محمد اجمل خان
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 25، 2014
- پیغامات
- 350
- ری ایکشن اسکور
- 30
- پوائنٹ
- 85
ہارٹ سرجری
ہر شخص دل میں یہ خواہش رکھتا ہے کہ ملک سے کرپشن ختم ہوجائے لیکن حکمران اور اشرافیہ کی کرپشن کی طرف اشارہ کرکے خودکرپشن کرنے کو جائز سمجھتا ہے۔ظلم اور نا انصافی کے خلاف آوازیں اٹھاتا ہے لیکن خود ظلم و زیادتی کرتا ہے کہ ملک میں انصاف تو ہے ہی نہیں۔ غنڈے بدماشوں کو بھتہ دینے کا بہانا بنا کر دوکاندار ملاوٹ اور ناپ تول میں کمی کرتا ہے۔کم تنخواہ کو جواز بنا کر عام ملازم رشوت لیتا ہے۔ ٹریفک کا قانون توڑا جاتا ہے کہ کوئی قانون نہیں مانتا۔ اخلاقیات کا درس دینے والا دوسروں کی بداخلاقی کو جواز بنا کر خود بداخلاقی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ گویا کہ دوسروں کو نصیحت خود میاں فصیحت والا معاملہ ہے۔ ہر کوئی دوسروں کی برائی دیکھتا ہے اور اس کی اصلاح کرنا چاہتا ہے لیکن خود اپنی اصلاح نہیں کرتا۔ گویا کہ اسے اللہ کے سامنے اپنی نہیں بلکہ دوسروں کی اعمال کا جواب دینا ہے۔ جبکہ اللہ تعالٰی ہمیں اپنی فکر کرنے کی تنبیح کرتے ہیں:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ ۖ لَا يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ ۚ إِلَى اللَّـهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ (105) سورة المائدة
’’اے ایمان والو! تم اپنی جانوں کی فکر کرو، تمہیں کوئی گمراہ نقصان نہیں پہنچا سکتا اگر تم ہدایت پر رہے، تم سب کو اللہ ہی کی طرف پلٹنا ہے، پھر وہ تمھیں بتائے گا جو کچھ تم کرتے رہے ہو‘‘
لیکن اب تو مسلمان یہ بھول گیا ہے کہ اسے اللہ کے پاس واپس بھی جانا ہے ۔ اس لئے وہ نہ ہی اپنی فکر کرتا ہے اور نہ اپنی اصلاح کرنا چاہتا ہے بلکہ دوسروں کی فکر اور دوسروں کی گمراہی سے خود کو گمراہ کرتا ہے۔
ایسے میں معاشرہ کیسے بدلے؟
ملک میں تبدیلی کیسے آئے؟
نہ ہی کوئی بدلے گا اور نہ ہی یہ کرپٹ معاشرہ سدھرے گا۔
معاشرہ نہ ہی ایک دن میں بگڑا ہے اور نہ ہی ایک دن میں سدھر سکتا ہے۔
لیکن اس کرپٹ معاشرے کو سدھارنے کا ایک نشخہ یا ایک فارمولا ہمارے پیارے نبی ﷺ نے ہمیں دیا ہے۔
اور وہ ہے’’ ہارٹ سرجری‘‘۔
آج مسلمانوں کی اکثریت کو ہارٹ سرجری کی ضرورت ہے۔
کیونکہ آج اکثر مسلمانوں کے دل بیمار ہیں اور ان کے دل کے سارے والوزvalves بلاک ہو گئے ہیں۔ اس لئے خیر و بھلائی کی باتوں کا ان کے دلوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ یہ لوگ اپنی کا ن سے حق سنتے ہیں لیکن ان کا دل حق قبول نہیں کرتا ‘ اپنی آنکھوں سے کرپٹ لوگوں کا عبرتناک انجام دیکھتے ہیں لیکن ان کے دلوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا اور یہ لوگ کرپشن‘ ظلم و زیادتی کرنے سے باز نہیں آتے۔ نہ یہ بہرے ہیں اور نہ ہی اندھے بلکہ ان کے دل اندھے ہو چکے ہیں:
أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا ۖ فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَـٰكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ (٤٦) سورة الحج
’’ کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ اِن کے دل (حق کو) سمجھنے والے اور اِن کے کان (آواز حق) سُننے والے ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں‘‘ ۔
لہذا دل کی اندھاپن دور کرنے کیلئے ہارٹ سرجری کی ضرورت ہے۔
ہمیں ہارٹ سرجن بننا ہوگا ‘ روحانی ہارٹ سرجن اور سب سے پہلے اپنا ہارٹ سرجری کرنا ہوگا تاکہ ہماری نگاہ ایسی ہو جائے کہ
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
اور ایسی نگاہ اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی سچی اطاعت سے ہی ممکن ہے۔
نبی کریم ﷺ جب نبوت سے سرفراز ہوئے تو سب سے پہلے سے آپﷺ نے لوگوں کے دلوں کی جس طرح ہارٹ سرجری شروع کی تھی ہمیں بھی اس ہارٹ سرجری کے طریقے سیکھنے ہوں گے اور اپنا اور لوگوں کا ہارٹ سرجری کرنا ہوگا۔ جب یہ ہارٹ ٹھیک ہو جائے گا تو پورا معاشرہ ٹھیک ہوجائے گا۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
’’انسان کے جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ ٹھیک کام کرے تو سمجھو کہ پورا جسم ٹھیک کام کرے گا اور جب وہ خراب ہو جائے تو پورے جسم کا نظام خراب ہو جائے گا اور وہ دل ہے‘‘ ۔ ( بخاری و مسلم)
اور
آپ ﷺ نے اپنے قلبِ اطہر کی طرف تین مرتبہ اشارہ کرتے ہوئے فرمایا! ’’ تقویٰ یہاں ہوتا ہے' ! تقویٰ یہاں ہوتا ہے' ! تقویٰ یہاں ہوتا ہے‘‘ ۔ (صحیح مسلم)
اور تقویٰ اللہ تعالیٰ کا ڈر اور خوف ہے ۔تقویٰ اس دل میں پیدا ہوتا ہے جس دل میں آخرت کے حساب اور جزا و سزا پر یقین ہو۔ آخرت سے مراد موت کے بعد کی زندگی ہے جس میں دنیا میں انسان اپنی نیک و بد اعمال کے بنیاد پر اللہ کے روبرو حساب کتاب کے بعد یا تو جنت میں دائمی ے آرام و چین کی زندگی بسر کرے گا یا جہنم کی عذاب میں مبتلا ہوگا۔ اسے عقیدہ آخرت کہتے ہیں جس کی درستگی ایمان کی تکمیل کرتی ہے۔ اللہ کی عدالت میں جواب دہی کا احساس بندے کو نیکی و تقویٰ کی راہ پر گامزن کرتا ہے اور اخلاق حسنہ اور اعمال صالحہ کی بلندیوں پر پہنچا تاہے ۔ لیکن اگر اس عقیدہ آخرت میں کمزوری آ جائے تو انسان میں عملی اور اخلاقی بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ پھر وہ دنیا کو اپنا مقصود سمجھ کر ہر طرح کی کرپشن اور ظلم و زیادتی کی راہ پر چلنا شروع کر دیتا ہے۔
