حافظ راشد
رکن
- شمولیت
- جولائی 20، 2016
- پیغامات
- 116
- ری ایکشن اسکور
- 29
- پوائنٹ
- 75
گانا بجانا
اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں:ومن الناس من یشتری لھو الحدیث لیضل عن سبیل اللہ بغیر علم ویتخذھا ھزوا اولئک لھم عذاب مھین‘‘اور لوگوں میں سے بعض ایسے ہیں جو لھو الحدیث خریدتے ہیں تاکہ لوگوں کو جہالت کے ساتھ اللہ کے راستے سے گمراہ کر دیں اور (دین اسلام سے) استہزاء کریں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ذلیل کرنے والا عذاب ہو گا۔’’ (سورۃ لقمان:۶)اس آیت مبارکہ میں لھو الحدیث کی تشریح میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
‘‘الغناء والذی لا إلہ الا ھو’’اس ذات کی قسم جس کے سوا دوسرا کوئی الہ نہیں ہے، اس آیت (میں لھو الحدیث) سے مراد غناء (گانا بجانا ) ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ:۶؍۳۰۹ح۲۱۱۲۳و سندہ حسن)
اس اثر کو امام حاکم اور ذہبی دونوں نے صحیح کہا ہے۔(المستدرک:۲؍۴۱۱ح۳۵۴۶)
عکرمہ(تابعی) فرماتے ہیں:‘‘ ھو الغناء’’ یہ غنا(گانا) ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ ۲؍۳۱۰ح۲۱۱۲۷وسندہ حسن)
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی مذمت کرتے ہوئے، جو کہ دین حق کے مخالف ہیں فرماتے ہیں:وانتم سامدون اور تم غفلت میں پڑے ہو۔(سورہ النجم:۶۱)
اس آیت کی تشریح میں مفسر قرآن حبر الامت امام عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
‘‘ھو الغناء بالحمیریۃ، اسمدی لنا:تغنی لنا’’
سامدون سے مراد حمیری زبان میں گانا بجانا ہے۔ اسمدی لنا کا مطلب ہے، ہمارے لئے گاؤ۔
(السنن الکبری للبیہقی:۱۰۱؍۲۲۳و سند قوی؍صحیح، رواہ یحیی القطان عن سفیان الثوری بہ)
سیدنا ابو عامر یا ابو مالک الاشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
‘‘ لیکونن من أمتی أقوام یستحلون الحر و الحریر و الخمر و المعازف و لینزلن أقوام إلی جنب علم یروح علیھم بسارحۃ لھم یأ تیھم لحاجۃٍفیقولون ارجع إلینا غداً فیبیتھم اللہ ویضع العلم و یمسخ آخرین قردۃ وخنازیر إلیٰ یوم القیامۃ’’
‘‘میری امت میں ایسی قومیں ضرور پیدا ہوں گی جو زنا، ریشم، شراب اور باجوں کو حلال سمجھیں گی اور بعض قومیں پہاڑ کے پاس رہتی ہوں گی اور جب شام کو اپنا ریوڑ لے کر واپس ہوں گی۔ اس وقت ان کے پاس کوئی ضرورت مند (فقیر ) آئے گا تو کہیں گے: کل صبح ہمارے پاس آؤ اللہ تعالیٰ انہیں رات کو ہی ہلاک کر دے گا اور پہاڑ کو گرا دے گا اور باقیوں کو بندروں اور سوروں کی شکل میں مسخ کر دے گا اور قیامت تک اسی حال میں رہیں گے۔ ’’
(صحیح بخاری:۲؍۸۳۷ح۵۵۹۰، صحیح ابن حبان ح ۶۷۱۹)
اس حدیث کے بارے میں شیخ ابن الصلاح فرماتے ہیں:
‘‘و الحدیث صحیح معروف الاتصال بشرط الصحیح’’
یہ حدیث صحیح کی شرط کے ساتھ صحیح متصل مشہور ہے۔(مقدمہ ابن الصلاح ص ۹۰ مع شرح العراقی)
اس حدیث پر حافظ ابن حزم وغیرہ کی جرح مردود ہے.
