حسن شبیر
مشہور رکن
- شمولیت
- مئی 18، 2013
- پیغامات
- 802
- ری ایکشن اسکور
- 1,834
- پوائنٹ
- 196
خاتون نے فون اٹھایا ، مخاطب کی بات سنی اور کہا ، ''سر میٹنگ میں ہیں ، آپ کچھ دیر بعد فون کر لیں ''۔مخاطب نے مزید کچھ کہا، مگر خاتون اپنے اصرار پر قائم رہیں کہ اس وقت صاحب سے بات نہیں ہو سکتی۔
میں نے یہ گفتگو سنی اور خداکی عظمت کا ایک نیادرمجھ پروار ہو گیا۔
خدا کتنی عظیم ہستی ہے۔ کروڑوں اوراربوں کہکشاؤں کا انتظام کرنے والارب، لاکھوں قسم کی کھربوں مخلوقات کو رزق فراہم کرنے والا رب، ختم نہ ہونے والی اور سمجھ میں نہ آنے والی دنیا کے معاملات چلانے والا رب۔ اس رب سے ، اس بادشاہ سے ، اس مالک سے اگر کبھی کوئی بندۂناچیز ملنا چاہے ، اس سے بات کرنا چاہے ، فریاد کرنا چاہے تو اسے کسی سیکرٹری سے بات کرنے کی ضرورت نہیں ۔ اسے کسی کمرہ انتظار میں بیٹھنے کی ضرورت نہیں ۔ اسے کسی فون لائن پر ہولڈ کرنے کی ضرورت نہیں ۔اس کا فون انگیج اور موبائل کبھی بند نہیں ہوتا۔
انسان جب جب رب کو پکارتا ہے تو وہ سنتا اور بلا تاخیر جواب دیتا ہے ۔مگر انسان امتحان میں ہے ۔ اس لیے وہ جو کرتا ہے ،غیرمحسوس طریقے پر کرتا ہے ۔تاکہ لوگ بن دیکھے اس کی عظمت کو مانیں اور اس کی جنت کے حقدار بنیں۔
مگر آہ! یہ بدنصیب انسان ، خدا کے بجائے انسانوں کی عظمت میں جیتا ہے ۔خالق کے بجائے مخلوق کا در کھٹکھٹاتا ہے ۔رب کے بجائے بندوں پر بھروسہ کرتا ہے ۔اصل ''صاحب '' کے بجائے عارضی اور فانی صاحبوں کے پیچھے دوڑ تا ہے ۔
مگر سچ یہ ہے کہ یہاں سارا اختیار اور سارا اقتدار صرف اور صرف ایک ہی ''صاحب ''کے لیے ہے ۔ اسی کی شان سب سے اونچی اور اسی کی ذات سب سے بلند ہے ۔جس خوش نصیب نے اس بات کو دریافت کر لیا، اس کی نظر میں خدا کے سوا کوئی جچ نہیں سکتا۔ اس کا سر خدا کے سوا کسی کے سامنے جھک نہیں سکتا۔ اس کی ہر چاہت اور ساری حمد رب العالمین کے لیے خاص ہوجاتی ہے ۔
آج اگر لوگوں نے خدا کو نظر انداز کر دیا ہے تو یہ ان کی بدنصیبی ہے ۔لوگوں کو بہرحال خداکے سامنے جھکنا ہے ۔آج عقل کی آنکھ سے پہچان کر نہیں جھکے تو کل سر کی آنکھوں سے دیکھ کر جھکنا پڑ ے گا۔مگر اس روز کا جھکنا سوائے ندامت اور خسارے کے کسی اور چیز میں اضافہ نہیں کرے گا۔
انسان کو خدا کے سامنے ڈھیر ہونا ہی ہے ۔خوش نصیب ہیں وہ جو آج ہی خدا کی عظمت کے سامنے ڈھیر ہوگئے۔
بد نصیب ہیں وہ جو کل خدا کی عظمت کے سامنے ڈھیر ہوں گے۔
میں نے یہ گفتگو سنی اور خداکی عظمت کا ایک نیادرمجھ پروار ہو گیا۔
خدا کتنی عظیم ہستی ہے۔ کروڑوں اوراربوں کہکشاؤں کا انتظام کرنے والارب، لاکھوں قسم کی کھربوں مخلوقات کو رزق فراہم کرنے والا رب، ختم نہ ہونے والی اور سمجھ میں نہ آنے والی دنیا کے معاملات چلانے والا رب۔ اس رب سے ، اس بادشاہ سے ، اس مالک سے اگر کبھی کوئی بندۂناچیز ملنا چاہے ، اس سے بات کرنا چاہے ، فریاد کرنا چاہے تو اسے کسی سیکرٹری سے بات کرنے کی ضرورت نہیں ۔ اسے کسی کمرہ انتظار میں بیٹھنے کی ضرورت نہیں ۔ اسے کسی فون لائن پر ہولڈ کرنے کی ضرورت نہیں ۔اس کا فون انگیج اور موبائل کبھی بند نہیں ہوتا۔
انسان جب جب رب کو پکارتا ہے تو وہ سنتا اور بلا تاخیر جواب دیتا ہے ۔مگر انسان امتحان میں ہے ۔ اس لیے وہ جو کرتا ہے ،غیرمحسوس طریقے پر کرتا ہے ۔تاکہ لوگ بن دیکھے اس کی عظمت کو مانیں اور اس کی جنت کے حقدار بنیں۔
مگر آہ! یہ بدنصیب انسان ، خدا کے بجائے انسانوں کی عظمت میں جیتا ہے ۔خالق کے بجائے مخلوق کا در کھٹکھٹاتا ہے ۔رب کے بجائے بندوں پر بھروسہ کرتا ہے ۔اصل ''صاحب '' کے بجائے عارضی اور فانی صاحبوں کے پیچھے دوڑ تا ہے ۔
مگر سچ یہ ہے کہ یہاں سارا اختیار اور سارا اقتدار صرف اور صرف ایک ہی ''صاحب ''کے لیے ہے ۔ اسی کی شان سب سے اونچی اور اسی کی ذات سب سے بلند ہے ۔جس خوش نصیب نے اس بات کو دریافت کر لیا، اس کی نظر میں خدا کے سوا کوئی جچ نہیں سکتا۔ اس کا سر خدا کے سوا کسی کے سامنے جھک نہیں سکتا۔ اس کی ہر چاہت اور ساری حمد رب العالمین کے لیے خاص ہوجاتی ہے ۔
آج اگر لوگوں نے خدا کو نظر انداز کر دیا ہے تو یہ ان کی بدنصیبی ہے ۔لوگوں کو بہرحال خداکے سامنے جھکنا ہے ۔آج عقل کی آنکھ سے پہچان کر نہیں جھکے تو کل سر کی آنکھوں سے دیکھ کر جھکنا پڑ ے گا۔مگر اس روز کا جھکنا سوائے ندامت اور خسارے کے کسی اور چیز میں اضافہ نہیں کرے گا۔
انسان کو خدا کے سامنے ڈھیر ہونا ہی ہے ۔خوش نصیب ہیں وہ جو آج ہی خدا کی عظمت کے سامنے ڈھیر ہوگئے۔
بد نصیب ہیں وہ جو کل خدا کی عظمت کے سامنے ڈھیر ہوں گے۔