محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,799
- پوائنٹ
- 1,069
کیا کسی عالم کو "مولانا" کہا جا سکتا ہے،جب کہ یہ مولانا قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کو کہا گیا ہے۔
منکرین حدیث و برزخی فرقہ ھمیشہ ایسے ایسے سوالات کرتے رھتے ھیں جس سے ان کی کم علمی اور جہالت کا خوب پتہ چلتا رھتا ھے۔انہوں نے کچھ دنوں پہلے ایک پوسٹ لگائی جس میں علما کرام کو مولانا کہنے والوں کو شرک کہا تھا۔ وہ پوسٹ بھی اس پوسٹ میں لگائی گئی ھے۔ آئیے قرآن و حدیث سے لفظ مولیٰ کا مفہوم سمجھتے ہیں۔
مولی کا لفظ عربی میں کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔
جیسے دوست ، مددگار ، غلام اور آقا وغیرہ
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ نے اپنے لیے بھی یہ لفظ استعمال فرمایا ہے ۔
ابوداود کی ایک روایت جس کو علامہ البانی نے حسن قرار دیا ہے
أنا مولى من لا مولى له
لہذا دوست یا مددگار کے معنی میں یہ لفظ کسی مخلوق کےلیے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں لگتا۔ واللہ اعلم بالصواب
ویسے علماء کے لیے شیخ کا لفظ استعمال کرنا زیادہ اچھا لگتا ہے ۔ ایک اس کے عربی اسلوب کے مطابق ہونے کی وجہ سے اور دوسرا ہندوپاک میں صرف اہل حدیث لوگ ہی اپنے علماء کو شیخ کہتے ہیں۔
مَوْلیٰ ’وَلی‘ سے ہے، اس کا مادہ (حروفِ اصلی) و، ل، ی ہیں، جس کا معنیٰ تعلّق ہے، جو ادنی واعلیٰ میں بھی دونوں اطراف سے ہو سکتا ہے، اور برابر کے لوگوں میں بھی۔
جیسے آقا کو بھی مولیٰ کہہ دیتے ہیں، غلام کو بھی اور دوست کو بھی۔ ان تمام معنوں میں یہ مخلوق کیلئے استعمال ہو سکتا ہے۔
مثلاً فرمانِ باری ہے:
﴿ وَضَرَبَ اللَّـهُ مَثَلًا رَّجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا أَبْكَمُ لَا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَيْءٍ وَهُوَ كَلٌّ عَلَىٰ مَوْلَاهُ أَيْنَمَا يُوَجِّههُّ لَا يَأْتِ بِخَيْرٍ ۖ هَلْ يَسْتَوِي هُوَ وَمَن يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ ۙ وَهُوَ عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ٧٦ ﴾ ۔۔۔ سورة النحل
اللہ تعالیٰ ایک اور مثال بیان فرماتا ہے، دو شخصوں کی، جن میں سے ایک تو گونگا ہے اور کسی چیز پر اختیار نہیں رکھتا بلکہ وه اپنے مالک پر بوجھ ہے کہیں بھی اسے بھیجے وه کوئی بھلائی نہیں لاتا۔ کیا یہ اور وه جو عدل کا حکم دیتا ہے اور ہے بھی سیدھی راه پر، برابر ہوسکتے ہیں؟ (76)
یہاں مولیٰ آقا کے معنوں میں ہے، اور مخلوق کیلئے استعمال ہوا ہے۔
اسی طرح ایک معروف صحابی سیدنا سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ عنہ، معروف تابعی امام نافع مولیٰ ابن عمر ہیں، نبی کریمﷺ نے فرمایا:
« مولى القوم من أنفسهم » ۔۔۔ صحيح البخاري: 6380
کسی قوم کا (آزاد کردہ) غلام انہی میں سے ہوتا ہے (یعنی انہی کی طرف منسوب ہوتا ہے)
یہاں مولیٰ غلام کے معنوں میں ہے۔
اسی طرح دوست کو بھی مولیٰ کہہ دیتے ہیں،
فرمانِ باری ہے:
﴿ يَوْمَ لَا يُغْنِي مَوْلًى عَن مَّوْلًى شَيْئًا وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ ٤١ ﴾ ۔۔۔ سورة الدخان
اس دن کوئی دوست کسی دوست کے کچھ بھی کام نہ آئے گا اور نہ ان کی امداد کی جائے گی (41)
اور بعض مرتبہ اس سے مراد حقیقی خالق، مالک اور رازق اور مدد گار ہوتا ہے۔
اگر مولیٰ سے یہ معنیٰ مراد لیا جائے تو اس کا اطلاق صرف اور صرف اللہ رب العٰلمین پر ہو سکتا ہے، کسی مخلوق پر نہیں خواہ وہ کتنا جلیل القدر مقرب فرشتہ یا مرسل نبی ہی کیوں نہ ہو۔
فرمانِ باری ہے:
﴿ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّـهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللَّـهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ ١٠٧ ﴾ ۔۔۔ سورة البقرة
کیا تجھے علم نہیں کہ زمین و آسمان کا ملک اللہ ہی کے لئے ہے اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی ولی اور مددگار نہیں (107)
یہ ممکن ہے کہ ایک ہی جملہ میں، ایک ہی آیت مبارکہ میں یہ لفظ خالق اور مخلوق دونوں کیلئے استعمال ہو رہا ہو۔
فرمانِ باری ہے:
﴿ إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ ٥٥ وَمَن يَتَوَلَّ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّـهِ هُمُ الْغَالِبُونَ ٥٦ ﴾ ۔۔۔ سورة المائدة
