بخاری سید
رکن
- شمولیت
- مارچ 03، 2013
- پیغامات
- 255
- ری ایکشن اسکور
- 470
- پوائنٹ
- 77
65 سے زائد ممالک اربوں ڈالرز مالیت کے اسلحے کی عالمی سطح پر تجارت کی ریگولیشن کے حوالے سے تاریخی معاہدے پر دستخط کر چکے ہیں۔ اب امریکا نے بھی بہت جلد اس پر دستخط کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
اس اعلان سے غیر قانونی ہتھیاروں کی تجارت کے خلاف شروع کی گئی بین الاقوامی کوششوں کو تقویت حاصل ہوئی ہے۔ یہ غیر قانونی تجارت دنیا میں تنازعات اور دہشت گردی میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔
امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ جان کیری نے اس حوالے سے اپنے اعلان میں کہا ہے امریکا کی طرف سے اس معاہدے پر دستخط کرنا نہایت اہم ہے لیکں اس معاہدے کی اصل طاقت اسلحے کے بڑے برآمد اور درآمد کنندگان کی حمایت پر منحصر ہے۔ یاد رہے کہ امریکا اسلحہ فروخت کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے یہ معاہدہ رواں برس دو اپریل کو منظور کر لیا گیا تھا تاہم روس اور چین جیسے برآمد کنندگان اور اہم درآمد کنندگان بشمول بھارت،سعودی عرب، انڈونیشیا اور مصر کی طرف سے ابھی تک اس معاہدے پر دستخط کرنے کا کوئی اشارہ نہیں دیا گیا۔ اس معاہدے پر عملدرآمد کے لیے دستخط پہلا مرحلہ ہیں۔ جس کے بعد اس کی توثیق کا مرحلہ آئے گا جس کے لیے کم از کم 50 ممالک کی توثیق ضروری ہے۔
اس معاہدے کی توثیق ایسے ممالک کی طرف سے اہم ہے جو ملکی قواعد وضوابط قائم کرنے، روایتی ہتھیاروں کی منتقلی اور اسلحے کے بروکرز کو کنٹرول کرنے میں مددگار ثابت ہو سکیں۔ لیکن یہ معاہدہ کسی بھی ملک کے اندر ہتھیاروں کے استعمال کو روک نہیں سکے گا۔ تاہم یہ معاہدہ روایتی ہتھیاروں کی منتقلی کو روکنا، انسانیت کے خلاف جرائم کے فروغ کو کم کرنا، اسکولوں اورہسپتالوں جیسی عوامی جگہوں پر حملوں کو روکنا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کے مطابق اس معاہدے سے یہ پیغام ملتا ہے کہ دنیا نے آخرکار بین الاقوامی سطح پر 'ہر ایک کے لیے دستیاب' ہتھیاروں کی منتقلی کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔یہ معاہدہ غیر قانونی مارکیٹ میں ہتھیاروں کی لین دین کو مشکل بنا دے گا۔
بان کی مون نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے تمام ممالک پر زور دیا کہ خاص طور پر ہتھیاروں کی ٹریڈنگ کے بڑے ممالک اس معاہدے کی توثیق کریں اور اس پر دستخط کریں تاکہ دنیا کواس بات کا پتہ چل سکے کہ اسلحے کے تاجروں،صنعت کاروں اور حکومتوں پر آج وہ نظر ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔
پہلے سیشن میں 62 ممالک نے اس معاہدے پر دستخط کیے، دوسرے سیشن میں پانچ مزید ممالک نے بھی دستخط کر دیے اور اس طرح مجموعی تعداد67 تک پہنچ گئی ہے جواقوام متحدہ کے کُل 193 رکن ممالک کا محض ایک تہائی ہے۔
اس معاہدے کے سات اہم معاون ممالک ارجنٹائن، آسٹریلیا، کوسٹا ریکا، فن لینڈ، جاپان، کینیا اور برطانیہ نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ انہیں اس بات پر کافی خوشی ہوئی کہ بہت سے ممالک کی طرف سے پہلے ہی روز اس معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ اس بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ ضروری ہے کہ اس معاہدے کو جلد ازجلد عمل میں لایا جائے اور مؤثر طریقے سے اس عمل شروع کیا جائے۔
یہ معاہدہ جنگی ٹینکوں، بکتر بند جنگی گاڑیوں، آرٹلری نظام، لڑاکا طیاروں، میزائل اور میزائل لانچروں کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے چھوٹے ہتھیاروں کا احاطہ کرتا ہے۔
ہتھیاروں کی برآمد اور درآمد کے سلسلے میں ہر ملک کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ملک میں ہتھیاروں کے استعمال کا تعین کرے تاکہ ملکی امن اور سلامتی کو نقصان نہ پہنچ سکے.
