اسلام وعلیکم،
ہمارے معاشرے میں آجکل مغرب کی تقلید زیادہ پائی جاتی ہے جس میں ہفتہ کی رات سر فہرست ہے ، مثلا شادی بیاہ ،پارٹی ، ناچ گانا ودیگر تقریبات ۔ برائے مہربانی قرآن و سنت بمعہ حوالاجات سے اصلاح فرمایئے ،جزاک اللہ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
اہلِ اسلام کو غیر مسلموں کی مشابہت اور تقلید سے بڑی سختی سے روکا گیا ہے ،
کیونکہ مشابہت کرنے سے جس کی مشابہت کی جائے اُسکی تعظیم ہوتی ہے، عمومی طور پر یہ نا مناسب عادت ہے، اسی لئے شریعت نے کفار سے مشابہت کے مسئلے کو کافی اہمیت دی ، اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قطعی طور پر حرام قرار دیا ہے ،
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ) رواه أبو داود (4031) وصححه الألباني في صحيح أبي داود .
یعنی (جس نے جس قوم کی مشابہت اختیار کی وہ اُنہی میں سے ہے) ابو داود، (4031)
اس حدیث کے پیش نظر علمائے اسلام نے غیروں کی نقالی اور تشبیہ و تقلید کی حرمت و سنگینی کو واضح کیا ہے ،اہل اسلام کی مایہ ناز علمی شخصیت شیخ الاسلام امام احمد بن عبدالحلیم ابن تیمیہؒ (المتوفی 728 ھ) جو اہل اسلام پر تاتاریوں کی یلغار اور تسلط کے ماحول کا مشاہدہ رکھتے ہیں ، اس وقت مسلم تہذیب و ثقافت کو کفار کے کلچر کا سامنا تھا ،
شیخ الاسلامؒ فرماتے ہیں:
"وهذا الحديث أقل أحواله أن يقتضي تحريم التشبه بهم ، وإن كان ظاهره يقتضي كفر المتشبه بهم ، كما في قوله : (وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ) المائدة/51.
فقد يحمل هذا على التشبه المطلق فإنه يوجب الكفر ، ويقتضي تحريم أبعاض ذلك ، وقد يحمل على أنه منهم في القدر المشترك الذي شابههم فيه ، فإن كان كفرا ، أو معصية ، أو شعارا لها كان حكمه كذلك . وبكل حال يقتضي تحريم التشبه" انتهى باختصار من "اقتضاء الصراط المستقيم" (1/270، 271) .
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث کا کم از کم یہ تقاضا ہے کہ کفار سے مشابہت حرام ہے، اگرچہ ظاہری طور پر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان سے مشابہت رکھنے والا شخص کافر ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی میں ہے:
(وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ) المائدة/51
ترجمہ: جو تم میں سے انکے ساتھ دوستی رکھے گا تو وہ اُنہی میں سے ہوگا۔
تو اس حدیث کو مطلق تشبیہ پر محمول کیا جاسکتا ہے، جو کہ کفر کا موجِب ہے، اور کم از کم اس تشبیہ کے کچھ اجزا کے حرام ہونے کا تقاضا کرتا ہے، یا اسکا یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ جس طرح کی مشابہت ہوگی اسی طرح کا حکم ہوگا، کفریہ کام میں مشابہت ہوگی تو کفر، گناہ کے کام میں مشابہت ہوگی تو گناہ، اور اگر ان کفار کے کسی خاص کام میں مشابہت ہوئی تو اسکا بھی حکم اُسی کام کے مطابق لگے گا، بہر حال اس حدیث کا تقاضا ہے کہ مشابہت اختیار کرنا حرام ہے۔
انتہی مختصراً از کتاب "اقتضاء الصراط المستقيم" (1/270، 271)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اگر آپ سمجھ سکیں تو :
