محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,799
- پوائنٹ
- 1,069
***ہر بات کا جواب قرآنی آیات سے دینے والی عورت کا قصہ ***
سوال:
’’ دعوت اہل حدیث‘‘ حیدر آباد کے ماہ دسمبر کے شمارے میں عبداللہ بن مبارک ( مشہور محدث) اور رابعہ بصری کے مابین طویل مکالمہ پر مبنی واقعہ شائع ہوا۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ رابعہ ، عبداللہ کے ہر سوال پر قرآنی جواب دیتیں ۔ مثلاً عبداللہ کے سوال’’ کہاں سے آئی ہو اور کہاں جا رہی ہو‘‘ کا جواب آیت’’ سبحان الذی اسریٰ بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی ۔۔۔ ‘‘ الآیۃ سے دیا۔ وغیرہ ۔
بعض واعظین مثلاً فتح دین چشتی ملتانی بریلوی نے رابعہ کی بجائے ’’ مریم‘‘ نام ذکر کیا ہے ۔ یہ واقعہ کسی مفسر نے آیت’’ وما یلفظ من قول ۔۔۔‘‘ الآیہ کی تفسیر میں نقل کیا ہے یا فضائل قرآن پر مبنی یا اہل صفہ(صوفیاء) کے احوال پر مبنی کسی کتاب میں ہے ؟ واقعہ ہذا کی تحقیق و تخریج درکار ہے ۔
الجواب بعون الوھاب
قرآنی آیات پڑھنے والی عورت کا واقعہ معتبر سند کے ساتھ کسی کتاب میں نہیں ملا۔ شہاب الدین محمد بن احمد الفتح الابشیھی (پیدائش۷۹۰ھ وفات ۸۵۰ھ) نے بغیر کسی سند اور بغیر حوالے کے یہ قصہ امام عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ (متوفی ۱۸۱ھ ) سے نقل کیاہے ۔ اس قصے میں عورت کا نام مذکور نہیں ہے ۔ دیکھئے المستطف فی کل فن مستظرف ( ج ۱ ص ۵۶، ۵۷ حکایۃ المتکلمۃ بالقرآن ، الباب الثامن فی الأجوبۃ المسلتۃ والمستحسنۃ )
یہ بلا سند حوالہ مردود اور موضوع کے حکم میں ہے ۔ یہاں بطورِ تنبیہ عرض ہے کہ کتاب ’’ المتسرف ‘‘ فضول ،بے اصل اور موضوع قصوں والی کتاب ہے لہذا س کتاب پر اعتماد کرنا غلط ہے ۔
اسے واقعے سے مشابہ ایک واقعہ حافظ ابن حبان البستی رحمہ اللہ ( متوفی ۳۵۴ھ ) کی کتاب’’ روضۃ العقلاء و ترھۃ الفضلاء ‘‘ میں ( عبدالملک بن قریب ) الاصمعی ( البصری ، متوفی ۲۱۶ھ ) سے باسند مروی ہے ( ص ۴۹، ۵۰) اس قصے میں عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کے بجائے الاصمعی رحمہ اللہ کو بطورِ صاحبِ قصہ کیا گیا ہے اور عورت کا نام مذکور نہیں ہے ۔
حافظ ابن حبان رحمہ اللہ نے اس قصے کی درج ذیل سند لکھی ہے ۔
’’أنبأنا عمر و بن محمد الأنصاری : حدثنا الغلابي : حدثنا إبراھیم بن عمر و بن حبیب : حدثنا الأصمعی قال: بینا أنا أطواف بالبادیۃ إذا أنا بأعرابیۃ ۔۔ ‘‘ إلخ ( روضۃ العقلاء ص ۴۹)
عمرو بن محمد الانصاری اور ابراہیم بن عمر و بن حبیب کے حالات کسی کتاب میں نہیں ملے ۔ ( محمد بن ذکریا بن دینار) الغلابی کے بارے میں امام دار قطنی رحمہ اللہ ( متوفی ۳۸۵ھ ) فرماتے ہیں کہ:
’’ یضع الحدیث ‘‘یہ حدیثیں گھڑتا تھا ( کتاب الضعفاء والمتروکین للدارقطنی : ۴۸۳، سوالات الحاکم للدارقطنی : ۲۰۶) ابن مندہ اور حافظ ذہبی نے الغلابی پر جرح کی ۔ ان جارحین کے مقابلے میں حافظ ابن حبان نے الغلابی کو اپنی کتاب الثقات میں ذکر کر کے لکھا کہ:
’’ کان صاحب حکایات وأخبار ، یعتبر حدیثہ إذا روی عن الثقات لأنہ فی روایتہ عن الجاھیل بعض المناکیر ‘‘ وہ حکایتیں اور قصے بیان کرتاتھا ۔ اگر وہ ثقہ راویوں سے روایت بیان کرے تو اس کا اعتبار ہوتا ہے کیونکہ مجہول لوگوں سے اس کی روایت میں بعض منکر روایتیں ہیں۔( الثقات ۹؍۱۵۴)
یہ توثیق یہاں جمہور کی جرح کے مقابلے میں ہونے کی وجہ سے مردود ہے ۔ دوسرے یہ کہ یہ روایت ابن حبان رحمہ اللہ کی شرط پر بھی منکر و غیر معتبر ہے کیونکہ الغلابی کے استاد ابراہیم بن عمرو بن حبیب کی توثیق کہیں نہیں ملتی یعنی یہ شخص مجہو ل ہے ۔
خلاصہ یہ کہ اصمعی سے منسوب روایت بھی موضوع ہے اور غالباًالغلابی کذاب کی یہی روایت الابشیھی وغیرہ قصہ گو وں کی اصل بنیاد ہے ۔
لطیفہ : اصمعی سے منسوب الغلابی ( کذاب ) کی روایت کے آخر میں لکھا ہوا ہے کہ اصمعی نے کہا:
’’ فعلمت أنھا شیعیۃ ‘‘ پس مجھے معلوم ہو گیا کہ وہ عورت شیعہ تھی ۔ ( روضۃ العقلاء ص ۵۰)!
[ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر 12،ص 12]
https://www.facebook.com/IshaatulHadith/posts/750031658409275