک قوم کی تذلیل تھی جس پر آپ نے اپنے قلم کو رواں کیا. آپ کی اس حرکت کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا جا سکتا. آپ کو اس کا جواب دینا ہوگا.
آپ کو یہ حق کس نے دیا صاحب کہ آپ نمائندگی کے نام پر اس قوم کو بدنام کریں جس کو برصغیر تہذیب اور تمدن کی علامت کے طور پر جانتا آیا ہے؟ جس سے اس ملک کے باسی اس قدر متاثر تھے اور پاکستان بنانے میں اس کی جدوجہد کے اتنے قدردان کہ ان کی زبان کو اس ملک کی قومی زبان بنا دیا. سب کو کہا گیا یہی زبان ہماری زبان ہے. بنگال ناراض ہوا، احتجاج کیا لیکن قائداعظم نے کہا زبان تو اردو ہی ہو گی، حالانکہ خود قائداعظم کو جتنی اردو آتی تھی ہم سب جانتے ہیں. اس کے باوجود آپ جیسے “ہمدردوں” نے “اردو بولنے والے” کی اصطلاح ایک سیاسی نعرہ کے طور جاری فرمائی دریں حالیکہ آج پورا پاکستان اردو بولتا ہے.
یعنی حالی، غالب اور میر کی نمائندگی آپ کریں گے؟ اس قدر حرماں نصیبی ان غریبوں کی؟
عامر صاحب !.
تعصب کے اس ٹھیلے کو ایک طرف رکھیے اور اس قوم پر رحم کیجیے جس کے آپ چیمپئن بنے ہوئے ہیں، تعلیم، تہذیب اور تمدن کے علمبرداروں کے ساتھ یہ ظلم مت کیجیے.
سیاست کرنا ہے تو سیاسی معاملات پر کیجیے. نفرت کو سیاست مت بنائیے.
پنجاب تعصب رکھےگا؟ جس نے اپنی زبان تک بھلا دی اردو کے واسطے کہ ہم مہذب زبان بولیں گے، مہذب زبان پڑھیں گے، وہ متعصب ہوں گے؟
سندھ والے متعصب ہوں گے جنھوں نے اپنی دھرتی خالی کر دی اپنے بھائیوں کے لیے؟
آپ کا کیس بہت کمزور ہے. اس کو اسی طرح لڑنے کی کوشش کریں گے تو ہار جائیں گے. یہ 1986ء نہیں 2016ء ہے. اگر اردو بولنا ہی معیار ہے تو پھر اطلاع ہو کہ آپ کی “قوم” 20 کروڑ کی تعداد میں بستی ہے اس ملک میں. اس کو ساتھ ملا کر اپنی آواز کو توانا اور قوی کریں. یہ وہی ہیں جو آپ کے پروگرامز کو ان کے معیار سے قطع نظر دیکھتے اور کامیاب بناتے ہیں.
