حافظ راشد
رکن
- شمولیت
- جولائی 20، 2016
- پیغامات
- 116
- ری ایکشن اسکور
- 29
- پوائنٹ
- 75
ہماری عبادتیں بے اثر کیوں؟؟؟
ہم نماز پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں،زکاة دیتے ہیں ، حج کرتے ہیں ، قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، ذکرکا اہتمام کرتے ہیں، قربانیاں کرتے ہیں،لیکن ان تمام عبادات کا ہمارى اكثريت پر کوئی اثر ظاہر نہیں ہو پاتا ….سوال یہ ہے کہ کیایہ عبادتیں الل ٹپ ہیں ؟ اِن کا کوئی فائدہ نہیں ؟اِن کا ہماری زندگی سے کوئی تعلق نہیں؟ جى نہیں آخر خالق کائنات کا عطا کیا ہوا نظام حکمت سے خالی کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ عبادتیں نہایت گہرا اثر رکھتی ہیں، اللہ پاک کو ہماری عبادتوں کی ضرورت نہیں، وہ تو ہماری بھلائی چاہتا تھا ،اسی لیے اس نے ہم پر کچھ عبادتیں لازم کیں اور کچھ عبادتیں اختیاری رکھیں، تاکہ ان کا ہماری زندگی پر اثر ظاہر ہو.عبادتوں كےاثرات:
نماز کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:
وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ (سورة العنكبوت 45)
اور نماز قائم کریں، یقیناً نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔ گویا کہ نماز کی فرضیت کا مقصد یہ ہے کہ انسان ہر طرح کی بے حیائی اور بُری باتوں سے رک جائے.
زکاة کے بارے میں اللہ تعالی فرماتا ہے :
خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا (سورة التوبة 103)
آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کردیں گویا زکاة اس لیے فرض کی گئی ہے کہ اس سے ہمارے اندر پاکیزگی آئے اور ہمارا تزکیہ ہو .
روزے کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُو ن (البقرة: 183)
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے ….مقصد کیا ہے؟ تاکہ تمہارے اندر اللہ کا ڈر پیدا ہوجائے ، تقوی کی صفت پیدا ہوجائے ۔ گویا کہ روزہ کی فرضیت اس لیے ہوئی ہے تاکہ زندگی کے ہر موڑ پر ہمارے اندر اللہ کی نگرانی کا احساس پیدا ہوجائے ۔
حج کے بارے میں فرمایا گیا:
الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُومَاتٌ فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ ( البقرة 197)
”جو شخص ان دنوں میں حج کرے اسے چاہیے کہ نہ تو بے حیائی کا کام کرے نہ فسق وفجورکا ارتکاب کرے اورنہ جھگڑے لڑائی کرے “۔ گویا حج انسان کو تیار کرتا ہے کہ اس کے اندر شہوت پر کنٹرل ہوجائے ،اس کے اندرگناہوں سے نفرت آجائے اوراس کی زبان محفوظ ہوجائے ۔
قرآن کودیکھئے توقرآن خوداپنا تعارف کراتا ہے کہ
ھدی للناس (البقرة 185)
سارے انسانوں کے لیے ہدایت ہے، اوربالخصوص ھدی للمتقین(سورة البقرة 2) پرہیزگاروں کو راه دکھانے والی ہے.
إِنَّ هذا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ (سورة الإسراء 9)
یقیناً یہ قرآن وه راستہ دکھاتا ہے جو بہت ہی سیدھا ہے:
وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنين (الإسراء 82
”ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے جس میں شفا ہے اور مومنوں کے لیے رحمت وبرکت ہے“ ۔
ذکر کو دیکھئے قرآن کہتا ہے :
الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللَّـهِ أَلَا بِذِكْرِ اللَّـهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوب ( الرعد 28
جو لوگ ایمان ﻻئے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے“ ۔
اور الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمايا:
مَثَلُ الذي يَذْكُرُ رَبَّهُ وَالَّذِي لا يَذْكُرُ رَبَّهُ، مَثَلُ الْحَيِّ وَالْمَيِّتِ( متفقٌ عليه
جو اللہ کا ذکر کرتا ہے اور جو اللہ کا ذکر نہیں کرتا ان کی مثال مردہ اور زندہ کی سی ہے ۔
ہماری عبادتیں ان اثرات سے خالی کیوں؟:
جب عبادتیں اس قدر اثر رکھتی ہیں تو آخر ہماری عبادتیں ان اثرات سے خالی کیوں ہیں ؟ اگرہم اس کے اسباب کا خلاصہ کرناچاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے اندر دو چیزوںمیں کمی پائی جاتی ہے، وہ دو چیزیں ہیں : عبادت کس کی ؟ اور عبادت کس طرح ؟ اسی دونکتے کو ہم تفصیل سے بیان کرنے کی کوشش کریں گے ۔عبادت کس کی ؟ ظاہر ہے ہمارا جواب یہی ہوگا کہ عبادت صرف اللہ کی ہونی چاہیے ؟ لیکن عملاً بہت کم لوگ اِسے برتتے ہیں ۔ ہمارے عملوں میں اخلاص کی کمی ہوتی ہے، ریاونمود کا عمل دخل ہوتا ہے :
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاء ( سورة البينة 5
اور ان لوگوں یہی حکم ہوا کہ اللہ کی عبادت خالص یکسوہوکر کریں ۔ جب اخلاص ہی نہ ہو تو ہمارے اعمال قابل قبول کیسے ہوں گے ؟ اورجب قابل قبول ہی نہ ہوں گے تو ان کے اثرات ہماری زندگی پر کیسے پڑیں گے ۔
یہ تو اخلاص کے اندر کمی کی بات ہوئی جبکہ کتنے لوگ ہیں جو دن ڈھارے اپنے دعوی کی سراسر خلاف ورزی کرتے ہیں :گواہی تو دی کہ ہم صرف ایک اللہ کی عبادت کریں گے، سورہ فاتحہ کے اندر بار بار اس کی رٹ بھی لگا رہے ہیں:
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ( سورة الفاتحة 5
ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مددطلب کرتے ہیں ۔
اور جو لوگ خالص ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں ان کی اكثريت کا دل بیمار ہوچکا ہے،جسم انسانی میں دل سب سے اشرف، برتر اورافضل عضو ہے، بلکہ سارے اعضاء کا بادشاہ ہے ،اگر یہ ٹھیک رہا تو سارا جسم ٹھیک اور اگر یہ خراب ہوگیا تو سارا جسم خراب ، بخاری ومسلم کی روایت ہے:
ألا وإن في الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد كله ، وإذا فسدت فسد الجسد كله ، ألا وهي القلب رواه البخاري ومسلم.
