• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا وسوسے میں بیوی کو طلاق دینے سے طلاق ہو جاتی ہے (وسوسہ اوراس کا علاج)

علی محمد

مبتدی
شمولیت
مارچ 03، 2023
پیغامات
52
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
21
سوال
جب مجھے وسوسہ پیدا ہو اور میں بیوی کی بات کا وسوسے کے سبب جواب نہ دوں یا پھر اپنے اس اعتقاد کی بنا پر کہ بیوی ہی اس وسوسے کا سبب ہے توکیا میرا جواب نہ دینا طلاق شمار ہوگا ؟
اور جب میں اس سے عصبیت اور انفال سے یا متاثر ہوکر بات کروں توکیا اسے طلاق شمار کیا جاۓ گا ؟
جواب
آپ کا بیوی کو جواب نہ دینا طلاق شمار نہیں ہوگا ، اوراسی طرح عصبیت اور انفال میں کی گئي بات بھی طلاق شمار نہيں ہوگی ۔
جتنا بھی آپ طلاق کے متعلق سوچ لیں یا پھر اپنے آپ سے اندر ہی اندر کہتے رہیں یا عزم کرلیں طلاق اس وقت تک واقع نہیں ہوگی جب تک آپ الفاظ کی شکل میں زبان سے ادا نہیں کرتے ۔
[/QUOTE] [/QUOTE]
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَأْتِي الشَّيْطَانُ أَحَدَكُمْ، فَيَقُولُ: مَنْ خَلَقَ كَذَا مَنْ خَلَقَ كَذَا حَتَّى، يَقُولَ: مَنْ خَلَقَ رَبَّكَ فَإِذَا بَلَغَهُ فَلْيَسْتَعِذْ بِاللَّهِ وَلْيَنْتَهِ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں عروہ نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم میں سے کسی کے پاس شیطان آتا ہے اور تمہارے دل میں پہلے تو یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ فلاں چیز کس نے پیدا کی، فلاں چیز کس نے پیدا کی؟ اور آخر میں بات یہاں تک پہنچاتا ہے کہ خود تمہارے رب کو کس نے پیدا کیا؟ جب کسی شخص کو ایسا وسوسہ ڈالے تو اللہ سے پناہ مانگنی چاہئے، شیطانی خیال کو چھوڑ دے۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ/حدیث: 3276]
[/QUOTE][/QUOTE]
● صحيح البخاري
3276
يأتي الشيطان أحدكم فيقول من خلق كذا من خلق كذا حتى يقول من خلق ربك فإذا بلغه فليستعذ بالله ولينته
● صحيح مسلم
345
يأتي الشيطان أحدكم فيقول من خلق كذا وكذا حتى يقول له من خلق ربك فإذا بلغ ذلك فليستعذ بالله ولينته
● صحيح مسلم
343
لا يزال الناس يتساءلون حتى يقال هذا خلق الله الخلق فمن خلق الله فمن وجد من ذلك شيئا فليقل آمنت بالله
● صحيح مسلم
349
هذا الله فمن خلق الله قال فبينا أنا في المسجد إذ جاءني ناس من الأعراب فقالوا يا أبا هريرة هذا الله فمن خلق الله قال فأخذ حصى بكفه فرماهم ثم قال قوموا قوموا صدق خليلي
● صحيح مسلم
350
ليسألنكم الناس عن كل شيء حتى يقولوا الله خلق كل شيء فمن خلقه
● صحيح مسلم
347
لا يزال الناس يسألونكم عن العلم حتى يقولوا هذا الله خلقنا فمن خلق الله قال وهو آخذ بيد رجل فقال صدق الله ورسوله قد سألني اثنان وهذا الثالث أو قال سألني واحد وهذا الثاني
● سنن أبي داود
4721
لا يزال الناس يتساءلون حتى يقال هذا خلق الله الخلق فمن خلق الله فمن وجد من ذلك شيئا فليقل آمنت بالله
● سنن أبي داود
4722
إذا قالوا ذلك فقولوا الله أحد الله الصمد لم يلد ولم يولد ولم يكن له كفوا أحد
● صحيفة همام بن منبه
95
لا تزالون تستفتون حتى يقول أحدكم هذا الله خلق الخلق فمن خلق الله
