• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہمارا اصل دشمن اب امریکہ ہے، بھارت نہیں

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
ہمارا اصل دشمن اب امریکہ ہے، بھارت نہیں
کالم: لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان
02 جون 2015

خدا نہ کرے مجھے لگتا ہے جنوبی ایشیاء کا یہ ہمارا خطہ کسی بڑی بربادی کے دہانے پر آ کھڑا ہوا ہے۔ ہمارے مشیر امور خارجہ و قومی سلامتی نے اتوار کے روز (31 مئی 2015ء) اسلام آباد میں ’’نظریہء پاکستان کونسل‘‘ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جو یہ کہا ہے کہ پاکستان کی جوہری اہلیت نے بھارت کے خواب چکنا چور کر دیئے ہیں تو اس کا مطلب سمجھنے یا سمجھانے کے لئے کسی بزرجمہر کی ضرورت نہیں۔کچھ دنوں سے بھارت کے وزیر دفاع اور دوسرے اکابرین جس قسم کی بولیاں بول رہے تھے اور جس طرح کی انہونی باتیں کہہ رہے تھے ان کا جواب صرف اور صرف وہی تھا جو سرتاج عزیز صاحب نے دے دیا ہے۔

ایک عرصے سے ہم دعویٰ کرتے آ رہے ہیں کہ پاکستان ایک ذمہ دار جوہری ملک ہے۔ لیکن یہ حقیقت بھی سب کے سامنے ہے کہ نہ صرف یہ کہ اس کے پاس 100 سے زائد جوہری وار ہیڈز موجود ہیں اور بھارت کے کونے کونے تک مار کرنے والے (شاہین) میزائل ہیں، بلکہ ایسے جوہری وارہیڈز بھی بنائے جا چکے ہیں جن کو ’’بیٹل فیلڈ نیو کلیئر وار ہیڈز‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ سائز میں بھی چھوٹے ہوتے ہیں اور ان کی بربادی اور تباہ کاری کا دائرہ بھی زیادہ وسیع نہیں ہوتا۔ لیکن ان کی ہمہ گیر ہلاکت انگیزی سے بھی کسی ذی روح کو مفر نہیں۔ ان وارہیڈز کا تجربہ دنیا کے اکثر ممالک نے کر رکھا ہے (جن میں پاکستان بھی شامل ہے) یہ بات دوسری ہے کہ بین الاقوامی صورت حال کی مصلحتیں ان کے اعلان میں مانع ہو جاتی ہیں۔

بھارتی وزیر دفاع نے کانٹے سے کانٹا نکالنے اور اس قسم کی دوسری یا وہ گوئیوں کا سہارا لینے کے لئے جس وقت کا انتخاب کیا ہے اس پر بھی ضرور غور کیجئے۔۔۔ اس قسم کی بے ہودہ زبان اور اس قسم کی متبکرانہ سوچ بھلا بھارتیوں کے ذہن میں کیسے آ سکتی تھی؟ ۔۔۔ یہ تمام کچھ باہر سے آ رہا ہے، کسی نے ہمیں بھارت کے اندر سے یہ ’’اینٹ‘‘ نہیں ماری!

باہر سے جس کسی نے بھی یہ ’’اینٹ‘‘ ماری ہے، اس کا نام کسے معلوم نہیں؟وہ خود 13 برس تک ہمارے ہمسائے میں بیٹھ کر گھات میں رہا کہ کسی طرح پاکستان کے جوہری ترکش کو نشانہ بنائے، لیکن اگر آپ 2001ء سے 2014ء کے بارہ تیرہ برسوں کو یاد کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ پاکستان لاکھ اندرونی خطرات سے دوچار رہا، لیکن وہ پے بہ پے اور یکے بعد دیگرے ایسے میزائلوں کے تجربات بھی کرتا رہا جو نیو کلیئر وارہیڈز کو اپنی نوکوں پر رکھ کر لے جا سکتے تھے۔ ان کی رینج آہستہ آہستہ بڑھتی رہی، ان کی انواع و اقسام میں رفتہ رفتہ اضافہ ہوتا رہا اور ان تجربات کی اطلاعات بھی دھیرے دھیرے ان قوتوں تک پہنچتی رہیں جو ہمارے ہمسائے میں آکر بیٹھی ہوئی تھیں۔

پاکستان ملٹری کو یہ کریڈٹ دینا چاہیے کہ انہوں نے انتہائی نامساعد حالات کے باوجود بھی اپنے دفاع کی کم سے کم ضروریات کو پسِِ پشت نہیں ڈالا ۔۔۔ لیکن برادرانِ محترم! پاکستان نے جس وقت اور جس لمحے کے لئے یہ سب کچھ اکٹھا کیا تھا، وہ وقت اور وہ لمحہ اب آن پہنچا ہے!

