• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ھل، أ اور ما استفہامیہ کے استعمال کے مواقع

شمولیت
فروری 21، 2019
پیغامات
53
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
56
ھل، أ اور ما استفہامیہ کے استعمال کے مواقع

محترم قارئین!
یہ تینوں حروف استفہامیہ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں لیکن ہر ایک کے استعمال کے لیے الگ الگ مواقع ہیں، ایسا نہیں کہ کسی کو بھی کسی کی جگہ استعمال کردیا جائے تو درست ہوجائے گا، بلکہ تینوں کے استعمال میں کچھ فرق ہے جس کا پاس ولحاظ رکھنا ضروری ہے۔
اس تحریر میں بالکل سہل انداز میں انہیں فروق کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے، ملاحظہ فرمائیں!
1/ "أ" تصدیق اور تصور کا فائدہ دیتا ہے جبکہ "ھل" صرف تصدیق کا فائدہ دیتا ہے
" أ " ۔۔ تصدیق کی مثال اللہ تعالیٰ کا فرمان: أرأیت الذی یکذب بالدین.
" أ " ۔۔ تصدیق و تصور کی مثال: أ سافر أبوك أم أخوك
تصور آسان جملہ میں یوں سمجھیں کہ اس میں دو چیزوں میں سے کسی ایک کی تعین مقصود ہوتی ہے اور ایسی صورت میں جملہ کے درمیان "ام معادلہ" کو لانا ضروری ہوتا ہے، جیسے: "أأنتم تزعونه أم نحن الزارعون"
جبکہ ام معادلہ ھل کے ساتھ جائز نہیں
لہذا اگر کہیں دیکھیں کہ ھل کے سیاق میں ام کا استعمال ہوا ہے تو وہاں اس "أم" سے مراد أم منقطعة ہوگا أم معادلہ نہیں جیسے: قل هل يستوي الأعمى والبصير أم هل تستوي الظلمات والنور ...(القرآن)
یہاں ھل کے سیاق میں أم استعمال ہوا ہے تو یہ أم منقطعہ ہے معادلہ نہیں اور یہاں یہ "بل" کے معنی میں ہے۔

2/ " أ "۔ جملہ کے شروع میں ہی آتا ہے جیسے مذکورہ مثال میں آپ نے ملاحظہ کیا، مزید دیکھیں۔ أرأیت الذی یکذب بالدین..، أأنتم تخلقونه أم نحن الخالقون...
جبکہ "ھل" جملہ کے شروع اور درمیان دونوں جگہ استعمال ہوتا ہے، شروع کی مثال: ھل اتی علی الإنسان حین من الدھر....
درمیان میں مستعمل کی مثال: قل ھل یستوي الذین یعلمون والذین لا یعلمون

3/ " أ " ۔ حروف عطف "واؤ، فا، ثم " سے پہلے آتا ہے، جبکہ "ھل" حروف عطف کے بعد آتا ہے
پہلے کی مثال: أوَ کلّما عاھدوا عھدا۔۔۔۔، أفريتم ما تحرثون....، أثمّ إذا ما وقع آمنتم به...
ان تمام مثالوں میں "أ" حروف عطف سے پہلے آیا ہے۔۔۔
دوسرے(ھل) کی مثال: وهل اتٰك حديث موسى...، فھل لنا من شفعاء فیشفعوا لنا۔۔۔، فهل على الرسل إلا البلاغ المبين..
ان مثالوں میں "ھل" حروف عطف کے بعد آیا ہے...

4/ " أ " ادوات نفی پر داخل ہوتا ہے جبکہ "ھل" ادوات نفی پر داخل نہیں ہوتا، مثال: "ألم نشرح لک صدرك" یہاں "أ" حرف نفی "لم" پر داخل ہوا ہے، مزید مثال دیکھیں: ألستُ بربكم...، أفلا يعلم إذا بعثر ما في القبور...، أغير الله تدعون إن كنتم صادقين... وغیرہ
لیکن "ھل" بھی ادوات نفی پر داخل ہوا ہو ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔۔

5/ "أ " کو تخفیف کے طور حذف کرسکتے ہیں جیسے کوئی " أ أنت قلت ھذا" کے بجائے تخفیف کرتے ہوئے کہے۔۔ أنت قلت ھذا؟
یہاں مقصد سوال ہی ہے اور یہ اس کے بولنے کے انداز سے پتہ چل جائے گا
جبکہ "ھل" کو اس طرح تخفیف کے طور پر جملہ سے حذف نہیں کیا جاسکتا۔
اچھا! سوال یہ ہے کہ بولنے کے انداز سے تو پتہ چل جائے گا لیکن اگر کہیں کتابی جملہ وغیرہ میں حذف ہو تو کیسے پتہ چلے گا؟
اس کا جواب نحوی حضرات کئی طرح سے دئے ہیں!
۔۔ ١/ جملہ کے درمیان مذکور أم معادلہ سے
جیسے: عيد بأية حال عدت يا عيد
بما مضى أم لأمر فيك تحديد
یہاں شعر میں أم معادلہ مذکور ہے جبکہ " أ " یہاں محذوف ہے اصل عبارت اس طرح ہے: أبما مضى أم لأمر.......
واضح رہیں أم معادلہ کے ساتھ "أ" ضروری ہے جیسا کہ اوپر ذکر ہوا
لہذا جہاں مذکور نہ ہو وہاں سمجھ لینا چاہیے کہ " أ" محذوف ہے۔

