• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا میلاد منانا محبت رسول اور نہ منانا گستاخیٔ رسول کی علامت ہے؟؟

شمولیت
اگست 28، 2019
پیغامات
51
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
56
بسم اللہ الرحمن الرحیم

کیا میلاد منانا محبت رسول اور نہ منانا گستاخیٔ رسول کی علامت ہے؟؟​



ابومعاویہ شاربن شاکرالسلفی

الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم،امابعد:

برادران اسلام!

انسان کے دلوں میں رب العزت نے محبت نام کی ایک چیز ودیعت کررکھی ہے اوراسی بناپرانسان کے دلوں میں فطری طور پر کچھ چیزوں کی محبت کوٹ کوٹ کربھری ہوئی ہے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے كه’’ زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الْمَآبِ ‘‘ مرغوب چیزوں کی محبت لوگوں کے لئے مزین کردی گئی ہے،جیسے عورتیں اور بیٹے اور سونے اورچاندی کے جمع کئے ہوئے خزانے اور نشاندار گھوڑے اورچوپائے اورکھیتی،یہ دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور لوٹنے کا اچھا ٹھکانہ تو اللہ تعالی ہی کے پاس ہے۔(آل عمران:14)یقینا ہرانسان کے دلوں میں عورتوں اوربچوں اورسونے وچاندی کے خزانوں اورزمین وجائداد سے محبت ہوتی ہے مگر یہ شرعا مطلوب ومقصود نہیں ہے،اگرکسی انسان کے دل میں ان چیزوں کی محبت نہیں ہوگی تو اس کی پکڑ نہیں ہوگی مگر اسی کے برعکس ایک محبت ایسی بھی ہے جو ہرمسلمان سے شرعا مطلوب ومقصود ہے اورہرمسلمان کو اس بات کا مکلف کیاگیا ہے کہ وہ اس محبت کو اپنائے اور وہ محبت ہے اللہ اور اس کے رسولﷺ سے سب سے زیادہ محبت کرنا،کسی شاعر نے کیا ہی خوب اس کی ترجمانی کی ہے کہ :



محمدﷺ کی محبت دین حق کی شرط اول ہے

اسی میں ہو اگرخامی تو سب کچھ نامکمل ہے​

یہ محبت رسول ایک ایسی عبادت ہے جس کو اپنائے بغیر کوئی بھی انسان نہ تو مسلمان ہوسکتاہے اور نہ ہی مومن !کیونکہ یہ محبت رسول ﷺ ایمان کا ایک حصہ اورایک جزولاینفک ہے،جیسا کہ سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ حبیب کائنات ﷺ نے قسم کھاتے ہوئے فرمایا کہ ’’ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ ‘‘ ۔۔وفی روایۃ: ’’ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ‘‘ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے،تم میں سے کوئی بھی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں بن سکتاہے جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد اور اس کے اولادبلکہ تمام لوگوں سے بھی زیادہ محبوب نہ بن جاؤں (بخاری:14 اور 15)یہ محبت رسولﷺ ایک مسلمان کے لئے کتنی ضروری ہے آئیے اس بات کو سمجھنے کے لئے سیدنا عمربن خطابؓ کے ایک واقعے سے سمجھتے ہیں کہ ایک بار سیدنا عمربن خطابؓ نے آپﷺ سے کہا کہ اے اللہ کے محبوبﷺ ’’ لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ إِلَّا مِنْ نَفْسِي ‘‘ آپ مجھے ہرچیز سے زیادہ محبوب ہیں سوائے میری اپنی جان کے تو آپﷺ نے فرمایا کہ اے عمرؓتب تو تم مومن ہی نہیں ہو’’ لاَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْكَ مِنْ نَفْسِكَ ‘‘نہیں !اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تمہارا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتاہے جب تک میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ بن جاؤں!اتنا سننا تھا کہ سیدنا عمرؓ نے کہا کہ اگر ایسی بات ہے تو ’’ فَإِنَّهُ الآنَ وَاللَّهِ لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي ‘‘اللہ کی قسم!اب آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں،یہ سن کر آپﷺ نے کہا کہ ’’ أَلآنَ يَا عُمَرُ ‘‘ اے عمرؓ! ہاں اب بات بنی اور اب تیرا ایمان مکمل ہوا۔ (بخاری:6632)دیکھا اور سناآپ نے کہ محبت رسولﷺ کے بغیر نہ تو کوئی انسان مسلمان ہوسکتاہے اور نہ ہی کسی کا ایمان مکمل ہوسکتاہے!تو اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ یہ محبت رسول ہے کیا چیز اورمحبت رسول کا معیار کیا ہے؟محبت رسول کی علامت وپہچان کیا ہے؟آئیے ان تمام سوالوں کے جوابات کو قرآن وحدیث کی روشنی میں سنتے ہیں:

میرے دوستو اور پیارے پیارے اسلامی بھائیو اور بہنو!

آج لوگوں نے واہیات اور خرافات کو محبت رسول کا نام دے دیا ہے،لوگوں کے ذہن ودماغ میں یہ بات ڈال دی گئی ہے کہ تم کو نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے،تم کو روزہ رکھنے کی ضرورت نہیں ہے،تم کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کےاحکامات پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ہے،تم کو جو مرضی آئے وہ کرو،حرام بازی کرو،زناکاری کرو،حرام خوری کرو اور دوسرے مسلک والوں کو خوب جی بھر بھر کر گالیاں دومگرتم میلاد مناؤ ،نعت رسول سننے کے بہانے میوزک پر ٹھمکے لگاؤ،ناچو ، گاؤ اور ڈانس کرو،جلوس نکالو ،ماہ ربیع الاول میں گلیوں اور سڑکوں کو سجاؤ،اپنے اپنے گاڑیوں اور مکانوں پر جھنڈے سجاؤ یہی محبت رسول اوریہی ایمان ہے اور یہی سب کچھ تو دین ہےاور اسی میں نجات ہے ۔العیاذ باللہ۔۔ توبہ توبہ !کچھ بدبخت تو یہاں تک کہنے کی جسارت کرتے ہیں کہ جو میلاد نہیں مناتاہے وہ شیطان ہے،گستاخ رسول ہے بلکہ ایک شخص نےتویہاں تک کہہ دیا کہ اگرکوئی عاشق رسول یعنی کہ یہ سب کچھ کرنے والا اور میلاد میں ناچنے گانے والااگرزناکرتے ہوئے فاحشہ کے کوٹھے میں بھی مرگیا تو سیدھا جنت کے اندر مگر ان سب باتوں کو نہ کرنے والا اگر حرم شریف کعبہ میں بھی مرا تو جہنم میں جائے گا۔۔نعوذ باللہ۔۔

میرے بھائیو!سوال یہ پیداہوتاہے کہ اگر میلاد منانا ہی محبت رسول کی دلیل ہے اور جولوگ میلاد نہیں مناتے ہیں وہ لوگ شیطان اور ابلیس ہیں تو پھر ان مقدس ہستیوں کے بارے میں کیا کہیں گےجواپنے تن من دھن سے کہیں زیادہ اپنے رسولﷺ سے محبت کرتے تھے اور اپنے رسول ﷺ کی محبت میں انہوں نے اپنا گھر ومکان چھوڑا،رسول اللہﷺ کی محبت میں انہوں نے اپنی گردنیں کٹائیں ،رسول اللہﷺ کی محبت میں انہوں نے اپنے بچوں کو یتیم اور اپنی بیویوں کو بیوہ بنایامگر انہوں نےاپنی زندگی میں ایک بار بھی اس کام کو انجام نہیں دیا،اورآج آپ یہ سن لیں اور جان لیں کہ جو لوگ بھی یہ کہتے ہیں کہ میلاد نہ منانے والے لوگ گستاخ رسول ہیں تو آپ ایسے لوگوں کو اس بات کی جانکاری دے دیں کہ اگر یہ میلاد نہ منانا گستاخی ٔ رسول ہے تو پھرچاروں خلفائے راشدین گستاخ رسول ہیں(نعوذ باللہ) کیونکہ خلیفۂ اول سیدنا ابوبکرصدیقؓ دوسال خلیفہ رہے اور اس کائنات میں تاقیامت ان سے بڑا کوئی محب رسول پیدا نہیں ہوسکتا ہے لیکن انہوں نے اپنی زندگی میں ایک بار بھی یہ میلاد نہ تو منایا اور نہ ہی منانے کا حکم دیا،ذرا سوچئے کہ جس خلیفہ نے اپنی ساری زندگی،اپنی ساری توانائی اور اپنا تن من دھن جس نبی کے لئے وار دیا اس کو اس بات کی خبر نہ تھی کہ میلاد منانا یہ محبت رسول کی علامت ہے ،کائنات کے رب کی قسم اگر یہ میلاد منانا اور جلوس نکالنا محبت رسول کی علامت ہوتی یا پھر اسلام سے اس کا کوئی ادنی سابھی تعلق ہوتاتو سب سے پہلے یارغار سیدنا ابوبکرؓ اپنے دور خلافت میں اس کام کو اختیار کرتے،چلئے اس سے بھی آگے بڑھتے ہیں کہ ان کے بعدخلیفۂ ثانی سیدنا عمربن خطابؓ جو 10 سال عرب وعجم کے خلیفہ رہے اور جو اسلام میں ذرہ برابر بھی مداہنت برادشت نہ کرتے تھے اور جن کے سامنے میں کسی کی کیامجال کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے دین میں ذرہ برابر بھی کوئی رخنہ اندازی کرسکے،جن کے سامنے میں رسول اللہﷺ کی نافرمانی کرنا اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا،اب ذرا سوچئے کہ جو شخص اتنا بڑا محب رسول ہو کیا اس کو اس بات کی خبر نہ تھی کہ میلاد منانا یہ محبت رسول کی علامت ہے،کائنات کے رب کی قسم! اگر اس میلاد کا اسلام سے کوئی تعلق ہوتاتو سب سے پہلے اس کو منانے کا سرکاری اعلان خود سیدنا عمربن خطابؓ کرتےتھے،پھراس کے بعد خلیفۂ ثالث سیدناعثمان غنیؓ نے 12سال خلافت کی مگر انہوں نے بھی اس کام کو نہ تو اختیارکیا اور نہ ہی کرنے کاحکم دیا،اسی طرح خلیفۂ رابع سیدنا علیؓ نےبھی کم وبیش پانچ سال حکومت کی مگر انہوں نے بھی اسے نہ تو اختیارکیا نہ ہی اسے منانے کاحکم دیا ،یہ تو چاروں خلفاء کی بات ہے ورنہ کعبے کے رب کی قسم! اس دنیا میں کسی بھی صحابی نے اپنی زندگی میں اس کام کو اختیار نہ کیا تو گویا کہ میلاد نہ منانا اگر گستاخیٔ رسول ہے تو پھر تمام صحابہ بھی گستاخ رسول ٹھہرے۔نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ ۔صرف اتنا ہی نہیں اگر یہ میلاد نہ منانا گستاخیٔ رسول ہے تو پھر تمام خیرالقرون کے لوگ بھی گستاخ رسول تھے کیونکہ احمد یارخان نعیمی بریلوی نے خود لکھا کہ میلاد شریف تینوں زمانوں میں کسی نے نہ کیا ،بعد میں ایجاد ہوا۔(جاء الحق:1/236) لوگ ہماری بات نہیں مانتے کم از کم اپنے گھرکی تو بات مان لیں کہ اس میلاد کی ایجاد صحابہ وتابعین اور تبع تابعین کے دورکے بعد ہوئی ہے،کائنات کے رب کی قسم!جو کام صحابہ نے نہ کیا وہ دین کا حصہ کبھی نہیں ہوسکتا گرچہ لوگ اسے دین سمجھے یا پھر بہت بڑی نیکی سمجھے کیونکہ اس دین کو بلافاصلہ (ڈائریکٹ) لینے اور امت کو دینے والے یہی صحابہ ہیں،صحابہ ہی دین حق کے خشتِ اول ہیں کیونکہ قرآن ان کے سامنے میں نازل ہوا،اورقرآن کی تفسیرنبی کریم ﷺ نے انہیں ہی سکھائی،دین کی کوئی ایسی بات نہ تھی جو انہیں نبی کریمﷺ نے نہ بتلائی ہواور وہ سب تادم حیات اسی دین پر استقامت کے ساتھ خود بھی گامزن رہے اور امت کو بھی اسی کی تعلیم وتربیت کی کہ دین وہی ہے جوقرآن وسنت سے ثابت ہو اس کے ماسوا سب فضول وواہیات اورزیغ وضلال ہے،یہی وجہ ہے کہ صحابہ نے امت مسلمہ کو اسی بات کی تلقین کی تھی کہ تم وہی کرنا جو صحابہ نے کیا اور جو انہوں نے نہ کیا اس کے قریب بھی نہ جاناجیساکہ حذیفہ بن یمانؓ نے کہا کہ:’’ كُلُّ عِبَادَةٍ لَمْ يَتَعَبَّدْهَا أَصْحَاُب رَسُوْلِ اللهِ صلى الله عليه وسلم فَلَا تَعْبُدُوْهَا ‘‘یعنی ہر وہ عبادت جو صحابۂ کرام نے نہ کیا تم بھی اسے عبادت سمجھ کر نہ کیا کرو،اسی طرح سے ابن مسعودؓ نے کہا کہ:’’ اِتَّبِعُوْا وَلَا تَبْتَدِعُوْا فَقَدْ كُفِيْتُمْ عَلَيْكُمْ بِالْأَمْرِ الْعَتِيْقِ ‘‘ یعنی تم قرآن وسنت کی پیروی کیا کرو اور دین میں نئے نئے کاموں کو ایجاد نہ کیا کروکیونکہ تمہیں اس سے بچالیاگیا ہے اور تم اسی چیز کو لازم پکڑوجو پہلے سے موجودتھا۔(حجۃ النبیﷺ:ص100)پتہ یہ چلاکہ جب اس میلاد کو صحابہ نے اختیار نہ کیاتھا تو یہ میلاد نہ تو دین کا حصہ ہے اور نہ ہی یہ محبت رسول کی علامت ہے بلکہ یہ میلادسراسر ایک ایسی بدعت قبیحہ ہے جس کو اپنانے والا ہی گستاخ رسول اور گستاخ صحابہ ہے،اب جب یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ اس میلاد کو کسی بھی صحابی اور تابعین اور تبع تابعین نے انجام نہ دیاتھا تو اب آپ ہی خود فیصلہ کرکے مجھے بتائیں کہ اس شعرسے کس کو گالیاں دی جارہی ہیں :