● مشكوة المصابيح
65
اتي الشيطان احدكم فيقول: من خلق كذا؟ من خلق كذا؟ حتى يقول: من خلق ربك؟ فإذا بلغه فليستعذ بالله ولينته
● مشكوة المصابيح
66
ا يزال الناس يتساءلون حتى يقال هذا خلق الله الخلق فمن خلق الله؟ فمن وجد من ذلك شيئا فليقل: آمنت بالله ورسله
● مشكوة المصابيح
75
لا يزال الناس يتساءلون حتى يقال: هذا خلق الله الخلق فمن خلق الله؟ فإذا قالوا ذلك فقولوا الله احد الله الصمد لم يلد ولم يولد ولم يكن له كفوا احد ثم ليتفل عن يساره ثلاثا وليستعذ من الشيطان
● مسندالحميدي
1187
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3276 کے فوائد و مسائل​
اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( بلاشبہ اللہ تعالی نے میری امت سے اس کے وسوسے ، اوران کے دل کی بات جب تک کہ وہ اس پر عمل نہ کرلیں یا زبان سے بات نہ کرلیں معاف کردی ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 6664 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 127 ) ۔
اہل علم کے ہاں عمل بھی اسی پر ہے کہ جب انسان اپنے دل میں ہی طلاق کی بات کرے اور اسے زبان پر نہ لاۓ تو وہ کچھ بھی نہيں ۔
بلکہ بعض اہل علم کے ہاں تو وسوسے میں مبتلا شخص کی طلاق واقع ہی نہیں ہوتی چاہے وہ زبان سے بھی طلاق کے الفاظ بول دے ، لیکن اس سے اس کا طلاق دینے کا ارادہ نہ ہو ۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
( وسوسے میں مبتلا شخص کی طلاق واقع نہیں ہوتی اگرچہ وہ زبان سے طلاق کے الفاظ ادا کردے اوراس سے طلاق مقصد نہ ہو ، اس لیے کہ یہ الفاظ وسوسے والے شخص بغیر ارادہ اور قصد کے ادا ہوۓ ہیں ، بلکہ وہ اس پر مبہم ہے جوکہ قلت منع اور قوت دافع کی وجہ سے ادا ہوۓ‌ ہيں ۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
" ابہام میں طلاق نہيں "
لھذا اس سے اس وقت تک طلاق واقع نہیں ہوگی جب تک کہ وہ اطمنان اور حقیقی ارادہ سے طلاق نہ دے ، تویہ چيز جس پروہ بغیر قصد اوراختیار کے بغیر مجبورکیا گيا ہے یقینا اس سے طلاق واقع نہيں ہوتی ) انتہی ۔ دیکھیں فتاوی اسلامیۃ ( 3 / 277 ) ۔
ہم آپ کو وصیت کرتے ہیں کہ آپ وسوسے کی طرف متوجہ ہی نہ ہوں اور اس سے اعراض کرتے ہوۓ جس چيز کی دعوت وسوسہ دے اس کی مخالفت کریں ، اس لیے کہ وسوسہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے تا کہ وہ مومنوں کو پریشانی میں مبتلا اور غمگین کرے ۔
وسوسے کا سب سے بہتر اور اچھا علاج اللہ تعالی کا کثرت سے ذکر اور شیطان مردود سے پناہ اور معاصی و گناہوں سے دور رہنا ہے جس کی وجہ سے شیطان اولاد آدم پر مسلط ہوتا ہے ۔
اللہ جل شانہ کا فرمان کچھ اس طرح ہے :
یقینا ( شیطان ) کے لیے ان لوگوں پر کوئی طاقت اور زور نہيں چلتا جو ایمان لائيں اور اپنے رب پر توکل کریں النحل ( 99 ) ۔
بہتر ہے کہ ہم یہاں پر ابن حجر ھیتمی رحمہ اللہ تعالی نے جو وسوسے کا علاج بیان کیا ہے وہ نقل کرتے جائيں :
ابن حجر رحمہ اللہ تعالی ( اللہ ان سے نفع دے ) سے جب وسوسے کی بیماری کا علاج دریافت کیا گیا تو ان کا جواب تھا :
اس کی بہت ہی فائدہ مند اور نفع بخش دوا موجود ہے ، وہ یہ کہ اس سے مکمل طور پر اعراض ہی کافی ہے ۔
