• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

گوشت کے بارے میں وہ جھوٹ جنہیں آپ سچ سمجھتے ہیں

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
گوشت کے بارے میں وہ جھوٹ جنہیں آپ سچ سمجھتے ہیں
10 اکتوبر 2014 (22:06)

برمنگھم (نیوز ڈیسک) گوشت کے استعمال اور افادیت کے حوالے سے قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لئے 8 مضحکہ خیز فرضی اور افسانوی باتیں پیش خدمت ہیں جن میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ یہ وہ مغالطے ہیں جو نسل درنسل لوگوں میں مشہور و معروف ہیں۔

1۔ کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ گوشت مناسب طریقے سے ہضم نہیں ہوتا بلکہ آنتوں میں گلتا سڑتا رہتا ہے۔ یہ تو معلوم ہی ہے کہ جیسے ہی گوشت معدے میں پہنچتا ہے تو کچھ تیزابی رطوبتیں اور انزائم کا اخراج ہوتا ہے جو اسے ہضم کرنے میں مددگار ہوتے ہیں۔ پھر یہ محلول نما گوشت چھوٹی آنت میں جاتا ہے تو وہاں اس میں موجود پروٹین امائینوایسڈ مین تبدیلی ہوتی ہے اور فیٹ بھی فیٹی ایسڈ میں تحلیل ہوتی ہے۔ پھر یہاں ہی غذائی اجزاء چھوٹی آنتوں کی دیواروں سے چھن کر خون میں شامل ہو کر جسم کا حصہ بناتے ہیں۔ اب آپ بتائیے کہ گوشت کہاں چھوٹی آنت میں گلنے سڑنے کے لئے پڑا رہتا ہے۔ مختصر یہ کہ گوشت بڑی آنت پنچنے سے قبل ہی تحلیل ہوکر ہضم ہو چکا ہوتا ہے۔ البتہ یہ سچ ہے کہ کچھ خاص قسم کی سبزیاں، پھل اور دانے وغیرہ مشکل سے ہضم ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں ہضم کرنے کے لئے طاقتور انزائم دستیاب نہیں ہوتے۔

2۔ گوشت کے خلاف سب سے مضبوط دلیل یہ دی جاتی ہے کہ سیر شدہ چربی پیدا کرتا ہے اور کولیسٹرول کو بڑھاتا ہے لیکن اب تک اس دلیل کے ثبوت میں کوئی حقیقت سامنے نہیں آئی۔ سچ یہ ہے کہ کولیسٹرول ہرسیل کی جھلی میں پایا جاتا ہے اور ہارمونز کے اخراج کی وجہ بنتا ہے۔ جگر بھی کولیسٹرول کا منبع ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق 70 فیصد لوگوں کے جسم میں پایا جانے وال کولیسٹرول ان کی صحت کو متاثر نہیں کرتا۔ 30 فیصد لوگوں میں ایل ڈی ایل کولیسٹرول کی موجودگی صحت کے لئے مضر ثابت ہوا ہے۔ اس نکتہ پر مختصر تبصرہ یہ ہے کہ یہ سچ ہے کہ گوشت کولیسٹرول بناتا ہے لیکن اس سے جسم پر اس کے منفی اثرات نہیں پڑتے اور نہ ہی دل کی بیماری کی وجہ بنتا ہے۔ احتیاطی تدبیر صرف یہ ہے کہ گوشت مناسب مقدار میں استعمال کیا جاتا ہے۔