نثار تیری چہل پہل پر ہزار عیدیں ربیع الاول

سوائے ابلیس کے جہاں میں سبھی تو خوشیاں منارہے ہیں​

یقینا اہل بدعت بدعت کی محبت میں عقل کے اندھے بن جاتے ہیں اور وہ یہ سوچتے اور سمجھتے نہیں ہیں کہ ان کے اس طرح کی باتوں اور اس طرح کی ہرزہ سرائی سے کن کن لوگوں کے اوپر چوٹ پہنچ رہی ہے،سب سے پہلے تو اس شعر کے مصداق ۔۔نعوذ باللہ، ثم نعوذ باللہ۔۔ خود آپﷺ ہوئے کیونکہ آپ نے اس کو منانے کا حکم نہیں دیا اور پھر دوسرے نمبر پر اس شعر کے مصداق تمام صحابۂ کرام ٹھہرے،اب آپ ہی مجھے بتائیں کہ ابلیس کون ہے؟وہ جو میلاد منارہاہے یا پھر وہ جو میلاد نہیں منارہاہے؟اب ذرا اس شعر کا جواب بھی گوش گزار کرلیجئے:

یہ بدعتوں کی چہل پہل ہے،یہ دین احمد نہیں ہے یارو

نبی کے پیارے تو روز اول سے دو ہی عیدیں منارہے ہیں​

یقینا دین اسلام میں عیدالفطر اور عیدالاضحی کے علاوہ کسی تیسرے عید کا کوئی تصور ہی نہیں ہے اگر ہوتا تو اس کا بیان آپ کو ضرور بالضرور کتاب وسنت میں مل جاتا،اگر یہ لوگ گالیاں دیتے ہیں تودینے دیجئے یہ تو اہل بدعت کی روز اول سے ہی پہچان رہی ہے کہ وہ اہل حق کو گالیاں دیتے آ رہے ہیں،اور یہ بھی تو آپ کو یاد رہے کہ یہ گالی دینا شروع زمانے سے ہی منافقوں کا شیوہ اور وطیرہ رہاہےجیسا کہ فرمان مصطفیﷺ ہے کہ منافق کی نشانیوں میں سے ایک نشانی گالی دینا بھی ہے۔ (بخاری:34،2459)صرف یہی نہیں بلکہ گالی دینا تو ہمیشہ سے فاسقوں اور نافرمانوں کا کام رہا ہے کیونکہ کسی مسلمان کو گالی دینا یہ گناہ ہے جیسا کہ فرمان مصطفیﷺ ہے ’’ سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ ‘‘ کہ مسلمان کو گالی دینا گناہ ہے۔ (بخاری:48،مسلم:64) بہرحال ان کے گالیوں سے ہمارا کچھ بھی نقصان نہیں ہے اگر نقصان ہے تو ان گالیاں بکنے والوں کا ہی ایک نہ ایک دن زبردست نقصان ہونے والا ہے کہ وہ اپنی نیکیاں ان لوگوں کو اٹھا اٹھا کردیں گے جن جن کو انہوں نے گالیاں بکی ہیں اور اگر نیکیاں نہ ہوں گی تو پھر جن کو گالیاں سنائی ہیں ان کی برائیاں اپنے سر اٹھائیں گے اور جہنم کے ایندھن بنیں گے۔(مسلم:2581،ترمذی:2418)

برادران اسلام!