اپنی چھوٹی سی سیاست کے لیے اس گروہ کی تحقیر مت کیجیے جس کا “نمائندہ” بننے کا آپ کو ان دنوں اچانک سے شوق چرایا ہے. ان کو باقی ہموطنوں کے سامنے صف آراء مت دکھائیے. آپ کی مہربانی !(عاصم اللہ بخش کا کالم)
 
Last edited by a moderator:

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
عامر لیاقت صاحب کا بھلا قصور ہی کیا ہے جناب خاکوانی صاحب؟
افسوس ہم پر اور افسوس ہماری جہالت مآب برداشت پر کہ جنھوں نے شہرت کو خدا کہا اور چند ٹکوں کی خاطر وہ کچھ بھی برداشت کر گئے کہ کسی مہذب عہد میں شاید ہی کسی انسان نے یہ برداشت کیا ہو. افسوس کہ ہماری خود پر عائد کردہ اخلاقی و صحافتی پابندیاں کھلے عام بات کہنے سے مانع ہیں. ورنہ عامر لیاقت فی الاصل کیا ہے؟ کائنات کے شریف ترین انسانوں کی ناموس پر کیچڑ اچھالنے کی کمائی کھانے والا یہ آدمی کس زبان دراز قبیلے کا بےعلم علمبردار ہے. یہ سب کھل کے کہہ دیا جاتا. بہرحال کیا بھلا لوگ اتنا بھی نہیں جانتے؟ پھر مجھے بھلا بتانے کی بھی کیا ضرورت ہے کہ انٹرنیٹ اور یو ٹیوب وغیرہ پر وہ ہفوات اب بھی موجود ہیں. ان شرفائے زمیں پر کی گئی گھٹیا ترین بکواس کہ اغیار تک جن مقدس شخصیات کا نام احترام سے لیتے ہیں. اس شخص کی اسی بےلگام زبان کی صلاحیت کو جیو نے اٹھایا اور پہلی بار پھر اس اذیت ناک فنکاری کو ٹی وی پر بیچنے کا تجربہ کیا. دونمبر اور گھناؤنے کاروباروں کی طرح یہ دھندہ بھی پھر خوب چل نکلا. آپ ذرا اس ہمچو ما دیگرے نیست نفسیات رکھنے والے موصوف کا ٹریک ریکارڈ دیکھ لیجیے، کوئی صاحب عزت پھر آنجناب کی زبان دراز سے بھلا بچ بھی پایا ہے؟ ہاں ایسا ضرور ہوا کہ ہر طاقت کے سامنے آنجناب نے سجدہ کیا اور ایسا کہ عبرت کا نمونہ ہوگیا. اگر راحیل شریف ہے اور نواز شریف ہے اور ظاہر ہے یہ دو قوتوں کے نام ہیں تو اب جناب کی رمضان کی ٹرانسمیشن کا نام بھی رمضان “شریف “ہوگا. اگر فوج نے ان کے ٹی وی کا ناطقہ بند کیا ہے تو تب رمضان” پاک” ہو جائے گا. ایم کیوایم کی قوت موصوف سے بھاری ہے چنانچہ اس طاقت کے سامنے یہ صاحب اکیلے ہی نورتنوں کا پیکر واحد بن جائیں گے. اس کردار پر بھی مگر شرمسار تو وہ ہو کہ جس کی آنکھ میں ابھی حیا کی کچھ نمی باقی ہو. یہاں مگر وہ کہاں؟ چنانچہ تکبر اور سرکشی میں ڈوبا بدترین تکبر!
تکبر ہر ایک کے لیے تباہ کن ہے. بے علموں کے لیے تو مگر یہ ایسی تباہ کن رسوائی کی کبھی نہ ختم ہونے والی داستان ہو جاتا ہے کہ الامان! بد زبانی سے شرفا دامن بچاتے ہیں، اوچھے لوگ مگر اس کو اپنی طاقت جاننے لگتے ہیں اور اسی چیز کو نیچ خصلت اپنی چرب زبانی کی فتح گردان کے خود کو ناقابل تسخیر سمجھنے لگتے ہیں. کیا آپ کو یاد ہے کہ اسی گزشتہ رمضان سے پہلے جیو ٹی پر لائیو ان صاحب نے کیا فرمایا تھا؟ کہا تھا کہ رات کو روزہ و رمضان ختم ہو جاتا ہے اور پھر پرائم ٹائم شروع ہوجاتا ہے. یہ ہے اس پیارے سکالر کا مبلغ علم اور احترام رمضان و ایمان! پھر کس تکبر اور رعونت سے اس نے کہا تھا کہ تمھیں پتا بھی ہے کہ تم کس (عامر لیاقت) کے پروگرام کے بارے می بات کر رہے ہو؟ (اگرچہ درست !) اس نے کہا تھا کہ وہ یہی کرے گا ( کہ جس سے خواہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سمیت سارے مسلمانوں کے دل دکھتے رہیں) پھر اس نے پوری پاکستانی قوم کو چیلنج دیا تھا کہ اگر روک سکتے ہو تو عامر لیاقت کا پروگرام روک کے دکھاؤ. یہ فرعونی تکبر ہم نے سن تھا اور سہا تھا اور پھر لان کے ایک سوٹ، چائنہ کی ایک بائیک اور ٹی وی سکرین پر اپنی رونمائی کے عوض ہم نے اس کا عرش ہلا دیتا اور نبی کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا دل دکھا دیتا تکبر بھلا ڈالا تھا.
