عامر عدنان
مشہور رکن
- شمولیت
- جون 22، 2015
- پیغامات
- 921
- ری ایکشن اسکور
- 264
- پوائنٹ
- 142
کیا مرزا قادیانی کا جنازہ مولانا ابوالکلام آزاد نے پڑھایا تھا ؟
ابوبکر قدوسی
بلاشبہ تعصب اور نفرت بندے کو نابینا کر چھوڑتی ہے ، انسان فرقہ ورانہ نفرت میں حق لکھنے ، سمجھنے سے محروم ہو جاتا ہے - یہ اتنی بری خصلت ہے کہ تحقیق کے نام پر جھوٹ لکھنا بھی کارثواب سمجھا جاتا ہے - ابھی برادر عبیداللہ لطیف کی پوسٹ سے ایک صاحب کے اس دعوے کی خبر ہوئی -
موصوف نجم مصطفائی لکھتے ہیں :
”1908 میں جب مرزا غلام احمد قادیانی کا انتقال ہوا تو ابوالکلام آزاد نے اس کا نماز جنازہ پڑھایا اور اپنے رسالے ”الہلال“ میں قادیانی کی موت پر اداریہ لکھا اور اس کی موت کو اسلام کا بہت بڑا نقصان قرار دیا “
مختصر جواب تو یہ ہے کہ مرزا صاحب کی وفات ١٩٠٨ میں ہوئی اور مولانا آزاد رحمہ اللہ نے الہلال کی اشاعت جولائی ١٩١٢ میں میں کلکتے سے شروع کی - تب مرزا صاحب کی وفات کو چار برس بیت چلے تھے - بلاشبہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے لیکن یہ خبر نہ تھی کہ جھوٹ کا سر بھی نہیں ہوتا کہ جو سوچ سکے اور اتنا بڑا الزام لگانے سے پہلے عقل کا استعمال کر سکے -
مولانا آزاد کی عمر تب محض انیس برس کے قریب تھی جب مزرا فوت ہوئے ، اور مولانا کا کوئی دور نزدیک کا ظاہری ، اور معاشرتی تعلق بھی " امت مرزایت سے نہ تھا کہ جس بنا پر یہی احتمال بھی کیا جا سکتا یا سوچا جا سکتا کہ "امت مرزائیت ایک نوجوان لڑکے سے اپنے نبی کا جنازہ ہوئی پڑھوا چھوڑے گی کہ ان کو خبر تھی یہ نوجوان کل کو امام ہند ہو گا -
مولانا تب لاہور سے دور رہتے تھے ، اور امرتسر میں ایک اخبار کے مدیر تھے - جب کہ مرزا لاہور میں فوت ہوۓ اور ٹرین پر ان کی میت قادیان لے جائی گئی اور حکیم نور الدین [خلیفہ اول قادیانیت ] نے ان کا جنازہ پڑھایا - یہ بیان ان کے بیٹے مرزا بشیر الدین محمود کا ہے جس میں انہوں نے اپنے والد کی بیماری کے آخری دنوں کی تفصیل اور تدفین کا ذکر کیا ہے -
مرزا جب فوت ہوۓ تب تک امت مسلمہ ان کے دعوے نبوت سے آگاہ ہو چکی تھی اور ان کے عقائد پر مشتعل تھی - حتی کہ مرزا بشیر الدین بھی اس اس دن کی روداد میں یہی لکھتے ہیں کہ ان کی میت کی جاۓ وفات برانڈرتھ روڈ لاہور سے سٹیشن تک بہت مشکل سے فوجی پہرے میں لے جانا پڑا - اب مولانا آزاد کو نہایت محنت سے جنازے کا شریک کر کے لاہور سے قادیان تک کا ہم سفر کہہ کے عجیب و غریب جھوٹ گھڑا گیا ہے -کہ مولانا ان حالات کا ادراک بھی نہ کر سکے کہ امت کسی درجہ مشتعل ہے اور آپ جنازے کے شریک سفر ہیں -
اصل میں یہ درفنطنی پہلے پہل معروف ادیب اور صحافی عبد المجید سالک نے چھوڑی تھی - انہوں نے اس سفر جنازہ میں آپ کی شرکت کا ذکر اپنی کتاب "یاران کہن " میں کیا ہے - انہوں نے لکھا ہے :
"جن دنوں مولانا آزاد ماہنامہ وکیل امرتسر کی ارادت پر مامور تھے انہی دنوں مرزا صاحب کا انتقال ہوا ، تو مولانا نے مرزا صاحب کی خدمات اسلامی پر ایک شان دار شذرہ لکھا ، امرتسر سے لاہور آئے اور یہاں مرزا صاحب کے جنازے کے ساتھ بٹالہ تک گئے "