3۔ اکثر لوگ ایمان کی حد تک اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ گوشت سے دل کی بیماریاں بڑھتی ہیں اور 2 طرح کی ذیابیطس پیدا ہوتی ہے۔ اس ضمن میں عرض ہے کہ دل کی بیماریاں 20 ویں صدی تک تو خطرناک نہ تھیں اور گزشتہ چند عشرے پہلے ذیابیطس بھی اس حد تک خوفناک نہ تھی جتنی کہ آج ہے۔ یہ دونوں بیماریاں تو آج کی بیماریاں ہیں لیکن گوشت تو لوگوں کی صدیوں سے مرغوب غذا ہے۔ کہتے ہیں کہ صدیوں قبل بھی یہ من پسند غذا تھی۔ اس لئے اتنی پرانی غذا کو نئی بیماری سے جوڑنا کسی صورت مناسب نہیں ہے۔ ایک تحقیق میں 1218350 لوگوں پر مطالعہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اتنی بڑی تعداد کے لوگوں میں کوئی ایسی شہادت نہیں ملی جو ثابت کرتی کہ گوشت کی وجہ سے دل کی بیماری یا ذیابیطس جیسی بیماریوں کو جھیلنا پڑا ہو۔ اصل بات یہ ہے کہ گوشت کا استعمال اور پکانے کا طریقہ کیا ہے، یہ طریقے ہی خرابیوں کا باعث بنتے ہیں۔

4۔ سرخ گوشت کینسر پھیلاتا ہے: یہ بھی ایک مغالطہ ہے کہ جس کی اصل روح کو سمجھنا ضروری ہے۔ ڈبہ بند گوشت سب برائیوں کی جڑ ہے جبکہ تازہ گوشت ایسی کسی بیماری کی وجہ نہیں بنتا، دراصل اس ضمن میں کی گئی دو تحقیقات میں یہ واضح ہوا ہے کہ ڈبہ بند گوشت بھی کینسر کی وجہ بنتا ہے۔ 35 تحقیقیں یہ بتاتی ہیں کہ پکانے کے مختلف طریقے گوشت کی افادیت کا سکیل طے کرتے ہیں کہ آیا غذائی اعتبار سے مفید ہے یا مضر صحت، جیسے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ اگر ضرور سے زیادہ پکایا جائے تو اس کے اجزاء ہیٹروں ٹیک، ایمانیز اور پولی سائیکل ہائیڈروکاربوریٹس میں تبدیل ہوتا ہے، یہ مرکبات کینسر کی وجہ بنتے ہیں۔

5۔ انسان سبزی خور ہے اس کی تخلیق گوشت خور کے طور پر نہیں کی گئی۔ یہ خیال بھی اوپر بیان کئے گئے مغالطوں کی طرح ہی ہے اور اس میں سچائی نہیں پائی جاتی۔ اس ضمن میں غور کریں کہ ہمارے نظام انہظام میں چھوٹی اور بڑی آنت کا کردار بہت اہم ہے جو گوشت کے ہاضمے کیلئے ان آنتوں میں خصوصی انزائم حصہ لیتے ہیں اور یہ انزائم کچھ سبزیوں اور پھلوں کے لئے فعال نہیں ہوتے۔ سچ یہ ہے کہ انسانی جسم میں قدرت نے وہ نظام بنایا ہے جو گوشت کو ہضم کرتا ہے۔

6۔ کیا پروٹین ہڈیوں کیلئے مفید ثابت نہیں ہوتی؟ اس سوال کے جواب میں اکثریت یہ کہتی ہے کہ چونکہ گوشت پروٹین کا گھر ہوتا ہے اور گوشت خوروں کی ہڈیاں اسی لئے کمزور ہوتی ہیں۔ یہ بھی قطعی غلط خیال ہے۔ جدید تحقیقات نے ثابت کیا ہے کہ زیادہ پروٹین والی غذائیں اور صحت مند ہڈیوں کی ضامن ہوتی ہیں اور ہڈیوں میں پائی جانے والی سختی کو کم کرتی ہیں۔

7۔ عام دعویٰ ہے کہ گوشت صحت کے لئے غیر ضروری ہے، اس خیال کو ایک حد تک تو درست تسلیم کیا جا سکتا ہے لیکن پھر بھی گوشت کا کھانا صحت کے لئے لازم ہے، سچ تو یہ ہے کہ ہم گوشت کھائے بغیر رہ بھی نہیں سکتے۔