صحیحین (صحیح بخاری، و صحیح مسلم) کی تمام مرفوع باسند متصل روایات یقیناً صحیح اور قطعی الثبوت ہیں۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:‘‘قال رسول اللہ ﷺ إن اللہ حرم علیکم الخمر و المیسر و الکوبۃ۔۔ کل مسکر حرام’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بے شک اللہ نے تمہارے اوپر شراب ، جوا اور کُوبہ حرام کیا ہے اور فرمایا : ہر نشہ دینے والی چیز حرام ہے۔ (مسند احمد ۲۶۹۱، ۳۵۰ح۳۲۷۴و إسنادہ صحیح ح ۳۲۷۴و سنن أبی داود: ۳۲۹۶)
اس کے ایک راوی علی بن بذیمہ فرماتے ہیں کہ الکوبۃ سے مراد‘‘الطبل’’ یعنی ڈھول ہے۔
(سنن ابی داؤد: ۲؍۱۶۴ح و إسنادہ صحیح)
سیدنا عبداللہ بن عمر و العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:‘‘إن اللہ عزوجل حرم الخمر و المیسر و الکوبۃ والغبیراء و کل مسکر حرام’’بے شک اللہ عزوجل نے خمر (شراب) جوا، ڈھولکی بجانا اور مکی کی شراب حرام قرار دیا ہے اور ہر نشہ دینے والی چیز حرام ہے۔ (مسند احمد ۲؍۱۷۱ح۶۵۹۱م، و سندہ حسن)
اس روایت کا راوی عمر و بن الولید بن عبدہ جمہور کے نزدیک ثقہ و موثق ہے لہذا اس کی حدیث حسن کے درجے سے نہیں گرتی۔
محمود بن خالد الدمشقی نے صحیح سند کے ساتھ امام نافع سے نقل کیا ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک دفعہ بانسری کی آواز سنی تو اپنے کانوں میں انگلیاں دے دیں اور فرمایا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا تھا۔ (سنن ابی داؤد: ۲؍۳۲۶ ح ۴۹۲۴ و إسنادہ حسن و المعجم الکبیر للطبرانی: ۱؍۱۳ و تحریم النرود الشطرنج و الملاھی للآجری ح ۶۵، مسند احمد ۲؍۳۸ح ۴۹۶۵، السنن الکبری للبیہقی:۱؍۲۲۲)
اس حدیث کے بارے میں علامہ ابن الوزیر الیمانی نے ‘‘توضیح الافکار’’ (ج ا ص ۱۵۰) میں لکھا ہے کہ :
‘‘صحیح علی الأصح’’ سب سے صحیح یہ ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
‘‘صوتان معلونان فی الدنیا وال آخرۃ، مزمار عند نعمۃ ورنۃ عند مصیبۃ’’دو آوازوں پر دنیا اور آخرت (دونوں) میں لعنت ہے۔ خوشی کے وقت باجے کی آواز اور غم کے وقت شور مچانا اور پیٹنا۔ (کشف الاستار عن زوائد:۱؍۳۷۷)
اس حدیث کی سند حسن ہے۔ حافظ منذری فرماتے ہیں:
‘‘ورواتہ ثقات’’اور اس کے راوی ثقہ اور (قابل اعتماد) ہیں۔
حافظ ہثمی نے فرمایا: ‘‘ورجالہ ثقات’’یعنی اس کے راوی ثقہ ہیں۔ (مجمع الزوائد: ۳؍۱۳)
ان آیات کریمہ اور احادیث مبارکہ وغیرہ کی روشنی میں محقق علماء نے فیصلہ کیا ہے کہ گانے بجانے کے آلات اور ان کا استعمال بالقصد(جان بوجھ کر سننا ) حرام ہے۔
پبلک گاڑیوں میں ٹیپ ریکارڈوں کا شور
ایک مسلمان جسے معلوم ہے کہ گانا بجانا حرام ہے۔ وہ اپنے آپ کو ہر ممکنہ طریقے سے اس حرام فعل سے بچاتا ہے، اب اگر وہ کہیں سفر کے لئے پبلک گاڑی میں سوار ہوتا ہے تو ڈرائیور حضرات اینڈ کمپنی اسے اپنے اپنے پسندیدہ گانے سنانے پر ہٹ دھرمی سے ڈٹے رہتے ہیں، وہ کیا کرے؟ گاڑی سے اتر جائے یا پھر طاقت کا استعمال کر کے یہ حرام کام روک دے؟ ان فاسق و فاجر ڈرائیوروں ارو ان کے حامیوں کو اس بات کا پابند کرنا چاہیئے کہ عامۃ المسلمین کو تکلیف نہ دیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:‘‘المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ ’’مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں( صحیح بخاری: ۱۰، صحیح مسلم: ۴۰)
ایک روایت میں ہے کہ:‘‘لا یدخل الجنۃ من لا یأ من جارہ بوائقہ’’وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو سکتا جس کے شر سے اس کا پڑوسی محفوظ نہیں ہے(صحیح مسلم:۴۶)
