• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کی محمداﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں - کیا یہ شعر بولنا صحیح ہے ؟؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
کی محمداﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں​

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں​

کیا یہ شعر بولنا صحیح ہے ؟؟؟
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !

شیخ محترم اسحاق سلفی بھائی اس شعر کی تشریح کر دے - اور کیا اس میں شرک ہیں ؟؟؟​
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
کی محمداﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

کیا یہ شعر بولنا صحیح ہے ؟؟؟
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !

شیخ محترم اسحاق سلفی بھائی اس شعر کی تشریح کر دے - اور کیا اس میں شرک ہیں ؟؟؟​
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی
شعر و شاعری کو سمجھنے کیلئے اس سے تعلق ضروری ہے ، اور یہ فقیر شعر و سخن سے کچھ زیادہ آشنا نہیں ۔
بہرحال اپنی بساط کے مطابق عرض ہے ،
آپ نے جس شعر کی تشریح پوچھی ہے ، وہ ڈاکٹر اقبال کی مشہور نظم "جواب شکوہ "کا ہے ،
اور
( شکوہ، جواب شکوہ )علامہ اقبال کی دو طویل نظمیں ہیں جو بانگ درا، گھنٹیوں کی صدا کے اوراق کی زینت ہیں، شکوہ اپریل 1911ءمیں لکھی گئی ریواز ہوسٹل اسلامیہ کالج کے صحن میں ہونے والے انجمن حمایت اسلام لاہور کے اجلاس میں اقبال نے سنائی۔
جواب شکوہ 1913میں اقبال نے لکھی یہ نظم موچی دروازے کے باہر ایک جلسہ عام میں بعد نماز مغرب سنائی گئی۔ اس جلسے کا اہتمام مولانا ظفر علی خان نے کیا جواب شکوہ اسی جلسے میں ہزاروں کی تعداد میں فروخت ہوئی، اوراس کی پوری آمدن بلقان فنڈ میں دے دی گئی۔
شکوہ اور جواب شکوہ لکھنے کی اقبال کو ضرورت کیوں ہوئی اس کے بارے میں مختلف شارح اپنی اپنی آراءرکھتے ہیں لیکن جس ایک پہلو پر سب کا اتفاق ہے وہ یہ ہے اقبال 1905سے 1908تک یورپ میں رہے۔ میونج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اور قانون امتحان برطانیہ سے پاس کیا۔
یورپ میں قیام کے دوران وہاں کی سائنسی، مادی، سیاسی، اقتصادی، معاشرتی ترقی اور تہذیبی اقدار کو اقبال نے بہت قریب سے دیکھا۔ اہل یورپ کی علمی لگن، عملی کوشش، سائنسی ترقی، جذبہ عمل اور حب الوطنی سے متاثر ہوئے۔ جب واپس ہندوستان آئے تو اہل یورپ کے برعکس مسلمانوں میں کاہلی، جمود، بے عملی ،غلامانہ ذہنیت، اقتصادی پسماندگی اور عملی ذوق و شوق کا فقدان دیکھ کرآزردہ خاطر ہوئے مسلمانوں کی اسلام سے محض زبانی عقیدت، خدا کی محبوب قوم ہونے کا عجیب احساس، اسلام کا شیدا ہونے کا دکھادے کا اعتقاد، قرآن مجید کی تعلیمات سے دوری اور اسوہ رسول سے وابستگی کے خیالی دعوے اقبال کی پریشیانی کا باعث بن گئے۔ ان ساری باتوں کے باوجود مسلمان ہر وقت دین و دنیاکی برکات چھن جانے کا خدا سے شکوہ بھی کرتے ہیں۔یہی نظم شکوہ کا بنیاد ی تصور ہے۔
شکوہ جب اقبال نے لکھی تب صرف ہندوستان کے مسلمان ہی زبوں حالی کا شکار نہیں تھے۔ ایران، ترکی، مصر اور افریقہ کے مسلمانوں کی حالت بھی ایسی ہی تھی۔ طرابلس اور بلقان کی جنگوں نے مسلمانوں کے احساس زوال کو مزید شدید کردیا تھا۔ جس نے اقبال کو شکوہ، جواب شکوہ جیسی انقلابی نظمیں لکھنے کی تحریک دی۔
علامہ اقبال نباض ملت اور اپنے دور کے مفکر ہیں۔ انہوں نے موجودہ عہد کے مسلمانوں کے زوال کے اسباب اور زمانہ قدیم کے مسلمانوں کے عروج کی وجوہات کو دونوں نظموں کا مرکزی خیال بنایا، تاکہ مسلمان اپنے شان دار ماضی سے زوال پذیر حال کو دیکھیں اور روشن مستقبل کا سراغ لگاسکیں۔
مسلمانوں کے طرز عمل سے نالاں اقبال اسلام کے عظیم ماضی کوحسرت سے دیکھتے، حال کا جائزہ لیتے تو بے بسی سے سپر ڈال دیتے۔ مگر ان کی مایوسی اور ناامیدی انہیں کشاں کشاں تاریکی سے روشنی کی طرف لے آئی۔ مسلمان بلقان سے نکالے جاچکے تھے۔ ایران موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھا۔ طرابلس کے میدان مجاہدین کے خون سے لالہ زار تھے۔ اس دور میں اقبال نے جو نظمیں لکھیں ان کے اثر سے ہندی مسلمانوں میں جوش پیدا ہوا۔ جس پر انہوں نے شکوہ، جواب شکوہ لکھیں۔
یاد رہے انجمن حمایت اسلام کے اجلاس میں اقبال نے جب شکوہ پڑھی تو لوگ پھولوں کی جھولیاں بھر کر لاے اور علامہ پر گل پاشی کی اقبال کے والد گرامی بھی اس محفل میں موجود تھے۔ سیرت اقبال میں سر عبدالقادر نے لکھا ہے اقبال کے والد بیٹے کی کامیابی پر نازاں اور تاثر کلام سے آبدیدہ تھے۔