8۔ گوشت کے بارے میں یہ قیاس آرائی کی جاتی ہے کہ یہ موٹاپے کا باعث بنتا ہے۔ یہ بھی کچھ کچھ درست خیال ہے لیکن ایسا دعویٰ کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ گوشت میں پائی جانے والی پروٹین وزن کو کم کرنے میں معاون پائی گئی ہے۔

ح
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
تعجب !۔۔۔لوگ چیزوں کو تب مانتے ہیں ، جب منطق پیش کی جائے۔جیسا کہ سائنسی تحقیق میں ہوتا ہے۔لیکن سچ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا زیادہ تر کھانا گوشت ہی ہوتا تھا۔اور آج کی بیشتر بیماریاں تب نہیں تھیں ۔تب اشیاء بھی خالص تھی اور کھانا پکانے کے طریقے بھی سادہ تھے۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

لیکن سچ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا زیادہ تر کھانا گوشت ہی ہوتا تھا۔
کوئی حدیث مبارکہ پیش کریں جس سے معلوم ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زیادہ تر کھانا گوشت ہی ہوتا تھا، میرے مطالعہ میں نہیں اس لئے جاننے کے لئے لکھ رہا ہوں۔

والسلام
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
وفي الشمائل المحمدية للترمذي عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَتَانَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فِي مَنْزِلِنَا، فَذَبَحْنَا لَهُ شَاةً، فَقَالَ: " كَأَنَّهُمْ عَلِمُوا أَنَّا نُحِبُّ اللَّحْمَ ". وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ
جابر فرماتے ہیں :کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے ،تو ہم نے آپ کی ضیافت کےلئے ایک بکری ذبح کی ،آپ (یہ دیکھا تو )فرمایا :گویا ہمارے میزبان جانتے کہ ہمیں گوشت بہت پسند ہے ،
وقال الملا القاري في شرح الشمائل :وَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُ اللَّحْمَ وَيُحِبُّهُ
عن أبي هريرة، قال: أتي رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما بلحم، فرفع إليه الذراع، وكانت تعجبه فنهس منها نهسة فقال: " أنا سيد الناس يوم القيامة،
صحيح مسلم، باب أدنى أهل الجنة منزلة فيها

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھانے میں گوشت پیش کیا گیا اور دستی کا گوشت آپ کی طرف بڑھایا گیا اور آپ کو دست کا گوشت بہت پسند تھا“
وقال النووي في شرحه :( وكانت تعجبه -- محبته صلى الله عليه وسلم للذراع لنضجها وسرعة استمرائها مع زيادة لذتها وحلاوة مذاقها وبعدها عن مواضع الأذى
طب نبوی میں درج ہے:
آپ کو گوشت بہت پسند تھا‘ اور دست کا گوشت تو بہت زیادہ پسند فرماتے تھے‘ بالخصوص بکری کے اگلے دست کا‘ اسی لئے اس میں زہر ملا کر آپ کو کھلایا گیا تھا صحیحین میں روایت ہے کہ:
”رسول اللہﷺ کے سامنے کھانے میں گوشت پیش کیا گیا اور دست کا گوشت آپ کی طرف بڑھایا گیا اور آپ کو دست کا گوشت بہت پسند تھا“
حضرت ابو عبیدہ ؓوغیرہ نے ضباءبنت زبیر کا واقعہ نقل کیا ہے‘ کہ انہوں نے اپنے گھر میں ایک بکری ذبح کی آپ نے ان کو کہلا بھیجا کہ اپنی بکری میں سے ہمیں بھی کھلانا انہوں نے قاصد سے کہا کہ اب تو صرف گردن ہی باقی رہ گئی ہے‘ اور مجھے شرم آتی ہے کہ میں اسے رسول اللہﷺ کے پاس بھیجوں قاصد نے واپس جاکر جب آپ کو یہ خبر دی تو آپ نے اس سے فرمایا کہ جاﺅ اور اس سے کہو کہ وہی بھیج دے‘ اس لئے کہ بکری کا اگلا حصہ ہے‘ اور بکری کی گردن کا گوشت خیر کے زیادہ قریب اور اذیت سے دور ہوتا ہے۔
اور یہ حقیقت ہے کہ بکری کے گوشت میں سب سے لطیف حصہ گردن پہلو یا دست کا گوشت ہوتا ہے اس کے کھانے سے معدہ پر گرانی نہیں ہوتی اور زود ہضم بھی ہوتا ہے اور غذا کے سلسلے میں ایک اصولی بات ہے کہ جس غذا میں تین اوصاف پائے جائیں وہی اعلیٰ درجہ غذا ہوگی۔
 