(مسلمانو)! تمہارا دوست خود اللہ ہے اور اس کا رسول ہے اور ایمان والے ہیں جو نمازوں کی پابندی کرتے ہیں اور زکوٰة ادا کرتے ہیں اور وه رکوع (خشوع وخضوع) کرنے والے ہیں (55) اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے اور مسلمانوں سے دوستی کرے، وه یقین مانے کہ اللہ تعالیٰ کی جماعت ہی غالب رہے گی (56)
﴿ وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّـهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَٰلِكَ ظَهِيرٌ ٤ ﴾ ۔۔۔ سورة التحريم
اور اگر تم نبی کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو گی پس یقیناً اس کا کارساز اللہ ہے اور جبریل ہیں اور نیک اہل ایمان اور ان کے علاوه فرشتے بھی مدد کرنے والے ہیں (4)
خلاصہ یہ کہ لفظ مولیٰ کا اطلاق غیر اللہ کیلئے اسی وقت نا جائز ہوگا، جب اس سے مراد حقیقی خالق ومالک اور مددگار لیا جائے۔
وگرنہ اس کا اطلاق بزرگوں اور علمائے کرام کیلئے جائز ہے۔ اصل معاملہ نیت کا ہے۔
نبی کریم ﷺ کا صحيح فرمان ہے:
إنما الأعمال بالنيات
مولیٰ کے عربی زبان میں وہی مطالب ہیں جو اردو میں آقا، کارساز، حامی، مددگار اور رب کے ہیں۔
آزاد کردہ غلام اور دوست کیے لیے بھی مولیٰ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
جیسے سالم(رضی اللہ عنہ) مولیٰ ابی حذیفہ(رضی اللہ عنہ)۔
اور اسی معنی میں نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
انت اخونا ومولانا (تم ہمارے بھائی اور مولیٰ ہو۔)
صحيح بخاري ، كتاب المغازی ، باب : عمرة القضاء ، حدیث : 4296
حامی، دوست اور غلام کے معنوں کو چھوڑ کر اس لفظ کے باقی سارے معنی و مفہوم صرف اللہ ہی کے لائق ہیں۔ اور اس کے بندوں کو ان معنوں میں اس نام سے پکارنا حقیقی شرک ہے۔
قرآن میں بھی مولیٰ انہی معنوں میں اللہ نے اپنے لئے استعمال کیا ہے۔ اور حامی اور دوست کے معنوں میں یا "ماتحت الاسباب مددگار" کے معنوں میں غیر اللہ کے لیے بھی "مولیٰ" کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ درحقیقت یہ صرف معنی کی بحث ہے ۔۔۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :
من كنت مولاه فعلي مولاه [جس کا میں مولیٰ ، علی (رضی اللہ عنہ) اس کا مولیٰ]
ترمذی ، كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، باب : مناقب علي بن ابي طالب رضى الله عنه ، حدیث : 4078
[اس کی سند ثابت ہے ، علامہ البانی اور شیخ زبیر علی زئی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔]
یہاں پر بھی مولیٰ کا مطلب نہ رب ہے، نہ آقا، نہ مالک، نہ مافوق الفطرت مدد کرنے والا، نہ دستگیر۔
یہاں پر بھی مولیٰ کا لفظ صرف مخلص دوست کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھے گا وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی ضرور محبت رکھے گا۔
کوئی یہ نہ سمجھے کہ "مولیٰ " کا مطلب "مخلص دوست" میں نے اپنی طرف سے کر دیا ہے۔ یہ مطلب لغت کی مشہور زمانہ کتاب "القاموس الوحید" صفحہ:900 میں موجود ہے۔
رہی یہ بات کہ اس لفظ کا مطلب آقا وغیرہ کیوں نہیں کیا جا سکتا۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود صحیح مسلم کی ایک روایت میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کو مولیٰ (بمعنی آقا) کہنے سے منع فرمایا ہے۔
ولا يقل العبد لسيده مولاى ... فإن مولاكم الله عز وجل (غلام اپنے آقا کو مولیٰ نہ کہے ۔۔۔ کیونکہ تمہارا مولیٰ اللہ عز وجل ہے ۔)
صحیح مسلم ، كتاب الالفاظ من الادب ، باب : حكم اطلاق لفظة العبد والامة والمولى والسيد ، حدیث : 6013
لہٰذا مندرجہ بالا قرآن و حدیث کے دلائل سے صراحتاً ثابت ہوا کہ لفظ مولیٰ کا استعمال رب، آقا، مالک، مددگار (مافوق الاسباب) کے معنوں میں صرف اور صرف الله وحده لا شريک له کے لیے لائق و زیبا ہے۔ اور ان معنوں میں مخلوق کے لیے اس لفظ کا استعمال شرک ہے۔
لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا اولیاء اللہ یا صالحین کے لیے آقا و مولیٰ کا استعمال نہیں کیا جا سکتا ، کیونکہ ۔۔۔ مخلوق کے لیے مولیٰ کا استعمال صرف دوست، غلام یا ماتحت الاسباب مددگار کے معنوں میں ہی کرنا درست ہے۔