آج مسلمانوں کی اکثریت کے دلوں میں عقیدہ آخرت کا والو ( valve )بلاک ہو چکا ہے اور ایمان کمزور ہو چکا ہے۔ اس لئے تقویٰ کا گزر دلوں سے ہوتا ہی نہیں۔ لوگ دنیا میں اس طرح مگن ہیں جیسا کہ انہیں مرنا ہی نہیں یا مرنے کے بعد دوبارہ جی کر اٹھنا اور اللہ کے روبرو پیش ہونا ہی نہیں۔ اس لئے کوئی بھی جرم اور کرپشن کرنے سے نہیں چوکتے۔
تو اس کا بس ایک علاج ہےاور وہ ہے ہارٹ سرجری۔
لہذا دلوں سے عقیدہ آخرت کا بلاکیج ( blockage) کلیر کرنے کیلئے ہارٹ سرجری کرنے کی ضرورت ہے۔
سب سے پہلےہمیں اپنے دل کا ہارٹ سرجری کرنا ہوگا ۔ اپنے دل میں عقیدہ آخرت کو راسخ کرنا ہوگا ۔ پھر ہمارے دلوں میں تقویٰ کا گزر ہوگا اور اللہ کا خوف بیٹھے گا۔ ہمارا اپنا دل ٹھیک ہوگا تو آپ ﷺ کے قول کے مطابق ہمارا پورا جسم ٹھیک کام کرے گا اور تمام عضاء کو اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے میں لگا دے گا۔
جب ہمارا اپنا دل ٹھیک ہوجائے گا تب ہم دوسروں کا دل بھی ہارٹ سرجری کے ذریعے ٹھیک کر پائیں گے اور ان کے دلوں میں بھی اللہ کا خوف اور آخرت میں اللہ کے سامنے حساب اور جزا و سزا کا یقین (عقیدہ آخرت) کو راسخ کر پائیں گے۔ پھر لوگوں کے دلوں میں برائی سے نفرت اور نیکی کی رغبت پیدا ہوگی اور معاشرے میں بگاڑ کی جگہ سدھار آئے گا ۔ کرپشن‘ رشوت خوری ‘ چوربازاری‘ ذخیرہ اندوزی‘ ظلم و زیادتی ‘ حق تلفی وغیرہ ختم ہوگا اور احکام الٰہی پر عمل ہوگا۔
مسلمان مسلمان ہوگا۔
لہذا کتاب و سنت سے ہارٹ سرجری کرنے کے طریقے سیکھئے۔
اور ہارٹ سرجری کیجئے۔
تحریر: محمد اجمل خان
۔
ہر شخص دل میں یہ خواہش رکھتا ہے کہ ملک سے کرپشن ختم ہوجائے لیکن حکمران اور اشرافیہ کی کرپشن کی طرف اشارہ کرکے خودکرپشن کرنے کو جائز سمجھتا ہے۔ظلم اور نا انصافی کے خلاف آوازیں اٹھاتا ہے لیکن خود ظلم و زیادتی کرتا ہے کہ ملک میں انصاف تو ہے ہی نہیں۔ غنڈے بدماشوں کو بھتہ دینے کا بہانا بنا کر دوکاندار ملاوٹ اور ناپ تول میں کمی کرتا ہے۔کم تنخواہ کو جواز بنا کر عام ملازم رشوت لیتا ہے۔ ٹریفک کا قانون توڑا جاتا ہے کہ کوئی قانون نہیں مانتا۔ اخلاقیات کا درس دینے والا دوسروں کی بداخلاقی کو جواز بنا کر خود بداخلاقی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ گویا کہ دوسروں کو نصیحت خود میاں فصیحت والا معاملہ ہے۔ ہر کوئی دوسروں کی برائی دیکھتا ہے اور اس کی اصلاح کرنا چاہتا ہے لیکن خود اپنی اصلاح نہیں کرتا۔ گویا کہ اسے اللہ کے سامنے اپنی نہیں بلکہ دوسروں کی اعمال کا جواب دینا ہے۔ جبکہ اللہ تعالٰی ہمیں اپنی فکر کرنے کی تنبیح کرتے ہیں:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ ۖ لَا يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ ۚ إِلَى اللَّـهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ (105) سورة المائدة
