• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

گیارہ میں سے پانچ صدور فوجی تھے

عزمی

رکن
شمولیت
جون 30، 2013
پیغامات
190
ری ایکشن اسکور
304
پوائنٹ
43
30 جولائی کو پاکستان کے آئین کے مطابق قومی اسمبلی، سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیاں ملک کے 12ویں صدر کا انتخاب کریں گی۔ اس سے قبل پاکستان کے جو صدور گزرے ہیں ان میں سے سب آئینی طریقے سے منتخب نہیں ہوئے تھے، جب کہ 11 میں سے پانچ صدور فوجی تھے۔
اس کے علاوہ وسیم سجاد دو مرتبہ ملک کے عبوری صدر منتخب ہوئے۔
پاکستان کے پہلے صدر میجر جنرل سکندر مرزا تھے جو 23 مارچ 1956 سے 27 اکتوبر 1958 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ اس سے قبل وہ پاکستان کے آخری گورنر جنرل بھی رہ چکے تھے۔ 1956 میں جب پاکستان کا پہلا آئین منظور کیا گیا تو اس میں گورنر جنرل کا عہدہ ختم کر کے صدارت کا منصب تخلیق کیا گیا، جس کا انتخاب الیکٹرل کالج کے ذریعے ہونا تھا۔
تاہم صرف دو سال بعد ہی سکندر مرزا جس آئین کے تحت صدر بنے تھے، انھوں نے اسی آئین کو معطل کر کے مارشل لا نافذ کر دیا اور جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا مارشل لا تھا۔
27 اکتوبر 1958 کو سکندر مرزا نے ایوب خان سے اختلافات کی بنا پر استعفیٰ پیش کر دیا اور جنرل ایوب خان نے صدر کا منصب سنبھال لیا۔
ایوب خان کو الیکٹرل کالج نے منتخب نہیں کیا تھا بلکہ انھوں نے یہ ساغر خود بڑھ کے اٹھایا تھا۔ تاہم اپنے عہدے کو قانونی چھتری فراہم کرنے کے لیے انھوں نے 1960 میں ریفرینڈم منعقد کروایا، جس میں انھیں بھاری حمایت فراہم ہو گئی۔
ایوب خان گیارہ سال کے لگ بھگ صدارت کے عہدے پر براجمان رہے۔ اس دوران ایک اور آئین منظور کیا گیا جس میں ان کی صدارت کی توثیق کی گئی۔ جب کہ اسی دوران انھوں نے محترمہ فاطمہ جناح سے انتخابات میں بھی کامیابی حاصل کی۔
ان انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے بعد ایوب کی حکومت کے خلاف عوامی ناپسندیدگی جس رفتار سے بڑھتی گئی، اسی رفتار سے ایک شعلہ بیان سیاست دان یعنی ذوالفقار علی بھٹو کا ستارہ بلند ہوتا گیا۔ بالآخر 25 مارچ 1969 کو ایوب خان نے اپنا عہدہ جنرل آغا محمد یحییٰ خان کے سپرد کر کے بن باس لے لیا۔
یحییٰ خان کو پاکستان سیاسی تاریخ کا سب سے رنگین و سنگین کردار کہا جائے تو بے جا نہیں ہو گا۔ انھوں نے پاکستان میں دوسری بار مارشل لا نافذ کیا۔ انھیں بڑے پیمانے پر مشرقی پاکستان کی علیٰحدگی کا ذمے دار سمجھا جاتا ہے۔ ان کے شراب و شباب کے رسیا ہونے کے قصے بھی مشہور ہیں، تاہم ان کے نامۂ اعمال میں یہ نیکی ضرور لکھی ہوئی ہے کہ انھوں نے 1971 میں ملک کی تاریخ کے سب سے صاف و شفاف انتخابات منعقد کروائے۔