اگر نفس میں کسی قسم کا تردد ہو توجب اس کی طرف دھیان ہی نہیں دیا جاۓ گا اور اس کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوا جاۓ تو وہ تردد اور وسوسہ کبھی بھی نہیں ٹھر سکتا بلکہ کچھ مدت کے بعد ہی وہ غائب ہو جائیگا ، جیسا کہ اس کا تجربہ بھی بہت سے اچھے لوگوں نے کیا ہے ۔
لیکن اگر اس کی طرف متوجہ ہوکر اور دھیان دے کر اس کے تقاضے پر عمل کیا جاۓ گا تو وہ اور زيادہ ہوتا چلا جاۓ گا حتی کہ اسے مجنون اور پاگلوں تک پہنچا دے گا بلکہ اس سے بھی قبیح شکل میں لے جاۓگا ، جیسا کہ ہم نے بہت سے لوگوں کا مشاہدہ کیا ہے جواس بیماری میں مبتلا ہوۓ اور اس کی اور اس کے شیطان کی طرف متوجہ ہوۓ
جس کے بارہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ کرتے ہوۓ کچھ اس طرح فرمایا :
( پانی کے وسوسہ ولھان سے بچو ) یعنی جو کچھ اس میں مبالغہ اورلھو ہے اس کی وجہ سے بچو جیسا کہ اس کے متعلق شرح مشکاۃ الانوار میں بیان کیا گیا ہے ، اورصحیح بخاری اورصحیح مسلم میں اس کی تائيد بھی آئي ہے جومیں نے ذکر کی ہے کہ جوبھی وسوسہ میں مبتلا ہواسے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرنی چاہیۓ اوروہ اس وسوسہ سے رک جاۓ ۔
توآپ اس علاج پر ذرا غور وفکر اورتامل کریں جسے ایسے شخص نے تجویز کیا ہے جواپنی امت کے لیے خود بولتا ہی نہيں ۔
آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ جواس سے محروم ہوا وہ ہر قسم کی بھلائی اورخير سے محروم ہوگيا ، اس لیے کہ وسوسہ بالاتفاق شیطان کی طرف سے ہے وہ ایسا لنعتی ہے جس کی مراد کی کوئي انتہاء ہی نہیں بلکہ وہ تومومن کوضلالت و گمراہی اورپریشانی ، زندگی کی بربادی ، اورنفس کواندیھرے میں ڈال دیتا ہے اوروہاں تک لےجاتا ہے کہ اسے اسلام سے ہی خارج کردے اوراسے اس کا شعور اور علم تک نہیں ہوتا ۔
فرمان باری تعالی ہے :
یقینا شیطان تمہارا دشمن ہے توتم اسے دشمن ہی بنا کررکھو فاطر (6)
ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ : ( جووسوسہ میں مبتلا ہواسے یہ کہنا چاہيۓ : میں اللہ تعالی اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا )
اس میں کوئي شک نہیں کہ جوبھی اپنے ذھن میں انبیاء کے طریقے اورسنت رکھے اورخاص کر ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اورشریعت جسے وہ آسان و سہل اورواضع اوربالکل صاف شفاف جس میں کسی قسم کا کوئي حرج نہیں وہ آسانی پاۓ گا ۔
فرمان باری تعالی ہے :
اوراس نے تم پر دین میں کوئی حرج نہیں بنایا الحج ( 78 ) ۔
جوبھی اس پر غوروفکر اورتامل کرتا اورحقیقی ایمان لاۓ اس سے وسوسہ کی بیماری اورشیطان کی طرف دھیان دینے کی بیماری جاتی رہتی ہے ، ابن سنی کی کتاب میں عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ :
جوبھی اس وسوسے میں مبتلا ہو اسے تین باریہ کہنا چاہیۓ : ہم اللہ تعالی ، اوراس کے رسولوں پر ایمان لاۓ ، اس سے اس کا وسوسہ جاتا رہے گا ۔
عز بن عبدالسلام وغیرہ نے بھی اسی طرح ذکرکیا ہے جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے ، ان کا کہنا ہے :