پھر جناب ! وہ کون سا اخلاق ہے جو محترم کے کالموں اور ٹی وی پروگراموں کی زبان سے جاری و ساری رہتا ہے. ایک لفظ اور صرف ایک لفظ اس کے لیے جامع ہے. رکاکت! جی ہاں پرلے درجے کی رکاکت اور رذالت. کیا یہ بات آپ جیسے سکالرز اور اس قوم سے اوجھل ہے کہ وہ سارے الفاظ کہ گھٹیا سمجھ کے جنھیں لغت نے بھی اپنے دامن میں جگہ نہ دی تھی، ان سب کو آں جناب نے اپنا سرمایۂ دانش جان کے سمیٹ لیا تھا اور اخبار نے انھیں ریٹنگ کی خاطر بیچا اور کس دھڑلے سے بیچا. ہم دیکھا کیے، ہم چپ رہے. منظور تھا پردہ تیرا!
اے میری بھولی پاکستانی قوم اور مکرم خاکوانی صاحب ! کیا آپ کو یاد نہیں کہ انھی موصوف نے جنید جمشید کو کس قدر گھٹیا، غلیظ اور غلاظت کی آخری پستی میں اتری بازاری اور نیچ گالی ٹی وی سکرین پر دی تھی. ماں کی گالی. اللہ کی قسم مجھے نہیں پتا کہ ایک ماں کی کوکھ سے پیدا ہونے والا کسی کو ماں کی گالی کیسے دیتا ہے؟ اور ہمیں اسلام سکھانے والے عامر لیاقت حسین نے بتایا تھا کہ ایسے! ہم جانتے ہیں کہ جنید جمشید کا وہ میدان نہ تھا، اس سے بے احتیاطی ہو گئی تھی. ایسا موقع لیکن جناب عامر لیاقت حسین کو اللہ دے. بخدا لکھتے قلم کانپتا ہے جو اس نے کہا. براہ راست جنید جمشید کی والدہ محترمہ کو ‘فاحشہ ‘ قرار دے دیا. اور کیا آنجناب کو معلوم نہ تھا کہ پیغمبر کے فرمان کی رو سے یہ دراصل انھوں نے خود اپنی پیاری والدہ ماجدہ کو گالی دی تھی. آپ نے صحابہ سے فرمایا : کوئی اپنے والدین کو برا بھلا نہ کہے! حیرت سے دنگ صحابہ نے دریافت کیا ، کیا اپنے والدین کو بھی کوئی گالی دیتا ہے؟ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، ہاں اس وقت کہ جب تم کسی کے والدین کو گالی دے کر اسے جوابی گالی کے لیے مجبور کرتے ہو تو گویا یہ اپنے ہی والدین کو گالی دینے کے مترادف ہے. بہرحال یہ بدترین اتہام تھا. یہ گندی ترین دہشت گردی تھی. مگر ہم چپ رہے. لان کے ایک سوٹ اور چائنہ کی ایک بائیک کے عوض ہم نے معاشرے کی ماں کو، اپنی ماں کو دی گئی گالی برداشت کی. یاد آیا امریکی وکیل نے ایمل کانسی کے کیس میں یہی تو کہا تھا کہ چند ڈالروں کی خاطر پاکستانی اپنی ماں تک بیچ دیتے ہیں. اور ہم نے بیچ دی. یہ الگ بات کہ مکافات عمل کی گرفت میں آئے عامر صاحب جلد ہی کسی طرف سے اپنی سگی والدہ پر ہوئے حملے کے دفاع میں جھاگ اڑا رہے تھے.