کون نہیں جانتا کہ گوادر۔ خنجراب مواصلاتی نیٹ ورک سے دنیا کی کس قوت کو خطرہ ہے؟ جو کام سوویت یونین سے نہ ہو سکا اور جس کے لئے اس کو علاقائی شکست و ریخت کا سامنا ہوا، وہ کام اب ایک ایسی قوم کے کاندھوں پر آ پڑا ہے، جس کا امتحان گزشتہ تقریباً 70 برسوں سے لیا جا رہا ہے۔

جون 1999ء میں جب کارگل کا میدانِ کارزار گرم تھا تو مجھ سے ایک بڑے دبنگ قسم کے منہ پھٹ صحافی نے پوچھا تھا

’’6 ستمبر1965ء کب دہرایا جائے گا؟‘‘

میں نے جواب دیا تھا

’’جب 6 ستمبر 1965ء دہرانے والا باہمی خودکشی کرنے کی کوشش کرے گا!‘‘

اگر 16 برس پہلے بھارت 6 سمتبر نہیں دہرا سکا تھا تو اب اس میں کون سی نئی روح داخل ہو گئی ہے کہ وہ ’’کانٹے سے کانٹا‘‘ نکالنے کی بڑھکیں مارنے لگا ہے ۔۔۔ ہو نہ ہو یہ کسی غیر کی ’’صحبت‘‘ کا اثر ہے!

محفل میں غیر کی یہ پڑی ہو کہیں نہ خو
دینے لگا ہے بو سے بغیر التجا کئے


ذرا سوچئے کہ حالیہ ایام میں پاکستان نے کون سا نیا کارگل شروع کیا تھا، کون سی بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کیا تھا اور کون سے بمبئی تاج ہوٹل پر اٹیک کیا تھا کہ جناب منوہر پریکار کو چادر سے باہر پاؤں پھیلانے پڑے۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ جس قوت نے انہیں شہ دے کر ان کے غبارے میں ہوا بھرنے کی کوشش کی ہے، اس کا اپنا آشیانہ بادِ سموم کے بگولوں کی زد پر آنے کو ہے۔ کسی عالمی قوت کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جوہری توانائی کا جِن اگر کسی بھی بوتل سے باہر آ گیا تو باقی جنات بوتلوں کے اندر بند نہیں رہ سکیں گے!

پاک چین مجوزہ تجارتی راہداری، بھارت کے لئے نہیں، کسی ’’اور‘‘ کے لئے خطرہ ہے۔ اگلے روز ہمارے وزیراعظم نے آئی ایس آئی ڈائریکٹوریٹ میں جا کر آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف سے جو بریفنگ لی اور اس کے بعد جو بیان دیا، وہ سب نے دیکھا اور پڑھا۔ کیا بھارت اور بھارت کے سفید فام آقاؤں نے نہیں پڑھا؟ پاکستان نے پکا عزم کر رکھا ہے کہ وہ یہ راہداری والا منصوبہ ضرور پروان چڑھائے گا۔ اس کے لئے جس ’’سٹیٹ آف دی آرٹ‘‘ ٹائپ سیکیورٹی فورس کی تشکیل کی جا رہی ہے، اس کی خبر سب سے پہلے امریکہ کو ہوئی ہو گی اور پھر بھارت کو۔ اس ڈویژن کا ہیڈکوارٹر ایبٹ آباد میں قائم ہو چکا ہے۔ کئی ’’منتخب‘‘ بٹالینیں بھی مختص ہو چکی ہیں اور ان کو ان مقامات پر پہنچنے کے احکامات بھی صادر ہو چکے ہیں جہاں جہاں ان کو ڈیپلائے کیا جائے گا۔ گزشتہ دنوں آل پارٹیز کانفرنس میں جناب احسن اقبال نے جو میراتھن بریفنگ دی اور جس پر سب سیاسی ناخداؤں نے لبیک کا نعرہ لگایا تو اس کے بعد بھارت اور اس کے مربیّوں کو معلوم ہو جانا چاہیے تھا کہ پاکستان اس منصوبے پر فوری اور سنجیدگی سے عمل پیرا ہونا چاہتا ہے۔ ۔۔۔ اب تو چند مہینوں کی نہیں، چند دنوں کی تاخیر بھی پاکستان کے مستقبل کے لئے خطرناک، بلکہ زہر ناک ہو سکتی ہے!