وسوسہ کا علاج یہ ہے کہ : یہ اعتقاد رکھے کہ یہ ایک شیطانی سوچ ہے ، اورابلیس ہی ہے جس نے یہ سب کچھ اس کے ذہن میں ڈالا اوراس سے لڑ رہا ہے ، تواس سے اسے مجاھد کا ثواب حاصل ہوگا ، اس لیے کہ وہ اللہ تعالی کے دشمن سے لڑ رہا ہے ۔
اورجب وہ اسے محسوس کرے گا تواس سے بھاگ جاۓ گا ، اوریہ اسی سے ہےجس سے نوع انسانی شروع سے مبتلا رہی اوراللہ تعالی نے اسے اس پر بطور آزمائش مسلط کردیا تا کہ اللہ تعالی حق کوثابت اورباطل کوختم کرے اوراگرچہ کافر اس کو برا ہی جانتیں رہیں ۔
اورصحیح مسلم میں عثمان بن ابی العاص رضي اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ شیطان میرے اورمیری نماز اورقرات کے درمیان حائل ہوگیا ، میں نے اس کا ذکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا توآپ نے فرمایا :
یہ شیطان جسے خنزب کہا جاتا ہے ، تواس سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کر اوراپنی بائيں جانب تین بار تھوک ، میں نے ایسے ہی کیا تواللہ تعالی نے مجھ سے اسے دور کردیا ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2203 ) ۔
تواس سے آپ کو علم ہوگا کہ میں نے جوکچھ بیان کیا ہے وہ صحیح ہے کہ وسوسہ صرف اس پر مسلط ہوتا ہے جس پر جہالت طاری ہواوروہ تمیز کرنے سے عاری ہوجاۓ ، لیکن جوحقیقی علم رکھے اورباعقل ہو تووہ اتباع سے نہیں نکلتا اورنہ ہی اس میں بدعات پائي جاتی ہیں ۔
اورسب سے قبیح اوربرے بدعتی وہ ہیں جنہیں وسوسوں نے گھیررکھا ہے اسی لیے امام مالک رحمہ اللہ تعالی نے اپنے شیخ ربیعہ جوکہ ان کے زمانے کے امام تھے کہا ہے :
ربیع لوگوں میں سے دوکاموں استبراء اوروضوء میں سب سے زيادہ تیز اورآگے تھے ، حتی کہ اگر ان کے علاوہ کوئي اور ہوتا تومیں کہتا کہ اس نے نہیں کیا ، شائد وہ اپنے اس قول ( اس نے نہیں کیا ) سے مراد وضوء نہيں کیا ہو۔
اورابن ھرمز استبراء ( برات طلب کرنے ) اوروضوء میں بہت زيادہ سست تھے ، اوروہ کہتے تھے کہ میں آزمائش میں ہوں میری اقتداء نہ کرو ۔
اورامام نووی رحمہ اللہ تعالی نے بعض علماء سے نقل کیا ہے کہ :
جوشخص وضوء یا پھر نماز میں وسوسہ میں مبتلا ہوجاۓ تو اس کے لیے لااٍله اٍلاالله کہنا مستحب ہے ، اس لیے کہ شیطان جب یہ سنے گا توذلیل ہوکر پیچھے ہوجاۓ گا ، اور لااٍله اٍلاالله ذکر کی چوٹی اوربلندی ہے ، اوروسوسے کوختم کرنے کے لیے سب سے بہتر اوراچھا علاج کثرت سے اللہ تعالی کا ذکر کرنا ہے ۔۔۔۔ ) ابن حجرھیتمی رحمہ اللہ کی کلام ختم ہوئي
دیکھیں : الفتاوی الفقھیۃ ا لکبری ( 1 / 149 )
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہيں کہ وہ آپ کے وسوسوں کودورفرماۓ ، اورہمیں اورآپ کومزید ایمان اوراصلاح اورتقوی عطا فرماۓ آمین یا رب العالیمن ۔
واللہ اعلم .
ماخذ: الاسلام سوال و جواب​
 
Last edited:

علی محمد

مبتدی
شمولیت
مارچ 03، 2023
پیغامات
52
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
21
� فہم الحدیث:

معلوم ہوا کہ جب انسان کو اس طرح کے کفریہ اور برے خیالات و وساوس آئیں تو اسے فوراً شیطان سے پناہ پکڑنی چاہئیے۔ اس کے لیے یہ کلمات کہے جا سکتے ہیں: «اَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ» .

( جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 82)
 
Top