جناب مکرم ! قصور عامر لیاقت کا نہیں. عامر لیاقت ٹھیک وہی کچھ ہے جو آج منکشف ہوا ہے. اس کا اندر عین وہی ہے جو آج کے کالم سے باہر نکلتا دکھائی دیا ہے. عامر لیاقت وہی ہے، جس نے ٹی وی پر ایک محترمہ کو للچائی نظروں سے دیکھتے ہوئے، منصب شریعت سنبھالتے ہوئے، اسے دوپٹے کی رخصت عطا فرما دی تھی. سوچتا ہوں کس منہ سے اس نے کہا ہوگا کہ جس کے گلے میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پٹہ ہو اسے کسی دوپٹے شوپٹے کی ضرورت نہیں رہتی. صرف اتنا سوچیے کہ تب کسی نے کیوں نہ پوچھا کہ اہل بیت اطہار نے، سیدہ فاطمہ الزہرا نے اور امہات المومنین نے حجاب کے جو دوپٹے اوڑھے تھے تو کیا وہ اس لیے تھے کہ نعوذباللہ ان کے گلوں میں محبت رسول کے پٹے نہ تھے؟ ہم نے یہ بھی سنا اور ہم یہاں بھی چپ رہے. کسی زبان دراز سے اپنا دامن عزت بچانے اور لان کا ایک سوٹ کمانے کی خاطر . ہم چپ رہے!
حضور سانپ زہریلا ہوتا ہے، اس کے باوجود اگر ہم اسے پالتو کر لیں تو قصور سانپ کا تو نہیں نا، ہمارا ہی ہوگا! جناب مکرم اور میرے سادہ دل قارئین محترم! اگر ہم اپنا دین، اپنی ماؤں کی عزت اور اہل بیت کی ناموس بچانا چاہتے ہیں تو چپ کے روزے کے خلاف دو حرف حق ادا کرنے کی کچھ ذمے داری ہمیں بھی ادا کرنی ہوگی. سوال صرف یہ ہے کہ کیا آج کچھ لوگ اپنی ذمے داری کا احساس کرسکیں گے؟ کیا آج ہم یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ہم سیاہ کو سفید کہنے، جعلساز کو رہنما ماننے سے انکار کرتے ہیں؟ تاکہ معاشرے کو ہر قسم کی دہشت گردی سے نجات دلانے میں ہم بھی اپنا کردار ادا کر سکیں؟؟ کیا ایک زبان دراز ، ایک ٹی وی، ایک اخبار ہم عوام کی رائے سے زیادہ طاقتور ہیں ؟ کیا ابھی اگلے دن ہماری رائے نے ترکی میں ٹینکوں کو شکست نہیں دی؟ یا ابھی ہمیں اپنی اور مومنوں کی ماؤں کے لیے ابھی اور ناروا باتیں سننا اور برداشت کرنا ہیں؟؟(حافظ یوسف سراج کا کالم)
 
Last edited by a moderator:

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
ایم کیو ایم کی لگام جن ہاتھوں میں ہے ان کی ملک دشمنی سے متعلق کسی کو غلط فہمی نہیں۔ نام نہاد تجزیہ نگار جو خود کو عالم اور فنکار کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہےں، آجکل میڈیا پر الطاف حسین کا” مبینہ “لاﺅڈ سپیکر بنے ہوئے ہےں۔ رگوں میں الطاف حسین کی وفاداری کا لہوگردش کر رہا ہے۔یہ جذباتی طور پر قاتلوں کی پارٹی سے الگ ہو ہی نہیں سکا ۔مبینہ دہشت گرد تنظیم کے رہنما ءوسیم اختر جب سے گرفتار ہوئے ہیں،یہ ڈاکٹر تجزیہ نگار ایم کیو ایم کے لاﺅڈ سپیکر بنے ہوئے ہےں۔ اپنے قائد الطاف بھائی کو معصوم ثابت کرنے میں منہ سے جھاگ بہہ رہی ہے۔کراچی میں لوگ برین واش ہو سکتے ہیں ، پورا ملک برین واش کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ایم کیو ایم کا یہ لاﺅڈ سپیکر ساری قوم کو دیوانہ سمجھتے ہےں ۔خود اعتمادی کی ایک بد ترین مثال ہے۔ کہ خود کو عقل کُل سمجھتے ہےں۔ اللہ رسول سے عشق کے دعوے اور سوچ الطاف حسین کی۔ یہ اللہ کے نبی کا فرمان ہے کہ جس کے ساتھ محبت ہو گی انہی لوگوں کے ساتھ حساب ہو گا۔ وسیم اختر اب ہاتھ سے تحریر لکھ کر دیں کہ انہوں نے اپنے قائد کا چہرہ بے نقاب نہیں کیا لیکن حقیقت چھپ نہیں سکتی ، کراچی میں گرنے والی لاشوں کی گنتی کی جائے تو زیادہ حساب مبینہ دہشت گرد تنظیم کے کھاتے میں نکلتا ہے۔پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے خلاف بھارتی لابی کا پروپیگنڈا پاکستان کی مخالفت کا ثبوت ہے۔ ”را“ اپنے پالتوﺅں کی صورت میں پاکستان میں داخل ہو چکی ہے۔ امریکہ میں بھارتی کمیونٹی جب بھی پاک بھارت تعلقات پر بات کرتی ہے تو پاکستانی ایجنسیوں کے خلاف زہر اگلتی ہے اور الطاف حسین سے ہمدردی ظاہر کرتی ہے۔ اردو زبان اور مہاجرین کو الطاف حسین کی جماعت سے نتھی کرنا اردو زبان اور مہاجرین کی توہین ہے۔پورا پاکستان مہاجرین سے بھرا پڑا ہے۔ان کی نسلیں پاکستان میں پیدا ہوئیں اور وہ پاکستانی ہیں۔ الطاف حسین اوران کے ساتھی درست کہتے ہیں کہ وہ آج بھی مہاجر ہیں کہ ان لوگوں نے پاکستان کو دل سے قبول ہی نہیں کیا۔ان کے مفادات آج بھی ”را“ سے وابستہ ہیں۔ یہ سب ہٹے کٹے پاکستان میں پیدا ہوئے ،پاکستان کا کھا پی رہے ہیں ،پھر بھی خود کو مہاجر کہتے ہیں؟ایم کیو ایم پر جرنیلوں کی خاص مہربانی رہی ، اب بھی جرنیلوں کی مہربانی ہے کہ انہوں نے اپنے الطاف بھائی پر خطابات کی پابندی عائد کر دی۔اس آواز اور صورت سے قوم کو ریلیف ملاالبتہ ان کی دوسری صورت میڈیا پر بطور تجزیہ نگار نمودار ہونا شروع ہو گئی ۔ انا للہ وانا علیہ راجعون۔ دوچار مرتبہ ذلت اٹھانی پڑی تو موصوف کی تمام خود اعتمادی ڈھیر ہو جائے گی۔ وسیم اختر جو مرضی لکھ کر وکلاءکو پیش کر دیں اب حقیقت چھپ نہیں سکتی۔ امجد صابری کی شہادت کا نقصان نا قابل معافی اور ناقابل تلافی ہے۔ ایم کیو ایم نے الزام لگایا ہے کہ کراچی اپریشن میں صرف ایم کیوایم کو نشانہ بنایا جا رہاہے جو جرائم کی اصل جڑ ہو گی، نشانہ بھی اسی کو بنایا جائے گا حالانکہ اپریشن بلا امتیاز جاری ہے۔رینجرز پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات ہیں۔ انسانی حقوق کا مفہوم تک جو نہیں جانتے ،وہ یہ الزام لگا رہے ہیں ؟اپریشن سے کراچی اور اندرون سندھ ٹارگٹ کلنگ اور جرائم یں کمی آئی ہے گو کہ امجد صابری کا قتل اپریشن پر سوالیہ نشان ہے ۔ یوں تو پورا ملک غیر محفوظ ہو چکا ہے لیکن کراچی پر ایم کیو ایم کی اجارہ داری نے کراچی کو جہنم بنا رکھا تھا۔الطاف حسین کو قائد ماننے والے یا تو برین واش ہیں یا پھر موت کے خوف سے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ لیکن حیرت تو اس ڈاکٹر پر ہوتی ہے جس نے ایم کیو ایم کو خیر باد کہا اور میڈیا کے ساتھ چپک گیا اور آج کل مختلف ٹی وی چینلز پر الطاف حسین کی ترجمانی کر رہا ہے۔ کیا روز آخرت بھی یہی عالم ایم کیو ایم کی سفارش کریں گے؟(طیبہ ضیا چیمہ)
 
Last edited by a moderator:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
⁠⁠⁠عامرلیاقت اور ہارون الرشید کا جھگڑا۔۔قصور وار کون؟
عامر لیاقت نے معروف صحافی ہارون الرشید کے خلاف بد تمیزی اور بے غیرتی سے بھرپور کالم لکھا جو عنوان ہی سے بدتمیز لگتا ہے۔عنوان تھا"دنیاکابوڑھاکیڑا"۔
بہرحال عامرلیاقت ایسے بدتمیز اور چھچورے کی عادت ہی یہ ہے۔حیرت ہے جنگ جیسے اخبار نے بھی بےغیرتی کی انتہاء کرکے یہ کالم چھاپا۔یہ ہے صحافتی اقدار اور یہ ہے ان کا اخلاق۔۔۔پیمرا کو کم ازکم نوٹس لینا چاہئیے۔
دوسری طرف ہارون الرشید ہیں اگرچہ ان کے پایے کے نثر کا مہان لکھاری کوئی نہیں۔مگر شاید یہ ان کے گناہوں کی سزا ہے جو عامرلیاقت اور جنگ نے مل کر انہیں دی۔
☆کئی بار ہارون الرشید قرآن وسنت کا مذاق کرتے پائے گئے۔
☆غیرمتنازع علماء اور معصوم طلبہ ومدارس کے خلاف ہذیان گوئی بھی کرتے رہے۔
☆مسواک ایسی سنتوں کا مذاق بھی اڑاتے رہے کہ یہ کوئی سنت نہیں ہے مولویوں نے اسے سنت بنایا ہے۔حالاں کہ صحیح احادیث میں اللہ کے رسول نے مسواک کو سنت کہا ہے۔
☆ایک وقت تھا کہ عمران خان کی محبت میں زمین و آسمان ایک کرتے رہے اور پھر وقت آیا کہ عمران خان کے آسمان سے زمین پر دے مارا۔
حقیقت مگر یہی ہے کہ نراتعصب جہالت کی انتہا ہے اس جہالت میں اچھے خاصے پڑھے لکھےلوگ بھی مبتلا ہیں۔میں نے دونوں کو تعصب کی انتہاؤں پر دیکھا ہے اس لیے دونوں اپنے اپنے کیے کے قصوروار ہیں۔اور روایت بھی یہی ہے کہ جیسا کروگے ویسا بھرو گے۔لیکن بہرحال جنگ ایسے صحافتی ادارے کو اس گندگی میں لت نہیں ہوناچائیے تھا۔شاید کہ ان اداروں کو گندا کرنے والے بھی یہی متعصب صحافی ہیں۔
اللہ سب کو اس گناہ سے بچائے۔
غلام نبی مدنی
 
Top