جناب سرتاج عزیز کا کہنا تھا:

’’پاکستان کے دشمنوں نے ’پاک چائنا اکنامک کاریڈار‘ (PCEC) کو سبوتاژ کرنے کی سازشیں شروع تو کر دی ہیں لیکن ہم ان کو بتانا چاہتے ہیں کہ ان کے مذموم عزائم کبھی بھی کامیاب نہیں ہوں گے‘‘۔

اس سے پہلے پاکستان آرمی کھل کر (اور پہلی بار نام لے کر) بتا چکی ہے کہ ’’را‘‘ پاکستان میں دہشت گردی کروا رہی ہے۔ گزشتہ ماہ ہمارے سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چودھری بھی یہی بات کہہ چکے ہیں اور مزید یہ بھی کہ ہم نے بھارت کو برملا بھی کہہ دیا ہے کہ اس کی انٹیلی جنس ایجنسی یہ سب کرتوتیں کر اور کروا رہی ہے۔ تبھی تو بھارتی وزیر دفاع کو کہنا پڑا کہ اگر بکری، بکرے کو سینگ مارے گی تو بکرا بھی بکری کو ضرور سینگ مارے گا۔ لیکن بھارتی بکرے کو معلوم ہونا چاہیے کہ اب گزشتہ 16 برسوں سے بکری کی سیننگ اتنے لمبے اور اتنے نوکیلے ہو چکے ہیں کہ کوئی بکرا اس کے نزدیک پھٹکنے کی حماقت نہیں کر سکتا۔

اگر دو ممالک جوہری ہتھیاروں سے لیس ہوں تو ان میں وہ ملک جو روائتی ہتھیاروں میں کمزور ہو گا وہ ’’بوقت ضرورت‘‘ فرسٹ نیو کلیئر سٹرائیک کا ارتکاب ضرور کرے گا کہ یہ اس کی بقایا فنا کا مسئلہ ہو گا۔ دوسرے لفظوں میں دو جوہری ممالک کے مابین اگر دشمنی موجود ہو تو طاقتور جوہری ملک کو کمزور جوہری ملک سے خوفزدہ رہنا چاہیے کہ جوہری حملے میں ’’پہل‘‘ کرنے کی مجبوری کمزور فریق کے پاس ہو گی، طاقتور کے پاس نہیں۔

ہماری قومی سلامتی کے مشیر نے بروقت بھارت کو انتباہ کر دیا ہے کہ مشتری ہوشیار رہے۔ یہ نوبت یہاں تک کبھی نہ آتی اگر پاکستان کے پاس ایسے ثبوت اور شواہد موجود نہ ہوتے کہ انڈیا، پاک چین تجارتی راہداری کے منصوبے میں ٹانگ اڑانے پر ادھار کھائے بیٹھا ہے۔

اب کوئی دن ہی جاتا ہے کہ اس راہداری پر تعمیری کام شروع ہو جائے گا۔ اس تعمیر پر پاکستان آرمی کیا کیا حفاظتی اقدامات لیتی ہے، اس کے خدوخال واضح ہو چکے ہیں۔ شاہراہ کے جن حصوں پر کام شروع ہونے والا ہے، ان کے قرب و جوار میں سیکیورٹی فورسز کی پیشگی موجودگی اور اس کے تحفظاتی اقدامات شروع ہو چکے ہیں۔ تعمیراتی میٹریل، تعمیراتی مشینری، لوکل افرادی قوت، چینی ماہرین اور کاریگروں کی آمد کا سلسلہ شروع ہونے کو ہے۔ گوادر سے خنجراب تک یہ پہلی ’’مغربی شاہراہ‘‘ سوائے سندھ کے باقی تین صوبوں سے گزرے گی۔ پلاننگ ڈویژن پر بلاشبہ بہت بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے۔ تعمیراتی کام کی مانیٹرنگ ہفتہ واری نہیں، بلکہ روزانہ کی بنیاد پر کی جائے گی اور اس میں سول اور ملٹری اربابِ کارکویک دل اور یک جان ہو کر کام کو آگے بڑھانا ہوگا۔ یہ ایک عظیم لیکن مہیب منصوبہ ہے۔ لیکن دنیا کے جتنے بھی عظیم منصوبے آج تک پایہ ء تکمیل کو پہنچے ہیں، وہ مہیب تھے اور ان میں جانوں کا ضیاع ضرور ہوا ہے، خواجہ وہ ٹیکنیکل مراحل کی مشکلات ہوں، زمینی مشکلات ہوں یا سیکیورٹی مشکلات ہوں ۔۔۔ عجیب اتفاق ہے کہ موجودہ راہداری منصوبے میں یہ تینوں مشکلات بیک وقت اور بدرجہ اتم موجود ہیں اور موخرالذکر مشکل تو سب سے اتم ہے۔ لیکن انسان جب کوئی کام کرنے پر تُل جائے تو خدا خود اس کے ہمراہ ہو جاتا ہے!