ربط
اس اعلان سے غیر قانونی ہتھیاروں کی تجارت کے خلاف شروع کی گئی بین الاقوامی کوششوں کو تقویت حاصل ہوئی ہے۔ یہ غیر قانونی تجارت دنیا میں تنازعات اور دہشت گردی میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔
امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ جان کیری نے اس حوالے سے اپنے اعلان میں کہا ہے امریکا کی طرف سے اس معاہدے پر دستخط کرنا نہایت اہم ہے لیکں اس معاہدے کی اصل طاقت اسلحے کے بڑے برآمد اور درآمد کنندگان کی حمایت پر منحصر ہے۔ یاد رہے کہ امریکا اسلحہ فروخت کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے یہ معاہدہ رواں برس دو اپریل کو منظور کر لیا گیا تھا تاہم روس اور چین جیسے برآمد کنندگان اور اہم درآمد کنندگان بشمول بھارت،سعودی عرب، انڈونیشیا اور مصر کی طرف سے ابھی تک اس معاہدے پر دستخط کرنے کا کوئی اشارہ نہیں دیا گیا۔ اس معاہدے پر عملدرآمد کے لیے دستخط پہلا مرحلہ ہیں۔ جس کے بعد اس کی توثیق کا مرحلہ آئے گا جس کے لیے کم از کم 50 ممالک کی توثیق ضروری ہے۔
اس معاہدے کی توثیق ایسے ممالک کی طرف سے اہم ہے جو ملکی قواعد وضوابط قائم کرنے، روایتی ہتھیاروں کی منتقلی اور اسلحے کے بروکرز کو کنٹرول کرنے میں مددگار ثابت ہو سکیں۔ لیکن یہ معاہدہ کسی بھی ملک کے اندر ہتھیاروں کے استعمال کو روک نہیں سکے گا۔ تاہم یہ معاہدہ روایتی ہتھیاروں کی منتقلی کو روکنا، انسانیت کے خلاف جرائم کے فروغ کو کم کرنا، اسکولوں اورہسپتالوں جیسی عوامی جگہوں پر حملوں کو روکنا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کے مطابق اس معاہدے سے یہ پیغام ملتا ہے کہ دنیا نے آخرکار بین الاقوامی سطح پر 'ہر ایک کے لیے دستیاب' ہتھیاروں کی منتقلی کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔یہ معاہدہ غیر قانونی مارکیٹ میں ہتھیاروں کی لین دین کو مشکل بنا دے گا۔
بان کی مون نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے تمام ممالک پر زور دیا کہ خاص طور پر ہتھیاروں کی ٹریڈنگ کے بڑے ممالک اس معاہدے کی توثیق کریں اور اس پر دستخط کریں تاکہ دنیا کواس بات کا پتہ چل سکے کہ اسلحے کے تاجروں،صنعت کاروں اور حکومتوں پر آج وہ نظر ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔
پہلے سیشن میں 62 ممالک نے اس معاہدے پر دستخط کیے، دوسرے سیشن میں پانچ مزید ممالک نے بھی دستخط کر دیے اور اس طرح مجموعی تعداد67 تک پہنچ گئی ہے جواقوام متحدہ کے کُل 193 رکن ممالک کا محض ایک تہائی ہے۔
اس معاہدے کے سات اہم معاون ممالک ارجنٹائن، آسٹریلیا، کوسٹا ریکا، فن لینڈ، جاپان، کینیا اور برطانیہ نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ انہیں اس بات پر کافی خوشی ہوئی کہ بہت سے ممالک کی طرف سے پہلے ہی روز اس معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ اس بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ ضروری ہے کہ اس معاہدے کو جلد ازجلد عمل میں لایا جائے اور مؤثر طریقے سے اس عمل شروع کیا جائے۔
یہ معاہدہ جنگی ٹینکوں، بکتر بند جنگی گاڑیوں، آرٹلری نظام، لڑاکا طیاروں، میزائل اور میزائل لانچروں کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے چھوٹے ہتھیاروں کا احاطہ کرتا ہے۔
ہتھیاروں کی برآمد اور درآمد کے سلسلے میں ہر ملک کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ملک میں ہتھیاروں کے استعمال کا تعین کرے تاکہ ملکی امن اور سلامتی کو نقصان نہ پہنچ سکے.
ربط