’’اے ایمان والو! تم اپنی جانوں کی فکر کرو، تمہیں کوئی گمراہ نقصان نہیں پہنچا سکتا اگر تم ہدایت پر رہے، تم سب کو اللہ ہی کی طرف پلٹنا ہے، پھر وہ تمھیں بتائے گا جو کچھ تم کرتے رہے ہو‘‘
لیکن اب تو مسلمان یہ بھول گیا ہے کہ اسے اللہ کے پاس واپس بھی جانا ہے ۔ اس لئے وہ نہ ہی اپنی فکر کرتا ہے اور نہ اپنی اصلاح کرنا چاہتا ہے بلکہ دوسروں کی فکر اور دوسروں کی گمراہی سے خود کو گمراہ کرتا ہے۔
ایسے میں معاشرہ کیسے بدلے؟
ملک میں تبدیلی کیسے آئے؟
نہ ہی کوئی بدلے گا اور نہ ہی یہ کرپٹ معاشرہ سدھرے گا۔
معاشرہ نہ ہی ایک دن میں بگڑا ہے اور نہ ہی ایک دن میں سدھر سکتا ہے۔
لیکن اس کرپٹ معاشرے کو سدھارنے کا ایک نشخہ یا ایک فارمولا ہمارے پیارے نبی ﷺ نے ہمیں دیا ہے۔
اور وہ ہے’’ ہارٹ سرجری‘‘۔
آج مسلمانوں کی اکثریت کو ہارٹ سرجری کی ضرورت ہے۔
کیونکہ آج اکثر مسلمانوں کے دل بیمار ہیں اور ان کے دل کے سارے والوزvalves بلاک ہو گئے ہیں۔ اس لئے خیر و بھلائی کی باتوں کا ان کے دلوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ یہ لوگ اپنی کا ن سے حق سنتے ہیں لیکن ان کا دل حق قبول نہیں کرتا ‘ اپنی آنکھوں سے کرپٹ لوگوں کا عبرتناک انجام دیکھتے ہیں لیکن ان کے دلوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا اور یہ لوگ کرپشن‘ ظلم و زیادتی کرنے سے باز نہیں آتے۔ نہ یہ بہرے ہیں اور نہ ہی اندھے بلکہ ان کے دل اندھے ہو چکے ہیں:
أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا ۖ فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَـٰكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ (٤٦) سورة الحج
’’ کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ اِن کے دل (حق کو) سمجھنے والے اور اِن کے کان (آواز حق) سُننے والے ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں‘‘ ۔
لہذا دل کی اندھاپن دور کرنے کیلئے ہارٹ سرجری کی ضرورت ہے۔
ہمیں ہارٹ سرجن بننا ہوگا ‘ روحانی ہارٹ سرجن اور سب سے پہلے اپنا ہارٹ سرجری کرنا ہوگا تاکہ ہماری نگاہ ایسی ہو جائے کہ
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
اور ایسی نگاہ اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی سچی اطاعت سے ہی ممکن ہے۔
نبی کریم ﷺ جب نبوت سے سرفراز ہوئے تو سب سے پہلے سے آپﷺ نے لوگوں کے دلوں کی جس طرح ہارٹ سرجری شروع کی تھی ہمیں بھی اس ہارٹ سرجری کے طریقے سیکھنے ہوں گے اور اپنا اور لوگوں کا ہارٹ سرجری کرنا ہوگا۔ جب یہ ہارٹ ٹھیک ہو جائے گا تو پورا معاشرہ ٹھیک ہوجائے گا۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
’’انسان کے جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ ٹھیک کام کرے تو سمجھو کہ پورا جسم ٹھیک کام کرے گا اور جب وہ خراب ہو جائے تو پورے جسم کا نظام خراب ہو جائے گا اور وہ دل ہے‘‘ ۔ ( بخاری و مسلم)