شکوہ کے آغاز میں اقبال نے مسلمانوں کی جانب سے اللہ سے کلام کیا ہے
شکوہ اللہ سے ، خاکم بدہن ، ہے مجھ کو
ہے بجا شيوہء تسليم ميں مشہور ہيں ہم
قصہ درد سناتے ہيں کہ مجبور ہيں ہم
ساز خاموش ہيں ، فرياد سے معمور ہيں ہم
نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہيں ہم
اے خدا! شکوہء ارباب وفا بھي سن لے
خوگر حمد سے تھوڑا سا گلا بھي سن لے


ان شعار کا جواب، جواب شکوہ کے آخری اشعار میں دے کر اللہ کی طرف سے مسلمانوں کو لاجواب کردیا گیا ہے
گرمی مہر کی پروردہ ہلالی دنیا
عشق والے جسے کہتے ہیں بلالی دنیا

تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح
غوطہ زن نور میں ہے آنکھ کے تارے کی طرح

عقل ہے تیری سپر، عشق ہے شمشیر تری
مرے درویش! خلافت ہے جہاں گیر تری

اے مسلم : اگر تو صاحب ایمان ہوجائے تو تیری عقل تیری ڈھال بن جائے ،جو تجھے ہر غلط اقدام سے روک لے
اور عشق (یعنی تیرا ایمان ) تیرا اسلحہ ہے ، (اس لئے اپنے ایمان کو زندہ کر )
تو درویش ( یعنی بندہء دنیا تو نہیں ،لیکن دنیا کا خلیفہ ہے ) اور تو
کسی ایک خطہ پر خلافت کیلئے نہیں بلکہ ساری دنیا پر خلافت و حکومت کیلئے وجود میں آیا ہے ،

ماسوا اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری
تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری

اے مسلم : تو اس جہاں میں اگر اللہ کی کبریائی ،اور حاکمیت کیلئے کوشاں ہو جائے تو دنیا سے باقی تمام ازم اور نظام پاش پاش ہوجائیں
اور اگر تو مسلم حقیقی بن جائے تو تیری ہر تدبیر تیرے لئے کار آمد بن جائے،

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں

اس آخری شعر کا آسان سا مفہوم یہ کہ اللہ فرماتے ہیں :
اے مسلم : تو اگر میرے نبی مکرم ﷺ کا وفادار بن جائے ،تو یہ دنیا جس پر کبھی تیری حکومت و شوکت تھی
اور جو اب چھن چکی ،نہ صرف وہ پھر تجھے واپس مل سکتی ہے ، بلکہ ہم ہر فیصلہ میں تیری ضرورت و عزت کا خیال رکھیں گے ۔
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !

شیخ محترم @اسحاق سلفی بھائی کل میں نے یہ ویڈیو دیکھی تھی جو دیوبندیوں نے اپلوڈ کی تھی -

شیخ میر محمدی حفظہ اللہ کی ویڈیو ہے جس میں انھوں نے اس شعر کے بارے میں گفتگو کی تھی جس سننے کے بعد میں کنفیوز ہو گیا تھا تو میں نے یہ پوسٹ کی تھی - شیخ آپ یہ ویڈیو سنے کیا شیخ کا موقف صحیح ہے - بریلوں نے اس پوسٹ پر شیخ محترم کو خوب مذاق اڑایا ہے

 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
شیخ میر محمدی حفظہ اللہ کی ویڈیو ہے جس میں انھوں نے اس شعر کے بارے میں گفتگو کی تھی جس سننے کے بعد میں کنفیوز ہو گیا تھا تو میں نے یہ پوسٹ کی تھی - شیخ آپ یہ ویڈیو سنے کیا شیخ کا موقف صحیح ہے - بریلوں نے اس پوسٹ پر شیخ محترم کو خوب مذاق اڑایا ہے
شیخ محترم مشہور عالم دین ہیں ،ہوسکتا ہے انہوں نے یہ نظم پوری نہ پڑھی ہو ، اس کا یہ ایک شعر ہی کسی سے سن رکھا ہو ،
یہ پوری نظم توحید اہمیت و افادیت بتانے اور شرک و بدعملی اور بے عملی کے رد میں ہے ،
کِس قدر تُم پہ گراں صُبح کی بیداری ہے !

ہم سے کب پیار ہے ؟ ہاں نیند تُمہیں پیاری ہے
طبع آذاد پہ قیدِ رمضاں بھاری ہے

تمہیں کہہ دو یہی آئینِ وفا داری ہے ؟
قوم مذہب سے ہے ، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں

جذبِ باہم جو نہیں ، محفلِ انجم بھی نہیں
جن کو آتا نہیں دُنیا میں کوئی فن ، تُم ہو

نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن ، تُم ہو
بِجلیاں جِس میں ہوں آسُودہ وہ خرمن ، تُم ہو

بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن ، تُم ہو
ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے

کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے ؟
صفحہء دہر سے باطل کو مٹایا کس نے ؟

نوعِ انساں کو غلامی سے چُھڑایا کس نے ؟
میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے ؟

میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے ؟
تھے تو آباء وہ تمہارے ہی ، مگر تم کیا ہو ؟

ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو !
کیا گیا ؟ بہرِ مُسلماں ہے فقط وعدہء حُور

شکوہ بیجا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور !
عدل ہے فاطرِ ھستی کا اَزل سے دستور

مُسلم آئیں ہوا کافر تو ملے حُور و قصور
تُم میں حُوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں

جلوہء طُور تو موجُود ہے مُوسٰی ہی نہیں
منفعت ایک ہے اِس قوم کی ، نقصان بھی ایک

ایک ہی سب کا نبی ، دین بھی ، ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی ، اللہ بھی ، قُرآن بھی ایک

کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مُسلمان بھی ایک؟
فرقہ بندی ہے کہیں ، اور کہیں ذاتیں ہیں !

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ؟
کون ہے تارک آئینِ رسول مختار؟

مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار؟
کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار؟

ہو گئی کس کی نگہ طرزِ سلف سے بیزار؟
قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں

کچھ بھی پیغام محمد (ص) کا تمہیں پاس نہیں
جا کے ہوتے ہیں مساجد میں صف آراء تو غریب

زحمتِ روزہ جو کرتے ہیں گوارا، تو غریب
نام لیتا ہے اگر کوئی ہمارا، تو غریب

پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمہارا، تو غریب
امراء نشۂ دولت میں ہیں غافل ہم سے

زندہ ہے ملت بیضا غربا کے دم سے
واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی

برق طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسم اذان روح ہلالی نہ رہی