“جسم میں گوشت کا ایک ایسا ٹکڑا ہے جو اگر ٹھیک رہا تو سارا جسم ٹھیک رہتا ہے اور اگر خراب ہو گیا تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے، سنو! یہ دل ہے.”
اوردل تین طرح کا ہوتا ہے(1)صحتمنددل (2)مردہ دل (3) اوربیمار دل – اور دل کی بیماری کی چند علامتیں ہوتی ہیں جن میں چند یہ ہیں:
دنیا میں کثرت انہماک :
دنیا میں اس قدر مشغول ہوجانا کہ ہر چیز میں اپنا مفاد دیکھنا ،دنیا کو حاصل کرنے میں رات دن ایک کرنا اور آخرت سے بے پرواہ ہوجانا ، یہ بڑا خطرناک مسئلہ ہے ،اسلام رہبانیت کا قائل نہیں اور نہ ہی پاکیزہ روزی کمانے سے روكتا ہے بلکہ اسلام تو اس کی ہمت افزائی کرتا ہے ، ليكن ساری کوشش دنیا ہی کے لیے نہیں ہونی چاہیے، کتنے لوگ جہاں بھی رہیں ان کے ذہن میں دنیا کا ہی بھوت سوار رہتا ہے ۔ اس طرح دنیا میں کثرت انہماک كى وجہ سے ان كا دل تنگ ہوجاتا ہے ۔اللہ کے رسول صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا:
ما ذئبان جائعان أرسلا فی غنم بأفسد لھا من حرص المرءعلی المال والشرف لدینہ ( ترمذى)
“دو بھوکے بھیڑیے بکر ی کے ریوڑ میں چھوڑے جائیں تو وہ جتنا بکریوں کو نقصان پہنچائیں گے اس سے کہیں زیادہ مال اور عہدہ کی لالچ انسان کے دين کو نقصان پہنچاتا ہے“.
قرآن سے بے توجہی :
دل جب بیمار ہوجاتا ہے تو قرآن میں دل نہیں لگتا ، قرآن تبدیلی لانے والی کتاب ہے ،قرآن انقلابی کتاب ہے، انسانی دل پرقرآن کا عجیب اثر ہوتا ہے -طفیل بن عمروالدوسی، حبشہ کا بادشاہ اصحمہ اورعمربن خطاب کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جن کو قرآن نے ہی بدلا تھا۔کچھ لوگ قرآن کو پڑھتے تو ہیں لیکن سمجھتے نہیں -حسن بصری رحمہ اللہ کا قول ہے :
إن من کان قبلکم رأوا القرآن رسائل من ربھم فکانوا یتدبرونھا باللیل ویتفقدونھا بالنھار
“تم سے پہلے کے لوگوں نے قرآن کو اپنے رب کا پیغام سمجھا تھا چنانچہ وہ رات میں اس پر غور کرتے تھے اور دن میں اس کے مسائل کی چھان بين کرتے تھے”
شہوات میں پڑنا:
شراب وکباب اور عورت ،شیطان کا بہت مضبوط ہتھیار ہے، ہمارے دشمن کواس کا اچھی طرح احساس ہے، اسی لیے اس نے شروع سے ہی اس سلسلے میں زبردست پلاننگ کی ہے ۔
بُری صحبت:
صحبت کا انسان پر بہت گہرا اثر ہوتا ہے ، آدمى اچھے لوگوں کے ساتھ آدمی اچھا بنتا ہے اور بُرے لوگوں کے ساتھ بُرا بنتا ہے ۔
عبادت کا ناقص تصور:
ہم نے محض یہ سمجھا کہ بعض رکعات ادا کرلینے کا نام عبادت ہے ، اسی لیے نماز اداکرتے وقت ہم سچے مسلمان دکھائی دیتے ہیں اور جب نماز سے فارغ ہوتے ہیں تو جھوٹ، فراڈ ،غیبت، حرام خوری، رشوت خوری اور جوابازی میں لگ جاتے ہیں۔