صرف اتناہی نہیں اگر یہ میلاد نہ منانا گستاخیٔ رسول ہے تو پھرذرا پنے دل کو تھام کرسنئے کہ تمام محدثین عظام بالخصوص امام مالک،امام شافعی اور امام احمد بن حنبل اورپھر صحاح ستہ کےتمام محدثین امام بخاری ،امام مسلم،امام نسائی،امام ترمذی،امام ابوداؤدا ور امام ابن ماجہ یہ سب کے سب گستاخ رسول ہیں کیونکہ جنہوں نے ایک ایک حدیث کو جمع کرنے میں اپنی ساری زندگی صرف کردی، ایک ایک حدیث کے لئے ہزاروں میل کا سفرطے کیا ،بھوک وپیاس کی تکالیف کو برداشت کرتے ہوئے اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کربڑی محنت وجانفشانی سے اپنی اپنی کتابوں میں احادیث کو جمع کیا،اب دیکھئے امام بخاریؒ نے(مع مکررات)7563 /احادیث کو،امام مسلمؒ نے(مع مکررات)7563/احادیث کو،امام نسائیؒ نے 5761/ احادیث کو،امام ترمذیؒ نے3956/احادیث کو،امام ابوداؤدؒ نے5274/احادیث کو،امام ابن ماجہؒ نے4341/احادیث کواور امام احمدبن حنبلؒ نے27647/احادیث کو جمع کیامگر تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ان میں سے کسی بھی محدث نے اپنی اپنی کتابوں میں عیدمیلاد کے فضائل پرایک بھی حدیث نہ لکھیں،فضائل پر احادیث لکھنی تودور کی بات ہے یہ لفظ میلاد ہی کسی بھی مشہور ومعروف اورمستنداحادیث کی کتابوں میں مذکور نہیں ہوا ہےتو گویا کہ یہ سب کے سب گستاخ رسول ہیں۔نعوذ باللہ۔اور تو اور ہے امام ابوحنیفہؒ بھی گستاخ رسول ہوئے کیونکہ انہوں نے بھی اپنی زندگی میں کبھی میلادنہ منایا،میلاد منانا تو دور کی بات ہے انہوں نے یہ نام تک نہ سناتھا اورنہ ہی جاناتھا ،اگر آپ کو میری باتوں پر یقین نہ ہو تو فقہ کی مشہور ومعروف کوئی بھی کتاب اٹھاکر دیکھ لیں کسی بھی کتاب میں اس میلاد کا ذکرتک موجود نہیں ہے،بڑی حیرت کی بات ہے کہ لوگ اس کے فضائل میں بڑے بڑے قصیدے اور لن ترانیاں لوگوں کے سناتے رہتے ہیں مگر خود ان کے امام کو اس بات کی خبر نہ تھی، اب ذرا سوچئے اورخود فیصلہ کیجئے کہ جب ان چاروخلفاء نے نہ کیا اور نہ ہی کسی صحابیٔ رسول نے اس کام کو انجام دیا اور نہ ہی اس کو کسی محدث وفقیہ نےاپنایا تو یہ میلاد دین کا حصہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اور یہ محبت رسول کی علامت کیسے ہوسکتی ہے؟لوگوں کو چیخنے دیجئے ،چلانے دیجئے،گالیاں بکنےدیجئے،قرآن وحدیث کی من مانی تشریحات وغلط تاویلات کرنے دیجئے،ساری دنیاکو اسے اچھا سمجھنے دیجئے مگر جوچیز شریعت کا کل حصہ نہیں تھی وہ آج بھی حصہ نہیں بن سکتی ہے،کیاہی خوب کہا ہےسیدنا ابن عمرؓ نے کہ ’’ كُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَإِنْ رَآهَا النَّاسُ حَسَنَةً ‘‘ ہر بدعت گمراہی ہے گرچہ لوگ اسے اچھا ہی سمجھے۔(موسوعۃ الألبانی فی العقیدہ:2/99)

میرے پیارے پیارے میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو اور بہنو!

ابھی آپ نے یہ سنا کہ کسی بھی مستنداحادیث کی کتابوں میں اور دنیا کہ مشہور ومعروف احادیث کی کتابیں صحاح ستہ میں نہ تو اس میلاد کے فضائل کا بیان موجود ہے اور نہ ہی یہ نام تک لکھا ہوا ہے مگر ہم ہرآئے دن اس طرح کے بیان کی ویڈیوسنتے اور دیکھتے ہیں کہ کوئی عالم ومولانا ومفتی بڑے ہی گرج دار آواز میں گالیاں دیتے ہوئے اور قسم کھاتے ہوئے یہ دعوی کرتے اورکہتے نظر آتےہیں کہ فلاں فلاں کتاب میں اس میلاد کا ذکر موجود ہے،فلاں فلاں زمانے میں اس کو کیاجاتا تھا،فلاں بادشاہ کے دور میں اس کو اپنایا جاتاتھا وغیرہ وغیرہ تو سب سے پہلے آپ یہ جان لیں کہ یہ لوگ اپنی بدعت کی دوکان اوراپنے بدعت کے کاروبار کو فروغ دینے کے لئے اس طرح کے جھوٹے دعوے کرتے ہیں کیونکہ انہیں یہ بات اچھی طرح سے معلوم ہے کہ اگر وہ جھوٹے دعوے نہیں کریں گے تو لوگ اس بدعت کو چھوڑ دیں گے اورپھر ان کا پیٹ نہیں بھرے گا ،اومیرے دوستو!آؤ میں تمہیں اس موقعے سے ایک قیمتی بات بتاتاہوں کہ یہ عالم ومولانا اور مفتی حضرات جب اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹی قسمیں کھا رہے ہوتے ہیں تو دوران تقریر ہی اللہ سامعین حضرات سے اس کے جھوٹے ہونے کا اعلان کرارہاہوتاہے ،اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کیسے ؟تو سنئے اب دیکھئے کہ جب یہ لوگ بڑی بڑی قسمیں اور بڑے بڑے دعوے کررہے ہوتے ہیں تو عوام الناس بار بار کہتی ہے کہ سبحان اللہ!سبحان اللہ! سبحان اللہ! مطلب کیا ہے اس کا یہی نہ کہ اللہ کی ذات پاک ہے،تو جب کوئی مقرر ومفتی وتاج الشریعہ اللہ اور اس کے رسول کے نام پر جھوٹ بولتاہے تواسی وقت اللہ لوگوں کے زبانی یہ اعلان کروا رہاہوتاہے کہ اے مفتی سن ! تو جو بول رہاہے اور جو تو دعوے کررہاہے اس سے رب العزت کی ذات پاک ہے اور اللہ اور اس کے رسول نے اس بات کا حکم نہیں دیا ہے،تو خیر میرے دوستو!اس سلسلے میں دوسری بات یہ کہ یہ لوگ قرآن کی آیت کی غلط تاویلات اور من مانی تشریحات کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں ہ دیکھو یہاں اس سے مراد میلاد ہے،اب سوال یہ پیدا ہوتاہے اگر اس آیت سے یہی مراد ہے تو پھر آپﷺ نے میلاد منانے کا حکم کیوں نہیں دیا،چلئے اس سے آگے بڑھتے ہیں اگر حضرت العلامہ وتاج الشریعہ کی بات صحیح ہے تو پھر اس آیت سے یہی مفہوم ومراد صحابہ نے کیوں نہ سمجھا جب کہ صحابہ ہی نے تو سب سے پہلے اس قرآن کو لیا اور دیا،کتنی حیرت وتعجب کی بات ہے کہ جس آیت سے جوچیز صحابہ کو نہ سمجھ میں آئی آج کل کے مولویوں کو سمجھ میں آگئی ،اسی طرح سے یہ دھوکے باز بازیگر حدیث کے نام پر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں کہ اس حدیث میں یہی مراد ہے تو یہاں پر بھی یہی سوال پیداہوتاہے کہ یہ حدیث تو آج کی نہیں ہے،اس حدیث کو تو سب سے پہلے صحابہ نے اور پھر ان کے شاگردوں نے اور پھر اپنی اپنی کتابوں میں لکھنے والے محدثین نے سنا اورپڑھا مگر اس حدیث سے یہ کیوں نہ سمجھا کہ اس سے مراد یہ میلاد ہے،بڑی حیرت وتعجب کی بات ہے کہ اگریہ میلاد منانا قرآن وحدیث سے ثابت ہے تو پھر یہی بات حدیث بولنے والے خود آپﷺ کو کیوں نہ سمجھ میں آئی،کسی صحابی کی سمجھ میں کیوں نہ آئی اور پھر بعد کے ادوار تابعین وتبع تابعین کے ادوار میں کسی کو کیوں نہ سمجھ میں آئی؟اسی طرح سے حدیثیں پڑھنے ولکھنے اور جمع وتدوین کرنے والے محدثین کو کیوں نہ سمجھ میں آئی؟یہ بات ان سب کو سمجھ میں نہیں آئی مگر آج کل کے لوگوں کو یہ بات سمجھ میں آرہی ہے کہ اس حدیث سے میلاد کاثبوت ملتاہے،بڑی حیرت وتعجب کی بات ہے کہ جو قرآن کی آیت نبیﷺ نے خود پڑھی اور پھرصحابہ نے پڑھی پھر خیرالقرون ادوار کے تابعین ومحدثین نے پڑھی مگر ان سب کواس آیت سےمیلاد کا ثبوت نہ ملااور نہ ہی سمجھ میں آیا مگر آج کل کے لوگوں کو قرآن سے میلادکا ثبوت مل گیا،حدیثیں صحابہ نے اور پھر تابعین او ر محدثین عظام نے پڑھیں اور بیان کیں مگر ان سب میں سے کسی کو بھی یہ خیال نہ آیا کہ اس حدیث سے میلاد کا ثبوت ملتاہےمگر آج کل کے کچھ ناعاقبت اندیش لوگوں کومیلاد کا ثبوت مل گیا، صرف میلاد ہی کا ثبوت ان کونہیں ملا بلکہ ان کو میلاد کے بہانے اپنی بدعت کی دوکان کوچمکانے کے ساتھ ساتھ ان کوناچنے وگانے،تھرکنے اورٹھمکے لگانے،میوزک وگانے سننے کے علاوہ ان کو ہربے حیائی کوانجام دینے کی دلیل بھی مل گئی ہےاورآپ نے بھی دیکھا ہی ہوگا کہ اس میلاد کے دن محبت رسول کے نام پر کیا کچھ نہیں کیا جاتاہے،گلیوں ، کوچوں او رچوک چوہراہوں پر بھیڑلگا کرڈی جے بجاتے ہوئےڈانس کئے جاتے ہیں،غالبا ایسے ہی کردار ادا کرنے والے لوگوں کے بارے میں حسرت موہانی نے کہاتھا کہ :

خرد کا نام جنوں پڑگیا جنوں کا خرد

جوچاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے​

برادران اسلام!

ان ساری باتوں کو سن کر کے اب آپ یہی سوچ رہے ہوں گے کہ جب اس میلاد کا نام ونشان نبیﷺ کے زمانے میں نہ تھا ، نہ ہی صحابہ کے زمانے میں تھا اور نہ ہی تابعین اور تبع تابعین کے زمانے میں تھا تو پھر اس کا وجود کب ہوا؟ تو سنئے میں آپ کو اس کی اصل حقیقت بھی بتائے دیتاہوں کہ اس میلاد کو کب اورکس نے اورکہاں پرایجاد کیا تھا؟

میرے بھائیو اور بہنو! اس بات سے دنیا کاکوئی بھی انسان بالخصوص میلاد منانے والے حضرات بھی انکار نہیں کرسکتے ہیں کہ آپﷺ اور صحابہ وتابعین اور تبع تابعین کے دور میں اس میلاد نام کی کوئی چیز نہ تھی!پھر اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ اس میلاد کو کس نے ایجاد کیاتھا تو جب ہم تاریخ کے اوراق کو کھنگالتے ہیں تو ہمیں یہ ثبوت ملتے ہیں کہ اس بدعت کی ایجاد چوتھی صدی ہجری یعنی فاطمی دور 362 ھ تا 567 ھ کے درمیان میں ہوئی،یعنی کہ اس بدعت کی ایجادمصر کےفاطمی بادشاہوں کے دور میں کی گئی تھی،اب آپ فاطمی نام سن کریہ سوچ رہے ہوں گے کہ فاطمی مطلب سیدہ فاطمہؓ کے نسل اور اہل بیت سے تعلق رکھنے والےبادشاہوں نے اس کی ایجاد کی تھی،جی نہیں،ہرگز نہیں!یہ لوگ سیدہ فاطمہ ؓ کے نسل سے نہ تھے بلکہ یہ لوگ یہودیوں اور مجوسیوں کی نسل سے تھے اور اسلام کے کٹر دشمن ومخالف ،پکے کافرومشرک اور ملحد وزندیق تھے،اسلام کا لبادہ اوڑھ کر جھوٹ وفریب کا سہارا لے کر ان لوگوں نے اپنے آپ کو فاطمی النسل ظاہرکیاتھا،یہی وجہ ہے اس دور کے تمام ائمہ نے ان لوگوں کے کافروزندیق ہونے پر اجماع نقل کیا ہے جیسا کہ امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ ’’ قَدْ عُلِمَ أَنَّ جُمْهُورَ الْأُمَّةِ تَطْعَنُ فِي نَسَبِهِمْ وَيَذْكُرُونَ أَنَّهُمْ مِنْ أَوْلَادِ الْمَجُوسِ أَوْ الْيَهُودِ ‘‘جہمورامت نے فاطمیوں کو مجوسیوں یا یہودیوں کی اولاد قرار دیتے ہوئے اس بات کی گواہی دی ہے کہ یہ لوگ سیدہ فاطمہؓ کے نسل سے نہ تھےاور اس بات کی گواہی اس دور کے تمام حنفیہ،مالکیہ،شافعیہ،حنابلہ،اہل حدیث اور اہل کلام کے علماءاور نسب کے ماہرین عوام وخواص سب دیتے ہیں۔(فتاوی ابن تیمیہ:35/128)اسی طرح سے ان فاطمی بادشاہوں کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئےحافظ ابن کثیرؒ اپنی مایہ ناز کتاب البدایہ والنہایہ کے اندر رقمطراز ہیں کہ مصر کے فاطمی بادشاہ اور ان کے تمام اکابرین یہ سب کے سب کافروفاجر،فاسق وملحد اور زندیق تھے،یہ سب کے سب مجوسی یعنی آگ کے پجاری اور بت پرستی کیاکرتے تھے،ان سب نے تمام اسلامی حدوں کو پار کیا،حرام کاریوں اور زناکاریوں اور شراب نوشی کو حلال ٹھہرایا،مسلمانوں کا بے دریغ خون بہایا،انبیائے کرام کو گالیاں دیں اور اسلاف کرام پر لعنتیں بھیجیں ساتھ میں انہیں لوگوں نے خدائی دعوے بھی کئے،حافظ ابن کثیرؒ مزید لکھتے ہیں کہ یہ ساری باتیں 402 ھ میں ہرطبقہ کے بے شمار لوگوں کی موجودگی میں مع دستخط لکھی گئی ہیں۔( تاریخ ابن کثیر:11/592-593،تفصیل کے لئےدیکھئےواقعات:402 ھ) پتہ یہ چلا کہ اس میلاد کی ایجاد اور داغ بیل ایسےبادشاہوں کے ادوار میں ڈالی گئی تھی جو مسلمان نہ تھے بلکہ یہودی اور مجوسی تھے۔

میرے بھائیو!اس میلاد کی ایجاد تو ان مجوسیوں اور یہودی النسل لوگوں نے تو ضرور کی مگر مسلمانوں میں اس کو پروان چڑھانے والا’’ابوسعیدمظفرالدین بن زین الدین کوکبوری نامی ایک بداخلاق وبدکردار،لہوولعب،ناچنے وگانے اور فضول خرچی کرنے والااِرْبَل شہرکا ایک ظالم وغاصب بادشاہ تھا اور اس کے فضائل ومناقب پر سب سے پہلے جس انسان نے کتاب لکھی اس کا نام ابوالخطاب بن دحیہ تھا اور جب اس نے اس موضوع پر کتاب لکھی تو اس بادشاہ نے خوش ہوکرایک ہزاردینار بھی تحفے میں دئے تھے۔(البدایہ والنہایہ : 13/124بحوالہ جشن عیدمیلاد النبیﷺ قرآن وحدیث سے ثابت نہیں،ص:166))اب یہ کیساانسان تھا ذرا اس کےبارے میں مختصر طور پر سن لیں کہ یہ ابن دحیہ ایک ایساکذاب یعنی جھوٹا انسان تھا جس کے جھوٹے ہونے پر تمام ائمہ کا اتفاق ہے،امام ابن نجار ؒنے کہا کہ تمام لوگوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ابن دحیہ ایک جھوٹا اورحدیثیں گھڑنے والا شخص تھا،اسی طرح سے حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں کہ ابن دحیہ ائمہ اور سلف کی شان میں گستاخی کرنے والاتھا،یہ بدزبان،احمق اور بڑامتکبر انسان تھا،اسی طرح سے حافظ سیوطیؒ لکھتے ہیں کہ ابن دحیہ اپنی عقل سے فتوی دیاکرتاتھاپھر اس کی دلیل تلاش کرنے میں لگ جاتا اور جب اسے کوئی دلیل نہ ملتی تو اپنی طرف سے حدیث گھڑ کے پیش کردیتاتھا۔(لسان المیزان :4/295-296بحوالہ ماہ ربیع الاول اورعیدمیلاداز شیخ ابوالفوزان کفایت اللہ سنابلیحفظہ اللہ،ص:4-6)میرے بھائیو!اب ذراسوچئے کہ جب ایک جھوٹے اور حدیث گھڑنے والے انسان نے اس میلاد کے فضائل پر سب سے پہلے کتاب لکھی تھی تو اس بدبخت نے اللہ اور اس کے رسول کے نام پر کیا کیا حدیثیں نہیں گھڑی ہوں گی؟اوردین کے نام پرکیا کیا اول فول نہیں لکھا ہوگا ؟اب ان ساری تفصیلات وحقائق کو سننے کے بعد بھی اگر کسی انسان کو اس میلادکے بدعت قبیحہ ہونے میں شک وشبہ ہوتو وہ اپنے دماغ کا علاج کرالے۔

میرے پیارے پیارے اسلامی بھائیو اور بہنو!جب ہم اس حقیقت کو بیان کرتے ہیں کہ یہ میلاد ایک بدعت ہے اور یہ قرآن وحدیث سے اور تعامل صحابہ سے ثابت نہیں ہے تو یہ اللہ اور اس کے رسولﷺ سے آگے بڑھنے والے لوگ یہ کہہ کرلوگوں کو ورغلاتے اور بہکاتے ہیں کہ دیکھو یہ دشمنان رسول اور گستاخ رسول ہیں کہ ہم نبی ﷺ کی تعریف وتوصیف اور فضائل ومناقب کو بیان کرتے ہیں تو ان کو تکلیف ہوتی ہےوغیرہ وغیرہ تو اس کا جواب بھی سن لیجئے اور جان لیجئے کہ کائنات کی رب کی قسم!ہمارا ایمان وعقیدہ تو یہ ہے نبیﷺکاذکرخیرکرنا بھی عبادت ہے اور آپﷺ کے فضائل ومناقب کو بیان کرنا یہ تو ہمارے ایمان کا جزو حصہ ہے ،بخدا! ہمیں نبیﷺ کے فضائل ومناقب کے بیان کئے جانے پر اعتراض نہیں ہے اورکوئی بدبخت وبددین،فاسق وفاجر،ملحدوزندیق اور کافرومشرک ہی ہوگا جو اس پر معترض ہوگا بلکہ ہمیں تو اس بات پر اعتراض ہے کہ تم جس طرح اور جس طریقے سے ہمارے آقا ومحبوب کائناتﷺ کا تذکرہ کرتے ہو کیا وہ طریقہ ہمارے نبیﷺ نے خود بیان کیاہے؟ جس طرح سے تم اپنے آقا کا جشن منارہے ہوکیا اس طریقے کی اجازت رب العالمین نے دی ہے؟جو کام اور جوحرکت تم نبیﷺ کے نام اور دین کے نام پرکرتے ہو کیااس نہج پر اس کام کو صحابہ نےکبھی انجام دیا تھا؟یہ اہل بدعت کی مکاری وعیاری نہیں ہے تو اورکیا ہے کہ ہم کسی اور چیز پر اعتراض کریں اور یہ اہل بدعت لوگوں کے جذبات سے کھیلتے ہوئے کچھ اور ہی سمجھاتے ہیں اور لوگ بھی ان کے جھانسے پر آکر ان کی باتوں پر بلاسوچے وسمجھے یقین کرلیتے ہیں اورپھرگمراہ ہوجاتے ہیں،آئیےاس بات کو میں ایک مثال کے ذریعے آپ کوسمجھادیتاہوں تاکہ دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی ہوجائے،اب دیکھئے ہم اور آپ جانتے ہیں کہ ہماری شریعت میں مغرب کی نماز تین رکعتیں مشروع ہے اب اگر کوئی چاررکعتیں پڑھنے لگے اور جب اس کو اس حرکت سے باز رہنے کی تلقین کی جائے تو کوئی دیوانہ اور عقل کا اندھا یہ کہنا شروع کردے کہ دیکھو یہ تو اچھا کام ہی کررہاہے مگر یہ لوگ اس کو نماز پڑھنے سے روک رہے ہیں،اب آپ ہی بتائیں کہ ایسے انسان کو نماز پڑھنے سے روکا گیا یا پھر ایک رکعت زیادہ اداکرنے سے روکا جارہاتھا!ظاہر سی بات ہے کہ جوشریعت کے خلاف عمل ہورہاتھا اس سے روکا گیا نہ کہ نماز پڑھنے سے!اس مسئلے کو لے کر لوگوں کا ذہن صاف ہوجائے آئیے ایک اورمثال بیان کئے دیتاہوں تاکہ حق واضح ہوجائے اورباطل چھٹ جائے ،اب دیکھئے ہم اورآپ جانتے ہیں کہ اذان یہ لاالہ الا اللہ پر ختم ہوتی ہے اب اگر کوئی انسان لاالہ الا اللہ پر ختم کرنے کے بجائے لا الہ الا اللہ محمدرسول اللہ کہنا شروع کردے اور جب اسے اس سے روکا جائے تو کوئی دیوانہ اور عقل کا اندھا یہ کہنے لگے کہ دیکھو یہ لوگ نبی کے دشمن ہیں اورگستاخ رسول ہیں اس لئے کہ نبی کا نام لیا جارہاہے تو ان کو تکلیف ہورہی ہے اس لئے یہ لوگ چیں بجبیں ہیں،اب آپ ہی بتلائیے کہ نبی کا نام لینے سے روکا جارہاتھا یا پھر جس جگہ اور جس وقت نبی کا نام لیا جارہاتھا اس پر روک وٹوک لگائی جارہی تھی!ظاہرسی بات ہے کہ جو شریعت کے خلاف عمل ہورہاتھا اس سے روکا جارہاتھا نہ کہ نبی کا نام لینے سے،آئیے اسی بات کی ایک مثال حدیث سن لیتے ہیں حضرت نافعؒ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے سیدنا ابن عمرؓ کے سامنے چھینک ماری اور کہا کہ ’’ أَلحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ‘‘تو ابن عمرؓ نے کہا کہ یہ جملہ’’ أَلحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ‘‘ تو میں بھی کہتاہوں یعنی میں بھی اللہ کی تعریف بیان کرتا رہتاہوں اور اپنے نبیﷺ پر درود وسلام بھیجتا رہتاہوں لیکن ’’ وَلَيْسَ هَكَذَا عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ‘‘ایسے موقع پر نبیﷺ نے ہمیں یہ نہیں سیکھائی جو تونے کہا ہے بلکہ آپﷺ نے ہمیں چھینک کے بعد یہ سیکھائی ہے کہ ہم ’’ الحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ ‘‘ کہے۔ (ترمذی:2738،الصحیحۃ:346)دیکھا اور سناآپ نے کہ سیدنا ابن عمرؓنے کس طرح سے ایک ایسے انسان کو ٹوکا جو کام تو صحیح کررہاتھا مگر اس کا طریقہ غلط تھا اور ہم بھی تو یہی کہتے ہیں کہ کام کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو مگر وہ سنت کے خلاف ہے تو وہ باطل ومردود ہے۔

میرے اسلامی بھائیو اور بہنو!

بس انہیں دو مثالوں مدنظر رکھتے ہوئے آپ اپنے دل کو صاف کرلیں اور یہ اچھی طرح سے جان لیں کہ ہمیں نبیﷺ کے فضائل ومناقب بیان کئے جانے پر اعتراض ہرگز نہیں ہے بلکہ جوشریعت کے خلاف عمل کیاجارہاہے اس پر ہم معترض ہیں،ہم کام پر معترض نہیں بلکہ کام کے طوروطریقے پر معترض ہیں کیونکہ نبیﷺ کو یادکرنے کا جوطوروطریقہ ان اہل بدعت نے اپنایاہےوہ سراسر قرآن وحدیث اور تعامل صحابہ کے خلاف ہے اور ہم ایک بار نہیں باربار اورہزاربارہراس کام پر اعتراض کریں گے اور لوگوں کو روکیں گےجواللہ اور اس کے رسولﷺ کے فرامین کے خلاف ہوگاگرچہ وہ اچھی ہی چیز کیوں نہ ہواور اس بات کی تعلیم تو خود ہمارے آقاومحبوب خداومحبوب کائناتﷺ نے خود دی ہے اورکہاہے کہ تم ہربدعت کے خلاف آواز اٹھاؤ جیسا کہ فرمان مصطفیﷺ ہے ’’ مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ ‘‘ جوشخص ہمارے دین میں وہ چیز ایجاد کرے جو ہمارے دین میں شامل نہیں ہے تو وہ مردود ہے (بخاری:2697،مسلم:1718،ابن ماجہ:14)اور ایک دوسری روایت ہے کہ ’’ مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ ‘‘ جو کوئی ایسا عمل کرے جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ مردود ہے۔(مسلم:1718،ابوداؤد:4606)ان دونوں حدیثوں میں فھورد کالفظ مذکور ہوا ہے جس کا معنی یہی تو ہے کہ وہ عمل ناقابل قبول ہے یعنی کہ مسلمانوں کو یہ عمل قبول نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کی تردید اور اس سے منع کرنا چاہیے،دوسرا معنی یہ ہے کہ وہ کام بھی باطل اورمردود ہے اور تیسرا معنی یہ بھی ہے کہ جو آدمی نبیﷺ کے قول وعمل کے خلاف کرے گا وہ بھی مردود اور قابل نفرت ہے۔

الغرض یہ لوگ قرآن کی کسی بھی آیت سے یا پھر کسی بھی صحیح حدیث سے لاکھ جتن کرلے اور ہزار بار اپنے عقل کے گھوڑے کو دوڑا لیں مگر جو چیز شریعت میں ثابت ہی نہیں وہ ثابت نہیں ہوسکتی ہے،اب اگرکوئی شخص اپنے گائے کا نام بیگم رکھ لے تو اس کی گائے اس کی بیگم نہیں بن جائے گی تو کہنے اورعوی کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتاہے۔

برادران اسلام!