فلسفہ رہ گیا، تلقین غزالی نہ رہی
مسجدیں مرثیہ خوان ہیں کہ نمازی نہ رہے

یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے
شور ہے، ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود

ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود!
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود

یہ مسلماں ہیں! جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو

تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ مسلمان بھی ہو!
دم تقریر تھی مسلم کی صداقت بے باک

عدل اس کا تھا قوی، لوث مراعات سے پاک
شجر فطرت مسلم تھا حیا سے نم ناک

تھا شجاعت میں وہ اک ہستی فوق الادراک
خود گدازی نم کیفیت صہبایش بود

خالی از خویش شدن صورت مینایش بود
ہر مسلماں رگِ باطل کے لیے نشتر تھا

اس کے آئینۂِ ہستی میں عملِ جوہر تھا
جو بھروسا تھا اسے قوت بازو پر تھا

ہے تمہیں موت کا ڈر، اس کو خدا کا ڈر تھا
باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو

پھر پسر قابل میراث پدر کیونکر ہو!
ہر کوئی مست مۓ ذوق تن آسانی ہے

تم مسلماں ہو! یہ انداز مسلمانی ہے؟
حیدری فقر ہے نہ دولت عثمانی ہے

تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے؟
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر

اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
تم ہو آپس میں غضبناک، وہ آپس میں رحیم

تم خطاکار و خطابیں، وہ خطا پوش و کریم
چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوج ثریا پہ مقیم

پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلب سلیم
تخت فغور بھی ان کا تھا، سریر کے بھی

یونہی باتیں ہیں کہ تم میں وہ حمیت ہے بھی؟
خود کشی شیوہ تمہارا، وہ غیور و خوددار

تم اخوت سے گریزاں، وہ اخوت پہ نثار
تم ہو گفتار سراپا، وہ سراپا کردار

تم ترستے ہو کلی کو، وہ گلستاں بہ کنار
اب تلک یاد ہے قوموں کو حکایت ان کی

نقش ہے صفحۂ ہستی پہ صداقت ان کی
مثل انجم افق قوم پہ روشن بھی ہوئے

بت ہندی کی محبت میں برہمن بھی ہوئے
شوق پرواز میں مہجور نشیمن بھی ہوئے

بے عمل تھے ہی جواں، دین سے بدظن بھی ہوئے
ان کو تہذیب نے ہر بند سے آزاد کیا

لا کے کعبے سے صنم خانے میں آباد کیا
قیس زحمت کش تنہائی صحرا نہ رہے

شہر کی کھائے ہوا، بادیہ پیمانہ نہ رہے
وہ تو دیوانہ ہے، بستی میں رہے یا نہ رہے

یہ ضروری ہے حجاب رُخ لیلا نہ رہے
گلہ جور نہ ہو، شکوۂ بیداد نہ ہو

عشق آزاد ہے، کیوں حسن بھی آزاد نہ ہو!
عہد نو برق ہے، آتش زن ہرخرمن ہے

ایمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گلشن ہے
اس نئی آگ کا اقوام کہیں ایندھن ہے

ملت ختم رسل شعلہ بہ پیراہن ہے
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا

آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا
دیکھ کر رنگ چمن ہو نہ پریشاں مالی

کوکب غنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی
خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالی

گل بر انداز ہے خون شہداء کی لالی
رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنابی ہے

یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے
امتیں گلشنِ ہستی میں ثمر چیدہ بھی ہیں

اور محروم ثمر بھی ہیں، خزاں دیدہ بھی ہیں
سینکڑوں نخل ہیں ، کاہیدہ بھی ، بالیدہ بھی ہیں

سینکڑوں بطنِ چمن میں ابھی پوشیدہ بھی ہیں
نخلِ اسلام نمونہ ہے بردمندی کا

پھل ہے یہ سینکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا
پاک ہے گرد وطن سے سرِ داماں تیرا

تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا
قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ویراں تیرا

غیر یک بانگ درا کچھ نہیں ساماں تیرا
نخل شمع استی و در شعلہ ریشۂ تو

عاقبت سوز بود سایۂ اندیشۂ تو
تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے
نشۂ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

کشتی حق کا زمانے میں سہارا تو ہے
عصر نو رات ہے، دھندلا سا تارا تو ہے

ہے جو ہنگامۂ بپا یورش بلغاری کا
غافلوں کے لیے پیغام ہے بیداری کا

تو سمجھتا ہے یہ ساماں ہے دل آزاری کا
امتحاں ہے ترے ایثار کا، خود داری کا

کیوں ہراساں ہے صہیل فرس اعدا سے
نور حق بجھ نہ سکے گا نفس اعدا سے

زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تیری
کوکب قسمت امکاں ہے خلافت تیری

وقت فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے
نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
الجواب : لمن يهمه اﻷمر

دفاع اقبال ۔ ماخوذ از کلام اقبال

محمد عامر صاحب ، مجہے اب بہی یاد ہے ذرا ذرا کہ جب میں میٹرک میں تہا تو بورڈ اکزام میں اردو زباندانی کے پیپر میں اس شعر کی تشریح پوچہی گئی تہی ۔ نمبر تہے 5 ۔

خیر فی الحال کلام اقبال بلا معذرت:

ﺍﮎ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﯽ ﺳﻨﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮩﺎﻧﯽ
ﺗﯿﺰﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﻃﺒﯿﻌﺖ ﮐﯽ ﺩﮐﮭﺎﻧﯽ
ﺷﮩﺮﮦ ﺗﮭﺎ ﺑﮩﺖ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺻﻮﻓﯽ ﻣﻨﺸﯽ ﮐﺎ
ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﺩﺏ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺍﻋﺎﻟﯽ ﻭ ﺍﺩﺍﻧﯽ
ﮐﮩﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﭘﻨﮩﺎﮞ ﮨﮯ ﺗﺼﻮﻑ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﯾﻌﺖ
ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﮐﮧ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻣﯿﮟ ﻣﻀﻤﺮ ﮨﻮﮞ ﻣﻌﺎﻧﯽ
ﻟﺒﺮﯾﺰ ﻣﮯﺀ ﺯﮨﺪ ﺳﮯ ﺗﮭﯽ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺻﺮﺍﺣﯽ
ﺗﮭﯽ ﺗﮧ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﺩﺭﺩ ﺧﯿﺎﻝ ﮨﻤﮧ ﺩﺍﻧﯽ
ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺑﯿﺎﮞ ﺁﭖ ﮐﺮﺍﻣﺎﺕ ﮐﺎ ﺍﭘﻨﯽ
ﻣﻨﻈﻮﺭ ﺗﮭﯽ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﻣﺮﯾﺪﻭﮞ ﮐﯽ ﺑﮍﮬﺎﻧﯽ
ﻣﺪﺕ ﺳﮯ ﺭﮨﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﮨﻤﺴﺎﺋﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ
ﺗﮭﯽ ﺭﻧﺪ ﺳﮯ ﺯﺍﮨﺪ ﮐﯽ ﻣﻼ‌ﻗﺎﺕ ﭘﺮﺍﻧﯽ
ﺣﻀﺮﺕ ﻧﮯ ﻣﺮﮮ ﺍﯾﮏ ﺷﻨﺎﺳﺎ ﺳﮯ ﯾﮧ ﭘﻮﭼﮭﺎ
ﺍﻗﺒﺎﻝ ، ﮐﮧ ﮨﮯ ﻗﻤﺮﯼ ﺷﻤﺸﺎﺩ ﻣﻌﺎﻧﯽ
ﭘﺎﺑﻨﺪﯼ ﺍﺣﮑﺎﻡ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﯿﺴﺎ؟
ﮔﻮ ﺷﻌﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺭﺷﮏ ﮐﻠﯿﻢ ﮨﻤﺪﺍﻧﯽ
ﺳﻨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﮐﺎﻓﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻨﺪﻭ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ
ﮨﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﺍﺛﺮ ﻓﻠﺴﻔﮧ ﺩﺍﻧﯽ
ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﺒﯿﻌﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﺸﯿﻊ ﺑﮭﯽ ﺫﺭﺍ ﺳﺎ
ﺗﻔﻀﯿﻞ ﻋﻠﯽ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺳﻨﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻧﯽ
ﺳﻤﺠﮭﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﮯ ﺭﺍﮒ ﻋﺒﺎﺩﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ
ﻣﻘﺼﻮﺩ ﮨﮯ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﯽ ﻣﮕﺮ ﺧﺎﮎ ﺍﮌﺍﻧﯽ
ﮐﭽﮫ ﻋﺎﺭ ﺍﺳﮯ ﺣﺴﻦ ﻓﺮﻭﺷﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ
ﻋﺎﺩﺕ ﯾﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺷﻌﺮﺍ ﮐﯽ ﮨﮯ ﭘﺮﺍﻧﯽ
ﮔﺎﻧﺎ ﺟﻮ ﮨﮯ ﺷﺐ ﮐﻮ ﺗﻮ ﺳﺤﺮ ﮐﻮ ﮨﮯ ﺗﻼ‌ﻭﺕ
ﺍﺱ ﺭﻣﺰ ﮐﮯ ﺍﺏ ﺗﮏ ﻧﮧ ﮐﮭﻠﮯ ﮨﻢ ﭘﮧ ﻣﻌﺎﻧﯽ
ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﺳﻨﺎ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺮﯾﺪﻭﮞ ﺳﮯ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ
ﺑﮯ ﺩﺍﻍ ﮨﮯ ﻣﺎﻧﻨﺪ ﺳﺤﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺟﻮﺍﻧﯽ
ﻣﺠﻤﻮﻋﮧ ﺍﺿﺪﺍﺩ ﮨﮯ ، ﺍﻗﺒﺎﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ
ﺩﻝ ﺩﻓﺘﺮ ﺣﮑﻤﺖ ﮨﮯ ، ﻃﺒﯿﻌﺖ ﺧﻔﻘﺎﻧﯽ
ﺭﻧﺪﯼ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺁﮔﺎﮦ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻭﺍﻗﻒ
ﭘﻮﭼﮭﻮ ﺟﻮ ﺗﺼﻮﻑ ﮐﯽ ﺗﻮ ﻣﻨﺼﻮﺭ ﮐﺎ ﺛﺎﻧﯽ
ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﯽ ﮨﻢ ﭘﺮ ﺗﻮ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﻠﺘﯽ
ﮨﻮ ﮔﺎ ﯾﮧ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮨﯽ ﺍﺳﻼ‌ﻡ ﮐﺎ ﺑﺎﻧﯽ
ﺍﻟﻘﺼﮧ ﺑﮩﺖ ﻃﻮﻝ ﺩﯾﺎ ﻭﻋﻆ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ
ﺗﺎ ﺩﯾﺮ ﺭﮨﯽ ﺁﭖ ﮐﯽ ﯾﮧ ﻧﻐﺰ ﺑﯿﺎﻧﯽ
ﺍﺱ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺑﺎﺕ ﮨﻮ ﺍﮌ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺳﺐ ﻣﯿﮟ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺳﻨﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺣﺒﺎ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻧﯽ
ﺍﮎ ﺩﻥ ﺟﻮ ﺳﺮ ﺭﺍﮦ ﻣﻠﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺯﺍﮨﺪ
ﭘﮭﺮ ﭼﮭﮍ ﮔﺌﯽ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻭﮨﯽ ﺑﺎﺕ ﭘﺮﺍﻧﯽ
ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ، ﺷﮑﺎﯾﺖ ﻭﮦ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﺳﺒﺐ ﺗﮭﯽ
ﺗﮭﺎ ﻓﺮﺽ ﻣﺮﺍ ﺭﺍﮦ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﮐﯽ ﺩﮐﮭﺎﻧﯽ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﯾﮧ ﮐﮩﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﮔﻠﮧ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ
ﯾﮧ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺣﻖ ﺗﮭﺎ ﺯﮦ ﻗﺮﺏ ﻣﮑﺎﻧﯽ
ﺧﻢ ﮨﮯ ﺳﺮ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﻣﺮﺍ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ
ﭘﯿﺮﯼ ﮨﮯ ﺗﻮﺍﺿﻊ ﮐﮯ ﺳﺒﺐ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﻮﺍﻧﯽ
ﮔﺮ ﺁﭖ ﮐﻮ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﺣﻘﯿﻘﺖ
ﭘﯿﺪﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻗﺼﻮﺭ ﮨﻤﮧ ﺩﺍﻧﯽ
ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﮐﺎ ﺷﻨﺎﺳﺎ
ﮔﮩﺮﺍ ﮨﮯ ﻣﺮﮮ ﺑﺤﺮ ﺧﯿﺎﻻ‌ﺕ ﮐﺎ ﭘﺎﻧﯽ
ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺗﻤﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ 'ﺍﻗﺒﺎﻝ' ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﻮﮞ
ﮐﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺟﺪﺍﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺍﺷﮏ ﻓﺸﺎﻧﯽ
ﺍﻗﺒﺎﻝ ﺑﮭﯽ 'ﺍﻗﺒﺎﻝ' ﺳﮯ ﺁﮔﺎﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ
ﮐﭽﮫ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﺴﺨﺮ ﻧﮩﯿﮟ ، ﻭﺍﻟﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ

اس مخصوص شعر کی تشریح پر تو ضخیم کتاب لکہی جا سکتی ہے اور بر صغیر میں اس شعر پر شاعروں ، ادیبوں نے کیا کیا تشریح نا کی ہو گی ! آج پہلی بار پڑہا کہ اس شعر پر شرک کا شبہ ہوتا ہے ۔
اسکا جواب تو علماء اسلام دے سکتے ہیں ۔ اقبال اکیڈمی بهی کہے اور بعد از وفات ، جبکہ انسان اپنے دفاع پر قدرت نہیں رکہتا ہو ، مجہے یہ بتادیں یہ انصاف ہوا کیا ؟
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
جی یہ شعر درست ہے ؛ شعر و سخن میں معنی کا تعین محاورے سے ہوتا ہے کہ اس میں استعارہ کا استعمال بہت ہے ۔ اسے شرک کہنا نادرست بات ہے ۔
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49
اس پہ ایک اور حوالے سے بھی بات ہو سکتی ہے ۔
کسی بھی ایسی بات کا قائل کون ہے ۔۔۔
اس کی ایک مثال ہے۔۔۔۔
مشہور حدیث ۔۔۔۔
وما يزال عبدى يتقرب إلى بالنوافل حتى أحبه، فإذا أحببته كنت سمعه الذي يسمع به، وبصره الذي يبصر به، ويده التي يبطش بها، ورجله التي يمشى عليها،
۔۔۔۔۔۔
یہ صحیح بخاری میں بھی ہے ۔۔مشہور صحیح حدیث قدسی ہے ۔۔۔۔
اس حدیث پہ۔۔۔میزان الاعتدال ۔۔۔میں ۔۔۔امام ذہبیؒ ۔۔۔گزرے تو فرمایا۔۔۔
لولا هيبة الجامع الصحيح لعدوه في منكراًت خالد بن مخلد، وذلك لغرابة لفظه

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی الفاظ کو پرکھنے کے لئے یہ بھی دیکھیں کے قائل کون ہے ۔۔۔یا ناقل کون ہے ۔۔۔​
ڈاکٹر اقبالؒ کے اگرچہ کلام پہ تنقید ہو سکتی ہے ۔۔۔ان کے کچھ شعر ہیں ایسے ۔۔۔
لیکن ان کی شخصیت اس لحاظ سے معتبر ہے کہ معتبر شاعروں میں ان کا مقام بہت وزنی ہے ۔ ۔۔اور تقریباََ ہر سنجیدہ طبقے میں ان کی اچھی شہرت ہی ہے ۔۔۔۔
یہ ہر ایسی عبارت کو جانچنے کا اصول ہے ۔۔۔جس کو پڑھ کر کچھ الجھن ہو۔۔۔
ویسے تو ہر کلام کسی مسلم اصول سے نہ ٹکراتا ہو ۔۔۔اور حسن ظن سے صحیح ہوتا ہو۔۔۔تو اسے صحیح سمجھنا چاہیے ۔۔۔۔اور اگر ایسی شخصیت کا ہو جو معتبر ہے ۔۔۔پھرتو وہ اس کا زیادہ مستحق ہے ۔۔۔
 
Last edited:
شمولیت
اپریل 15، 2012
پیغامات
1
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
42
کفر ٹھاٹھے مار رہا ہے۔ اور ہمارے بھائی شک میں مبتلا ہیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمارے عقیدہ توحید کو مضبوط و مستحکم کرے۔​
 
Top