میرب فاطمہ

مشہور رکن
شمولیت
جون 06، 2012
پیغامات
195
ری ایکشن اسکور
218
پوائنٹ
107
وفي الشمائل المحمدية للترمذي عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَتَانَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فِي مَنْزِلِنَا، فَذَبَحْنَا لَهُ شَاةً، فَقَالَ: " كَأَنَّهُمْ عَلِمُوا أَنَّا نُحِبُّ اللَّحْمَ ". وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ
جابر فرماتے ہیں :کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے ،تو ہم نے آپ کی ضیافت کےلئے ایک بکری ذبح کی ،آپ (یہ دیکھا تو )فرمایا :گویا ہمارے میزبان جانتے کہ ہمیں گوشت بہت پسند ہے ،
وقال الملا القاري في شرح الشمائل :وَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُ اللَّحْمَ وَيُحِبُّهُ
عن أبي هريرة، قال: أتي رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما بلحم، فرفع إليه الذراع، وكانت تعجبه فنهس منها نهسة فقال: " أنا سيد الناس يوم القيامة،
صحيح مسلم، باب أدنى أهل الجنة منزلة فيها

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھانے میں گوشت پیش کیا گیا اور دستی کا گوشت آپ کی طرف بڑھایا گیا اور آپ کو دست کا گوشت بہت پسند تھا“
وقال النووي في شرحه :( وكانت تعجبه -- محبته صلى الله عليه وسلم للذراع لنضجها وسرعة استمرائها مع زيادة لذتها وحلاوة مذاقها وبعدها عن مواضع الأذى
طب نبوی میں درج ہے:
آپ کو گوشت بہت پسند تھا‘ اور دست کا گوشت تو بہت زیادہ پسند فرماتے تھے‘ بالخصوص بکری کے اگلے دست کا‘ اسی لئے اس میں زہر ملا کر آپ کو کھلایا گیا تھا صحیحین میں روایت ہے کہ:
”رسول اللہﷺ کے سامنے کھانے میں گوشت پیش کیا گیا اور دست کا گوشت آپ کی طرف بڑھایا گیا اور آپ کو دست کا گوشت بہت پسند تھا“
حضرت ابو عبیدہ ؓوغیرہ نے ضباءبنت زبیر کا واقعہ نقل کیا ہے‘ کہ انہوں نے اپنے گھر میں ایک بکری ذبح کی آپ نے ان کو کہلا بھیجا کہ اپنی بکری میں سے ہمیں بھی کھلانا انہوں نے قاصد سے کہا کہ اب تو صرف گردن ہی باقی رہ گئی ہے‘ اور مجھے شرم آتی ہے کہ میں اسے رسول اللہﷺ کے پاس بھیجوں قاصد نے واپس جاکر جب آپ کو یہ خبر دی تو آپ نے اس سے فرمایا کہ جاﺅ اور اس سے کہو کہ وہی بھیج دے‘ اس لئے کہ بکری کا اگلا حصہ ہے‘ اور بکری کی گردن کا گوشت خیر کے زیادہ قریب اور اذیت سے دور ہوتا ہے۔
اور یہ حقیقت ہے کہ بکری کے گوشت میں سب سے لطیف حصہ گردن پہلو یا دست کا گوشت ہوتا ہے اس کے کھانے سے معدہ پر گرانی نہیں ہوتی اور زود ہضم بھی ہوتا ہے اور غذا کے سلسلے میں ایک اصولی بات ہے کہ جس غذا میں تین اوصاف پائے جائیں وہی اعلیٰ درجہ غذا ہوگی۔
ان احادیث سے زیادہ تر گوشت کھانا کیسے ثابت ہوتا ہے؟؟؟
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
ان احادیث سے زیادہ تر گوشت کھانا کیسے ثابت ہوتا ہے؟؟؟
بہن ، زیادہ کھائے جانے کی بات تو مطالعہ کی ہے۔ میں نے تو یہ دعوی نہیں کہ ایسا انھی الفاظ میں احادیث میں آیا ہے! جبکہ احادیث میں گوشت کا ذکر کثرت سے ہوتے ہوئے بھی یہ مطلب نہ سمجھا جائے کہ باقی کھانے کم یا نہیں کھانے چاہیئے۔کیونکہ حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے۔
 