تمام دلائل وبراہین کوسن کر آپ نے یہ اندازہ لگالیا ہوگا کہ محبت رسول اس کا نام نہیں ہے کہ نبی کے نام پر ناچ لیا جائےاورٹھمکے لگا لیا جائے،جشن میلاد منالیا جائے اورجلوس نکال لیا جائے ،یہ حقیقت واضح ہوجانے کے بعد اب آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ پھر محبت رسول ہے کیا؟تو آئیے اس سوال کا جواب میں آپ کو قرآن وحدیث سے دئے دیتاہوں ، دیکھئے میرے بھائیو اور بہنو!اگر کوئی انسان یہ دعوی کرتاہے کہ وہ آپﷺ سے محبت کرنے والا ہے تو قرآن کا اعلان یہ ہے کہ اس کے عمل وکردار کو دیکھ لو کہ کیاو ہ انسان متبع رسول ہے یا نہیں؟اگر وہ متبع رسول ہے تو یقینا وہ محب رسول ہے اور اگر متبع سنت نہیں ہے تو جان لو کہ وہ بس کھوکھلے دعوے کرنے والا ایک جھوٹامنافق ہے ،اب سنئے قرآن نے محب رسول کی علامت ونشانی کو واضح کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ’’ قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي ‘‘کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو۔(آل عمران:31)دیکھئے قرآن نے محب رسول کی علامت واضح طور پر بیان کردی ہے کہ محب رسول شخص ہرچیز اور ہرکام میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتاہےاسی کے برعکس جس نے آپﷺ کی اطاعت وفرمانبرداری نہ کی وہ انسان اپنے قول وفعل میں جھوٹا اور آپ ﷺ کا منکر ہے جیسا کہ اس مسئلے کی وضاحت خود حبیب کائناتﷺ نے خود کردی ہے کہ ’’ كُلُّ أُمَّتِي يَدْخُلُونَ الجَنَّةَ إِلَّا مَنْ أَبَى ‘‘میری امت کا ہرفرد جنت میں جائے گا سوائے اس کے جس نے میرا انکار کیا! صحابہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ ’’ وَمَنْ يَأْبَى ‘‘ کس نے آپ کا انکار کیا؟ توآپﷺ نے فرمایا کہ ’’ مَنْ أَطَاعَنِي دَخَلَ الجَنَّةَ وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ أَبَى ‘‘ جس نے میری اطاعت وفرمانبرداری کی وہ جنت میں جائے گا اور جس نے میری نافرمانی کی اسی نے میرا انکار کیا۔(بخاری:7280)ذرا غور کیجئے اور خود فیصلہ کرلیجئے کہ آپﷺ نے اپنی زبان مبارک سے کس کو گستاخ رسول اور منکررسول قرار دیا ہے؟ کیایہ جشن میلاد اور ناچ گانے،ڈھول باجےرسول اللہﷺ کی نافرمانی نہیں ہے؟بقول شاعر

آپ ہی اپنے ذرا جو ر وستم کو دیکھیں

ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی​

اس سے بڑی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی اور کیاہوسکتی ہے کہ جس کام کو کرنے کا حکم نہ اللہ نے دیا اورنہ ہی رسول اللہﷺ نے دیا اور نہ ہی صحابہ نے کیا اس کام کوکارخیراور ثواب سمجھ کر انجام دیاجائے ،سوچئے کہ اگر میلاد محبت رسول کی علامت ہوتی یا پھر یہ دین کا حصہ ہوتا تو پھرآپﷺ نے اس کی خبرکیوں نہ دی؟یہ بھی ذرا سوچئے کہ جس نبی نے ہمیں سونے وجاگنے کے آداب بتائے،سڑکوں پر چلنے کےآداب بتائے،جوتا وچپل اور کپڑا پہنے کے آداب بتائے،پیشاب وپاخانہ کرنے کے آداب بتائے،طہارت وپاکیزگی کے آداب بتائے،غسل کے آداب بتائے ،کنگھی کرنے کے آداب بتائے،کھانے وپینے کے آداب بتائے،سفر وحضر کے آداب بتائے،گھرومسجد میں آنے وجانے کے آداب بتائے،مونچھ وداڑھی یہاں تک کے بغل وزیرناف کے بالوں کے احکام ومسائل بتائے،حیض ونفاس کے احکام ومسائل بتائے کیا اس نبی نے ہمیں اتنے بڑے اور اہم مسئلہ کی خبر نہ دی؟کائنات کی رب کی قسم اگر اس میلاد میں رتی برابر بھی کچھ خیر ہوتاتو ہمارے نبی ﷺہمیں اس بات کی ضرور بالضرور خبر دیتے كيونكه حبیب کائناتﷺ نے ہمارے لئے ہر خیر وبھلائی کو واضح کردیا ہے جیسا کہ اس بات کی گواہی خودآپ سے نے دی ہے کہ اے لوگوں ایک بات یاد رکھنا! ’’ مَا بَقِيَ شَيْءٌ يُقَرِّبُ مِنَ الْجَنَّةِ ويُبَاعِدُ مِنَ النَّارِ إِلَّا وَقَدْ بُيِّنَ لَكُمْ ‘‘ كه جوبھی چیز ،خیر واعمال ایسی تھی جو جنت سے قریب اور جہنم کی آگ سے دورکرنے والی تھی ان سب باتوں اورکاموں کی تمہارے لئے وضاحت کردی گئی ہے (الصحیحۃ:1803،طبرانی:1647)یعنی کہ اللہ رب العزت نے اورمیں نے ان سب کاموں اور باتوں کوواضح کردیا ہے،پتہ یہ چلا کہ اگر یہ میلاد ثواب کا کام ہوتا یا یہ پھر دین کا حصہ ہوتا تو آپﷺ ہمیں ضروربالضرور اس کی خبر دیتے اورہمارے نبیﷺ کا اس بارے میں کچھ بھی نہ بتانا یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ میلاد منانا یہ محبت رسول کی علامت نہیں بلکہ گستاخیٔ رسول اور عاصیٔ رسول کی نشانی ہے۔بس اسی شعر کے ساتھ اپنی بات کو ختم کرتاہوں کہ:

اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی

ہم نے تو دل جلا کے سرعام رکھ دیا​

آخر میں رب العزت سے دعاگو ہوں کہ اے الہ العالمین تو ہمیں تادم حیات سنت پر قائم ودائم رکھ اور جولوگ گمراہ ہے تو انہیں ہدایت نصیب فرما۔آمین یا رب العالمین۔

کتبہ

ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی

 
Top