اصل معاملہ یہ ہے کہ مغرب بالخصوص پنجہ یہود نے اہل اسلام کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں ان کی حالت کسی بڑی جیل میں قید ان قیدیوں جیسی ہے جنہیں سونے جاگنے اور کھانے پینے کے فطری اوقات کے بجائے جیل انتظامیہ کے مقرر کردہ اوقات اور ترتیب کی پابندی کرنا پڑتی ہو ،
رات کی بجائے دن کو سونا پڑے ،صبح و شام اور دوپہر کی بجائے آدھی رات کو کھانا دیا جائے ،
اور ان کاموں کیلئے جیل انتظامیہ کے مقرر کردہ اوقات کو کوئی قیدی چیلنج نہ کرسکے ۔
بس کچھ ایسی ہی صورت حال اس وقت اہل اسلام کی ہے کہ دنیا ان کیلئے ایک جیل بن چکی ہے جس کی انتظامیہ (یعنی یہود و نصاریٰ ) اس جیل میں موجود قیدیوں کو ہر معاملہ میں اپنی خواہشات کے مطابق وقت گزارنے کا ڈھنگ اپنانے پر مجبور کرچکی ہے ،
یہ تو تھی موجودہ صورت حال کی عکاسی
اس صورت حال کے اسباب کیا ہیں ،یہ سمجھنا بہت ضروری ہے ،
تو یہ بات بہت طویل اور پر پیچ ہے (زلف محبوب کی طرح )
یہ بات قوموں کے عروج و زوال کی داستان ہے ، اور تہذیبوں کے اتار چڑھاؤ کی کہانی ہے ،
بات صرف جمعہ ، ہفتہ کی نہیں ،بلکہ تہذیب و ثقافت کے پنپنے اور بکھرنے کی ہے ،
جب دنیا میں اہل اسلام کا جھنڈا بلند تھا تو ایشیا ،یورپ و افریقہ سب جگہ اسلامی تہذیب و ثقافت کا رنگ و خوشبو پھیلی ہوئی تھی ،اور انسانی حواس کی اس سے شناسائی تھی ،
اپنے پرائے سبھی اس تہذیب و ثقافت کا رنگ اپنانے پر مجبور تھے ،
پھر جب اہل اسلام نے پسپائی اختیار کی ،تو اغیار نے ہماری تہذیب کے سب نشانوں اور رنگوں کو مٹانا شروع کردیا ،
نتیجہ سامنے ہے اب ہم ان انداز و اطوار اپنانے پر مجبور ہیں ،
ہفتہ کا دن یہود کے ہاں اور اتوار کادن نصاریٰ کے ہاں متبرک و اعلیٰ ہے ، ان دنوں کو انہوں نے تعطیل و تفریح اور مذہبی رسومات کیلئے مخصوص کیا ہوا ہے ،
اس لئے ان دنوں عالمی منڈیاں بھی تعطیل کرتی ہیں ،
لہذا مسلم ممالک کی انتظامیہ کا کہنا ہے ہمیں عالمی اوقات کار اور ایام کار کا ساتھ دیئے بغیر چارہ نہیں ،
اور دنیا کا مالیاتی نظام اور سیاسی و انتظامی نظام چونکہ یہود و نصاری کے پنجہ میں ہے ،بالکل اس طرح جس طرح جیل انتظامیہ کے ہاتھ جیل کے انتظامی اختیارات ہوتے ہیں ،
اس لئے اس صورت حال میں مسلم ممالک کے نمائشی حکمران اور ڈمی انتظامیہ اتوار کی تعطیل کے متعلق یہ عذر پیش کرتی ہے ۔
ــــــــــــــــــ
اگر میری ان گذارشات کو آپ سمجھ گئے ہونگے تو بات واضح ہے کہ :
اصل مسئلہ صرف جمعہ ، ہفتہ کا نہیں ،بلکہ تہذیب و ثقافت کے پنپنے اور بکھرنے کی ہے ،
اب بھی بہت سارےمسلمان چاہتے ہیں کہ :
جمعہ کی تعطیل ہو ،اور ہفتہ کے سات ایام کا نظام کار ہماری شریعت اورتہذیب کے متصادم نہ ہو ،
لیکن یہ خواہش نیک ہونے کے باوجود اس وقت تک محض ایک خواہش ہی رہے گی جب تک بحیثیت امت مسلمہ اپنا وجود اور حیثیت منوانے کے قابل نہیں ہوجاتے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ملحوظ رہے کہ :
میری ان گذارشات کو دیکھ مبادا کوئی مجھ فقیر کو "جدید خوارج " کا نمائندہ شمار کرلے ،میں وضاحت کرتا چلوں کہ میں " نہ مرجی نہ خارجی " بس ایک سیدھا سادہ کمزور و بے بس مسلمان ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