٢/ قال اور اس کے مشتقات کے مذکور ہونے سے۔
مثلا: قال فرعون آمنتم به قبل أن آذن لكم...
یہاں " أ" محذوف ہے اس کی اصل کچھ یوں ہے: قال فرعون أ آمنتم به.......
فَلَمَّا جَنَّ عَلَیۡهِ ٱلَّیۡلُ رَءَا كَوۡكَبࣰاۖ قَالَ هَـٰذَا رَبِّیۖ....
أى.. أ هذا ربي...
(یہاں ایک بات یار رکھیں! ہر قال و مشتقاتہ کے بعد "أ" محذوف نہ سمجھا جائے بلکہ اس کا پتہ سیاق و سباق سے ہوتا ہے)

٣/ جملہ میں مذکور سوال واستفہام سے پتہ چلے گا، مثلا: يسئلونك عن الشهر الحرام قتال فيه...أى أقتال فيه...؟
ياأيها النبي لم تحرم ما أحل الله لك تبتغي مرضات أزواجك....أى أ تبتغي مرضات أزواجك..!
٤/ جملہ میں مذکور حروف جواب کے ذریعہ سے بھی"أ " محذوف ہونے کا پتا لگایا جاسکتا ہے جیسے: يحسب أن ماله أخلده كلا لينبذن في الحطمة.... یہاں "کلا " حرف جواب ہے لہذا اصل میں "أيحسب أن ماله......" ہے۔

6/ "أ" کا استعمال حروف شرط "إن، إذا، كلما، لما" کے ساتھ بھی ہوتا ہے، مثلاً: أفإن مات أو قتل انقلبتم على اعقابكم...
أ إذا متنا وكنا ترابا.....
أإذا كنا ترابا أإنا لفي خلق جديد...
أفكلما جاءكم رسول بما لا تهوى أنفسكم استكبرتم...
أولما اصابتكم مصيبة قد اصبتم مثليها....
جبکہ "هل" کا معاملہ ایسا نہیں ہے...!

7/ " أ " حروف مشبہ بالفعل "إنّ" پر داخل ہوتا ہے جیسے اللہ کا فرمان: أإن لنا لأجرا إن كنا نحن الغالبين.، أإنك لأنت يوسف...
جبکہ "ھل" حروف مشبہ بالفعل إنّ وغیرہ پر داخل نہیں ہوتا۔

اسی طرح سے أ صباحاً تسافر کہا جاسکتا ہے لیکن ھل صباحا تسافر کہنا درست نہیں، بلکہ "ھل تسافر صباحا۔۔" کہنا ہوگا۔

رہی بات "ما استفہامیہ" کی تو یہ غیر عاقل کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے اللہ کا فرمان: وما تلك بیمینك یاموسی
اسی طرح سے "ما" کے ذریعہ سے کسی کی صفت سے متعلق سوال کیا جاتا ہے یعنی صفت معلوم کی جاتی ہے جیسے کوئی کہے "ما محمد؟" (محمد کیا ہیں) تو یہاں ما کے ذریعہ سوال کرکے سائل یہ جاننا چاہتا ہے کہ محمد کس صفت سے متصف ہیں شاعر ہیں، کاتب ہیں یا کیا ہیں.
لہذا کوئی یہ نہ کہیں کہ یہاں تو "ما" عاقل کے لئے استعمال ہوا ہے کیوں کہ محمد عاقل ہیں تو ایسی بات نہیں ہے بلکہ ما کے ذریعہ محمد کی صفت معلوم کی جارہی ہے اور صفت غیر عاقل ہے
اسی طرح سے"ما" کے ذریعہ کسی چیز کی حقیقت سے متعلق سوال کیا جاتا ہے جیساکہ اللہ کا فرمان: قال فرعون وما رب العالمین۔۔

کبھی کبھی ما کے ساتھ "ذا" کو ملحق کردیا جاتا ہے اور یہ بھی غیر عاقل کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن یہ تعبیر کے لحاظ سے زیادہ قوی ہوتا ہے
جیسے اللہ کا فرمان: یسئلونك ماذا أحل لھم قل أحل لکم الطیبات۔

(ما استفہامیہ سے متعلق مزید معلومات مثلا "ما" سے الف کو کب حذف کیا جاسکتا ہے تو اس پر تفصیلی بحث ہمارے پیج Islamic Fort میں موجود ہے)
واللہ اعلم بالصواب

ہدایت اللہ فارس
جامعہ نجران سعودیہ عربیہ
 
Top