کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
کیا کسی ایک مذہب کی پیروی کرنا واجب ہے ؟
سوال:
کیا مسلمان پرواجب ہے کہ وہ کسی ایک مسلک ( مالکی ، حنفی ، حنبلی ، شافعی ) پر چلے ؟ اگر جواب اثبات میں ہوتو کونسا افضل ہے ؟ اور کیا یہ صحیح ہے کہ حنفی مسلک مسلمانوں میں سب سے زيادہ منتشر ہے ؟
جواب:
الحمد للہ
مسلمان پرمذاہب اربعہ میں سے کسی بھی معین مذہب ومسلک کی پیروی واجب نہیں ، اورلوگ ادراک اورسمجھ اور دلائل سے احکام کے استنباط میں مختلف ہیں ، لہذا کچھ کے لیے توتقلید جائز ہے اور بلکہ بعض اوقات تو اس پرواجب بھی ہوجاتی ہے ، اورکچھ لوگ ایسے ہیں جودلیل کے بغیر عمل نہیں کرسکتے ۔ اس مسئلہ میں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ میں اس کا کافی وشافی بیان موجود ہے جسے ہم ذیل میں ذکر کرتے ہیں :
سوال : ؟
مذاہب اربعہ کی تقلید اورہر حال اورزمانے میں ان کے اقوال کی اتباع کا حکم کیا ہے ؟
لجنہ دائمہ کا جواب تھا :
الحمد لله والصلاة والسلام على رسوله وآله وصحبه وبعد :
اول :
مذاہب اربعہ آئمہ اربعہ امام ابوحنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی ، امام احمد رحمہم اللہ کی طرف منسوب ہيں ، حنفیت امام ابوحنیفہ کی طرف منسوب ہے اوراسی طرح باقی مذہب بھی ۔
دوم :
ان آئمہ کرام نے فقہ کتاب وسنت سے حاصل کی ہے اوروہ اس میں مجتہد ہیں ، اورمجتہد کا اجتہاد یا توصحیح ہوتا ہے اور اسے ڈبل اجر ملتا ہے ایک تواس کے اجتہاد کا اجر اوردوسرا اس کے صحیح ہونے کا ، یا پھر وہ اپنے اجتہاد میں خطا کرجاتا ہے اوراسے غلطی لگ جاتی ہے ، اوروہ اپنی اس غلطی میں معذور ہوتا ہے اوراسے اپنے اجتہاد کا اجر ملتا ہے ۔
سوم :
کتاب وسنت سے استباط کرنے کی استطاعت رکھنے والاشخص اپنے سے پہلے لوگوں کی طرح کتاب وسنت سے اخذ کرے گا جس طرح انہوں نے کتاب وسنت سے اخذ کیا تھا وہ بھی اخذ کرے گا ، اور ایسے شخص کے لیے حق کے خلاف تقلید جائز نہيں، بلکہ وہ اسے لے گا جسے وہ حق سمجھتا ہو ، اورجس چيز میں وہ عاجز آجائے اوراسے ضرورت بھی ہوتواس میں وہ تقلید کرے گا ۔
چہارم :
جس شخص میں کتاب وسنت سے استنباط کرنے کی استطاعت نہیں اس کے کے لیے جائز ہے کہ وہ ایسے شخص کی تقلید کرے جس پر اس کا ذہن مطمئن ہوتا ہو ، اورجب اسے عدم اطمینان ہو تواسے اس وقت تک سوال کرنا چاہیے جب تک اطمینان نہيں ہوجاتا ۔
پنجم :
مندرجہ بالا بیان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کوئی بھی شخص ہر حالت اورہر دورمیں ان کے اقوال کی اتباع وپیروی نہيں کرے گا ، اس لیے کہ ہوسکتا ہے ان سے غلطی ہوگئی ہو ، بلکہ وہ صرف اور صرف اس قول حق کی پیروی کرے گا جس پردلیل بھی ملتی ہو ۔
دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 5 / 28 ) ۔
اورلجنہ دائمۃ کے فتوی نمبر ( 3323 ) میں ہے کہ :
جوشخص کتاب وسنت سے احکام استنباط کرنے کی اہلیت رکھتا ہو اوراس پرقوی بھی ہو چاہے ہمیں وراثت میں ملنے والی پہلے علماء اسلام کی فقہی ثروت سے ہی معاونت حاصل کرے تواس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے تاکہ وہ خود بھی اس پرعمل کرے اوراس کےساتھ جھگڑوں میں فیصلہ بھی کرے ، اورفتویٰ طلب کرنے والے کو فتوی بھی دے سکے ۔
لیکن جسے اس کی اہلیت نہیں اسے امین اورموثوق علماء کرام سے سوال کرنا چاہیے تا کہ وہ ان کی کتب سے حکم کی معرفت حاصل کرے اوراس پر عمل کرے ، لیکن اسے سوال کرنے اورکتاب پڑھنے میں مذاہب اربعہ کے کسی ایک عالم کی تعیین اورتحدید نہيں کرلینی چاہیے ، لوگ آئمہ اربعہ کی طرف ان کی شہرت اورضبط کتب اورانتشار اورآسانی سے مہیا ہونے کی وجہ رجوع کرتے ہیں ۔