فحاشی اور اس کا سدِّ باب
کفار اور منافقین کی سازشوں کی وجہ سے مسلمانوں میں فحاشی اور بے حیائی بھی مسلسل پھیل رہی ہے۔ گندے اور فحش گانوں کی لعنت کیاکم تھی کہ اب ٹی وی، وی سی آر، ڈش انٹینا، کیبل، انٹرنیٹ کیفے، موبائل کی شیطانی گھنٹیاں اور ننگی و گندڈ تصاویر کی بہتات ہو رہی ہے۔
ساری کائنات کا رب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:‘‘ ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشۃ فی الذین اٰمنو الھم عذاب الیم فی الدنیا والآخرۃطوللہ یعلم وانتم لا تعلمون‘‘جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانےو الوں کے گروہ میں فحاشی پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں، اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔’’ (سورۃ النور آیت: ۱۹)
یہ آیت مبارکہ اپنے شان نزول کے ساتھ مقید نہیں ہے بلکہ العبرۃ بعموم اللفظ کے اصول سے فحاشی پھیلانے کی ہر چیز پر اس کا حکم یکساں ہے۔ بدکاری کے اڈے سینما ہال، گندی فلمیں ، کلب ، گندے ہوٹل، رقص گاہیں گندے قصے کہانیاں اور جنسی فحش اشعار، غرض بد اخلاقی پھیلانے والی تمام اشیاء اس آیت کے عموم میں شامل ہیں۔لہذا یہ سب چیزیں حرام او رقابل سزا ہیں۔ اگر زمام کار نیک اور سچے مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو تو ان پر یہ لازم ہے کہ فحاشی کے یہ تمام اڈے اور ذرائع پوری قوت سے بند کردیں۔ اور ان افعالِ فاحشہ کے مرتکب کو شدید سزا دی جائے تاکہ آئندہ کسی دوسرے کو اس کی ہمت بھی نہ ہو۔
مشہور تابعی محمد بن المنکدر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ‘‘ یقال یوم القیامۃ أین الذین کانو اینزھون أنفسھم وأسماعھم عن اللھو و مزا میر الشیطان؟ اجعلوھم فی ریاض المسک، ثم یقال للملا ئکہ: أسمعوھم حمدی و الثناء علی وأخبروھم أن لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون’’قیامت کے دن کہا جائے گا کہ کہاں ہیں وہ لوگ جو اپنے آپ کو اور اپنے کاموں کو لہو و لعب اور شیطانی باجوں سے بچاتے تھے؟ انہیں خوشبودار باغیچوں میں لے جاؤ، پھر فرشتوں سے کہا جائے گا: انہیں میری حمد و ثناء سناؤ اور خوشخبری دے دو کہ انہیں نہ کوئی خوف ہے اور نہ کوئی غم ہو گا۔(کتاب تحریم النرود و الشطرنج و الملاھی للامام ابی بکر محمد بن الحسین الآجری: ۶۶ و سند ہ صحیح)
بعینہ یہی قول دوسری سند کے ساتھ مفسر قرآن مجاہد (تابعی) رحمہ اللہ سے بھی مروی ہے۔
(ایضاً: ۶۸ و سندہ قوی، روایۃ سفیان الثوری عن منصور محمولۃ علی السماع)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ تمام مسلمان گانے بجانے موسیقی ، ٹی وی ، وی سی آر اور سینما گھروں کو چھوڑ کر قرآن و سنت کی طرف رجوع کریں، توحید و سنت کا بول بالا کرنے کی کوشش کریں اور شرک و کفر اور بدعات کو ختم کرنے میں سچے دل اور صحیح ایمان کےساتھ مصروف رہیں تاکہ دنیا میں خلافت اور اس کی برکات ایک بار پھر قائم ہو جائیں۔ آمین اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ان نا سمجھ لوگوں کو بھی ہدایت دے جو انکارِ حدیث کے راستہ پر گامزن ہو کر گانے بجانے کے آلات اور موسیقی کو ‘‘حلال’’ ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ جو لوگ اپنے موبائلوں کی گھنٹیوں کے ذریعے نمازیوں کو تکلیف دیتے ہیں اللہ انہیں بھی ہدایت دے۔ آمین وما علینا إلا البلاغ
Last edited: