• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

گیارہ رکعت سے زیادہ یا کم تہجد پڑھنے کا مسئلہ

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
گیارہ رکعت سے زیادہ یا کم تہجد پڑھنے کا مسئلہ

تحریر: مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر-سعودی عرب

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رات کی عبادت کے سلسلے میں نبی ﷺ کا معمول گیارہ رکعت پڑھنے کا تھا جیساکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
ما كان يزيدُ في رمضانَ ولا في غيرهِ على إحدى عشرةَ ركعةً(صحيح البخاري:2013) کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔
یہ آپ ﷺ کے معمول کی بات ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ آپ نے گیارہ رکعت معمول کے خلاف کبھی اس سے کم یا زیادہ عمل نہیں کیا بلکہ آپ سے کبھی گیارہ رکعت سے زیادہ بھی پڑھنا ثابت ہے اور آپ سے کبھی گیارہ رکعت سے کم بھی پڑھنا ثابت ہے ۔
گیارہ رکعت سے زیادہ پرھنے کی دلیل یہ ہے :
عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ:كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ بِثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، فَلَمَّا كَبِرَ وَضَعُفَ أَوْتَرَ بِتِسْعٍ( سنن نسائی:1709، قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد)
ترجمہ:ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ رکعت وتر پڑھتے تھے، پھر جب آپ بوڑھے اور کمزور ہو گئے تو آپ نو رکعت وتر پڑھنے لگے۔
یہ حدیث دلیل ہے کہ آپ ﷺ کبھی تیرہ رکعت بھی وتر پڑھتے، وتر سے مراد قیام اللیل یعنی آپ ﷺ تیرہ رکعت بھی قیام اللیل کرتے تھے بلکہ اسی حدیث سے اس بات کی بھی دلیل مل رہی ہے کہ گیارہ رکعت سے کم بھی کبھی قیام اللیل کرتے یعنی کبھی آپ نو رکعت قیام اللیل فرماتے اور ترمذی میں سات رکعت بھی قیام اللیل کرنے کی دلیل ہے۔
عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ بِثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً فَلَمَّا كَبِرَ وَضَعُفَ أَوْتَرَ بِسَبْعٍ(سنن الترمذی:457،قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد)
ترجمہ:ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وتر تیرہ رکعت پڑھتے تھے لیکن جب آپ عمر رسیدہ اور کمزور ہو گئے تو سات رکعت پڑھنے لگے۔
ان احادیث سے اندازہ لگائیں کہ کیا نبی ﷺ نے عمر بھر گیارہ رکعت ہی قیام اللیل کیا ہے؟ بالکل نہیں ، گیارہ رکعت سے زیادہ کی بھی دلیل ملتی ہے اور اس سے کم کی بھی دلیل ملتی ہے اس لئے کسی کا یہ کہنا کسی گیارہ رکعت سے زیادہ قیام اللیل کرنا بالکل بھی صحیح نہیں ہے ،ان کا یہ کہنا غلط بات ہے ۔
پھر یہ آپ ﷺ کا عملی نمونہ تھا ، آپ ﷺ نے قولی حدیث میں یہ بھی بیان فرمایا ہے :
صلاةُ الليلِ مثنى مثنى ، فإذا خشي أحدُكم الصبحَ صلى ركعةً واحدةً ، توتِرُ له ما قد صلى.(صحيح البخاري:990 و صحيح مسلم:749)
ترجمہ : رات کی نماز دو دو رکعت ہے، اور اگر تم میں کسی کو صبح ہوجانے کا اندیشہ ہو، اور وہ ایک رکعت پڑھ لے، تو یہ اس کی پڑھی ہوئی نماز کے لئے وتر ہوجائیگی۔
صبح ہونے کا اندیشہ کس کو ہوگا ؟ اس کو ہوگا جو رات میں بغیر تعیین کے غیرمحدود طورپردو دو رکعت کرکے بندگی کرتا رہے۔گویاآپ ﷺ کے اس قول کی روشنی میں اس بات کی گنجائش ہے کہ کوئی رات بھر دو دو کرکےنفل عبادت کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد اسلاف سے قیام اللیل گیارہ سے زیادہ بھی منقول ہے اور رات میں ایک سے زائد بار پڑھنا بھی منقول ہے ۔
عن قيس بن طلق، قال: زارنا طلق بن علي في يوم من رمضان، وامسى عندنا وافطر، ثم قام بنا تلك الليلة واوتر بنا، ثم انحدر إلى مسجده فصلى باصحابه حتى إذا بقي الوتر قدم رجلا، فقال: اوتر باصحابك، فإني سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول:لا وتران في ليلة. (سنن ابي داود:1439،صححہ البانی)
ترجمہ:قیس بن طلق کہتے ہیں کہ طلق بن علی رضی اللہ عنہ رمضان میں ایک دن ہمارے پاس آئے، شام تک رہے روزہ افطار کیا، پھر اس رات انہوں نے ہمارے ساتھ قیام اللیل کیا، ہمیں وتر پڑھائی پھر اپنی مسجد میں گئے اور اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی یہاں تک کہ جب صرف وتر باقی رہ گئی تو ایک شخص کو آگے بڑھایا اور کہا: اپنے ساتھیوں کو وتر پڑھاؤ، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا ہے کہ ایک رات میں دو وتر نہیں۔
رات کی بندگی میں گیارہ رکعت سے زیادہ پڑھنے کی گنجائش تھی اس لئے طلق بن علی رضی اللہ عنہ نے گیارہ سے زیادہ رکعت ادا فرمائی اور وتر دو مرتبہ پڑھنے کی گنجائش نہیں تھی تو انہوں نے دوبارہ وتر نہیں پڑھی۔
اور پھرکوئی ہمیشہ رات بھر بندگی نہیں کرتا ہے کیونکہ آنکھ اور بیوی کا بھی حق ہے۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے:
وَإِنَّ لِعَيْنِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقًّا(بخاری:1975)
ترجمہ:تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔
تاہم کبھی ایسا موقع آتا ہے جب رات میں نیند نہ آئے، کسی وجہ سے رات جگنا پڑے یا رمضان کی مبارک راتیں ہوں یا کوئی رمضان کے اعتکاف میں ہو یاکوئی شب قدر کے اجتہاد میں ہو تو ایسے وقت میں آدمی جس قدر چاہے نفلی عبادت کرے، کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ دو دو کرکے صبح تک عبادت کرنے کی دلیل ملتی ہے اور ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
شب قدر میں نبی ﷺ کی کیفیت میں ہے"احیا لیلہ" یعنی آپ رات جاگتےجو کثرت عبادت سے کنایہ ہے تو اس قسم کے موقع پر کوئی گیارہ رکعت سے زیادہ نوافل ادا کرے اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ فتاوی علمائے اہل حدیث میں ہے:
"گیارہ رکعت تراویح رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام اور تابعین اعلام سے ثابت ہے، پس جو کوئی اس سے انکار کرے یا براجانے وہ بلا ریب علم حدیث سے جاہل اور بے خبر ہے سنت مؤکدہ یہی گیارہ رکعت ہیں، باقی نفل ہیں بیس پڑھے یا چھتیس یا چالیس اختیار ہے، ممانعت شرعی کوئی نہیں"۔ فقط حررہ عبد الجبار بن عبد اللہ الغزنوی عفی اللہ عنہما۔(فتاویٰ غزنویہ صفحہ ۸۹، ۹۰) (فتاویٰ علمائے حدیث جلد 06 ص 343)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ بلاشبہ کوئی متعین طور پر گیارہ رکعت پڑھے تو یہی تعداد کافی ہے کیونکہ نبی ﷺ کا عموما یہی عمل رہا ہے لیکن کوئی بغیر تعیین کے اس سے زیادہ بھی پڑھنا چاہے یا آٹھ رکعت تراویح پڑھ کر مزید نوافل ادا کرنا چاہے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ بیس کو متعین کرنا بھی غلط ہے کیونکہ اس کی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے ۔
اس قیام اللیل کو صرف رمضان کے پس منظر میں ہی نہ دیکھیں بلکہ یہ عبادت سال بھر مشروع ہے اور سال بھر میں کبھی کوئی آدمی کسی رات گیارہ سے کم بھی حسب استطاعت و توفیق پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں ہے جیسے زیادہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
 
Top