ابن قاسم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 07، 2011
پیغامات
253
ری ایکشن اسکور
1,081
پوائنٹ
120
گوشت کے بارے میں وہ جھوٹ جنہیں آپ سچ سمجھتے ہیں
10 اکتوبر 2014 (22:06)


3۔ اکثر لوگ ایمان کی حد تک اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ گوشت سے دل کی بیماریاں بڑھتی ہیں اور 2 طرح کی ذیابیطس پیدا ہوتی ہے۔ اس ضمن میں عرض ہے کہ دل کی بیماریاں 20 ویں صدی تک تو خطرناک نہ تھیں اور گزشتہ چند عشرے پہلے ذیابیطس بھی اس حد تک خوفناک نہ تھی جتنی کہ آج ہے۔ یہ دونوں بیماریاں تو آج کی بیماریاں ہیں لیکن گوشت تو لوگوں کی صدیوں سے مرغوب غذا ہے۔ کہتے ہیں کہ صدیوں قبل بھی یہ من پسند غذا تھی۔ اس لئے اتنی پرانی غذا کو نئی بیماری سے جوڑنا کسی صورت مناسب نہیں ہے۔ ایک تحقیق میں 1218350 لوگوں پر مطالعہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اتنی بڑی تعداد کے لوگوں میں کوئی ایسی شہادت نہیں ملی جو ثابت کرتی کہ گوشت کی وجہ سے دل کی بیماری یا ذیابیطس جیسی بیماریوں کو جھیلنا پڑا ہو۔ اصل بات یہ ہے کہ گوشت کا استعمال اور پکانے کا طریقہ کیا ہے، یہ طریقے ہی خرابیوں کا باعث بنتے ہیں۔

ح
السلام علیکم و رحمۃ اللہ
مچھلی کے گوشت میں موجود اومیگا ٣ فیٹی ایسڈز صحت کے لیے فائدہ مند ہوتی ہیں. اومیگا ٣ جسے اللہ نے مچھلی کے گوشت میں میں رکھا ہے وہ دل کی بیماریوں میں کمی کا باعث ہے
 

میرب فاطمہ

مشہور رکن
شمولیت
جون 06، 2012
پیغامات
195
ری ایکشن اسکور
218
پوائنٹ
107
بہن ، زیادہ کھائے جانے کی بات تو مطالعہ کی ہے۔ میں نے تو یہ دعوی نہیں کہ ایسا انھی الفاظ میں احادیث میں آیا ہے! جبکہ احادیث میں گوشت کا ذکر کثرت سے ہوتے ہوئے بھی یہ مطلب نہ سمجھا جائے کہ باقی کھانے کم یا نہیں کھانے چاہیئے۔کیونکہ حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے۔
مجھے آپکی بات سمجھ نہیں آئی۔۔۔جب کسی حدیث میں اسکا ذکر ہی نہیں تو پھر کس کا مطالعہ کیا؟ اور زیادہ تر گوشت کھائے جانے کی بات آپ نے کس حوالے کو لے کر رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی؟؟؟ جبکہ یہ احادیث بھی موجود ہیں؛


سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سالم بھنی ہوئی بکری (جو کھال اتارے بغیر بھونی جاتی ہے) دیکھی ہو۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ عزوجل سے جاملے۔
سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 190



عبدالرحمٰن بن عابس رحمہ اللہ اپنے والد
( عابس بن ربیعہ رضی اللہ عنہ ) سے انہوں نے کہا میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے پوچھا کیا قربانی کا گوشت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن سے زیادہ تک کھانے سے منع کیا ہے ؟ انہوں نے کہا آپ نے اُس سال ایسا کرنے سے منع کیا تھا جب لوگ محتاج تھے ( ان کو کھانا میسر نہ ہوتا ) آپ کا مطلب ایسا حکم دینے سے یہ تھا کہ مالدار لوگ محتاجوں کو ( یہ گوشت ) کھلادیں ( جوڑ نہ رکھیں )اور ہم بکری کے پائے اٹھا رکھتے پندرہ پندرہ دن بعد اس کو کھاتے عابس نے کہا ۔کیوں ایسی کیا ضرورت تھی یہ سن کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا ہنسں دیں پھر کہنے لگیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروالوں کو کبھی برابر تین دن تک گہیوں کی روٹی سالن کھانے کو نہیں ملا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی ۔ صحیح بخاری کتاب الأ طعمة



سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عروہ رحمہ اللہ سے کہا کہ اے میرے بھانجے ہم لوگ دو مہینوں میں تین چاند دیکھتے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھروں میں آگ نہیںجلتی تھی، عروہ رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ میں نے پوچھا پھر زندگی کس طرح گزرتی تھی، انہوں نے کہا دو سیاہ چیزوں چھوہارے اور پانی سے البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چند انصاری پڑوسی تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دودھ (ہدیتہ) بھیجا کرتے تھے، اور آپ وہ ہم لوگوں کو پلا دیتے تھے۔ صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1406
 

میرب فاطمہ

مشہور رکن
شمولیت
جون 06، 2012
پیغامات
195
ری ایکشن اسکور
218
پوائنٹ
107
عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ مَا أَكَلَ آلُ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم أَكْلَتَيْنِ فِي يَوْمٍ، إِلاَّ إِحْدَاهُمَا تَمْرٌ‏.‏
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانہ نے اگر کبھی ایک دن میں دو مرتبہ کھا نا کھایا تو ضرور اس میں ایک وقت صرف کھجوریں ہوتی تھیں ۔
کتاب الرقاق۔ بخاری

يقول الحافظ ابن حجر رحمه الله : " فيه إشارة إلى أنهم ربما لم يجدوا في اليوم إلا أكلة واحدة ، فإن وجدوا أكلتين فإحداهما تمر " انتهى . "فتح الباري" (11/292) .
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس حديث ميں يہ اشارہ ہے كہ ہو سكتا ہے انہوں نے دن ميں ايك كھاناہى پايا ہو، اور اگر دو كھانے ملتے تو ان ميں ايك كھجور كا كھانا ہوتا " انتہى.
ديكھيں: فتح البارى ( 11 / 292 ).


عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ كَانَ يَأْتِي عَلَيْنَا الشَّهْرُ مَا نُوقِدُ فِيهِ نَارًا، إِنَّمَا هُوَ التَّمْرُ وَالْمَاءُ، إِلاَّ أَنْ نُؤْتَى بِاللُّحَيْمِ‏.‏
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیاکہ ہمارے اوپر ایسا مہینہ بھی گزر جاتا تھا کہ چولھا نہیں جلتا تھا ۔ صرف کھجور اور پانی ہوتا تھا ۔ ہاں اگر کبھی کسی جگہ سے کچھ تھوڑا سا گوشت آ جا تا ۔( تو اس کو بھی کھا لیتے تھے ۔)
کتاب الرقاق۔۔۔ بخاری
 
Last edited:

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
مجھے آپکی بات سمجھ نہیں آئی۔۔۔جب کسی حدیث میں اسکا ذکر ہی نہیں تو پھر کس کا مطالعہ کیا؟ اور زیادہ تر گوشت کھائے جانے کی بات آپ نے کس حوالے کو لے کر رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی؟؟؟ جبکہ یہ احادیث بھی موجود ہیں؛


سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سالم بھنی ہوئی بکری (جو کھال اتارے بغیر بھونی جاتی ہے) دیکھی ہو۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ عزوجل سے جاملے۔
سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 190



عبدالرحمٰن بن عابس رحمہ اللہ اپنے والد
( عابس بن ربیعہ رضی اللہ عنہ ) سے انہوں نے کہا میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے پوچھا کیا قربانی کا گوشت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن سے زیادہ تک کھانے سے منع کیا ہے ؟ انہوں نے کہا آپ نے اُس سال ایسا کرنے سے منع کیا تھا جب لوگ محتاج تھے ( ان کو کھانا میسر نہ ہوتا ) آپ کا مطلب ایسا حکم دینے سے یہ تھا کہ مالدار لوگ محتاجوں کو ( یہ گوشت ) کھلادیں ( جوڑ نہ رکھیں )اور ہم بکری کے پائے اٹھا رکھتے پندرہ پندرہ دن بعد اس کو کھاتے عابس نے کہا ۔کیوں ایسی کیا ضرورت تھی یہ سن کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا ہنسں دیں پھر کہنے لگیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروالوں کو کبھی برابر تین دن تک گہیوں کی روٹی سالن کھانے کو نہیں ملا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی ۔ صحیح بخاری کتاب الأ طعمة



سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عروہ رحمہ اللہ سے کہا کہ اے میرے بھانجے ہم لوگ دو مہینوں میں تین چاند دیکھتے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھروں میں آگ نہیںجلتی تھی، عروہ رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ میں نے پوچھا پھر زندگی کس طرح گزرتی تھی، انہوں نے کہا دو سیاہ چیزوں چھوہارے اور پانی سے البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چند انصاری پڑوسی تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دودھ (ہدیتہ) بھیجا کرتے تھے، اور آپ وہ ہم لوگوں کو پلا دیتے تھے۔ صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1406
محترمہ بہن!۔۔۔معذرت کے ساتھ آپ میری بات کو "زیادہ " کے مفہوم میں لیں گئی ہیں۔اب آپ کو کس طرح سمجھاؤں کہ میرا مطلب یہ نہیں تھا کہ زیادہ گوشت کھاتے رہے ، گویا کبھی فاقہ نہ دیکھا یا کبھی کمی نہ ہوئی۔یہ تو بلکل الگ بات ہے۔سادہ الفاظ میں آپ کو سمجھانے کی کوشش کر رہی ہوں کہ مذکورہ پوسٹ گوشت کی افادیت سے متعلق ہے ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت بیشتر احادیث میں گوشت کھائے جانے کا ذکر ہے، اور یہ بہت ساری احادیث میں ہے۔ گویا یہ اس طرح نقصان دہ نہیں تھا ، جسے آج تحقیق بھی مان رہی ہے۔آپ صحہ ستہ میں باب اطعمہ میں گوشت سے متعلق کثیر ذکر ملاحظہ کر سکتی ہیں۔اس لیے برائے مہربانی اسے "زیادہ ، زیادہ سے کے مفہوم سے نہ جانچیں ، ورنہ آپ بات کو بہت آگے لے جائیں گی۔اب بھی سمجھ نہیں آئے تو پھر پوچھ لیجیئے گا۔جزاک اللہ خیرا!
 
Top