ستم ظریفی یہ ہوئی کہ صاحب کتاب "یار کہن" عبد المجید سالک نے تو مولانا کو محض شریک سفر جنازہ ٹہرایا اور بعد میں مسلکی تعصب نے جنازے کا امام بنا دیا -
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ باوجود لڑکپن کے مولانا آزاد ، مرزا کی وفات کے دنوں میں ماہنامہ "وکیل " امرتسر کے مدیر تھے لیکن یہ نرا جھوٹ ہے کہ آپ مرزا کے جنازے میں آئے یا میت کے ساتھ سفر کیا - اس جھوٹ کے ثابت کرنے کو اتنا ہی کافی و شافی ہے کہ اس سے پہلے اور بعد میں قادیانیت کے حوالے سے مولانا کی کوئی سرگرم دلچسپی نہیں ملتی اور نہ ہی ایسی کسی دلچسپی کا کوئی بعید سا سراغ -
رہا " وکیل " میں کوئی شذرہ چھپنا تو عرض ہے کہ ایسا کوئی شذرہ سالک نے پیش کیا ، نہ کہیں اس کا بھی سراغ ملتا ہے - البتہ اگر ایسا ہوا بھی تو اس میں کہاں سے یہ لازم آ گیا کہ وہ مولانا کا لکھا ہوا تھا - الزام دلیل کا تقاضا کرتا ہے جو یہاں مفقود رہی -
اس سلسلے میں سب سے زیادہ اہم بیان مولانا کا ہے جب یہ کتاب چھپی تو مولانا آزاد کی توجہ اس بیان کی طرف مبذول کروائی گئی - اس پر مولانا کے سیکرٹری اجمل خان صاحب نے عبد المجید سالک صاحب کو لکھا کہ "
ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا اور نہ اس کی کوئی حقیقت ہے بہتر ہے سالک صاحب خود اس کی وضاحت کر دیں -"
اس مطالبے کے بعد عبد المجید سالک نے اجمل خان کے نام وضاحتی خط لکھا اور اس کی نقل آغا شورش کاشمیری مرحوم کے نام بھی بھیجی اور ان سے اس کو چٹان میں شائع کرنے کی درخواست کی -
اس خط میں سالک نے اس واقعے کی صحت بارے لکھا کہ یہ محض انہوں نے حافظے کے بل پر لکھ دیا تھا اور انھیں اس کی صحت پر کوئی اصرار نہیں ہے بلکہ ان کے خط کے آخری الفاظ تھے :
"بہرحال مجھے "یاران کہن " میں بیان کردہ واقعات کی صحت پر اصرار نہیں ، اور میں آپ تردید کے آگے سر خم کرتا ہوں - دہلی کلاتھ ملز کے مشارے میں ٢٥ فروری کو دہلی آ رہا ہوں - ان شا اللہ آستانہ عالی پر حاضر ہو کے اعتذار پیش کروں گا ، حضرت مولانا کی خدمت میں آداب نیاز ..سالک "
ان کے اس "وڈراء " کے بعد یہ قصہ ہی ختم ہو گیا -
لیکن یہ ضرور ہے کہ مولانا سالک سے دیرینہ تعلق کے باوجود ناراض ہو گئے - پاکستان بن چکا تھا سالک پاکستان آ گئے تھے مگر جب دہلی کلاتھ ملز کے مشاعرے میں شرکت کو ہندستان گئے تو مولانا سے ملاقات نہ کر پائے لیکن قصہ یوں تھا کہ مولانا ان سے ناراض تھے - انہوں نے ملنے کی صورت یہ نکالی کہ ایک روز سر راہ گذر کھڑے ہو گئے - مولانا آئے تو سالک آگے بڑھے ..مولانا نے ناراضی سے فرمایا کہ
"سالک تم نے یہ کیا حرکت کی ؟"
سالک بولے ، "مولانا اس کی تو تردید ہو گئی "
اس پر مولانا نے کہا کہ " جائیے ، اور تردید کا حق ادا کیجئے "
اور گاڑی میں بیٹھ گئے -
مولانا کی گاڑی کب کی نکل گئی اور عظمت کی راہ پر ابھی تک بھاگی چلی جا رہی ہے - جن کے سائے تب بہت بڑے تھے ان کے اپنے قد بھی بونے بت بنتے جا رہے ہیں - اور مولانا ہیں کہ اس اگلی صدی میں بھی بلند تر ہی ہوتے جا رہے ہیں -
ابوبکر قدوسی
بلاشبہ تعصب اور نفرت بندے کو نابینا کر چھوڑتی ہے ، انسان فرقہ ورانہ نفرت میں حق لکھنے ، سمجھنے سے محروم ہو جاتا ہے - یہ اتنی بری خصلت ہے کہ تحقیق کے نام پر جھوٹ لکھنا بھی کارثواب سمجھا جاتا ہے - ابھی برادر عبیداللہ لطیف کی پوسٹ سے ایک صاحب کے اس دعوے کی خبر ہوئی -
موصوف نجم مصطفائی لکھتے ہیں :
”1908 میں جب مرزا غلام احمد قادیانی کا انتقال ہوا تو ابوالکلام آزاد نے اس کا نماز جنازہ پڑھایا اور اپنے رسالے ”الہلال“ میں قادیانی کی موت پر اداریہ لکھا اور اس کی موت کو اسلام کا بہت بڑا نقصان قرار دیا “
مختصر جواب تو یہ ہے کہ مرزا صاحب کی وفات ١٩٠٨ میں ہوئی اور مولانا آزاد رحمہ اللہ نے الہلال کی اشاعت جولائی ١٩١٢ میں میں کلکتے سے شروع کی - تب مرزا صاحب کی وفات کو چار برس بیت چلے تھے - بلاشبہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے لیکن یہ خبر نہ تھی کہ جھوٹ کا سر بھی نہیں ہوتا کہ جو سوچ سکے اور اتنا بڑا الزام لگانے سے پہلے عقل کا استعمال کر سکے -
مولانا آزاد کی عمر تب محض انیس برس کے قریب تھی جب مزرا فوت ہوئے ، اور مولانا کا کوئی دور نزدیک کا ظاہری ، اور معاشرتی تعلق بھی " امت مرزایت سے نہ تھا کہ جس بنا پر یہی احتمال بھی کیا جا سکتا یا سوچا جا سکتا کہ "امت مرزائیت ایک نوجوان لڑکے سے اپنے نبی کا جنازہ ہوئی پڑھوا چھوڑے گی کہ ان کو خبر تھی یہ نوجوان کل کو امام ہند ہو گا -
مولانا تب لاہور سے دور رہتے تھے ، اور امرتسر میں ایک اخبار کے مدیر تھے - جب کہ مرزا لاہور میں فوت ہوۓ اور ٹرین پر ان کی میت قادیان لے جائی گئی اور حکیم نور الدین [خلیفہ اول قادیانیت ] نے ان کا جنازہ پڑھایا - یہ بیان ان کے بیٹے مرزا بشیر الدین محمود کا ہے جس میں انہوں نے اپنے والد کی بیماری کے آخری دنوں کی تفصیل اور تدفین کا ذکر کیا ہے -
مرزا جب فوت ہوۓ تب تک امت مسلمہ ان کے دعوے نبوت سے آگاہ ہو چکی تھی اور ان کے عقائد پر مشتعل تھی - حتی کہ مرزا بشیر الدین بھی اس اس دن کی روداد میں یہی لکھتے ہیں کہ ان کی میت کی جاۓ وفات برانڈرتھ روڈ لاہور سے سٹیشن تک بہت مشکل سے فوجی پہرے میں لے جانا پڑا - اب مولانا آزاد کو نہایت محنت سے جنازے کا شریک کر کے لاہور سے قادیان تک کا ہم سفر کہہ کے عجیب و غریب جھوٹ گھڑا گیا ہے -کہ مولانا ان حالات کا ادراک بھی نہ کر سکے کہ امت کسی درجہ مشتعل ہے اور آپ جنازے کے شریک سفر ہیں -
اصل میں یہ درفنطنی پہلے پہل معروف ادیب اور صحافی عبد المجید سالک نے چھوڑی تھی - انہوں نے اس سفر جنازہ میں آپ کی شرکت کا ذکر اپنی کتاب "یاران کہن " میں کیا ہے - انہوں نے لکھا ہے :
"جن دنوں مولانا آزاد ماہنامہ وکیل امرتسر کی ارادت پر مامور تھے انہی دنوں مرزا صاحب کا انتقال ہوا ، تو مولانا نے مرزا صاحب کی خدمات اسلامی پر ایک شان دار شذرہ لکھا ، امرتسر سے لاہور آئے اور یہاں مرزا صاحب کے جنازے کے ساتھ بٹالہ تک گئے "
ستم ظریفی یہ ہوئی کہ صاحب کتاب "یار کہن" عبد المجید سالک نے تو مولانا کو محض شریک سفر جنازہ ٹہرایا اور بعد میں مسلکی تعصب نے جنازے کا امام بنا دیا -
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ باوجود لڑکپن کے مولانا آزاد ، مرزا کی وفات کے دنوں میں ماہنامہ "وکیل " امرتسر کے مدیر تھے لیکن یہ نرا جھوٹ ہے کہ آپ مرزا کے جنازے میں آئے یا میت کے ساتھ سفر کیا - اس جھوٹ کے ثابت کرنے کو اتنا ہی کافی و شافی ہے کہ اس سے پہلے اور بعد میں قادیانیت کے حوالے سے مولانا کی کوئی سرگرم دلچسپی نہیں ملتی اور نہ ہی ایسی کسی دلچسپی کا کوئی بعید سا سراغ -
رہا " وکیل " میں کوئی شذرہ چھپنا تو عرض ہے کہ ایسا کوئی شذرہ سالک نے پیش کیا ، نہ کہیں اس کا بھی سراغ ملتا ہے - البتہ اگر ایسا ہوا بھی تو اس میں کہاں سے یہ لازم آ گیا کہ وہ مولانا کا لکھا ہوا تھا - الزام دلیل کا تقاضا کرتا ہے جو یہاں مفقود رہی -
اس سلسلے میں سب سے زیادہ اہم بیان مولانا کا ہے جب یہ کتاب چھپی تو مولانا آزاد کی توجہ اس بیان کی طرف مبذول کروائی گئی - اس پر مولانا کے سیکرٹری اجمل خان صاحب نے عبد المجید سالک صاحب کو لکھا کہ "
ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا اور نہ اس کی کوئی حقیقت ہے بہتر ہے سالک صاحب خود اس کی وضاحت کر دیں -"
اس مطالبے کے بعد عبد المجید سالک نے اجمل خان کے نام وضاحتی خط لکھا اور اس کی نقل آغا شورش کاشمیری مرحوم کے نام بھی بھیجی اور ان سے اس کو چٹان میں شائع کرنے کی درخواست کی -
اس خط میں سالک نے اس واقعے کی صحت بارے لکھا کہ یہ محض انہوں نے حافظے کے بل پر لکھ دیا تھا اور انھیں اس کی صحت پر کوئی اصرار نہیں ہے بلکہ ان کے خط کے آخری الفاظ تھے :
"بہرحال مجھے "یاران کہن " میں بیان کردہ واقعات کی صحت پر اصرار نہیں ، اور میں آپ تردید کے آگے سر خم کرتا ہوں - دہلی کلاتھ ملز کے مشارے میں ٢٥ فروری کو دہلی آ رہا ہوں - ان شا اللہ آستانہ عالی پر حاضر ہو کے اعتذار پیش کروں گا ، حضرت مولانا کی خدمت میں آداب نیاز ..سالک "
ان کے اس "وڈراء " کے بعد یہ قصہ ہی ختم ہو گیا -
لیکن یہ ضرور ہے کہ مولانا سالک سے دیرینہ تعلق کے باوجود ناراض ہو گئے - پاکستان بن چکا تھا سالک پاکستان آ گئے تھے مگر جب دہلی کلاتھ ملز کے مشاعرے میں شرکت کو ہندستان گئے تو مولانا سے ملاقات نہ کر پائے لیکن قصہ یوں تھا کہ مولانا ان سے ناراض تھے - انہوں نے ملنے کی صورت یہ نکالی کہ ایک روز سر راہ گذر کھڑے ہو گئے - مولانا آئے تو سالک آگے بڑھے ..مولانا نے ناراضی سے فرمایا کہ
"سالک تم نے یہ کیا حرکت کی ؟"
سالک بولے ، "مولانا اس کی تو تردید ہو گئی "
اس پر مولانا نے کہا کہ " جائیے ، اور تردید کا حق ادا کیجئے "
اور گاڑی میں بیٹھ گئے -
مولانا کی گاڑی کب کی نکل گئی اور عظمت کی راہ پر ابھی تک بھاگی چلی جا رہی ہے - جن کے سائے تب بہت بڑے تھے ان کے اپنے قد بھی بونے بت بنتے جا رہے ہیں - اور مولانا ہیں کہ اس اگلی صدی میں بھی بلند تر ہی ہوتے جا رہے ہیں -