تاہم بھارت سے بدترین شکست اور ملک کے دولخت ہونے پر رائے عامہ ان کے اس قدر غیر موافق ہو گئی کہ ان کا مزید اپنے عہدے پر برقرار رہنا ناممکن ہو گیا۔ چناں چہ وہ 20 دسمبر 1971 کو عنانِ اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کو سونپ کر چلتے بنے۔
ذوالفقار علی بھٹو کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پاکستان کے وزیرِ خارجہ، وزیرِ اعظم اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے ساتھ ساتھ ڈیڑھ برس تک ملک کے صدر بھی رہے ہیں۔ 1971 میں ان کی جماعت نے مغربی پاکستان میں واضح برتری حاصل کی تھی، جس کے باعث وہ 1973 میں وزیرِاعظم منتخب ہو گئے۔
بھٹو کے دورِ وزارتِ عظمیٰ میں ملک کے صدر چودھری فضل الٰہی چوہدری تھے۔ 1973 کے آئین کے تحت ملک کو پارلیمانی جمہوریت بنا دیا گیا تھا جس میں اختیارات کا طرہ منتخب پارلیمان اور وزیرِاعظم کے سروں پر سجا دیا گیا، جس کے بعد صدر کا عہدہ فائلوں پر دستخط کرنے اور تقریبات میں فیتہ کاٹنے تک سمٹ کر رہ گیا۔ بعض ستم ظریفوں نے صدارت اسی بے توقیری کے پیشِ نظر ایوانِ صدارت کی دیواروں پر لکھ دیا تھا، 'چودھری فضل الٰہی کو رہا کرو۔'
بھٹو نے وہی غلطی کی جو ان سے قبل سکندر مرزا اور جنرل ایوب خان کر چکے تھے، یعنی فوج کے سربراہ کا ناعاقبت اندیشانہ چناؤ۔ اس کا خمیازہ انھیں یوں بھگتنا پڑا کہ جنرل ضیاالحق 1977 میں انھیں معزول کر کے ملک کے تیسرے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ چودھری فضل الٰہی نے کچھ عرصہ ساتھ نبھایا لیکن تابکے؟ آخر 14 ستمبر 1978 کو وہ سبک دوش ہو گئے، جس کے دو دن بعد جنرل ضیاالحق نے صدرِ پاکستان کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا۔
اس مدتِ صدارت کو توسیع دینے کے لیے جنرل ایوب کی مانند جنرل ضیا کو بھی ریفرینڈم کی بیساکھیوں کی ضرورت پڑی۔ چناں چہ 1984 میں انھوں نے وہ بے حد متنازع ریفرینڈم منعقد کروایا جس میں وہ 95 فیصد ووٹ لے کر سرخ رو ہوئے۔
اگلے برس ضیاالحق نے غیرجماعتی انتخابات منعقد کروائے۔ نومنتخب اسمبلی نے نہ صرف ضیاالحق کے تمام سابقہ اقدامات کی توثیق کر دی بلکہ آٹھویں ترمیم بھی منظور کر دی جس کی بدنامِ زمانہ 58- 2B شق کے تحت صدر کو اسمبلی کو تحلیل کرنے کا اختیار حاصل ہو گیا۔
اب صدر محض چودھری فضل الٰہی نہ رہا بلکہ اس کے سامنے وزیرِاعظم اور پارلیمان ربر سٹیمپ بن کر رہ گئے۔
17 اگست 1988 کو گیارہ برس کے بعد صدر ضیاالحق کے اقتدار کا سورج اس وقت غروب ہوا جب ان کا طیارہ بہاولپور کے قریب فضا میں پھٹ کر تباہ ہو گیا۔
1973 کے آئین کے تحت صدر کی غیرموجودگی میں سینیٹ کا چیئرمین صدر بن جاتا ہے۔ اس وقت سینیٹ کے چیئرمین غلام اسحٰق خان تھے، چناں چہ وہ ملک کے پانچویں صدر بن گئے۔
بی بی سی رپوٹ
 
Top