سنیئے ایک طالب علم اہلحدیث اور ایک مولوی حنفی دیوبندی کا مکالمہ
میری کبھی بھی یہ سوچ نہیں رہی کہ آپس میں مسلکی اختلافات اور ابحاث کو علمی انداز میں حل نہیں ہونا چاہیے ۔
لیکن میرا یہ احساس ضرور ہے کہ ہم جس دور سے گزر رہے ہیں ، یہاں اسلام پسندوں اور مادر پدر آزاد لوگوں کی جنگ ہے ، لہذا جو جو اسلام پسندوں میں آتے ہیں ، سب کو مل کر لبرل اور ملحد قسم کے لوگوں کی طبیعت صاف کرنی چاہیے ، اور زیادہ اوقات انہیں امور میں صرف کرنے چاہییں ۔
اہل حدیث ، دیوبندی ، بریلوی وغیرہ مسالک و مذاہب کا احترام ، ان کے علماء کی عزت و تکریم ، اور عوام کا ان پر اعتماد بحال کرنا انتہائی ضروری ہے ، ورنہ احقاق حق اور ابطال باطل کے خوشنما نظریے کے تحت لا شعوری طور پر الحاد اور لبرل ازم کا کام آسان کر رہے ہیں ۔
ایک اہل حدیث عالم جنہوں نے ساری عمر دین کی خدمت میں گزار دی ہے ، دیوبندی اس کو جاہل ، دھوکے باز ، اور کسی کا ایجنٹ قرار دے دیں ، دوسری طرف کوئی دیوبندی عالم دین جس نے ساری زندگی مسلمانوں کی بھلائی میں صرف کی ہے ، اہل حدیث اس کو ایسے القابات سے نوازیں تو بتائیں ، یہاں مسلمان کون رہ گیا ؟ اور اسلام کا نام لیوا کون بچا ؟
یہی کچھ ملحد او راسلام بیزار لوگ چاہتے ہیں ۔