ایک بات ہمیں نہیں بھولنی چاہیے کہ اس ’’اکنامک کاریڈور‘‘ کے اعلان کے بعد ہمارا اصل دشمن بھارت نہیں، امریکہ ہے۔ یہ مسئلہ پاکستان اور چین کی سویلین اور عسکری قیادت کے مابین سٹرٹیجک ڈائیلاگ کا متقاضی ہے جس کا انعقاد جلد سے جلد ہونا چاہیے۔ امریکہ ۔ بھارت۔ اسرائیل گٹھ جوڑ کا توڑ ایک بڑا مہیب (Formidable) چیلنج ہے اور پاکستانی قیادت کا ایک بڑا امتحان ہے ۔۔۔ ہمارے میڈیا کو بھی اس سلسلے میں عوامی آگہی کا رول ادا کرنا ہے اور جلد کرنا ہے۔

ح
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
91
السلام علیکم
بھارت اسرائیل ، امریکہ اور اب ایران بھی شامل ہوچکا ہے ایران نے چاہ بھار بندر ان کے حوالے کرنے پر راضی ہے جو کہ گوادر سے صرف 70 کلو میٹر دور ہے یہ پاک چائنا منصوبے کو سبوتاز کرنی کی ایک کوشش ہے،
اس ساری صورتحال میں چین و پاکستان کو روس اور عرب ممالک کو قریب لانے کی کوشش کرنی چاہئے چین یہ کرسکتا ہے کیوں کہ روس بھی آج کل یورپ اور امریکہ سے کولڈ وار کی حالت میں ہے اور چین سے اس کے تعلقات بہت ہی اچھے ہیں ، اور پھر پاکستان کو عرب ممالک کے ساتھ خصوصن اور اسلامی ممالک کے ساتھ عمومن اس پر سفارت کاری تیز کرنی چاہئے اور اپنی سفارتی تعلقات تیز کرنے چاہئے ۔۔اور افغانستان کی اہمیت کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے۔۔۔
 
Last edited:

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
ہمارے نام نہاد مسلم حکمرانوں کی بزدلی کسی سے چھپی ہوئی نہیں -پاکستان میں ہونی والی ہر دہشت گردی کو بلا تحقیق "ٹی ٹی پی" یا "را" سے جوڑ دیا جاتا ہے- اور سینہ تان کر کہا جاتا ہے کہ یہ سب انہی کا کیا دھرا ہے - لیکن پینٹاگون اور بلیک واٹر کا نام لیتے ہوے ان کی زبان فالج زدہ ہو جاتی ہے- ریمنڈ ڈیوس حملے ہوں یا ڈرون حملے- ان پر بڑی معذرت خانہ طریقے سے تنقید کی جاتی ہے- امریکی صدر کلنٹن ہو یا بش یا پھر اباما - ان کے ساتھ "صاحب" کا صیغہ لگانا ضروری سمجھا جاتا ہے- (ورنہ ہمارے ان نام نہاد حکمرانوں کا نام نہاد اقتدار خطرے میں پڑ سکتا ہے) -ہاں البتہ اگر کسی بھارتی حکمران جیسے موددی وغیرہ کے ساتھ "صاحب " کا صیغہ استمعال نہ بھی کیا جائے تو کوئی خطرے والی بات نہیں -
 
Top