اورجوشخص مطلقا تقلید کومتعلمین پرواجب کرنے کا کہتا ہےوہ غلطی اورجمود پر ہے اورعمومی طورپر متعلمین کے ساتھ سوئے ظن کررہا ہے ، اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس نے وسعت والی چيز میں تنگی پیدا کردی ہے ۔
اورجوشخص تقلید کو صرف مذاہب اربعہ میں ہی منحصر کرتا ہے وہ بھی غلطی پر ہے اس نے بھی بغیر کسی دلیل کے وسعت میں تنگی پیدا کردی ہے ، امی شخص کےلیےآئمہ اربعہ میں سے کسی فقیہ اوردوسروں کے مابین کوئی فرق نہيں مثلا لیث بن سعد اوراوزاعی وغیرہ دوسرے فقہاء وغیرہ ۔
دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 5 / 41 ) ۔
اورلجنہ دائمہ کے فتوی نمبر ( 1591 ) میں مندرجہ ذيل بیان موجود ہے :
ان میں سے کسی ایک نے بھی اپنے مذہب ومسلک کی دعوت نہيں دی ، اورنہ ہی اس کا تعصب ہی کیا ہے ، اورکسی دوسرے کو اس پرلازماً عمل کرنے کا بھی نہیں کہا یا کسی معین مذہب پر عمل کرنے کا بھی نہيں کہا ، بلکہ وہ سب تو کتاب وسنت پرعمل کرنے کی دعوت دیتے اوردینی نصوص کی شرح کرتے اور دین کےقواعد اورفروع کوبیان کرتے تھے ۔
جس چيز کے بارہ میں ان سے سوا ل کیا جاتا اس میں فتویٰ دیتے اوراس میں اپنے کسی بھی شاگرد یا کسی اور کو اپنی رائےپرلازماً عمل کرنے کا نہیں کہتے تھے ، بلکہ جو بھی ایسا کرتا وہ اسے غلط قرار دیتے اوراس پرعیب لگاتے تھے ، اور وہ تویہ حکم دیتے تھے کہ جب بھی ان کی رائے کسی صحیح حدیث کی مخالفت کرے توان کی رائے دیوار پر مار دی جائے ۔
بلکہ ان میں سے ایک کا قول تویہ ہے :
جب حدیث صحیح ہوتو میرا مسلک اورمذہب بھی وہی ہے ۔ اللہ تعالی ان سب پر رحم کرے ۔
ان مذاہب میں سے کسی ایک مذہب کے پیروکاروں کسی ایک معین مذہب کی اتباع اور پیروی واجب نہيں بلکہ انہيں حتی الامکان حق پہچاننے کی کوشش کرنی چاہیے ، یاوہ اللہ تعالی کی مدد وتعاون حاصل کرے اورپھراسے پہلے علماء اسلام کے ثروت علمی سے مدد لینی چاہیے جوانہوں نے اپنے بعد میں آنے والوں کے لیے علمی ذخیرہ چھوڑا ہے ۔
اور ان علماء کرام نے بعد میں آنے والوں کے لیے نصوص کوسمجھنے اوراس کی تطبیق میں آسانی پیدا کی ، اورجوشخص نصوص سےکسی بناپر احکام استنباط نہيں کرسکتا اسے اس میں نہيں پڑنا چاہیے بلکہ اسے جن احکام شریعہ کی ضرورت ہو اسے اللہ تعالی کے مندرجہ ذیل فرمان پرعمل کرتے ہوئے اپنے وثوق والے علماء کرام سے پوچھنا چاہیے :
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
تواس بنا پر اسے کوشش کرنی چاہے کہ وہ اپنا سوال اپنے موثوق اورمشہور اہل علم عمل اورفضل تقوی واصلاح کے حامل علماء سے پوچھے ۔’’ اگر تمہیں علم نہيں تواہل علم سے پوچھ لیا کرو ‘‘
دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 5 / 56 ) ۔
اورہوسکتا ہے کہ مسلمانوں میں سب سے زيادہ منتشر مسلک امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی کا ہو ، شائد اس کا سبب یہ ہے کہ عثمانی خلفاء نے حنفیت کوفروغ دیا اوراس پرہی عمل کرتے تھے ، انہوں نے چھ صدیوں سے بھی زيادہ بلاد اسلامیہ پر حکومت کی ہے ۔
اس کا یہ معنی نہيں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی کا مذہب جسے حنفیت کہا جاتا ہے مذاہب اربعہ میں سے سب سےزیادہ صحیح ہے ، یا پھر یہ کہ اس میں جتنے بھی اجتہادات پائے جاتےہیں وہ سب کے سب صحیح اور درست ہیں ۔
ایسا نہیں بلکہ یہ مسلک اورمذہب بھی دوسرے مذاہب کی طرح ہی ہے جس میں غلط بھی ہے اورصحیح بھی ، اس لیے مومن اور مسلمان شخص پر واجب یہ ہے کہ وہ حق کی اتباع وپیروی کرے چاہے وہ کسی بھی مل جائے قطع نظر اس کے کہ اس کا قائل کون ہے ۔
الشیخ محمد صالح المنجد