اور
آپ ﷺ نے اپنے قلبِ اطہر کی طرف تین مرتبہ اشارہ کرتے ہوئے فرمایا! ’’ تقویٰ یہاں ہوتا ہے' ! تقویٰ یہاں ہوتا ہے' ! تقویٰ یہاں ہوتا ہے‘‘ ۔ (صحیح مسلم)
اور تقویٰ اللہ تعالیٰ کا ڈر اور خوف ہے ۔تقویٰ اس دل میں پیدا ہوتا ہے جس دل میں آخرت کے حساب اور جزا و سزا پر یقین ہو۔ آخرت سے مراد موت کے بعد کی زندگی ہے جس میں دنیا میں انسان اپنی نیک و بد اعمال کے بنیاد پر اللہ کے روبرو حساب کتاب کے بعد یا تو جنت میں دائمی ے آرام و چین کی زندگی بسر کرے گا یا جہنم کی عذاب میں مبتلا ہوگا۔ اسے عقیدہ آخرت کہتے ہیں جس کی درستگی ایمان کی تکمیل کرتی ہے۔ اللہ کی عدالت میں جواب دہی کا احساس بندے کو نیکی و تقویٰ کی راہ پر گامزن کرتا ہے اور اخلاق حسنہ اور اعمال صالحہ کی بلندیوں پر پہنچا تاہے ۔ لیکن اگر اس عقیدہ آخرت میں کمزوری آ جائے تو انسان میں عملی اور اخلاقی بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ پھر وہ دنیا کو اپنا مقصود سمجھ کر ہر طرح کی کرپشن اور ظلم و زیادتی کی راہ پر چلنا شروع کر دیتا ہے۔
آج مسلمانوں کی اکثریت کے دلوں میں عقیدہ آخرت کا والو ( valve )بلاک ہو چکا ہے اور ایمان کمزور ہو چکا ہے۔ اس لئے تقویٰ کا گزر دلوں سے ہوتا ہی نہیں۔ لوگ دنیا میں اس طرح مگن ہیں جیسا کہ انہیں مرنا ہی نہیں یا مرنے کے بعد دوبارہ جی کر اٹھنا اور اللہ کے روبرو پیش ہونا ہی نہیں۔ اس لئے کوئی بھی جرم اور کرپشن کرنے سے نہیں چوکتے۔
تو اس کا بس ایک علاج ہےاور وہ ہے ہارٹ سرجری۔
لہذا دلوں سے عقیدہ آخرت کا بلاکیج ( blockage) کلیر کرنے کیلئے ہارٹ سرجری کرنے کی ضرورت ہے۔
سب سے پہلےہمیں اپنے دل کا ہارٹ سرجری کرنا ہوگا ۔ اپنے دل میں عقیدہ آخرت کو راسخ کرنا ہوگا ۔ پھر ہمارے دلوں میں تقویٰ کا گزر ہوگا اور اللہ کا خوف بیٹھے گا۔ ہمارا اپنا دل ٹھیک ہوگا تو آپ ﷺ کے قول کے مطابق ہمارا پورا جسم ٹھیک کام کرے گا اور تمام عضاء کو اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے میں لگا دے گا۔
جب ہمارا اپنا دل ٹھیک ہوجائے گا تب ہم دوسروں کا دل بھی ہارٹ سرجری کے ذریعے ٹھیک کر پائیں گے اور ان کے دلوں میں بھی اللہ کا خوف اور آخرت میں اللہ کے سامنے حساب اور جزا و سزا کا یقین (عقیدہ آخرت) کو راسخ کر پائیں گے۔ پھر لوگوں کے دلوں میں برائی سے نفرت اور نیکی کی رغبت پیدا ہوگی اور معاشرے میں بگاڑ کی جگہ سدھار آئے گا ۔ کرپشن‘ رشوت خوری ‘ چوربازاری‘ ذخیرہ اندوزی‘ ظلم و زیادتی ‘ حق تلفی وغیرہ ختم ہوگا اور احکام الٰہی پر عمل ہوگا۔
مسلمان مسلمان ہوگا۔
لہذا کتاب و سنت سے ہارٹ سرجری کرنے کے طریقے سیکھئے۔
اور ہارٹ سرجری کیجئے۔
تحریر: محمد اجمل خان
۔